تھر میں قحط۔۔۔ از ۔۔۔ شمس جیلانی

میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں نے اپنے لکھنے کے لیے ہفتے میں ایک دن مقر کر رکھا وہ سنیچر کا دن ہے ۔ ہر روز میں دو وجو ہات کی بنا پر نہیں لکھتا کہ اس میں تعداد تو بڑھ سکتی ہے مگر معیار قائم نہیں رہ سکتا دوسرے یہ بھی چاہتا ہوں کہ اور لوگوں کو بھی لکھنے کا موقعہ ملے، اگر میں روز لکھوں تو دوسروں کے لیے وقت کہاں بچے گا یہ ہے میری مجبوری ؟میں نے سوچا تھا کہ آ جکل وطن ِ عزیز سے اچھی خبری آرہی ہیں یکجہتی کی خبریں ۔امن و آشتی کی خبریں اور معاشی استحکام کی خبریں ۔اس سے ایک سبق مل رہا ہے کہ مسلم امہ نے شاید اللہ کی رسی کو دوبارہ پکڑنے کوشش شروع کردی ہے اور اپنے زوال کی وجہ جان لی ہے ہمیں حسنِ ظن رکھتے ہو ئے اپنے بھائیوں کی کوششوں کو سراہنا چا ہیے جو اس سمت میں ہوں! چاہیں وہ کو ئی بھی کر رہا ہو مگرامت مسلمہ میں اتفاق اور اتحاد کی بات کر رہاہو اور ان سے بچنا چاہیئے جو فرقہ واریت کے نام پر اپنی چودھرائٹ بچا نے کے لیے نفاق کی بات کریں وہ چاہیں کتنے ہی معزز اور مقدس ہوں؟ کیونکہ بطور مسلمان ہماری یہ ہی ذمہ داری بنتی ہے؟ اس پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں لہذا اگلے ہفتے سہی ۔
اب میں تھر پارکر کے قحط کی طرف آتا ہوں۔ جس پر وہ سب لکھ چکے ہیں اور ٹی وی پربھی بحث اور مبا حثے کرچکے ہیں ،جنہوں نے تھر کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ؟ ۔ لہذا نہ وہاں کے مسائل سے وہ واقف ہیں نہ وہاں کے حقائق کاعلم رکھتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر تک سندھ پر تالپور خاندان حکمراں تھا اور سندھ بہت سی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ جب لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دشمن ہو ں تو پھر کسی حملہ آور کو فتح میں کیا مشکل  پیش آ سکتی ہے۔ لہذا انگریز وں نے اس کو تر نوالہ سمجھا اور جب پورا ہندوستان فتح کرلیا تو آخر میں میں کرنل چارلس نیپیر نے پورے سندھ کو فتح کرلیا ، بعد میں اس کے چاراضلاع  بنا دیئے اور تالپوروں کی ایک ریاست خیر پور باقی رہنے دی جونواب کی انگریزسے وفاداریوں کا صلہ تھا۔ ان چار اضلاع میں ایک تھر پاکر بھی 1882 ءبنا جس کا صدر مقام میر پور خاص تھاجبکہ رقبہ کے اعتبار سے  یہ سب سےبڑا ضلع تھا اور اس میں بارہ تحصیلیں یا سندھی زبان میں تعلقے تھے۔ انگریزوں نے جب ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد اپنی انتظامی ضرورت کے تحت ہندوستان کو تقسیم کیا تو سندھ کو بمبئی کے صوبے میں شامل کر دیا ؟مسلمانوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اس کو واپس صوبے کی حیثیت دلو ائی ۔ اتنے میں پاکستان بن گیا اور تھر پارکر پاکستان کا حصہ بن گیا۔
جس کی جغرافیائی صورت حال یہ تھی کہ عمر کوٹ تک زمین بہتر تھی جہاں سکھر بیراج بننے کے بعد کھیتی باڑی ہونے لگی ۔ جیسے ہی آپ امر کوٹ سے تھوڑا آگئے بڑھیں زیادہ نیں صرف چند سو گز تو آپ  کوقدرتی تقسیم دکھائی دے گی کہ ریت الگ اور اچھی زمین الگ، پھر اس کے بعد ہندوستان کے صوبے بشمول راجستان، ہریانہ اور رن آف کچھ ،لامنتاہی ریگستان ہے۔ تھر میں داخل ہونے کے لیے ریگستان کی سرحد کے ساتھ کئی مقامات ہیں جن میں سے ایک کنری بھی ہے۔ وہاں آنے جانے کے لیئے ایک زمانے میں صرف اونٹ واحد ذریعہ تھے ۔ لیکن  1945ءکی جنگ عظیم کے بعد جو فوجی ٹرک تھے جنہیں یہاں کی عام زبان میں کیکڑا کہا جا تا ہے۔ وہ ملٹری نے ناکارہ قرار دیکر نیلام کر دیے، تووہی تھر میں آمد و رفت میں سہولت کا باعث ہوئے ۔اس کی کیبن فرسٹ کلاس ہو تی ہے اور بقیہ ٹرک میں غلے کی بوریاں ان پر انسان، بھیڑ، بکری اور مرغی وغیرہ باہمی ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں کی پیدا وار بشرط بارش مکئی، جوار باجرا اور گوار ہے اسی میں سے گوار ان کی انکی آمدنی کا ذریعہ ہے جس کی مانگ گوار گم بنانے کی وجہ سے دنیا میں بہت ہے ۔ سب سے پہلے پاکستان بننے کے بعد تھر پارکر سے دو تحصیلیں سانگھڑاور کھپرو کاٹ کر اور دوتحصیلیں نواب شاہ سے سنجھورو اور شہداد پور لے کر سانگھڑ ضلع بنا دیا یا گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں مزید پانچ تحصیلیں کاٹ کر کچھ نئے ضلع بنا دیئے گئے جن کی تعداد اب سب مل کر  چار سے بڑھ کرتئیس ہوگئی ہے۔
اب جو علاقہ تھر کہلاتا ہے وہ پرانےضلع کی چار تحصیلیں ہیں ،مٹھی، چھاچرو ، ڈیپلو اور نگر پارکر جبکہ مٹھی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے اور اس میں سے بھی کچھ حصہ کاٹ کر پانچویں تحصیل اسلام کوٹ بنی ہے۔ اس میں سوائے ڈیپلو کے جہاں ارباب حکمرا ں ہیں اور ڈیپلو میں میمن ہیں۔ باقی علاقے میں اکثریت میں نچلی ذات کے ہندو یعنی کولہی اور بھیل وغیرہ آباد ہیں ۔ جو انتہائی غریب ہیں۔
مٹھی تک سنا ہے اب سڑک بن گئی ہے۔اور واٹر سپلائی کا انتظام بھی ہوگیا ہے اور چھوٹا سا ضلعی اسپتال بھی ہے ۔اس کے علاوہ وہاں کوئی اور سہولت موجود ہے تو برائے نام ہے کیونکہ وہ تنخواہ وہاں سے لیتے ہیں اور رہتے کہیں اور ہیں۔ پینے کے پانی کی ، آنے جانے اور سامان کے ترسیل کی کوئی دوسری سہولت موجود نہیں ہے۔ اک چھوٹا سا اسپتال چیل بند پر بنا ہوا۔ یہ بند انگریزوں نے تھر کو سیلاب سے بچا نے کے لیئے بنا یاتھا۔ اس سے آگے صرف اونٹ یا انہیں کیکڑوں کے ذریعہ سے رسائی ممکن ہے۔ اس وقت تھر کاجو متاثرہ علاقہ ہے وہ  زیادہ ترچھاچھرو تحصیل ہے؟ جس کی آبادی دس لاکھ بتا ئی جارہی ہے۔ چونکہ اکثریت وہاں کی خانہ بدوش ہے لہذا اسے یقینی نہیں کہا جا سکتا؟ اور یہ اس علاقے کی بد قسمتی ہے کہ وہاں زیر زمین پانی اول توہے نہیں اور اگر ہے تو بہت گہرائی میں ہے یا پھر کڑوا ہے؟
ان کی گزر بسر صرف بارش پر ہے جب با رش ہوتی ہے تو ریت کی پہاڑیاں جو عام دنوں میں ہوا ادھر ادھر اڑائے پھرتی ہے ایک جگہ اپنے باشندوں کی ٹھہر جاتی ہیں اور تھر اتنا سر سبز ہو جاتا ہے کہ وہ کشمیر کا منظر پیش کرتا ہے ،تالاب بہت بڑے ہیں وہ بھی بھر جاتے ہیں انہیں میں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پیتے ہیں، جو ذرا پڑھا لکھاطبقہ ہے وہ پانی میں پوٹیشیم پر میگنیٹ جس کو وہاں لال دوا ئی کہتے ہیں ڈال کر پیتا ہے، پانی مٹی  کےگھڑوں میں گھریلو استعمال کے لیئے اسی تالاب سے بھر کر لا تے ہیں جس کے منہ پر کپڑابندھا رہتا ہے جو اصل میں فلٹر کا کام دیتا ہے۔ ان تالابوں کے انسان اور جانوروں کے مشترکہ استعمال کی وجہ سے وہاں “ گنی وارم  “کی بیماری عام طور پر لاحق ہو تی ہے جس کو وہ “ وارے جی “ بیماری کہتے ہیں یہ کیڑا جسامت میں پتلا دھاگے کی طرح اور لمبا ئی میں گزوں پر مشتمل ہو تا ہےجس کا لاراوا معدے میں پہونچ کر نس میں داخل ہو جاتا ہےوہیں پرورش پاتا ہے اور کہیں سے بھی نکل سکتا ہے مثلا “ آنکھ کی پلکوں سے“ مقامی لوگ اس کا کوئی علاج نہیں جانتے سوائے  جھاڑ پھونک اوراس کے کہ اس کو چھوٹی سی ایک تیلی میں لپیٹ دیتے ہیں اور جتنا وہ باہر نکلتا ہے روزانہ اسے لکڑی میں لپیٹتے جا تے ہیں بہت تکلیف دہ بیماری ہےاور کم از کم از کم چھ مہنے تک مریض صاحب ِ فراش رہتا ہے۔ اسکے علاوہ پانی ہی کی وجہ سے اور بھی بہت سی آنتوں اور جگر وغیرہ کی بیماریاں کثرت سے  ہیں ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر بارش ہو تو ایک طرف تو ان کے لیے رحمت  ہےمگر دوسری طرف بیماریوں کا باعث بھی ہے کہ وہ رات کو سو نہیں سکتے کیونکہ وہا ں ایک سانپ برسات میں نکلتا ہے اس کو وہ“ پیون“ کہتے ہیں وہ رات میں  آکر سینے  پربیٹھ جاتا ہے؟ اور انسان کی سانس سے اپنی سانس کا تبادلہ کر تا رہتا ہے۔ جیسے ہی صبح ہوتی روشنی نکلتے ہی وہ اندھا ہو جاتا ہے، اگر روشنی سے پہلے اسکاپتا چل گیا تو اس کو ایسی جگہ رکھتے ہیں جہاں روشنی  نہ پہونچے تو وہ علاج سے بچ جاتا ہے ورنہ مرجاتا ہے۔
وہاں 1971کی جنگ بعد کچھ تبدیلی آئی تو یہ کہ وہاں سے ٹھاکر جو عملی طور پر حکمراں تھے انڈیا چلے گئے ۔ اور ان جگہ افسر شاہی کی مد د سے مسلمان وڈیروں لے لی۔ چونکہ اکثریت نچلی ذات کے ہندؤں کی ہے ان کے حصے میں کچھ نہیں آیا نہ ہی ان کی قسمت بدلی۔ یہ وہ بد قسمت خطہ ہے کہ ہر تین سال بعد قحط پڑتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو سیلاب آجاتا ہے۔ جبکہ انکا اصل کاروبار گلہ بانی ہے۔ جانور زیادہ تر انڈیا سے اسمگل ہو کرآ تے ہیں جن کا نذرانہ مقرر ہے جو وہ سرحد کے نگہبانوں کو ادا کرتے ہیں اور وہی پورے پاکستان کو سپلائی ہو تے ہیں اسکے علاوہ اسمگلنگ عام ہے جو اونٹوں کے ذریعہ ہوتی وہ انتے تربیت یافتہ ہیں کہ ادھر سے جو ان پر لادھ دیا  جائےتو ادھر چھوڑ آتے ہیں اور ادھر سے جو بار ہوتا ہے وہ ادھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ پہلے تو پکڑے ہی نہیں جاتے اگر پکڑے جائیں تو اونٹ؟
جب بارش نہ ہو تو نہ ان کے  لیےپانی ہو تا ہے نہ جانوروں کے لیئے لہذا نقل مکانی کر کے یہ میر پور خاص وغیرہ کی طرف آجاتے ہیں جانور اونے پونے بیچ دیتے ہیں اورخود محنت مزدوری کر کے پیٹ  بھرتے ہیں۔ چونکہ راستے ہی نہیں ہیں۔ صرف فادر جیپ وہاں جا سکتی ہے جو کہ ایک گیلن میں آٹھ میل دیتی  ہے؟ آفیسر وہاں جب ہی جاتے جب کوئی حکمرانوں میں سے آئے جبکہ حکمران طبقہ زیادہ تر ہیلی کاپٹر سے جا تا ہے؟ اسی لیے آج تک وہاں کوئی وزیر اعظم نہیں گیا ، اس اعتبار سے میری معلومات اگر غلط نہیں ہں (کیونکہ میں پچیس سال سے ملک  سےباہر ہوں) تو نواز شریف صاحب پہلے وزیر اعظم ہیں۔ حتی ٰ کہ شوکت عزیز بھی نہیں گئے، جو کہ وہاں سے تو نہیں البتہ ڈیپلو سے منتخب ہو ئے تھے اور ان کو ارباب غلام رحیم نے اپنے علاقے سے منتخب کرایا تھا۔
اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو ئی کہ چھیاسٹھ سال میں کسی نے بھی ان کی خبر نہیں لی اس لیے کہ رواج ہی نہیں تھا وہ علاقہ صدیوں سے دو قبیلوں کے درمیان بٹاہوا تھا ایک رانا چندر سنگھ کا خاندان جو کہ چھاچھرو کی طرف ہے جہاں ہندوستان سے1971ء کی جنگ تک گوشت تو بڑی بات ہے انڈا بھی نہیں ملتا تھا! سرخ پیاز، مسور کی دال لال رنگ میں گوشت سے مماثلت کی بنا پر نہیں ملتی تھی ! جبکہ دوسرا خاندان اربابوں کاتھا جو ڈیپلو میں کلوہی کی طرف ہیں غلام محمد بیراج سے سیراب ہوتا ،امریکن اقسام کے خربوزے اور گنا پیداوار ہے ۔
مگر ان دونوں خاندانوں  میں بڑی یگانیت بلکہ رشتہ داری  تک تھی جس کی بنا اکبر نے ڈالی تھی کہ کچھ ٹھاکرانیاں اربابو ں کے ساتھ  با قاعدہ بیاہی گئی تھیں جوکہ ایک نسل پہلے تک تھیں۔ ؟جبکہ ہندوستانی فوجوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو رانا لچھمن سنگھ جوکہ ٹھاکر تھا اس نے ہندوستانی فوجوں کی رہنمائی کی اور وہ وہاں تک پہونچے تو انہوں نے اس تھوڑے  سےعرصے میں ہی ریلوے کے پرانے سلیپر بچھا کر اور اس پر کولتار ڈال کر سڑک بنا لی تھی جو جاتے ہوئے اپنے ساتھ اکھاڑ کر لے گئے اور ان کے ساتھ رانا لچھمن سنگھ بھی چلا گیا ۔
پھر ایک سابق ایم این اے کو بھٹو صاحب کے دور میں  اس فنڈ میں سے جو ہندوستان سے واپس آنے والوں کی آباد کاری کے  لیےملا تھا۔ ممتاز بھٹو صاحب نے سابقہ بنیادوں پر سڑک بنا نے  کاٹھیکہ دیا جسکو دیکھنے کے لیئے ہم لوگ گئے،تو اس کا کوئی نشان نہ تھا۔ جب ہم نے لو گوں سے پو چھا کہ سڑک کہاں گئی تو انہوں نے بتا یا کہ سائیں نے اپنے ٹریکٹر سے دونوں طرف سے ریت جمع کر کے سڑک بنادی تھی جو ہوا آئی اور ا ڑ اکر لے گئی ۔ جہاں لوگ جاتے ہی نہ ہوں جہاں کا ہر پڑھا لکھا طبقہ مجبور ہو کہ کہیں اور جا کر ملازمت کرے ۔ کیونکہ تھر کے دو شہروں کا تعلیم میں تناسب بہت زیادہ ہے ،ایک مٹھی کے بنیے جو اعلٰی ذات کے ہندو ہیں اور دوسرے ڈیپلو کے میمن جو مسلمان ہیں؟  جو سندھ میں سرکاری ملازمتوں میں  کثیر تعدادہیں۔ اور بنگال طرح زیادہ تر ٹیچر ہیں ۔
چونکہ اب میڈیا کی وجہ سے وہاں تک رسائی ہوگئی ہے لہذا شاید کوئی حل نکل آئے۔ اس مسئلہ پر تمام ملک کے سائنسدانوں کی ایک کانفرنس ہو نا چاہئے تاکہ وہ سروے کریں۔ شاید کہیں میٹھے پانی کے ذخائر ہوں اور نکل آئیں۔ جیسے کے ہندوستان نے کیا کہ اس دریا کو دریافت کرلیا جو کہ کسی زلزلہ وجہ سے زیر زمین چلا گیا تھا اور وہ ادھر سے بہتا ہو کبھی چولستان تک آیا کرتا تھا وہی ساری زمین سیراب کرتا تھے۔ اس کی گزر گاہ پر ٹیوب ویل لگا کر بھارت نے راجستان اور ہر یانہ کے بہت بڑے حصے کو سر سبز بنالیا؟ راستے تو نکل آتے ہیں بشرط ِ کہ کوئی کچھ کر نا چاہے۔ دوسرا مسئلہ سڑکوں کا ہے کہ گندم مٹھی تک تو پہونچ گئی آگے کیوں نہیں جاسکی ؟ جواب یہ ہے کہ جاتی کا ئے پر؟ پھر حکمرانوںکی فرصت کا سوال بھی ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت بھی تو ہو کہ وہ فوٹو سیشن کراسکیں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Uncategorized and tagged . Bookmark the permalink.