ایک خبر ہے کہ کلوریڈا کے ایک اسکول سے ایک لڑ کی کو اپنی ساتھی طالبہ کے سکون قلب یا احساس زیاں مٹانے کے سلسلہ میں اپنا سرمنڈانے پر اسکول سے نکال دیا گیا اور اس کو شخصی آزادی کی بہت سی تنظیمیں حقِ آزادی میں مداخلت قرار دے رہی ہیں۔ جبکہ جس کے لیے سرمنڈوایا تھا وہ اپنی ساتھی کی بہت ہی احسانمند ہے کہ اس نے اس کے لیے بہت بڑی قر بانی دی اور اسے اس سے اپنی اہمیت کا ادراک ہوا؟ اسکول سے نکالے جانے کی وجہ کیا ہے اس پر انتظامیہ نے کچھ نہیں کہا ؟ ممکن ہے کہ انہیں یہ خطرہ ہو کہ ان کے باقی طالب علم اپنی ہیئت نہ بدل لیں اور سر منڈہ ہونا ان کے اسکول کا نشانِ امتیاز بن جائے ؟کیونکہ دنیا میں آجکل بھیڑ چال اپنے عروج پر ہے ۔ اگر کسی اداکار یا کھلاڑی وغیرہ کی ناک کسی حادثے میں یا کسی حرکت کی وجہ سے کٹ جا ئے تو لوگ اسے بھی اپنا نےمیں دیر نہ کریں ،اور دنیا میں چاروں طرف نکٹے ہی نکٹے نظر آئیں۔ جیسے کی آجکل ثابت جین کی پینٹ کو کسی مجنوں کے اتباع میں چتھڑے بنا کر لٹکانے کا رواج بن گیا ہے اور یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے؟
اس سے پہلے سرمنڈانے کارواج صرف ہندو مردوں میں تھا جن کو دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کہا جاتا ہے؟ ان کے یہاں بھی صرف وہ ہی سرمنڈا تے تھے جن کے یہاں کسی کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ ممکن ہے وہ بھی کسی ایسی ہی وجہ سے شروع ہوا ہو، یا پھر یہ رسم اس لیے ہو کہ جس کا سرمنڈا دیکھو توسمجھ لو کہ اس کے یہاں موت واقع ہوئی ہےاور تعزیت شروع کردو؟ اس میں جو بھول چوک کا امکان ہے ،اسکا نہ جانے کیسے مداوا کرتے ہونگے جبکہ لوگ غلطی کہہ بیٹھتے ہوں گے کہ بہت افسوس ہوا کس کا انتقال ہو گیا ۔ وہ ناراض ہو کر وجہ بتاتا ہوگا کہ میرے سرمیں تو گنج ہو گیا تھا اس وجہ سے میں نے سرمنڈوادیا ۔ اور ناخون بھی کتر وادیئے کہ بھگوان نے گنج بھی دیدیا تھا اور ناخون بھی بڑھادیئے تھے لہذا میں نے دونوں سے جان چھڑا لی ؟ کیونکہ یہ محاورہ میں سن رکھا تھا کہ اللہ گنجے کو ناخون نہیں دیتا ،جو کھجلا کراپنے گنج کا کھوج مارے؟
اسی سلسلہ میں ہمیں ایک اور مثال یاد آئی کہ ایک زمانہ میں پڑھے لکھے لوگ ڈھونڈے نہیں ملتے تھے، جبکہ مرنے کی اطلاع بذریعہ ڈاک آتی تھی ۔وہ بھی تین پیسے کے پوسٹ کارڈ کے ذریعہ لہذا اعلان مرگ کے لیے پوسٹ کارڈ کا کونا پھاڑ کر عام خطوط سے اسے ممتاز کردیا جا تا تھا۔ جس کو خط ملتا تھا وہ اگر مسلمان ہے تو پہلے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیتا تھا پھر کسی پڑھے لکھے کے پاس روتاہوا جاتا اور وہ پڑھ کر اعلان کر تا کہ آپ کے فلاں عزیز انتقال کر گئے ۔ جبکہ مرحوم کا چالیسواں بھی ہو چکا ہو تا تھا۔ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ادھر کوئی رخصت ہوا ادھر خبر مل گئی ۔ پھر جہاز کے کرائے ایسے موقعہ کے لیے ستے ہو تے ہیں اور مسافروں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ مگر ہرچیز کی طرح لوگو ں نے اسکا بھی غلط استعمال کرنا شروع دیایعنی اس رعایت سے نا جائز فائیدہ اٹھانے لگے؟ جب بھی کہیں جانا ہو تا تو کسی کو دوسری دنیا میں پہونچا دیتے۔ چونکہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہو تا ہے؟ والد صاحب یا والدہ صا حبہ ، ساس اور سسر جب کئی کئی مرتبہ انتقال فرمانے لگے توفضائی کمپنیوں کو عقل آئی اور انہوں نے اس مردہ خانہ کا پتہ معلوم کر نا شروع دیا جہاں موصوف یاموصوفہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے بیچینی سے انتظار کر رہےہوتے؟ پوسٹ کارڈ والی رسم تو اب ختم ہو گئی اور ڈاکخانے اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں کہ ان جگہ انٹر نیٹ لے لی اور اب فیس بک کی وجہ سے لوگ ہر موڑ سے اعلان کرتے ہوئے چلتے ہیں کہ میں اب وہاں پہونچ گیا ہوں اور سیدھے ہاتھ کو یابائیں کو مڑنے والا ہوں۔ کیونکہ اب یہ سہولت موبائل یا سیل فونوں کی وجہ سے ہر ایک کو حاصل ہو گئی ہے اوراگر دونوں کے پاس اایپل کا فون ہے تو پھ تو آنے والا گلی مڑتے ہی نظر بھی آ جا تا ہے؟ ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ان دیوانوں کا کیا ہوگا جو صنف ِ نازک کی زلف پر شعراءے کرام نے صدیوں پہلے بھر ڈالے ہیں اور ابھی تک بھر ےجارہےہیں۔ پچھلے زمانے میں زلفیں خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی تھیں اور لمبائی گزوں میں ناپی جاتی تھی۔ ایک آدھ کوئی سرمنڈی لڑکی کہیں بچیوں کے درمیان نظر آتی تو وہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ بیچاری بے ماں کی ہے! اسی لیے ابا نے سر میں جوئیں بھر جانے کے بعد بال کٹوادیئے ہیں ۔ ورنہ کسی بچی کے بھی بال کٹے ہو ئے نظر نہیں آتے تھے ۔ با الفاظ دیگر سر منڈانے کا حق صرف مردوں کو تھا۔ جبکہ مسلمانوں میں یہ تازہ حاجی ہو نے کی علامت سمجھا جاتا تھا،جبکہ “ حجانی “اس سے بھی مستثنیٰ تھیں کہ انہیں ایک لٹ کٹوانا پڑتی تھی۔ جوکہ نظر نہیں آتی تھی۔ لہذا لوگ جس کابھی سرمنڈا دیکھتے اسکو حاجی صاحب کہنے لگتے ،چاہیں اس نے اپناسر گرمی دانے نکلنے کی وجہ سے منڈوا دیا ہو اور وہ اپنے آبائی گاؤں چی چوں کی ملیاں سے آگے نہیں گیا ہواور کالاشاہ کاکو بھی نہ دیکھا ہو؟۔
جب سے ہم نے دنیاوی علوم کابائیکاٹ کردیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں پربرتری علم کی وجہ سے حاصل ہو ئی تھی اور حضور (ص) کا ارشاد بھی بھلادیا کہ علم حاصل کرو چاہیں اس کے لیے چین جانا پڑے “ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری لائبریریاں کھنگال کر اور اس میں سے ڈیمک زدہ کتابیں نکال کر دوسروں نے اپنے علم کو آگے بڑھایااور یورپ نے ترقی کر لی تب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قیادت سفید نسل کے ہاتھ میں دیدی۔انہوں نے خود کو دیوتا سمجھنا شروع کردیا اور اپنے ہوٹلو ں، میں ٹرینوں میں دار الحکومت اورتمام کالو نیوں میں کالوں کی نشستیں تک علیحدہ کردیں کہ کہیں ان کےکپڑوں پر برابر بیٹھنے سے کالا رنگ نہ لگ جا ئے؟ایک زمانے تک انہیں یہ بالا دستی حاصل رہی پھر ان کے خلاف تحریکیں چلیں ۔
وہ سلطنت جس میں کبھی سورج غروب نہیں ہو تا تھا۔ وہ سمٹ کر اپنے جزیرے تک آگئی !تو اس کے نوجوانوں کواحساس زیاں ہوا اور انہوں نے سفید فاموں کی (وائٹ سپر میسٹ) تحریک بناڈا لی اور اسکی پہچان یہ ہی رکھی کہ سرمنڈا ہو نا چاہیے ، پھر تو یہ فیشن بن گیا اور یورپ میں لوگ بکثرت سرمنڈوانے لگے ؟ شاید یہ سرمنڈانا بھی سوگ کی علامت کے طور پر ہو۔ اب تازہ تاریخ اس بچی نے رقم کی ہے کہ اس نے اپنی دوست کی حمایت میں سرمنڈا وادیا ہے جو کہ اس کی سہیلی کی تو مجبوری تھی کہ کینسر ایک ایسا موذی اور نیا مرض ہے جو کہ ان میں شامل ہے جن کے بارے میں حضور(ص) نے فرما یا کہ “ قرب قیامت ایسی بہت سی بیماریا ں ہو نگی جن کا نام اور علاج دونوں نہیں معلوم ہوں گے “یہ بھی انہیں بیماریوں میں سے ہے جوکہ ایک عرصہ تک بے نام تھی اب ماہرین نے اسے کینسر کا نام دیدیا ہے۔ اور اس کا حتمی علاج تو ابھی تک دریافت نہیں ہوا مگر اب کیمو تھراپی کی وجہ سے وہ ہر حسینہ کے بال لے جاتی ہے ۔ اور لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بیچاری کینسر میں مبتلا ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کی سہیلی روش کو اپناتے ہوئے اور لوگ بھی اسکا اتباع شروع کردیں اور آگے چل کر ساری دنیا سرمنڈن کرانا شروع کر دے ؟
کیونکہ دنیا میں ہمیشہ سے بھیڑ چال ہے ، جسے آپ فیشن بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جب یہ پوری طرح رواج پاگیا تو آئندہ نسل زلف کے قصیدے سن کر جو شاعر کہہ گئے ہیں کہا کرے گی موصوف جھوٹ کتنا بولتے تھے ۔ اتنی لمبی زلف ہو ئی ہی نہیں سکتی؟ جیسے کہ آجکل جنگ عظیم دوئم سے پہلے کے بازار کے بھاؤ سننے کے بعد پوتے کہتے ہیں کہ دادا ابّا چھوٹ کتنا بو لتے ہیں ۔ کیونکہ ہر ایک اپنی معلومات کو ہی آخری سمجھتا ہے؟
بیوٹی پارلر کاکارو بار جو آجکل خوب چل رہا اور بنگال جس کی زلفیں سب سے زیادہ مشہور ہیں ،وہ وہاں سے بھی ناپید ہو جائیں گی کیونکہ وہاں اور یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے غربت اتنی بڑھ جائے گی کہ خواتین اپنی عافیت سر منڈا نے میں ہی سمجھیں گی! جبکہ یو رپ تقریباًپہلے ہی اس بار سے سبک دوش ہو چکا ہے۔ اب سب کے تراشیدہ بالو ں کی وجہ سے اور مردوزن کے ایک سے کپڑ ے پہنے ہو نے کی وجہ سے گھور کر دیکھنے بعد ہی وہ پہچانے جا سکیں گے کہ ان میں مرد کون ہے اور خاتون کون ہے؟ جبکہ ان کے یہاں گھورنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ تھا تویہ کبھی ہمارے یہا ں بھی معیوب اور قر آن میں حکم بھی ہے کہ مرد اور عورتیں اپنی اپنی نگاہیں نیچے رکھیں، مگر ہم ہر ہدایت کا الٹ کرتے ہیں لہذا نگاہیں بلند رکھ تے ہیں؟ جیسے کہ ہمارے دستور میں لکھا ہوا بہت کچھ ہے۔اس میں امید وار کا امین ہونا بھی شرط ہے ،مسلمان ہونا بھی شرط ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں امین بھی ملتے ہیں ابو امین بھی ملتے ہیں مسلم اور ابو مسلم بھی ملتے ہیں ، مگر صرف نام کی حد تک رہی عمل کی بات؟ ہمیشہ کی طرح جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔
دیکھئے میں نے آپکے منہ کامزا کڑوا کردیا اب ایک لطیفہ سنا کہ بات ختم کرتا ہوں کہ بنگال میں ایک صاحب تشریف لے گئےجن کی داڑھی تھی ۔انہوں نے ایک بڑا ساکٹھل بنگالیوں کو کھاتا دیکھ کرلے لیا؟ مگر وہ کٹھل کھانے کے آ داب سےواقف نہ تھے، لہذا کٹھل بے ادبی سے کھایا اور وہ ان کی ریش مبارک میں چپک گیا، اگر وہ کسی بنگالی سے پو چھ کر کھاتے تو وہ اس مشکل میں نہ پھنستے، سامنے میڈیکل اسٹور تھاانہوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ ڈاکٹروں والی روئی کا رول لیکر اس سے صاف کرلیں ، اس سے صاف کیا تو روئی بھی چپک گئی آخر انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ سامنے نائی کی دکان تھی اندر چلے گئےاور جب باہر نکلے تو بے ریش تھے۔ اس کے بعد ان پر یہ راز کھلا کہ یہاں زیادہ ترلوگ بے ریش کیوں ہیں ؟ وہ سمجھ گئے کہ یہ کٹھل بہت کھاتے ہیں یہ سب اسی وجہ سے داڑھی نہیں رکھتے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے