حدیث ِخواب ۔ از شمس جیلانی

  حدیث خواب کے نام سے امام ابن ِ کثیر  سورہ ص (38) کی آیت نمبر 69 اور 70کی تفسیر میں لا ئے ہیں۔ وہ آیتیں یہ ہیں۔ ماکان لی من علم م بالملاعلیٰ اذ یختصمون (69) ان یو حی الی الانما انا نذیرمبین ( 70)اس کا اردو میں لفظ با لفظ ترجمہ یہ ہے کہ ” نہیں  ہے مجھ کو  کچھ علم ساتھ  فرشتوں بلند  جسوقت  جھگڑتے تھے ( 69) نہیں وحی کی جاتی طرف میری مگر یہ کہ میں ڈرانے والا ظاہر (70) جبکہ ان آیات کا با محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ ً  مجھے ان بلند رتبہ فرشتوں کا کیا علم ہوتا اگر مجھ پر (میرا رب ) وحی نہ فرما ئے (70) میں واضح طور پرآگاہ کر دینے والا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جائے (70) ” پھر مسند احمد کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ ” ایک دن نمازِ فجر میں حضور (ص) نے (تشریف لانے میں ) بہت دیر کردی ، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو نے کے قریب آگیا۔ پھر تیز قدم بڑھاتے ہو ئے آپ تشریف لا ئے تکبیر کہی گئی اور آپ نے مختصر (سورتوں کے ساتھ) نماز پڑھائی۔ اس کے بعد ہم سے فرمایاتھوڑی دیر ٹھہرو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ًرات میں نماز تہجد پڑھ رہا تھا کہ مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا اور میں نے دیکھا کہ میں اپنے رب کے پاس ہوں۔ میں نے اپنے رب کو بہترین عمدہ صورت میں دیکھا۔ مجھ سے جناب باری تعالیٰ نے پوچھا کہ جانتے ہو فرشتے ملا اعلیٰ میں کس سلسلہ میں گفتگو کرنے میں محو ہیں میں نے عرض کیا کہ مجھے (ص) کیا خبر ! یہ سوال اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تین مرتبہ دہرایا ۔ جب میرا (ص) جواب نفی میں رہا تو میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عز و جل نے اپنادستِ مبارک رکھا۔یہاں تک انگلیوں کی ٹھنڈک میرے سینہ میں محسوس ہوئی اور مجھ (ص) پر ہر چیز روشن ہو گئی ، پھر مجھ سے فرمایا اب بتاؤ! ملا اعلیٰ میں کیا بات ہورہی ہے؟
میں (ص) نے عرض کیا گناہوں کے کفارے کی۔ پھر فرمایا کفارے کیا کیا ہیں! میں (ص) نے عرض کیا نماز با جماعت کے لیے قدم اٹھا کرجانا، نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل نہ چاہنے کے باوجود بھی کامل وضو کرنا۔ پھر مجھ (ص) سے میرے پروردگار نے پوچھا درجات کیا ہیں؟  میں نے عرض کیا کھانا کھلانا ، نرم کلامی اختیار کر نا اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھنا۔ اب مجھ  (ص)سے میرے رب نے پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں (ص) نے عرض کیا نیکیوں کا کرنا، برائیوں کا چھوڑنا، مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش اور تیرا رحم اور جب تیرا ارادہ کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ہو؟ تو اس سے پہلے موت اور تیری محبت، تجھ سے محبت رکھنے والوں سے محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کر نے والے ہوں ، میں مانگتا ہوں ! اس کے بعد حضور (ص) نے فرمایا کہ یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھا ؤ، سیکھو اور سکھا ؤ۔
      میں نے اسے دیکھا تو میرے لیے اس حکم نبوی (ص) تاکید نظر اس کو بظور پیغام پھیلانے کی اس لیے  میں اسے ہدیہ ناضرین کررہا ہوںاس امید کے ساتھ کہ ناظرین بھی ایسا کر کے اجر کے مستحق ہونگے ۔
 جبکہ ابن ِ(رح) آگے یہ بحث چھیڑی ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ حضور (ص) نے جاگتے میں دیکھا  تھا؟ جو کہ ان کے خیال میں غلط ہے ؟اگریہ خواب بھی تھا ؟ تو میرے خیال  میں اس سے کوئی فرق اس کی اہمیت پر نہیں پڑ تا ۔اس لیے کہ نبی (ص) کا خواب بھی یکے از الہام ہے ۔
 اور اس میں کوئی کلام نہیں کر سکتا کہ اس میں جو سبق ہے وہ حق ہے، اور ہمیں وہ سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں جو کچھ بیان ہوا اس میں ہماری تعلیم کا اہتمام کیا گیا ہے جوکہ سوال و جواب کی شکل میں ہے کیونکہ ان سب باتوں پر حضور (ص) تو پہلے ہی درجہ اکملیت کے پر تھے بلکہ کئی جگہ قر آن میں ان کو اپنے معمولات میں کمی کر نے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔
 اب آئیے میں بیان کی گئی ایک ایک نعمت کو مختصراً لیتے ہیں کیونکہ یہ چھوٹا سا مضمون پوری تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا؟ سب سے پہلے نماز ہمارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے جو ہم پر سب سے زیادہ بھاری ہے ؟ جس کے بے انتہا دینی اور دنیاوی فوائد ہیں جبکہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عبادات کے سلسلہ میں دنیا کا ذ کر مت کرو؟ جبکہ دعائے مسنونہ میں جو حضور (ص) نے ہمیں سکھائی ہے دنیا پہلے ہے اور عقبیٰ بعد میں ہے اور ہمیں بھیجا بھی دنیا میں عقبٰی بنا نے کے لیے ہے مگر اس کو ہم بجا ئے مسافر خانہ سمجھنے کہ اس میں کھو جاتے ہیں اور “ الدار “ یعنی آخرت کا گھر سمجھ لیتے ہیں کیونکہ شیطان اور ہماری خواہشات ہمیں ہماری نظروں میں اسے ایسا ہی دکھاتی ہیں۔
    سب سے بڑا فائدہ نماز کا یہ ہے کہ ایک نماز ، دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔ پھر جتنے قدم مسجد کی طرف اٹھتے ہیں انکا ثواب الگ ہے؟ اگر پہلے سے چلے جائیں اور اعتکاف کی نیت کرلیں تو جب تک اند ر قیام کریں اس کاثواب الگ بیان فرما دیا ہے ۔ کیونکہ یہاں بھی حضور (ص) کا دوسرا ارشادگرامی ہے کہ سب سے بہتر جگہ مسجد ہے اور سب سے بدترین جگہ بازار ہیں جبکہ ہم یہاں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی صفوں کو روندتے ہو ئے چلے جاتے ہیں کیونکہ جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ پھر وضو چونکہ نماز کی پہلی شرط ہے اس کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے! اس لیے کہ وہ پہلا امتحان ہوتا ہے نماز کے سلسلہ کا اور خصوصاً رات کے نمازیوں کے لیے جبکہ راتیں ٹھنڈی ہو تی ہیں ۔  ا س کے بعد حصول درجات کے ذرائع بتائے گئے ۔ اس میں اولیت بھوکوں کو کھانا کھلانے کی فرمائی گئی ہے جوکہ حقوق العباد کی طرف متوجہ کرتا ہے جس میں ہم آجکل سب سے پیچھے ہیں مساجد بھری ہوئی ہیں چند قدم پربازار ہیں جہاں وہ سب کچھ ہورہا ہے جو نہیں ہو نا چاہیے مثلا ًملاوٹ ، چور بازاری دھوکا دہی اور یہ سب کچھ نمازی ہی کر رہے ۔ جبکہ حقوق

العبادپر تا حیات حضور (ص) نبوت سے پہلے بھی اور بعد میں ہمیشہ عمل فرماتے رہے۔ پھر نرم کلامی ،جو کہ لوگوں کے دلوں میں اتر نے کا ذریعہ ہے ، اس پرحضور (ص) کا اپنے ظہور سے لیکر وصال تک یہ ہی طریقہ کار رہا ۔ اس میں بھی ہم سب سے پیچھے ہیں اگر ہمارے اخلاق  دیکھنا ہوں تو سب سے بہتر مہینہ میں یعنی صبر اور برداشت کے مہینے رمضان المبارک میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر ایک اپنا روزہ جتاتا ہو تا ہے اور کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے جبکہ یہ حدیث موجود ہے اگر تم اپنی زبان اور شرمگاہوں کی حفاظت کرو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ؟ حضور (ص) اس میں بھی درجہ اکملیت پر تھے اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اللہ سبحانہ تعالی ٰ نے ان کے حسن ِ خلق کی تعریف فرمائی ہے۔ جبکہ حضور (ص) نے خود بھی فرمایا ہے کہ مجھے مکرم الاخلاق بنا کر بھیجا گیا ہے۔  یہاں پھر اول مسکینوں کا ذکر ہے کیونکہ یہ رحمت اللعالمین کا خاصہ ہے اور ہم ان کی امت ہیں اور ہمیں ان کے اسوہ حسنہ کی پیروی کا حکم ہے۔ پھر اس سے رحم مانگنے کاحکم ہے؟ جبکہ اللہ قر آن میں فرما رہا ہے کہ رحم کرو رحم کیے جاؤگے ؟ رحم ہمارے لیے کس سے مشروط ہوا ؟رحم کیئے جانے سے ،اس سلسلہ میں ایک حدیث ہے کہ “ صلہ رحمی کرنے سے عمر بڑھتی ہے، دوسری یہ بھی ہے کہ رشتوں کو منقطع کرنے والا سے رشتہ جوڑ نے والا بہتر ہے، اور یہ بھی جو تم سے رشتہ توڑے تم اس سے رشتہ جوڑو “ یعنی اپنی کو شش ترک مت کرو !جب کہ ہم بات بات پر ناراض ہو کر تعلقات منقطع کر لیتے ہیں۔ آگے جب پانی سر سے گزر جائے تو فتنے میں مبتلا قوم سے علیحدگی کا راستہ ہے، کیونکہ اس کے بعد عذاب یقینی ہے اس کابندو بست بھی خود ہی کرنا ہے کیونکہ پہلے تو نبی (ع) ہوا کرتے تھے اور انہیں اللہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ پہلے ہی نکال لیتا تھا؟ مگر اب نبوت ختم ہوجانے کے بعد، اب اپنی فکر خود کرنا ہے؟ پھر یہ سبق ہے کہ تمہاری محبت اور نفرت صرف اللہ کے لیے ہو؟ پھر ان کاموں کی لگن جو اللہ سے قربت کا ذریعہ ہوں۔ یہ چونکہ اچھے ماحول سے مشروط ہیں اس میں درپردہ اچھی صحبت کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔ اس میں اللہ والوں کی صحبت بھی آجاتی ہے۔ اللہ ہم سب کو اسوہ حسنہ (ص) پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے ۔ آمین

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Uncategorized and tagged . Bookmark the permalink.