اکڑی گردن جھکا گیا وہ ہی؟از۔۔۔ شمس جیلانی

 ہم لوگ خوابوں کی دنیا کے لوگ ہیں؟خواب دیکھتے ہیں خوابوں میں رہتے ہیں۔خوابوں میں ہی جیتے ہیں اورسنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں؟ ایک دور تھا کہ مصطفیٰ کمال مسلمانوں کا ہیرو تھا؟اس کا  کارنامہ یہ تھا کہ ٹر کی جیسے مرد بیمار کو اس نے زندہ کردیا ؟جبکہ خلافت ختم کردی جوکہ پہلے ہی برائے نام تھی، یہ نعرہ قوم کو دیکر کہ ترکی صرف ترکوں کے لیے ہے مسلم امہ سے رشتہ توڑ کر یورپ میں زم ہونا چاہا ،جو خواب ہی رہا اورآج تک پورا نہیں ہوسکا؟ اس نے اسے ایک چھوٹے سے خطہ تک محدود کرلیا جو کبھی مسلمانوں کی عظیم سلطنت تھی، اور اس طرح مسلم قومیت کے تابوت  میں آخری کیل ٹھونک دی اور اسی پر بس نہیں کی عربی کوجدید ترکی سے نکال دیا ، قرآن کا ترکی ترجمہ پڑھنے کی اجازت تھی، سارے علما ءپر سخت نگرانی قائم کردی گئی، لباس بدل دیا گیا، عربی نام بدل دیئے گئے، اور اللہ کے قانون کے بجا ئے، اپنے الفاظ کو دستور کی شکل دیدی۔ اس میں اسکی خلافی ورزی پر پھانسی کی سزا بھی لکھدی گئی، فوج ملک کے سیاہ اور سفید کی مالک ہوگئی جو کہ موجودہ اسلامی حکومت سے پہلے تک رہی ؟ اس معاملے میں یہ کسی نے نہیں سوچا کہ ایک مسلمان اور نفرت دونوں اللہ کے لیے ہوتی ہیں ؟ اور مسلمانوں ہیرو وہی ہوسکتا ہے جو حضور (ص) کے اسوہ حسنہ  پرپوری طرح چلتا ہو۔
چونکہ اس وقت ذرائع تشہیر آج جیسے نہ تھے؟ وہ اسلام کی بیخ کنی کے باوجود تمام دنیا کے مسلمانوں کا ہیر وبن گیا؟ کیونکہ اغیار کا پروپیگندہ تھا کہ وہ تمہارا ہیرو ہے؟ اس وقت کا ہندوستان جو کل تک خلافت کے حق میں تحریک چلا رہا تھا جس میں مسلمانو ں کے تمام سر کردہ لیڈر شامل تھے ،جن میں مولانا محمد علی جوہر (رح) مرحوم جیسے لوگ بھی تھے ۔اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی شعر تھا “ بولیں اماں محمد علی(رح) کی جان بیٹا خلافت پر دیدو؟ ان کو چھوڑ کر سب اسی قاتلِ خلافت مصطفیٰ کمال کے گن گانے لگے؟اس کے نام پر بچوں کے نام رکھے جانے لگے مائیں یہ دعائیں کرنے لگیں اور امیدیں باندھنے لگیں کہ اللہ میرے بیٹے کو بھی کمال اتاترک جیسا بنا دے ، اور بچوں کو بچپن سے یہ تلقین کرنے لگیں کہ بیٹا تم بھی بڑے ہو کر کمال اتارک بننا ؟
    میں بھی ان میں شامل تھا وہ میرا ہی نہیں میرے والد ِ محترم کا بھی ہیرو تھا انہوں نے اس کے نام پر اپنے اخبار کا نام “ الکمال“ رکھا وہ 1938 ءمیں جب شائع ہونا شروع ہوا میں اس وقت صرف سات سال کا تھا۔ دوسری طرف وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے، وہیں سے وہ مولانا مودودی سے متاثر بھی ہوئے تھے، لہذا مجھے انہوں نے بچپن میں ہی مولانا مودودی (رح) کی کتابیں لاکر دیں اور ساتھ ہی وہ علامہ اقبال (رح) کے بھی بہت معترف تھے لہذا ان کا کلام بھی پڑھنے کو ملا۔ جبکہ میری نانی صاحبہ بہت ہی با عمل مومنہ تھیں، مجھے دن رات تلقین کرتی تھیں کہ بیٹا تم حضور (ص)کے نقش ِ قدم پر چلنا اور ہر معاملہ میں سمجھاتی رہتی تھیں کہ حضور (ص) یہ کام اس طرح کیا کرتے تھے تم بھی ایسا ہی کرنا؟ اور میں مذبذب تھا کہ کس کی سنوں! اور میں ہی نہیں پورے میرے ہم سن اس مسئلہ پر سب کے سب کنفیوژ تھے۔ کیونکہ ہمارے بڑے بہ یک وقت متضاد راستوں پر بڑھنا چاہتے تھے۔      کمال اتاترک سکولرازم کا علمبردار تھا۔ مولانا مودودی (رح) تقلید کے خلاف تھے اور اصل اسلام مسلمانوں کی زندگیوں میں نافذ کرنا ان کامشن تھا؟ مگر ان کے ماننے والے ان کی تقلید ان کی زندگی میں ہی کرنے لگے تھے، جس کو انہوں نے روکا نہیں؟ مولانا بدعتوں کے خلاف تھے مزار پرستی وغیرہ کے خلاف تھے، جب کہ وہ ساتھ ہی حسن بصری (رح) جیسے جلیل القدر بزرگو ں کو بھی اپنی تحریروں میں بطور حوالہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے برعکس علامہ اقبال ملا ئیت کے خلاف اور تصوف کے حامی  تھےاورمولانا روم (رح) کے بے انتہا عقیدت مند تھے؟
میں نے ان سب کو اپنا تذبذب دور کرنے کے لیے پڑھا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے میری رہنمائی علامہ اقبال (رح) کے اس شعر کے ذریعہ فرمائی کہ “ جب تک نہ ہو ضمیر پر نزول ِ کتاب  عقدہ کشا ہے رازی نہ صاحب ِکشاف “ پھر میں نے جب حضرت عائشہ (رض) کی یہ حدیث پڑھی کہ حضور (ص) مجسم قرآن تھے۔ تو میں نے قرآن بھی پڑھا اور سیرت کو بھی پڑھا تواس طرح مجھ پرحق عیاں ہوا اور میرے دل میں یہ خواہش جاگی کے میں اتحاد بین مسلمین کے لیے کام کروں؟ جبکہ حضور (ص) کی سیرت لکھنا میری بچپن سے خواہش تھی لہذا میں نے حضور (ص) کی سیرت آسان پیرائے میں “ روشنی حرا سے “ کےنام سے لکھی اور اس کی بہت زیادہ پذیرائی ہو ئی تو میں نے ان صحابہ کرام (رض) کی سیرت جوکہ حضور (ص)کے بہت قریب تھے لکھی اور اہل ِ بیت کی بھی سیرتیں لکھیں ۔ پھر مجھے احساس ہواکے ہماری نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لہذ ا حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیرت لکھی اور آجکل صحابیات (رض) کی سیرت لکھ رہا ہوں جو مکمل ہونے کو ہے۔ ؟
  اپنے تجربہ کی روشنی میں میرا تمام طالب علموں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ قرآن اور سیرت د ونوں کو پڑھیں؟ تو راہ راست پر رہیں گے؟ اور عمل کرنے میں آسانی رہے گی؟ کیونکہ قرآن میں آپ کو حضور (ص) کے سلسلہ میں ویسے تو بہت سی آیتیں ملیں، گی مگر صرف یہ تین آیتیں دیکھ لیں تو کافی ہیں !جو کسی اور شخصیت اور بنی  (ع) کے لیے استعمال نہیں ہوئیں ؟ وہ ہیں کہ “ جولوگ مجھ (اللہ )سے محبت کے دعویدار ہیں ان سے فرما د یجئے کہ وہ آپکا ( ص) اتباع کریں“ پھر ایک اور آیت میں فرمایا کہ “ تمہارے لیے تمارے نبی (ص)کااسوہ حسنہ کافی ہے “ پھر تیسری آیت یہ کہ “ یہ نبی (ص) اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے سوائے اس کہ جو ان پر وحی کیا جائے “جبکہ نبی نے فرما یا کہ “ میرا ہی (ص) راستہ سیدھا راستہ ہے اس پر چلوگے توفلاح پا جاؤگے اس کے دونوں طرف بہت سے راستے ہیں جن پر پردے پڑے ہو ئے ہیں کسی کو اٹھا کرمت دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جا ؤگے“ ان آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسوہ حسنہ پر ہی عمل کرکے ہم  سارےکنفیوژن سے نکل سکتے ہیں؟
 اس تمہید کے بعد میں آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ایسا ہی ایک بچہ ترکی چلا گیا جبکہ وہاں کچھ لوگ عقیدت میں ،کچھ ڈر سے کمال اتا ترک کی پرستش کرتے تھے، اس کی چاہت کو جلا ملی اور اس نے اپنا ہیرو ذہن صاف نہ ہونے کی وجہ سے کمال اتاترک  کومان لیا؟ اوربچپن سے اس نے یہ طے کرلیا کہ وہ بڑے ہوکر اتاترک بنے گا اس کے لیے جدو جہد کرنے لگا؟ جبکہ اصول ِقدرت یہ ہے کہ جو جس کام لیے جدو جہد کرتا ہے وہ اسے جلد یا با دیرحاصل ہو جاتی ہے۔ لہذا قدرت نے اسے موقع دیا اور وہ پاکستان کی صدارت تک پہونچ گیا ؟اس نے کچھ چھپایا نہیں صاف کہا کہ “ میرا ہیرو اتاترک ہے “ میں پاکستان کو ماڈرن بنا نا چاہتا ہوں ؟  چونکہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد دنیا کی اسے حمایت بھی حاصل کرنا تھی اور دنیا ان تحاریک سے تنگ تھی جو مسلمان شدت پسند کئی عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لہذا اس نے ماڈرناسلام کا نعرہ لگا یا، جبکہ اس نے پہلی کابینہ جو بنائی وہ ایماندار ترین کابینہ تھی؟ مگر مقامی معاشرہ ایماندار نہ تھا؟ کیونکہ وہ قوم جو 1947 ء میں تھی ،وہ اب مسلسل کنفیوژن کی وجہ سے  ویسی نہیں رہی تھی۔ اس تبدیلی کا ذمہ دار کون تھافیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں؟
 لہذا اس نے اپنے پاؤں جمانے کے لیے جنہیں ہمارے یہاں آجکل لوٹے یا الیکٹ ابیل کہا جاتا ہے ان کی ضرورت محسوس کی اور انہیں قابو میں لانے کے لیے وہ سارے حربے استعمال کیے جو کہ حکمراں  پہلے سےکرتے آئے تھے؟ کچھ نے اپنی آپ کو جیلوں سے بچانے کے لیے ، کچھ نے ہوس ِ زر اورجاہ و حشمت کے لیے اس کا ساتھ دیا وہی اس کے دور میں کرتا دھرتا بن گئے۔ اگر اس کے چارو ں طرف سلجھے ہو ئے لوگ ہو تے ذہن کے لوگ ہوتے تو اس کی پہلے دن سے مزاحمت ہوتی۔ مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن اکڑتی چلی گئی حتیٰ کہ اس کادور ختم ہوا اسے سرنگوں اسی اللہ  نے  کیا،جس نی کبھی اقتدار دیا اوراکڑی ہوئی گردن انہیں کے سامنے جھکادی جوکبھی اسی کے ظلم و ستم کے شکار ہو ئے تھے۔؟اس کاذمہ کون ہے وہ کنفیوژن جو آج  تک بھی جاری ہے کہ دستور میں اسلام موجود ہے مگر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں اور جو حکومت میں آیا اس نے خلاءکو پر کرنے کے نام پر دھوکا دیا؟ وجہ یہ ہے کہ ہم صدیوں سے اپنا راستہ بھولے ہو ئے ہیں؟ چونکہ نہ دین سیکھتے ہیں نہ ہمیں قر آن سے دلچسپی، نہ سیرت سے دلچسپی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر بات پر کہہ دیتے ہیں یہ ملا ئیت ہے؟ یہ بات ملا نے اپنی طرف سے کہہ دی؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی مولوی اپنی طرف سے غلط بات نہیں کہہ سکتا! اس لیے کہ بلا سند کوئی بات کہے گا توپکڑا جا ئے گا ؟ پھر بھی کہے تو اس پر آپ عمل کرنے کے لیئے مکلف  بھی ںہیں۔ میں اکثر ایک عالم کا یہ جملہ دہراتا ہو ں کہ “ مولوی جو کہے اس پر عمل کرو ؟ جو وہ کرے اس پر عمل مت کرو “ اس میں یہ ہی رازکارفرماہے؟
    چونکہ اس کی مزاحمت نہیں ہوئی اس لیے کہ ہم ا پنی کم علمی کی وجہ سے کنفیوژڈ تھے اور ہیں۔ ابھی تک ہم یہ نہیں طے کر سکے پاکستان کا نظام حکومت کیا ہو نا چاہیئے جبکہ یہ ملک بنا اسلام کے نام پر تھا؟ لیکن ڈھونتے پھرتے ہیں کون کیسا پاکستان بنانا چاہتا تھا؟ جبکہ یہ ملک ترکی کے برعکس اسلام کی نشاط ِ ثانیہ کے نام پر بنا تھا؟ لہذا ہمیں بجائے اوروں کو دیکھنے کہ یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ ہمارا خالق! ہمیں کس رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے؟ اسی رنگ میں ڈھل جانا چاہیے تھا۔ اس وقت جب یہ ملک بنا تھا ایثار اور ایمانداری عروج پر تھی؟ لوگوں نے اس کے راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں؟ بغیر تنخواہ کے کام کیا بغیر سایہ کے کام کیا بغیر چھت کے رہے مگر ایک کیس بھی بد عنوانی کا نظر نہیں آیا۔ ہرانقلاب کا ہمیشہ یہ تقاضہ ہو تا ہے کہ کامیابی کے بعد بپھرے ہو ئے عوام کو تعمیر میں لگا دیا جائے؟ ہمارے یہاں ایسانہیں ہوا؟ پہلی پارلیمنٹ جو دستور ساز اسمبلی کہلاتی تھی وہ ملک کوسالوں تک دستور نہیں دے سکی اور ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ؟ کہ کونسا اسلام نافذ کریں، اس کا جواب بھی اسی وقت ہر مکتبہ فکر کے علماءنے دےدیا کہ یہ سا اسلام جس پر سب متفق ہیں ؟ وہ بھی کہیں اور سے نہیں لائے تھے۔ وہ مشترکہ قرارداد اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تھی؟جو قرآن اور احادیث کا مجموعہ تھی جس کو قر آن نے اسوہ حسنہ (ص) کہا ہے اور حضور(ص)نے اس کو اپنے اوپر اور اسلامی ریاست پر جاری اور ساری کر کے دکھاد یا تھا؟ جس کے بارے میں کوئی مسلمان بھی اگر واقعی مسلمان ہے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوں؟ جس کے لیئے چودہ سو سال سے ہر مبلغ  کہتا آرہا ہے کہ میں بھی حضور (ص) کا اتباع کرتا ہوں تم بھی ان ہی کا اتباع کرو بھلائی اسی میں ہے ؟ کوئی نہیں دکھا سکتا کسی کی کتاب میں کہ کسی نے  یہ کہا ہو کہ تم میرا اتباع کرو؟  اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے ۔(آمین) 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.