مرتا کیوں غریب ہے ہر لب پہ ہے سوال ؟ از۔۔۔شمس جیلانی

مرتا کیوں غریب ہے ہر لب پہ ہے سوال ؟ از۔۔۔شمس جیلانی
 یہ سوال بار بارہر ایک کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر غریب ہی کیوں مرتا ہے۔ اس کاجواب بڑا سیدھا سا ہے یہ قانون ِ قدرت ہے کہ بغیر روئے ماں بھی اپنے بچے کودودھ  نہیں پلاتی جوکہ اسے بے انتہا عزیز ہو تا ہے۔ ہمیں چونکہ رونے کا طریقہ ہی نہیں آتا ۔ اس لیے ہم عزاب میں ہیں ؟ کیوں؟ اس لیے کہ ہم اس سے نہیں ڈرتے جس سے ڈرنے کا حق ہے؟ ان سب سے ڈرتے ہی جو شیطان کے پیرو ہیں؟ جبکہ قرآن میں خالق ِ کائینات نے بار بار فرما یا کہ اگر سارا زمانہ مل کر کسی کو نقصان پہونچانا چا ہے تو نہیں پہونچا سکتا؟ اور اگر میں کسی کونقصان پہونچانا چاہوں تو کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتا۔ یہ بھی فرمایا کہ مومنوں کا ولی اللہ ہے جو انہیں اندھیرے سے رو شنی  کی طرف کھینچتا ہے ،اور اپنے سا تھ دوستی کی شرط یہ فرمائی کہ بس تم میری بات مان لیا کرو؟جبکہ کفار کا ولی شیطان ہے جو انہیں جہنم کی طرف کھینچتا ہےکیونکہ اسکی شرط یہ ہے کہ اپنے نفس کی بات مانو اور اللہ کی نافرمانی کرو؟
 جبکہ ہماری اکثریت مسلمان کہلانے کے باوجود ،اپنے نفس کی بات مانتی ہے؟ گاؤں کے چودھری یا وڈیرے کی بات مانتی ہے انہیں کے کہنے پر ووٹ دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ منتخب ہو کر بجا ئے چوروں کہ امین آئیں؟ یہ قانون ِ قدرت کے خلاف ہے کہ آپ بوئیں تو جو اور پیدا ہو گندم۔ جبکہ مسلمان ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کسی کی مت مانوصرف خدا اور اس  کےرسول (ص) کی بات مانو؟ کیا ہم یہ اسکا الٹ نہیں کر رہے ہیں جو کہ ہم نے لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ پڑھ کر اللہ کے ساتھ عہد کیا تھا ؟ اگر ہم اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ تو کیا ہم سزا کے مستحق نہیں ہیں؟
اب رہا یہ مسئلہ کہ جو ہم پر مسلط ہیں وہ تو عمل میں عوام سے بد تر ہیں آخر یہ ان پر نوازشیں کیوں؟ اس کاجواب بھی قرآن دے رہا کہ ہم کچھ کو دے کر آزماتے کچھ سے لیکر آزما تے ہیں۔ چونکہ وہ ہر انسان کا خالق ہے لہذا اسے بہتر کون جانتا ہے کون لیکر اس کی طرف جھکتا ہے اورکون مشکل میں اس کی طرف جھکتا ہے ۔ ویساہی ہر ایک کے ساتھ وہ برتاؤ کرتا ہے؟ اگر وہ اس کا الٹ کرے تو یہ اس فرد کے ساتھ بے انصافی ہو گی ۔ جبکہ اس نے فرمادیا ہے کہ میں کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، اور یہ بھی فرمادیا کہ میں کسی کے ساتھ ظلم بھی نہیں کرتا اور جوبھی ظلم کرتا ہے وہ اپنے نفس پر خود ہی کرتا ہے ؟ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورت ِ حال کیوں ہے جس سے مسلم امہ من حیثیت القوم گزر رہی ہے؟
 جواب ایک ہے کہ ہم زبانی جمع خرچ بہت کرتے ہیں مگر اللہ کی بات نہیں مانتے؟پھر اسی قرآن میں بات نہ ماننے والوں کا حشر بھی بتایا ہے وہ مقام بھی  بتایاہے جہاں انہیں ابدی طور پر رکھا جا ئے گا؟وہ مجھے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں وہ آپ قرآن میں جاکر دیکھ لیں ،اگر دنیا کو سمیٹ نے اور کمانے سے فرصت ملے؟ اس سے آپ یہ مت سمجھئے گا کہ میں دنیا کمانے کو منع کر رہا ہوں، اس لیے کہ رہبانیت اسلام میں حرام ہے ، دنیا میں آکر اس کے کمانے کی کوشش کرنا ہمارا فر ض ہے؟ مگر یہ یاد رکھتے ہو ئے کہ دنیا میں ہمیں عقبیٰ بنانے کے لیے بھیجا ہے جو ہر مومن کی ابدی آرام گاہ ہے؟آپ اگر دنیا کما ئیں گے ہی نہیں ،تو خود دوسروں کے محتاج ہونگے ؟ جب بھیک مانگ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے ، خرچے چلا ئیں گے؟ تو اس میں سے بھلائی پر کیا صر ف کریں گے،  ثواب کیسے کمائیں گے،اپنی وہ ذمہ داریں کیسے پوری کریں گے؟ جس کے لیے صحابہ(رض) اور صحابیات (رض)بے چین رہتے تھے؟ یہاں دو مثالیں دیکر بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ ایک صاحب کو حضور (ص) نے مسجد میں کثرت سے بیٹھے دیکھا توکسی سے پوچھا کہ ان کا خرچہ کیسے چلتا ہے ؟تو لوگوں بتا یا کہ ان کا ایک بھائی ہے وہ انکا خرچہ اٹھاتا ہے! حضور(ص) نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے  کہیں بہتر تھا کہ بجائے بھا ئی پر بوجھ ڈالنے کے اپنا بوجھ خود اٹھاتے؟ وہ سنکر اپنی روزی خود کمانے لگے؟
 اس کے برعکس یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ حضور (ص) نے ایک دن راہ ِ خدا میں خرچ کر نے والوں کی بڑی تعریف کی اس کو سنکر مشہور فقیہ ِ اسلام حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود کی زوجہ محترمہ جو کہ ہنر مند خاتون تھیں اور اپنے ہنر سے جوکماتیں تھیں وہ گھر پر خرچ کررہی تھیں بہت رنجیدہ ہو ئیں! اور حضرت عبد اللہ بن مسعود(رض) سے ذکر کیا کہ آپ (رض) کچھ کماتے ہی نہیں ہیں جو میں راہ خدا میں صرف کرکے اپنی جنت بنا ؤں؟ انہوں (رض) جواب دیا کہ آپ میرے اور بچوں پر آج سے خرچ نہ کریں ان کا اللہ مالک ہے؟
لیکن اس دور میں اپنے طور پر ہر ایک کچھ کرتے ہو ئے اللہ سے ڈرتا تھا، کیونکہ حضور (ص) ان کے درمیان موجود تھے اور یہ سہولت حاصل تھی کے ا ن (ص) سے پہلے معلوم کر لیں پھر عمل کریں۔ انہوں (رض) کہا آپ (رض) جاکر معلوم کر آئیں! حضور (ص)جو فرمائیں گے و ہی میں کرونگی، انہوں(رض) نے فرمایا! نہیں تم (رض) خود ہی جاؤ اور معلوم کرو ؟جب یہ وہاں پہونچیں تو حضور (ص) مصروف تھے اور زنان خانے میں تھے؟ کہ اتنے میں حضرت  بلال (رض) باہر تشریف لائے تو انہوں (رض) نے حضور (ص) کی خدمت میں اپنا سوال بھیجا جبکہ ان سے پہلے اسی سوال کے جواب کے لیے ایک  اورصحابیہ(رض) بھی منتظر تھیں ۔ دونوں کا وہ پیغام لے کر گئے ،جب حضور (ص) نے پوچھا کہ یہ کس نے سوال کیا ہے؟ تو حضرت بلال(رض) نے بتایا کہ ایک تو حضرت عبد اللہ بن مسعود  (رض)کی بیوی ہیں اور دوسری ایک انصاریہ (رض) ہیں ۔ حضور(ص) نے فرمایا ان سے کہدو کہ دہرااجر ملے گا ایک خیرات کا اور دوسرا قرابتداری پر خرچ کرنے کا؟ان دونوں مسئلوں میں حضور (ص) نے یکساں فیصلہ صادر فرمایا جبکہ اوپر والے مسئلہ میں اس کے برعکس فیصلہ فرمایا ؟اس میں جو راز مضمر ہے وہ یہ ہے کہ وہاں وہ (رض) صرف اپنی جنت بنانے کے لیے کام کر رہے تھے اور بھائی پر بوجھ بنے ہوئے تھے، جبکہ حضرت عبد اللہ (رض)بن مسعود ، حضور(ص) سے علم حاصل کر رہے تھے اور ہمہ وقت علم  باٹنے میں مصروف تھے۔ تو یہاں وہ آیت لاگو ہوتی تھی جس میں حکم دیا  گیا ہےکہ جو راہ ِ خدا میں بیٹھ ر ہے ہیں اور ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے ان کو ڈھونڈو اور مدد کرو؟ جبکہ پہلے میں یہ معاملہ تھا کہ وہ صرف اپنی ذات کے لیئے عبادت میں مصروف تھے جبکہ بھائی ،بھائی کی کفالت کا ذمہ دار نہیں ہے؟ جبکہ دوسرا مسئلہ جو ہے وہاں بھی بیوی کی کفالت کا شوہر کے ذمہ ہے؟ اگر وہ خرچ غیروں پر کرتیں ثواب اکہرا ملتا ،یہاں اپنے اقربا پر خرچ کرنے کاثواب بھی ملے گا، چونکہ علم بانٹنا صدقہ جاریہ ہے ،اور حضرت عبد اللہ کا علم آج بھی دنیا کو فیض پہونچا رہا ہے لہذا قیامت  تک وہ ثواب میں حصہ دار رہیںگی۔اس مسئلہ پر میں اس لیے میں تفصیل گیا کہ یہ آجکل ہر گھر کا مسئلہ ہے کیونکہ اب بیوی اور شوہر دونوں ہی کماتے ہیں تب کہیں جاکر گزر بسر ہوتی ہے ؟
اب واپس پھر اصل مسئلہ کی طرف آتا ہوں ؟ آج ہمارے پاس اسوہ حسنہ (ص) شکل میں تمام خزانہ موجود ہے اور حکم بھی یہ ہی ہے کہ جب بھی کوئی تم میں تنازع پیدا ہو تو اللہ اور رسول (ص کی طرف رجوع کرو ؟ مگر اللہ کی با ت ماننے ہم کو تیار نہیں، رسول(ص) کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں؟ جن (ص)کے بارے میں یہ آیت بھی موجود ہے کہ آپ(ص)  کےفیصلوں پر اگر یہ عمل نہ کریں تو مسلمان نہیں ہیں؟ جبکہ نافرمانوں کو اس نے کبھی منافق کا نام دیا اور پہچان یہ بتائی ہے کہ جو وہ کہتا ہے کرتا نہیں ہے۔ کہیں نافرمانوں کو کافر بھی کہا؟ اوریہ بھی کہا ہے کہ آپ ان کی شفاعت کرکے نہیں چھڑا سکیں جو جہنمی ہیں؟ ان کی فکر  چھوڑ دیں خود کو ہلکان نہ کریں ؟ سورہ زمر کی آیت (١٩) قرآن میں دیکھئے؟
 اب رہے مالدار ان کی دوقسمیں ہیں ایک تو وہ ہیں، جو حلال کماکر اور اللہ کی رضا کے لیئے خرچ کر رہے ہیں ؟ وہ تو جنتی ہیں اور اللہ کے ولی ہیں؟ان کا مقام جنت ہے،اور ان کو قرآن میں بار بار سراہا گیا ہے۔
 رہے دوسرے جو بے ایمانی سے اپنی تجوریا ں بھر رہے ہیں ان کے پاس جو رزق و وسائل کی فراوانی ہے وہ آپ کو ہر قسم کی ذہنی جسمانی اور مالی سزا دینے کے لیے ہے ۔ اس لیے کہ بقول اللہ سبحانہ تعالی وہ جھوٹے ہیں انہوں نے جب خالص اللہ کے لیئے کام ہی نہیں کیا تو اس سے امید بھی کیسی؟ اگر اس کی رضا پر چل رہے ہوتے تو پہلے اپنے ملال کا حلال ہونا یقینی بنا تے، پھر اسے اپے نام نمود کے بجائے خالص اللہ کے لیے خرچ کرتے ؟ وہ غریبوں پر سزا دینے کے لیے اس وقت تک مسلط رہیں گے ۔ جب تک عوام خود کو خدا کے تابع کرکے ان تمام پیر ِ تسمہ پاؤں سے نجات حاصل  نہیں کر تے ۔ بصورت َ دیگر وہ اسی طرح آپ کے کاندھوں سوار رہیں گے اور آپ کی گردن کے گردگھیرا روز ،بروز تنگ کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ ہمیں عقل دے( آمین)
 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.