پاکستان جمہوریت کی طرف بڑھ رہا۔۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

کل ایک خبر پڑھی جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان جمہوریت کی طرف بڑھ رہا ہے؟ خبر وزیر داخلہ کے حوالے سے تھی کہ انہوں نے تحریک ِ استقلال کی چند یقین دہانیوں کے بعد ان کو گیارہ مئی کوڈی چوک پر جلسے کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ اس سے پہلے خبر یہ آئی تھی جس پر وہاں ٹاک شو اس بحث اور مباحثے میں الجھے ہوئے تھے کہ وہاں 144 لگی ہوئی ہے لہذا اگر وہاں جلسہ کیا تو کیا ہو گا؟ در اصل ہمیں انگریز جس طرح نوکر شاہی وراثت میں دے گئے ہیں اسی طرح یہ دفعہ بھی دے گئے ہیں ۔ جو ہر دور میں ہر مرض کی دوا سمجھی جاتی رہی ہے۔ اور اب بھی ہے۔ کسی پر ظلم ہو اور وہ احتجاج کرے تودفعہ 144 لگادو، دو پارٹیاں لڑیں بجائے قر آنی تعلیمات کے مطابق ان میں صلح کرانے کہ 144 لگادو،کوئی بیماری پھیلے تو بھی آمدورفت پر 144 لگادو ؟ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ بھی ضیا الحق کی وہ گیڈر سنگی ہے جو وہ بلا امیتیاز ہر مطالبہ کے جواب میں کہتے تھے کہ میرے پاس کوئی گیڈر سنگھی تو نہیں جو ہر مسئلہ کو چٹکی بجا تے حل کردوں ۔ جبکہ اس کے معنی اور تر کیب استعمال انہیں معلوم نہیں تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ انکی گیدڑسنگی رواج نہیں پاسکی ورنہ آج ان کی باقیات بھی استعمال کر رہی ہوتی جس طرح آجکل ہر مہذب مرد و زن ہر محفل میں بلا کراہیت “ پنگا “بولتے ہیں۔ جسے بولتے ہوئے پہلے پنجاب کی جمعدارنیاں بھی شر ماتی تھیں اور اسے اشاروں اور کنایوں میں بیان کرتی تھیں ؟ جسے آج کل وہاں کے لیڈر استعمال کر رہے ہیں۔ ادیب بھی استعمال کر رہے اور ٹی وی چینلز پر بےدریغ استعمال کر رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ حکمرانوںکو پتہ نہیں ہوگا اور شاہ کے شاہ سے زیادہ وفاداروں میں سے کسی نے لگا دی ہو گی اور ان کو خبر بھی نہیں ہو گی۔ پہلے تو یہ ضلعی مجسٹریٹ لگا یا کر تے تھے۔ جو کہ ضلع کے کر تا دھرتا ہو تے تھے ان کئی سر ہو تے تھےجس میں انصاف فراہم کرنے کی زمہ داری ان پر تھی، جبکہ وہ کسی جدوجہد آزادی کے متوالے مگر ان کی اصطلاح میں باغی کی جائیداد پچھلے بقایاجات نکال کرکے ضبط کر تے تو وہی کلکٹر بھی کہلاتے تھے اور جب سارے اختیارات استعمال کر رہے ہوتے ضلع بھی بڑا ہو تا تو ڈپٹی کمشنر کہلاتے تھے اور بشمول پولس، دیگر محکموں کے ضلعی سربراہان بھی علیحدہ محکمہ ہو نے کے باوجود بھی عملی طور ان کے ماتحت ہو تے تھے۔ ہاں !عدلیہ اس زمانے میں بھی علیحدہ تھی اور اس کا سربراہ ہرضلع میں ڈسرکٹ سیشن جج ہو تا تھا اور جب انتظامیہ اپنی حد سے آگے بڑھتی تو وہ اس کی کبھی کبھی گوشمالی کر دیتا؟
ان کے خلاف تحریک تو مدت سے چل رہی تھی اس پر پہلا چھاپہ بھٹو صاحب کے دور میں پڑا کہ ڈپٹی کمشنر کا سی ایس پی ہو نا ضروری نہیں رہا،دوسری ضرب اس وقت پڑی جبکہ مشرف صاحب نے اس عہدے ک نام بھی تبدیل کرد یا جس سے رعب پڑ ا کرتا تھا ؟ کیونکہ وہ اپنے سوا کسی کوبھی با رعب دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے؟
انگریزوں کا بھی عجیب حساب تھا کہ انہوں اپنے یہاں شاہی محل کی ناک کے نیچے ایک ایسا پارک بنا رکھا تھا جو آ بھی قائم ہے اور وہاں ایک کونہ عطا کردیا کہ جو چاہے اور جس طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالے یعنی ہر ایک کو حق ہے کے کھڑا ہو جا ئے مجمع لگا ئے اور جو چاہے کہے ۔ مگر یہاں وہ کوئی تقریربر داشت نہیں کرتے تھے۔ جہاں کوئی خبر ملی اور دفعہ 144 لگادی پھر بھی کوئی نہیں مانا تو ان کے پاس جنرل ڈائر جیسے بہادر موجود تھے کہ پارک دروازہ بند کر کے سامعین کو گولیوں سے بھون دیتے تھے ۔ جبکہ انکےاپنے یہاں حکومت چلانے کے لیے ون ونونڈو آپریشن تھا، کہ ایک آفیسر بیٹھا ہوتا اور ہر سائل کے سارے مسئلہ وہی حل کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی میز بھی وہ خود ہی صبح آکر جھاڑتا اور اپنی فائیلیں الماری میں سے خود ہی اٹھا کر لا تا، جب ٹائپ رائیٹر ایجاد ہو گیا تو وہ بھی خود ہی ٹھا کر لاتا آردڈرٹائپ کر دستخط کرکے سائل کو دیدیتا؟۔ جبکہ ہندوستان میں طرزِ حکمرانی مختلف تھا کلرکوں کی بے انتہا قسمیں تھیں اوروہ ایک بڑے سے حال میں اپنی دورویہ میز یں ڈالے برابر بیٹھے ہوتے اور ان سے پوراحال بھرا ہوتا۔ اس کے باوجود ایک کے کام کی دوسرے کو خبر نہیں ہو تی تھی، ا نہیں میں ایک کانفیڈنشل کلرک بھی تھا جو صاحب کا ہیڈ کلرک کے بعد سب سے زیادہ بااعتماد بندہ ہو تا تھا اس کے بعد ایک بڑی سی میز پر ہیڈ کلرک صاحب براجمان ہوتے یہاں آکر دائیں ہاتھ والے کلرک وں کی لائن اور بائیں ہاتھ والےکلرکوں کی میزیں ہیڈ کلرک صاحب کی بڑی میں ضم ہوجاتیںاور دو رویہ ٹیبلوں کے بیچ میں سائل آتے جاتے رہتے اوراور کبھی دوچار دن کبھی سالوں دوڑنے کے بعد ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ۔ رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا ڈر کے مارے کوئی دم نہیں مارتا تھا کہ اس سے آگے صاحب کاکمرہ ہوتا تھااور بقول رسول بخش تالپور مر حوم (سابق گورنرسندھ) ان گھاگ آفیسروں کودیکھ کروحشت طاری ہوتی تھی؟ مگر جب وہ صاحب لندن چلے جاتے تھے تو وہاں ان کے یہاں سے جانے والے ان سے ملتے ،تو دیکھتے کہ احب اپنے کپڑے خود دھو رہے ہیں؟
خیر چھوڑ یے اس قصہ کو ہم صر ف یہ بتانا چاہے رہے تھے کہ جیسے کہ آجکل وہ اپنے یہاں جمہوریت پسند کر تے ہیں جبکہ ہمارے لیے اسے مضر سمجھتے ہیں؟ اسی طرح وہ ہمیں بھی تقسیم کیے رکھتے تھے اور حکومت کے چھوٹے اہلکاروں کو بھی تاکہ کہیں بھی ارتکاز اختیارات نہ ہو سکے۔ ہمیں ان کی اس ادا سے ابھی تک اتنا پیار ہے کہ ہم اسے چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں، باتیں اکثر ون ونڈوآ پریشن کی ہو تی ہیں مگر جب کوئی سائل جاتا ہے تو دھکے کھا کھا کر جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے پھر بھی کام ہوجا ئے تو مقدر والا ہے؟
پریشانی کی بات اب یہ ہے کہ ایوب خان نے پہلا بڑا قرضہ لیکر اسلام آباد کو دا ر الحکومت بنا یا تھا کہ کراچی والے ہمیشہ روز جلوس لیکر وزیر اعظم کے بنگلہ پر پہونچ جاتے تھے اور بات بات پر استعفی کا مطالبہ کرتے تھے، جو ڈھیٹ تھے وہ توڈتے رہتے تھے ؟ جو حیا دار تھے وہ استعفی ٰ دیکر چلے جا تے تھے۔ اس پریشانی سے جان چھڑانے کے لیئے ایوب خان دار الحکومت اسلام آباد لے گئے تاکہ حکمرا نوں کی بستی میں صرف حکمران ہی رہیں۔ اور لوگ پنڈی سے اسلام ا آ باد کا رخ کریں بھی تو راستے میں روک دیئے جا ئیں ؟ مگر ہوا یہ کہ اس وقت کی بنجر اور افتادہ زمینیں دارالحکومت کی برکت سے انتی قیمتی ہو گئیں کہ حکومت اور نو کر شاہی دونوں کا مفاد اسی میں تھا کہ جنگلوں کوپلاٹ کر کے بیچ دیا جا ئے یا سیاسی رشوتوں میں استعمال کیا جا ئے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ رمضانی وہاں بھی پہونچ کر آباد ہو گئے؟ اب نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہاں بھی جلوس پہونچنے لگے؟ جو روش ایک دفعہ عوام میں جڑ پکڑ لے تو پھر اس کا بند ہو نا مشکل ہوتا ہے لہذا بہتر ہے کہ ڈی چوک کو ہائڈ پارک میں تبدیل کر دیا جا ئے تاکہ جنہیں جلوس نکالنا ہووہ اپنا شوق پورا کر تے رہیں اور حکومت اپنا کام کرتی رہے؟
اس پر اگر بند باند ھنے کوشش کی گئی تو عوام بپھر جا ئیں گے ؟ پھر کیا ہو گا وہی جو ان کی آڑ میں ہمیشہ ہو تا آیا۔ اگر جمہوریت کو پنپنے دینا ہے اور خودکو حکومت کر نا ہے تو عوام اور میڈیا کواپنا اپنا کام کرنے دیں ۔ خود جمہوری ملکوں کی طرح برداشت کی عادت ڈالیں۔ تو کوّئے آٹا نہیں کھائیں گے؟ ورنہ پھر پہلے کی طرح سارے منصوبے دھرے رہ جا ئیں گے کیونکہ ہمارے یہاں یہ بھی رواج ہے کہ جانے والے کہ ساتھ وہ منصوبے بھی چلے جاتے ہیں اور وہاں الو بو لتا سنائی دیتا ہے جہاں کل تک مشینیں جھوم رہی ہوتی ہیں؟
دوسری طرف ہمارا عوام اور میڈیا کو بھی مشورہ ہے کہ وہ اس ملک کو اپنا ہی ملک سمجھیں ، احتجاج ان کا جمہوری حق ہے ،احتجاج کریں مگر آگ لگانے اور توڑ پھوڑ کرنے سے پرہیز کریں ؟ اگر ایک گلاس بھی توڑا تو اس کابل بھی عوامی بلوں میں شامل ہو کر آپکا بل اور بڑھا دیگا ۔خدا کرے کہ گیارہ مئی کو خیر یت رہے۔ کیونکہ حکومت سے تھوڑی سی بے احتیاطی ہو گئی ہے؟ اس کا کسی طرح ازالہ ہوجائے؟
اب ہم ایک لطیفہ جو کہ حقیقت بھی ہو سکتا ہے سنا کر بات ختم کر تے ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر ڈھور کانام توسنا ہو گا وہ پہلے زمانے میں جانوروں کو دوا اس ترکیب سے دیتے تھے کہ بانس کی ایک نلکی ہوتی تھی جس میں وہ دوا بھر کے اس کے منہ میں دیتےاور ڈاکٹر صاحب دوسری طرف سے منہ لگا کر پھونک مار دیتے، دوا اس طرح اس کے پیٹ میں چلی پہونچ جاتی تھی۔ ایک بھینس ذرا تجربہ کار تھی اس نے ڈاکٹر صا حب کے پھونک مارنے سے پہلے ہی پھونک ماردی اور وہ دوا ان کے پیٹ میں اتر گئی؟ یہاں بھی بھینس نے پہلے پھونک ماردی ہے؟ اب ڈاکٹر صاحب کو بھینس جتنی خوراک ہضم کر نے کامسئلہ درپیش ہے ورنہ پیٹ میں اپھار ہونے کاخطرہ ہے اور اگر اپھار ڈاکٹر صاحب پر کارگر ہو گیا تو آنے والا ہرکہ نو آمد عمارتِ نو ساخت کے مصداق پھر دس سال تک الف سے گنتی گنے گا اور عوامی مشکلات میں اضافہ ہو جا ئے گا؟ “حدیث ہے کہ مومن ایک ہی راستے سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا “ مگرہم اب تک کتنی مرتبہ ڈسے گئے ہیں؟ شایدلوگ یاداشت کھو بیٹھے ہیں اور انہیں کچھ یاد نہیں۔ بار بار اسی سوراخ کی طرف دیکھتے ہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.