صحافتی بد دیانتی اور اس کا سدِ باب ۔۔۔از۔۔ ۔ شمس جیلانی

صحافتی بد دیانتی اور اس کا سدِ باب ۔۔۔از۔۔ ۔ شمس  جیلانی
ایک دور تھا کہ صحافت کیا دنیا میں ابھی کاغذ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا، کہتے ہیں کہ اس وقت چیں میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا؟اگر یہ سچ ہے تو پھر اسلام کی حقانیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اسلام کے ہادیِ بر حق نے مسلمانوں کو ترغیب دینے کے لیے فرما یا کہ “علم حاصل کر و چاہیں اسکے لیے چین ہی جانا پڑے؟ اس سے دوباتیں ظاہر ہوتیں ہیں کہ یا تو چین اسوقت علم میں بہت آگے تھا؟ یا پھر یہاں وہ دور اندیشی کا رفرما تھی کہ حضور کے علم میں یہ بات تھی کہ وہاں کاغذ ایجاد ہو چکا ہے اور مسلمانوں کو اپنی کتاب مقدس قرآن کی اشاعت کے لیئے کاغذ کی ضرورت پڑے گی کہ جو کہ ابھی تک سینوں میں تو پوری طرح محفوظ ہے ، مگر تحریر ی شکل میں اسے کھال اور ہڈیوں وغیرہ پر محفوظ کیا گیا ہے۔ واللہ عالم
یہ ضرورت جلد ہی پڑگئی کہ نجدیوں نے بئیر معونہ کے مقام پر ستر یا چالیس حفاظ کو شہید کر دیا او ر کچھ دوسری جنگوں میں بھی شیہد ہو ئے اور ان میں سے ایک حافظ کچھ روایات کے مطابق وہ بھی تھے جن سے وقت ضرورت حضرت عمر قرآن سنا کرتے تھے۔ باہر حال وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر روایات کے مطابق اک چبھن قلب ِ حضرت عمر میں پیدا ہو کر قلب گزیں ہو گئی اور جب حضرت ابو بکر دور میں ان کو مشیر ِ اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہو ئی جو اس سے ثابت ہے کہ جو لشکر حضرت اسامہ بن زید کی زیر قیادت روم کے خلاف جانے والا تھا اور جسے اپنے وصال سے چند دنوں پہلے حضور نے ترتیب دیا ہے اس میں بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام جانے والے تھے، مگر حضرت ابو بکر نے مدینہ منورہ کی مخدوش حالت کے باوجود جبکہ زیادہ تر صحابہ کرام کا مشورہ یہ تھا کہ اس وقت فوج کی یہاں زیادہ ضرورت ہے اس مہم کو فل الحال نہ بھیجا جا ئے انہوں نے یہ فرما کر مشورہ رد کردیا کہ جس لشکرکے سپہ سالار کو حضور نے پرچم عطا فرمایا ہو،میں واپس نہیں لے سکتا ،چاہیں ہماری اور ہماری مقدس خواتین کی لاشیں گلیوں میں کیوں نہ بکھری پھریں؟ لیکن حضرت اسامہ سے صرف ایک درخواست کی کہ حضرت عمر کومیرے پاس چھوڑ جا ئیں، جن کا نام بھی ان کے ساتھ جانے والی فہرست میں شامل تھا۔
حضرت عمر نے اپنی اس پوزیشن سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے اجما ئے قرآن کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا اوراس کے بعد حضرت زید بن ثابت اور دوسرے کئی بزرگوں پر مشتمل ایک جماعت اس کام کے لیے ترتیب دی جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا اسم گرامی بھی سرِ فہرست تھا جو کہ حضرت فاطمہ (س) کی علالت کی وجہ سے تقریباً گوشہ نشین تھے اور معاملات زندگی میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن جب انہیں اس کام کے لیے پکارا گیا تو انہوں نے بھی اس کی اہمیت کی بنا پر انکار نہیں کیا اور پوری طرح اس میں حصہ لیا کہ وہ پہلے کاتب وحی تھے، با الفاظِ دیگر وہ حضور کے وہ معتمد خاص تھے، جن کے ہاتھوں سے تمام تاریخی مکتوبات تحریر ہو ئے اور حضور نے ان پر اپنی مہرِ نبوت ثبت فرمائی۔ اور اس طرح اس کار خیر میں ان کا تعاون بھی شامل ہوا جو پہلا مجموعہ قرآن “ صحیفہ صدیقی“ کے نام سے یکجا کیا گیا۔ اور اسی کی مزید چار نقول مملکت ، اسلامیہ کے لیے حضرت عثمان کے دور میں میں بھجوا ئی گئیں۔ اس میں بہت سی جگہ ہمیں قوانین کی شکل میں آداب سکھائے گئے ہیں۔ جبکہ سورہ الحجرات میں زیادہ تر معاشرتی آداب ہمیں عطا فرما ئے گئے۔ جن میں سب سے پہلی پانچ آیتوں میں حضور اور اہلِ بیت کے آداب بتا ئے گئے ہیں۔ پھر یہ بتا یا گیا کہ ہم افواہوں پر یقین نہ کریں اور نہ ہی انہیں ہم بغیر تحقیق کے پھیلائیں ، پھرہرمومن کی عزت اور مال خون کو حرام کرکے باہمی احترام سکھا یا گیا ۔ جس کو بار، بار حضور نے احادیث میں دہرایاحتی کہ جبکہ حج پر تشریف لے گئے تو کعبہ کو مخاطب ہو کر فرمایا ، “ تو بہت ہی مقدس ہے! مگر ایک مسلمان کی عزت جان و مال تجھ سے بھی زیادہ محترم ہے۔ پھر خطبہ وداع میں فر ما یا جس کامفہوم یہ ہے کہ ً اے لو گو! جتنا مقدس یہ مقام اور آج کا دن ہے اس سے زیادہ مقدس ایک مسلمان کی جان ،مال عزت اور آبرو ہے جو تم پر حرام ہے۔ جب کہ یہاں مخاطب صرف اور صرف مسلمان تھے اس لیے کہ وہاں اس سے پہلے غیر مسلموں کا داخلہ بند ہو چکا تھا۔ اور پور قرآن ا نازل ہو چکا تھا ۔ آخری آیت بھی اکملت لکم دینکم ۔ نا زل ہوچکی تھی ۔ میرا اس بحث میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں پورا ضابطہ اخلاق عطا ہوچکا ہے اور ہم مکلف ہیں ہر معاملہ میں قر آن اور اسوہ حسنہ پر عمل کر نے کے لیے؟ لیکن ہمارے حکمراں ، خواص اور عام مسلمان بھی اس پر عمل کر نے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان میں ہمارے تمام شعبہ جات کے لوگ شامل ہیں انہیں میں صحافی بھی ہیں ۔ جبکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں ہمارے لیے اسلام نے ے ہدایت نہ چھوڑی ہو؟
مگر افسوس، صد افسوس ہم ذاتی مفادات کے لیے اپنے دین کو پسِ پشت ڈالے ہو ئے ہیں؟ ورنہ یہ مسائل پیدا نہ ہو تے۔ اگر حکمراں اللہ سے ڈرتے تو وہ کوئی غلط کام نہ کرتے کسی کی بےجا حمایت کے مرتکب نہ ہوتے اور سب کو انصاف مہیا کرتے ؟ پھر ان سے سرکاری ملازمین بھی ڈرتے ، تجار اور دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی ڈرتے ۔ صحافی بھی ڈرتے اور وہ بھی اسلامی ضابطہ کی پیروی کر تے جس میں غلط خبریں دینے کے لیے ، غلط الزامات لگانے کے سخت بعید موجود ہیں ۔ کیوں کہ سب سے پہلے تو انہیں جو چیز مانع ہو تی وہ یہ کہ جھوٹ نہیں بولو، پھر غیبت سے بچنے کا رجحان ہو تا،بغیر تحقیق کہ کسی بات کو خبر نہ بنا تے کی خواہش ہوتی، کیونکہ ان کے سامنے قرآن کی تمام آیات رہنما ہوتیں۔ان میں آپس میں باہمی دوڑ نہ ہوتی،ان میں حسد نہ ہو تا جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرما یا کہ جو حسد کر تا ہے وہ جہنمی ہے کیونکہ وہ میرے فیصلہ پر خوش نہیں ہے؟ کیونکہ یہ میں جانتا ہوں کہ کس کو میں نے کیوں نوازا ہے۔ اور کون کس منصب کا مسحق ہے؟ پھر ایک دوسرے کی پردہ پوشی بھی کرتے بجا ئے حسد کے باعث پگڑی اچھالنے کے؟ دو تین دن پہلے ٹی وی پر جو کچھ نشر ہوا وہ اس کی بدترین مثال ہے ؟یہ اس وجہ سے ہوا کہ لوگ نہیں جانتے کہ ہماری حدود کہاں تک ہیں؟اہل ِ بیت کا مقام کیا ہے، صحابہ کرام کا مقام کہاں ہے۔ علمائے کرام کامقام کیا ہے؟ کیونکہ علماءنے شروع میں توصحافت کو با الکل نظر انداز کیا ، اب یہ عالم ہے کہ کچھ تو ابھی تک ٹی وی پر جانا حرام سمجھتے ہیں ۔ اور کچھ اتنے شوقین ہیں کہ بہت سے بےہودہ پروگرام میں بھی شرکت فرما تے ہیں جہاں ان سے پو چھا جاتا ہے کہ یہ شادی آپ کی لو میرج ہے اور اگر لو میرج ہے تو آپ نے اپنی زندگی میں کتنے عشق لڑا ئے ؟پھر اس پر سیٹ پر بیٹھے دوسرے کارندے بازاری فقرے چست کر تے ہیں اور حاظرین ناچ ناچ کر تالیاں پیٹ کربشمولِ خواتین انہیں داد دیتے ہیں۔چند دن پہلے جو افسوس ناک واقعہ ہوا اس کی وجہ بھی یہ ہی مجرمانہ غفلت ہے کہ ان خاتون کو جن پر شادی فلمائی جارہی تھی؟ وہ جب سے قوم کی ہیرو بن گئی ہیں؟ جب سے ایک بزرگ نے انہیں مشرف بہ اسلام کر کے دوپٹہ تواوڑھا دیا مگر دوپٹے کا احترام نہیں سکھا یا؟ جو کہ ان کے رویہ اور بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ ابھی تک اس کے لیے تیار ہیں کہ کوئی اچھا چانس ملا تو فلموں میں بھی کام کریں گے؟ ایسے میں اگرمولانا کا اوڑھایا ہوادوپٹہ سر پر سے کھسک جا ئے تو اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ویسے بھی خواتین کے لیے اب دوپٹہ لازمی تو نہیں ہے کچھ نے اپنی زلفیں اتنی بڑھا لیں جو دوپٹے کاکام دیتی ہیں ، کچھ نے کپڑے اس ڈیزائن کے بنا لیئے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ خاتون دوپٹہ اوڑھے ہو ئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا ؟اس کو 67 سال لگے ہیں۔ تب کہیں جاکر اسلامی تشخص کی یہ حالت ہوئی؟ کہ لوگوں میں یہ تمیز ہی نہیں رہی کہ کس موقعہ پر کیا چیز دکھا ئی یا سنائی جاتی ہے؟ یہاں اسی نا واقفیت کی بنا پر غلط موقعہ پر قوالی چل گئی؟ یہ نہیں دیکھا کہ وہ مقدس خاتون جن کا نکاح پڑھا کر ایک مولانا نے دوپٹہ اوڑھادیا ہے وہ واقعی اس عزاز کی مستحق بھی ہیں یا نہیں؟
پاکستان بننے سے پہلے ٹی وی تو ایجاد نہیں مگر بر طانیہ کے دور انتداب میں ہی ریڈیو آگیا تھا مگر اسوقت مسلمانوں کے پروگرام صبح کو ہمیشہ تلاوت قرآن پاک سے ہوتے تھے ۔ یہ اسلامی جمہریہ پاکستان کی بر کت ہے کہ اب ایک آدھ کو چھوڑ کر زیادہ تر صبح کے پروگرام ہلے گلے سے شروع ہو تے ہیں۔ اس کے لیے کوئی نیا ضابطہ اخلاق بنا نے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں خود مسلمان بننے کی ضرورت ہے ؟اس لیے کہ ہم جیسا پہلے بیان کر چکے ہیں وہ تو موجود ہیں اور ہمارے دستور کا حصہ بھی ہیں کیونکہ وہاں حاکمیت کسی اینکر یا بڑے آدمی کی نہیں، بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے۔ جس کو کوئی اپنے اوپر نافذ کر نے کے لیئے تیار نہیں۔ باقی سب نعرہ بازی ہے لہذا کسی سے گلہ بھی بےکار ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.