تین روگ رشوت ، بد عنوانی اور قبضہ گیری ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی
پرسوں ایک رپورٹ اخباروں میں نظر سے گزری جو کہ ٹرانسپریسی انٹر نیشنل نے جاری کی ،جس کا لب لباب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے چھ ملک ایسے ہیں جن کا رشوت ستانی میں جواب نہیں ہے؟ ان میں دو مسلمان ملک بھی شامل ہیں جن میں سے ایک تو بنگلہ دیش سیکولر ہے، جبکہ دوسرا پاکستان ہے جس کو نام کی مناسبت سے پاک لوگوں کی سرزمین ہونا چاہیے تھامگر۔۔۔ ؟ جبکہ دستور میں بھی جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی؟ اس کو پاکستان کانام دینے ک تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں البتہ صدیوں سے خواب دیکھنے کے ہمارے آبا واجداد ذمہ دار ضرور تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کی تنزلی کا باعث بے راہ روی کو قرار دیتے تھے اور اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے جہاں بھی ملے زمیں کاایک تکڑا چاہتے تھے جس پر وہ اللہ کے قوانیں نافذ کرکے ایک مثالی اسلامی ریاست قائم کرسکیں اور اس طرح اللہ کو راضی کر کے دوبارہ اس کی نصرت حاصل کریں؟
جہاں تک نام رکھنے کا تعلق ہے توسن چالیس کی قرارداد پاکستان بغیر نام کے پاس ہوئی تھی جوکہ آپ کو اگر آرکائی میں نہ ملے تو مینار ِ پاکستان پر لکھی ہوئی ہے وہاں جاکر پڑھ لیں۔ سب سے پہلے یہ نام ہندوستانی میڈیا نے طنزیہ طور پر ہمیں دیا تھاکہ جہاں یہ ملک بنے گا وہ ( پوتر)پاک لوگوں کی سرزمین ہوگی لہذا اسکو اسی کی مناسبت سے انہوں نے پاکستان لکھنااور کہنا شروع کردیا۔ جس کا حدود اربعہ بھی اسوقت حتمی نہیں تھا ۔ صرف یہ تھا کہ ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ صوبے ایسے ہیں جہاں مسلم اکثریت ہے جن میں سے دو مشرقی ہندوستان میں آسام ، بنگال اور تین مغربی ہندوستان میں پنجاب، سندھ اور سرحد واقع ہیں۔ یہ چاہیں تو اپنی یونین الگ بنا لیں یا ہندو اکثریت کے صبوں کے ساتھ مل جائیں ؟ یہ تھی وہ قراردادجوکہ مسلم لیگ کے اجلاس 1940 میں پاس ہوئی تھی جس کو شیر بنگال مولوی فضل الحق مرحوم نے پیش کیا تھا اور تائید چودھری خلیق الزماں مرحوم نے کی تھی؟
کہانی لمبی ہوجا ئے گی اگر میں تفصیل میں جاؤں ،مختصر یہ ہے کہ ہم نے یہ نام با قاعدہ طور پر بعد میں 1946 ء کے دہلی کے اجلاس میں اختیار کیا جس میں کہ تمام ہندوستان کے منتخب مسلم نمائندے موجود تھے اور یہ حسین شہید سہروری مرحوم نے پیش کی تھی جو اس وقت بنگا ل کے مسلم لیگی وزیر اعظم تھے جبکہ تائید خلیق الزماں مرحوم نے ہی کی تھی جو کہ اقلیتی صوبے لکھنئو یوپی کے رہنے والے تھے۔ جبکہ بعد میں تین صوبے بٹ گئے ، آسام کا صرف ایک ضلع سلہٹ ملا اور بنگا ل نصف اور پنجاب نصف ملا ۔اس میں سے بھی سلہٹ، صوبہ سرحد اور بلوچستان جوکہ اسوقت صوبہ نہیں تھا ان کا پاکستان کا حصہ بننا ریفرنڈم سے مشروط تھا۔ ان تینوں علاقوں میں ریفرنڈم ہوا اور لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تب کہیں جاکر پاکستان کا نقشہ مکمل ہوا؟
جب کہ ان صوبوں کے علاوہ جو چھ سوتیرہ ریاستیں تھی ان کو حق دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔ ملک کوتاریخ کے زبردست خلفشار اور خونریزی سے دو چار ہونا پڑا؟ مگر قوم متحد تھی سب کچھ جھیل گئی؟ تن من دھن سے تعمیر میں لگ گئی اسی قوم، اسی نوکر شاہی ،نے وہ تاریخ رقم کی کہ دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی جولوگ سوچ رہے تھے کہ یہ ملک ایک دن نہیں چلے گا ۔ نہ صرف چلنے لگا بلکہ دوڑنے لگا ؟ صرف جذبہ ایمانی نے وہ کچھ کردکھایا جو دنیا کی نظر میں ناممکن تھا؟ ۔
پھرحکمراں جو اس کے قیام کا مقصد تھا اس سے پہلو تہی کر نے لگے، جنہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسلام کی بالا دستی لائیں گے وہی لوگ پاکستان کی پہلی پارلیمنٹ میں جس کو کہ دستور ساز اسمبلی کہتے تھے۔اسی میں نئے دستور کی تلاش میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے حتی ٰ کہ غلام محمد نے اسے ٹوڑدیا۔ اس کو مولانا تمیز الدین خان نے جو کہ اسپیکر تھے سندھ چیف کورٹ میں چیلینج کیا وہاں وہ جیت گئے مگر حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل کردی اور وہاں جسٹس منیر تھے اور باقی الحمد للہ سارے جج بھی مسلمان تھے انہوں نے پہلے دفعہ نظریہ ضرورت یعنی “ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رو شناس کرا کر رائج کردیا جبکہ سندھ چیف کورٹ کے ججوں نے وہاں انصاف کیا تھاحالانکہ ان میں کئی جج غیر مسلم تھے؟
بس یہیں سے کرپشن کی ابتدا ہوتی ہے؟پہلے حکمراں عوام سے اس لیے ڈرتے تھے کہان کی جڑیں عوام میں تھیں اور وہ عوام کے سامنے دوبارہ جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔
اب جو حلقہ انتخاب آمروں کی نگاہ ناز بنی ؟ توکھاؤ کھلاؤکا بازار گرم ہوگیا؟ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اوپروالے تو کھائیں اور جن کے ذریعہ وہ کھائیں وہ ایماندار رہیں۔جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو انٹی کرپشن ایکٹ بنا ؟ اور انسداد ِ رشوت ستانی کامحکمہ قائم ہوا۔ وہ ایکٹ اتناناقص تھا کہ جب تک ملزم کی جیب سے نشان زدہ نوٹ نہ نکل آئیں وہ قابل گرفت نہیں تھا ؟لہذا نوٹ لفافے میں رکھ کر الماریوں کے پیچھے ڈالے جانے لگے کہ اگر پکڑی جائے تو بیچاری بے زبان الماری، جو ملزم کانام بھی نہ بتاسکے کہ اسے وہاں سے شام کو کون لے جاتا ہے؟ اساحتیاط کے باوجود بھی کوئی بدقسمتی سے پھنس جاتاتو اس کی پشت پناہی کے لیے پوری حکومت سر گرمِ عمل ہو جاتی تھی؟او ل تو انٹی کرپشن میں آتے ہی افسر پولس سے تھے ۔ وہ بھی سزا کے طور پر جو کہ ابھی تک ایماندار باقی رہ گئے تھے ، کیونکہ نہ وہ کھاتے تھے نہ کھلاتے تھے؟اس لیے ان کا کوئی پشت پناہ بھی نہیں ہو تا تھا اور بآسانی ادھر سے ادھر ٹرانسفر ہوتے رہتے تھے۔ پھر نیا آفیسر آکر معاملہ ختم کر دیتا تھا کہ وہ بھی بال بچے دار ہوتاتھا؟
رشوت اور بد عنوانی روزبروز بڑھتی چلی گئی محکمے پر محکمے اور کمیشن پر کمیشن بنتے چلے گئے البتہ رشوت کے ریٹ بڑھتے گئے کہ ہرنیا محکمہ اپنا حصہ مانگتا تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ملکوں میں ہونے لگا ۔ جہاں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ پیسہ ہو تو جو چاہو کرو؟ لہذا لوگ صرف جائز اور نا جائز کمانے کی فکر میں ہیں کہ اور ان کے لیے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جنت ہے۔ اب نو بت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ بالائی حصہ داروں سے اتنی بھی نہیں بچتی کہ عوام کی مونچھوں تک پہونچ جا ئے؟
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قانون سخت بنا ئے جا ئیں ۔ وہ تو بہت سے پہلے ہی بنے ہو ئے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بنا ئے ہوئے ہیں ان پر انسانوں کے بنا ئیے ہو ئے قوانین کو ترجیح دینا شرک کے زمرے میں آتا ہے جبکہ شرک نا قبل ِ معافی گناہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اللہ کی بالا دستی قائم کی جا ئے اورکوئی ایسا اللہ کا بندہ ہو جو نہ کھاتا ہو نہ کھلاتا ہو؟ مگر وہ آئے گا کیسے اور کہاں سے ؟اگرآجا ئے تو اسے رہنے کون دیگا ؟ غریب جان سے جا ئے گا؟
جبکہ ہماری ہدایت کے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں ساڑھے چو دہ سو سال پہلے قرآن میں بے راہ روی کے نتائج سے خبر دار فرمادیا تھا،آیت188 سورہ بقر میں یہ حکم دیا تھا کہ ناجائز طریقہ سے کسی کا مال نہ کھانا اور نہ ہی حکام کو کھلانا ۔۔۔ الخ دوسری ایک آیت میں یہ بھی فرما دیا تھا کوئی ظالم کی سفارش نہ کرے صرف مظلوم کی سفارش کر سکتا ہے؟سورہ 4آیت نمبر85۔ ً جو شخص نیک بات کی سفارش کریگا تو اس میں سے حصہ ملے گا جو برے کام کی سفارش کر یگا اسکو اس میں سے حصہ ملے گا۔5 سورہ کی آیت 2۔ “نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسری کی مدد کیا کرو برائی کہ کاموں میں نہیں، اللہ سے ڈرتے رہو اس کاعذاب سخت ہے۔ سورہ 11 کی آیت 113 ً جولوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل بھی نہ ہونا ورنہ تمہیں آگ لپیٹ لے گی اور اللہ کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں،اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہو گئے! پھر تمہیں کہیں سے مدد نہ ملے گی۔
اب جبکہ سارا کام ٹیلیفونوں اور سفارشوں پر چل رہا ہے، حکمرانوں کے زیرِ سایہ ساری بد عنوانیا ں چل رہی ہیں ۔ قبضہ گروپ چل رہے ہیں۔ جس میں یا تو کسی سیاسی جماعت کے کارکن شامل ہو تے ہیں یا پھر کسی پیر کے مرید ۔ ایک دورتھا کہ انہیں پیروں کے آبا واجداد کے پاس لوگ عاقبت سدھارنے کے لیے مرید ہوتے تھے مگر اب دنیا میں زندہ رہنے کے لیے کسی پیر کا یا بڑے آدمی کا بندہ ہونا ضروری ہے؟ بعض پیروں نے تواپنے ناشتے کے ریٹ ، ظہرانے اور عشائیہ کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں؟ اب تو معلوم نہیں لیکن جب ہم چوتھیائی صدی پہلے وہاں تھے تو ایک پیر صاحب کے ریٹ پچیس ہزار روپیہ ، پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپیہ تھے اس کا فائدہ یہ تھا جیسا کام ویسی دعوت اب پتہ نہیں کیا ریٹ ہونگے کہ گرانی بہت بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ان پیر صاحب کے مریدوں کی تعداد اس وقت اٹھارہ لاکھ تھی، بارہ لاکھ پاکستان میں اور چھ لاکھ ہندوستان میں تھی ۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نصرت روکدی گئی ہے آگ نے ہمیں لپیٹ لیا ہے؟ آئیے توبہ کرکے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے تاکہ ہماری دنیاوی رسوائی ختم ہو اور عاقبت کے حقدار بنیں (آمین)