احتجاج ، احتجاج، احتجاج۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی
ہر قوم کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم کی خصوصیت احتجاج ہے۔ یہ خصوصیت اس کی کیسے بنی اس کے لیئے تھوڑا سا تاریخ میں پیچھے کی طرف جانا ہو گا؟ دنیا میں جب مسلمان رو بہ زوال ہو ئے تو ہر جگہ سے ہر مقام سے انکی رجعتِ قہقری شروع ہو گئی، یہ لفظ آپ نے کتابوں میں پڑھاہو گا اور لوگوں کو اس پر عمل کر تے ہو ئے بھی دیکھا ہوگا۔ مگر یہ عمل ہے کیا ؟ اس سے ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی کم ہی واقف ہو نگے اس لیے کہ یہ پرانی اردو ہے جس سے ہماری نئی نسل نابلد ہے ۔ اس عمل کو دیکھنا ہو تو سندھ میں آپ کسی وڈیرے یا رئیس کی اوطاق پر چلے جا ئیں ، پنجاب میں چودھری کی بیٹھک پراور صوبہ پختون خواہ میں کسی خان صاحب کے حجرے پر یا پھر کسی زندہ پیر کی خانقاہ یا مزار پر چلے جائیں، یا پھر ریلوے انجن کہیں چلتی حالت میں مل جائے تو آپ اس کی لوکوشیڈ سے واپسی پر دیکھ لیں کہ وہا ں سب ایک ہی عمل کرتے نظر آئیں گے کہ وہ ہر بارگاہ میں داخل سیدھے پیرہو تے ہیں مگر واپسی الٹے پاؤں ہوتی ہے؟ اس میں سے موخر الذ کر یعنی ریلوے انجن کی تویہ مجبوری ہے کہ اسے مڑنے کے لیے زیادہ جگہ وہ بھی گولائی کی شکل میں درکار ہوتی ہے، مگر انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ایسا کیوں کر تا ہے؟
جواب ہے لالچ ، ڈر ،اور عقیدت وجہ ہے۔ جس کی روح کبھی یہ رہی ہوگی کہ بزرگوں کی طرف پیٹ نہ ہو؟ جبکہ اب انکی اولادوں کے شر سے ڈرتے ہیں ۔ یہ مثل بڑی مشہور ہے۔ کہ تجھ سے ڈر نہیں لگتا تیرے پھیلوں سے ڈر لگتا ہے؟ یہ تو تھی رجعت قہقری کی وضاحت، اب ہم آتے ہیں اس پر کہ اس کا آج کے موضوع سے کیا تعلق ہے؟ ہوا کہ جب تک ہم اللہ سے ڈرتے رہے تو آگے بڑھتے چلے گئے کیونکہ ہر نبی کادعوت یہ تھی کہ “تم میرے بتائے ہوئے راستے پر چلے تو اللہ تمہیں نوازے گا! بارشیں ہو نگی فصلیں شاندار ہو نگی اور فارغ البالی آئے گی “ لہذا جب بھی کوئی قوم نبیوں (ع) کے راستے پر چلی تو وہ آگے بڑھتی چلی گئی ۔ پھر جب عیش و عشرت میں پڑی تو اسے رجعت قہقری کا مرض لاحق ہو گیا اور ہر میدان سے پچھلے پاؤں واپسی شروع ہو گئی ۔ یہ ہی صورت ِ حال ہمارے یہاں بھی ہوئی کہ جب تک ہم میں خوفِ خدا باقی رہا اس وقت تک آگے بڑھتے چلے گئے ،جب نڈر ہو گئے، تو رب نے بھی اپنی سنت کے مطابق بے نیازی شروع کردی؟ پھر ہمارا کام ایک ہی رہ گیا کہ جو زمین کا حصہ ہم کھو تے گئے اس پر احتجاج کر تے چلے چلائیں؟ نتیجہ کے طور پر ہمارا مزاج ہی احتجاجی بن گیا؟
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب ایک زمین کا تکڑا ہمیں دوبارہ ملا تھا تو اس کی تعمیر میں لگ جاتے کیونکہ احتجاج قوموں کے لیئے خون گرم رکھنے کا بہانا ہو تا ہے غلامی کے زمانے میں! مگر آزاد ہونے والی قوموں کی تاریخ یہ ہے کہ ان کے لیڈر قوم کو تعمیر پر لگا گر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔چونکہ ہمارے یہاں لیڈر خود شروع سے ہی اپنے ہی عوام سے خائف رہے۔ لہذا انہوں نے یہ ہی مناسب سمجھا کہ حسبِ سابق ان کو احتجاجوں میں مصروف رکھو تاکہ یہ حکمرانوں کی طرف نہ دیکھیں اور نہ پوچھیں کہ وعدے کیا ہوئے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم احتجاج میں لگے رہے اور ہمارے بعد آزاد ہو نے والی قومیں آگے بڑھتی چلی گئیں ،جیسے کہ ہما را ہمسایہ اور دوست چین، یا ہمارا دشمن عزرائیل۔
بعد میں آنے والے لیڈروں کو ایک کھیل ہاتھ آگیا کہ جو بھی آتا وہ ہمیں سبز باغ دکھاتا پھل خود کھاتا اور خود سے کبھی نہیں جاتا جب تک کہ نکالا نہ جائے یا اوپر سے بلاوا نہ آجائے؟ کچھ لوگ اسلام کے نام پرکھیلتے رہے اور آخر میں وہ بیج بوگئے جو کہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں؟ انہیں کی کوکھ سے ایک ترقی پسند طالب علم لیڈردیکھتے ہی دیکھتے کراچی پر قابض کرادیئے گے؟ جو پاکستان کی شہ رگ تھا ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ کسی کا سر دکھے تو پیہہ جام،لیڈر کو قبض ہو جائے توپیہہ جام۔ خوبی یہ ہے کہ جب سے انہیں اس اہم شہر میں جما یا گیا ؟ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپکا قدم آگے کی طرف اب تک کونسا بڑھا؟ مگر لطف یہ ہے کہ انکی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اس لیے کہ لوگ ان سے نہیں ان کے پھیلوں سے ڈرتے تھے ہیں۔ بیچ میں یک برا وقت آیا تو ان کے چاہنے والے فرشتوں نے انہیں ملک سے باہر پہونچا دیا کہ وہاں پناہ لیلو اور عیش کرو ؟
کسی ملک میں انسانی بنیاد پر پناہ لینا اور ہر ملک کا پناہ دینایو این کے قوانین کے تحت لازمی ہے؟ لیکن جو پناہ کے لیے آتا ہے وہ اپنے سارے شناختی کاغذات زیادہ تر ہوائی جہاز کے بیت الخلا ءمیں پھینک کر اس سے جان چھڑا لیتا ہے۔جس کے بعد وہ ایسا مال ہو جاتا ہے جو کہ اپنی پہچان کھودیتا ہے؟ میزبان ملک اس کو اپنے ملک سے نکال بھی نہیں سکتا کہ کوئی ملک بغیر شناخت کے اسے قبول نہیں کرتا ، اس طرح یہ سمجھ لیجئے کہ اس کا اپنے ملک سے ناتہ توٹ جاتا ہے ؟ پہلے تو پہونچتے ہی اس کا وظیفہ سرکار سے ملنا شروع ہو جاتا ہے بغیر کوئی کام کیئے ؟ وہ بھی بادشاہ ظفر کے استاد ذوق کی طرح نہیں جو کہ صرف چار روپیہ سکہ رائج وقت تھا بلکہ وہ اس کی ضرورت سے زیادہ ہو تا ہے؟ پھر مقدمہ چلنا شروع ہو تا ہے اس میں اس کا عام طور پر الزام یہ ہوتا ہے کہ میں اگر واپس گیا یا مجھے بھیجا گیا تو میری جان کو خطرہ ہے اور اس صورت میں جو بھی اپنے ملک کے خلاف چاہے الزم لگا دے اپنا مقدمہ ثابت کر نے کے لیے۔یہ ہی سب کچھ موصوف نے بھی کیا ہوگا ! ورنہ بر طانیہ کی کسی کورٹ کو مطمعن کر نا مشکل کام ہے ؟ البتہ ہمیں وہ منظر یاد ہے جو آپ کو بھی یاد ہو گا کہ وہی لیڈر ٹی وی پر آکر بر طانوی پاسپورٹ لہرا رہا تھا کہ یہ مجھے مل گیا ہے اور اپنے ماننے والوں سے مبارکباد وصول کر رہا تھا؟ پھر وہاں وہ خود اختیار کردہ جلا وطنی کے باوجود ٹیلیفون کے ذریعہ اپنے ماننے والوں کے دلوں پر راج کرتا رہا، وہ اور اس کے ساتھی مال بنا تے رہے اور انہوں نے طرح طرح کے نئے طریقہ مال بنا نے کے لیے ایجاد بھی کیے۔ اب مسئلہ مال چھپانے کا تھا ۔ لہذا اسے سکے جمع کر نے شوق ہو گیا،وہ سکے بڑھتے گئے؟جس کی بھنک وہاں کے حساس اداروں تک پہونچ گئی؟ پھر تحقیقات کی خبریں آتی رہیں۔ اور اس کو جھٹلایا جا تا رہا نوبت یہاں تک پہونچی جو آپ کے سامنے ہے؟تو اس سے کچھ پہلے اس چیز کا خیال آیا جوبائیس سال تک نہیں آیا کہ وہ پاکستانی شہری ہے اور اس کو پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے کا حق ہے؟ وہ بھی گھر پہونچانے کا بندو بست کردیا گیا تھا کہ ہا ئی کمشنر صاحب کی چھٹی ہو گئی؟
موجودہ حکومت نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا پھر خبریں آنے لگیں کہ اصولی طور پر طے ہو گیا ہے،صرف جاری ہو نا باقی ہے؟ اور ان کے حمایتی جو کہہ رہے ہیں اور ان میں وہ اینکربھی شامل ہیں جو لال بجھکڑ سمجھے جاتے ہیں ،کیونکہ پاکستان اور برطانیہ میں دہری شہریت رکھی جا سکتی ہے لہذا پاکستانی پاسپور ٹ اور شناختی کارڈ حاصل کرناان کا حق ہے؟
جس طرح میں اوپر عرض کرچکا کہ اس طرح باہر نکل کرسیاسی پناہ لینے والا اور ملک پر جھوٹے الزامات لگاکر شہریت لینے والا اپنے سابقہ ملک پر کیا پھر بھی کو ئی حق رکھتا ہے؟ اس کے لیئے قانونی وضاحت کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کر ے؟چونکہ وہ دہری شخصیت والے جو پاکستان سے غیر ملکوں میں قانونی طور پرآے ہیں وہ اوروہ جو پاکستان پر الزام لگا کر آئے ہیں کہ ان کی جان کو وہاں خطرہ ہے برابر نہیں ہوسکتے؟ دوسرے یہ کہ مال وہاں بنا کر باہر کی بنکوں میں جمع کرنے والے اور یہاں قانونی طور پر کما کر اپنی گاڑھے پسینے کی کما ئی پاکستان بھیجنے والے برابر نہیں ہو سکتے؟ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟
اس لیئے کہ کراچی بند ہو جائے گا اور اربو ں روپیہ کا نقصان ہو گا، لیکن اب جو مقبولت کا گراف ہے وہ کچھ اور کہہ رہا؟ جیسی امید تھی ویسا کچھ نہیں ہوا اب وہ خود اپیل کرتے پھر رہے ہیں کہ شہر بند مت کرو؟ حالانکہ شہر بند کرا نے کے لیئے چند پتھروں کی ضرورت ہو تی ہے، لوگ خود ہی اپنے کاروبار بند کر کے چلے جاتے ہیں ؟ اب رہے دھر نے والے ؟اتنی سالوں سے جو فائدہ اٹھارہے ہیں کیا وہ اتنے بھی نہیں ہونگے تعداد میں؟ جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہ فرشتوں نے منع کردیا تھا کہ بہت ہوگئی اب ہم کراچی کو بند نہیں کرنے دیں گے اکانومی بیتھ جا ئے گی پھر ہماری تنخواہیں کہاں سے آئیں گی۔ تازہ خبریہ ہے کہ وہ جیل سےواپس بھی آگئے ہیں۔ اور بقول ان کے انہیں یہ فخر حاصل ہو گیا ہے کہ وہ پہلے پاکستانی لیڈر ہیں جو لند ن کی جیل پلٹ ہوئے ہیں ۔اس پر مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں ۔ جو چاہے آپ کا حسن ِ کرشمہ ساز کرے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے