اس عنوان اور نام کی ندرت کی وجہ سے آپ چونکیئے گا نہیں، دراصل یہ اسلام آباد سے نکلنے والے ایک ادبی مجلے کا نام ہے، اور اس نے ًاقربا ً سے پہلے اپنے ساتھ” ال "لگا کر اپنی شناخت ان سے الگ کرلی ہے تاکہ لوگ اس کا رشتہ اسلام آبادی اقرباءپرستوں سے نہ جوڑ سکیں۔ دوسرے دونوں میں فرق بہت بڑاہے کہ وہ قومی اساسوں کو خرد برد کرکے ٹیکس کی رقم پر اقربا پروری کرتے ہیں ،جبکہ یہ جس ادارے کے تحت شائع ہو رہا ہے اس کا نام الا قربا ءفا ؤنڈیشن ہے اور اردو کے پرستاروں کے لیے معیاری ادب پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ صرف اقربا پروری بھی کرتا تو بھی اس کا ہر قدم ازروئے اسلام مستحب ہو تا اس لیے کہ دینِ اسلام میں اپنے اقربا ءکو نوازنا پہلی ترجیح اور ایک مستحسن فعل ہے۔
جبکہ اس کے بر عکس بیت المال یا سرکاری وسائل پر اقربا پروری کرنا قابل ِ مذمت ہے اسی لیے وہ ہر گناہ کی طرح چھپ کی جاتی ہے اور میڈیا والے اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں اوروہ اس سے استفادہ حاصل کرنے والوں کی پول کھولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک کلیہ ہے کہ ہر برائی بد بو دار ہوتی ہے اور اس سے ایسے بھبکے اٹھتے ہیں کہ ہر ایک کواپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں ۔ پہلے تو ایسے مقامات سے لوگ ناک دو انگلیوں سے دبا کر وہاں سے گزر جاتے تھے، یا اپنی جیب سے خوشبو دار رومال نکال کرناک پر رکھ لیتے لیتے اور آگے بڑھ جاتے تھے ۔ لیکن اب وہاں لوگ اس کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ بدبو محسوس ہی نہیں ہوتی بلکہ بعض تو سونگھتے پھرتے ہیں اورمنبع غلاظت تک پہونچ کر ہی دم لیتے ہیں تاکہ اس سے فیض یاب ہو سکیں ؟جبکہ اقربا پروری اپنی جیب پر ہو تو مستحب ہے اور اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھی جاتی ہے۔ وہ بھی چھپائے نہیں چھپتی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے ایسی خوشبو عطا فرماتا ہے کہ اس کی فرحت خیزی ہر ایک کو متاثر کرکے دوسروں کے لیے تحریک کا ذریعہ بنتی ہے کہ وہ بھی اسی طرح اللہ اور رسول (ص)کا اتباع کریں؟
الاقرباءفا ؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد تو ہمیں معلوم نہیں مگر جو ان کا عمل ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے کرتا دھرتاؤں کا تعلق یقینا ادب سے ہے جو انہوں نے ا پنے یوم تاسیس سے ادب کی خدمت شروع کررکھی ہے اور غالب حصہ اس میں معیاری ادب کا ہے، جبکہ زیر نظر مجلہ 212 صفحا ت پر مشتمل ہے اور اس میں سے صرف چار صفحات اقربا پروری کے زمرے میں آتے ہیں جو ہر طرح سے مستحسن ہے۔
ا س میں لکھنے والوں میں جتنے نام شامل ہیں وہ سب اردو کے جانے پہچانے لوگ ہیں اور قد میں مجھ سے کہیں اونچے ہیں؟ لیکن یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو ذاتی طور پر جانتاہوں،اس لیے کہ عرصہ چھبیس سال سے میں کنیڈا میں ہوں۔ لہذا میں صرف دو حضرات کے بارے میں لکھ رہا ہوں ، کیونکہ بغیر جانے کسی کے بارے میں لکھنے یا ضمانت دینے سے ہمیں منع کیاگیا ہے کیونکہ اس میں جھوٹ سرزد ہونے کا امکان ہے، اور اس سلسلہ میں یہ طویل حدیث مشعل راہ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ “مسلمان میں سب خامیاں ہوسکتی ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا “ جبکہ جھوٹ کو ہم نے ابھی اپنے روزمرہ میں شامل کرلیا ہے۔
اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے میں جن کے بارے میں لکھ رہا ہوں! ایک تو اس ادارے کے صدر نشین جناب سیدمنصور عاقل صاحب ہیں جن کو میں نے ان کے دو چبھتے ہوئے اداریے پڑھ کر پہچانا کیونکہ تحریر خود بھی شہادت دیتی ہے، وہ اداریے جن سے میں متاثر ہوا ہوں “ ایک کراچی اور لاہور کی تشنہ مقاصد بین الاقوامی ادبی وثقافتی تقریبات “ ہے اور دوسرا “قندیل علم ۔ ظلم اور جہالت کے حصار میں “ جن سے وہ درد جھلکتا ہے جو کہ ان کے دل میں پاکستان اوراردو کے لیے ہے؟ جبکہ دوسری شخصیت ہمارے کرم فرما جنا ب اویس جعفری صاحب ہیں، جن کے ذریعہ یہ پرچہ ہم تک پہونچا۔ جعفری صاحب سے ہماری بہت پرانی یاد اللہ ہے۔ اس لیے کہ وہ میرے ہمسایہ ہیں ، میں وینکور میں ہوں اور وہ سیاٹل میں۔ان دونوں مقامات کا موسم وغیرہ سب ایک ہے ہاں !حکومتیں مختلف ہیں۔ لیکن سرحدیں برائے نام ہیں، شہریوں کے آنے جانے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے ۔بس پہچان کے لیے ان کی طرف امریکہ کا پرچم لہرارہا ہے اور میری طرف کنیڈا کا۔
جبکہ جعفری صاحب کی پہچان یہ ہے کہ وہ وہاں اردو کی جوت جگائے ہوئے ہیں اور ہمیں ان سے دوستی کے علاوہ ان کی مہمانی اور میزبانی دونوں کا شرف بھی حاصل ہوچکا ہے؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ وہ لکھنوی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت ہیں اب ایسے لوگ دنیا میں کہاں؟ جبکہ لکھنویت خود لکھنئو میں بھی نہیں رہی؟کہ حضرت گنج اور امین آباد جو کبھی شہر کی جان سمجھے جاتے تھے اب ان پر لالو کھیت کا گمان ہو تا ہے۔ ویسے تو یہ شہر بہت قدیم ہے اور ہندؤں کے اوتار رام جی کے بھائی لکشمن جی نے آباد کیا تھا اور اپنے نام پر ہی نام بھی رکھا تھا، وہی نام بگڑ کر موجودہ نام اختیار کر گیا۔ مغلوں کے کمزور پڑنے کے بعد یہ شاہان اودھ کا دار الحکومت بنا پھر انگریز کی علمداری میں آیا تو یوپی کا دا ر الحکومت بنا اور دونوں ادوار میں بہت ترقی کی، مجھے تین وجو ہات کی بنا پر یہ شہر بہت پسند تھا ایک اس کی تاریخی عمارات؟ دوسرے اس سے شرفِ ہم سائیگی کہ میرا وطن پیلی بھیت اپنے جنگلات اور شکار گاہوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہاں کے لوگ ہمارے یہاں اکثر شکار کھیلنے آتے تھے اور ہم وہاں تہذیب سیکھنے جاتے تھے کیونکہ ان دنوں مسلمانوں کو کوئی اور کام تھا ہی نہیں؟ تیسرے یہ کہ وہ گہوارہ ادب تھا اورمیں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز بھی 1944 میں نسیم انہو نوی مرحوم کے ” حریم "سے کیا تھا ؟ جوکہ شوکت تھانوی مرحوم کے برادر ِنستی تھے۔ لہذا اویس جعفری صاحب سے محبت ہونا قدرتی بات ہے خاص طور سے ان کا مذہب سے لگاؤ اور ان کے اندر پوشیدہ ندرت پسندی مجھے برسوں سے انکا گرویدہ بنا ئے ہوئے تھی وہ تھا ان کامشاعروں کی نظامت کرتے ہوئے شاعروں کا منظوم تعارف جس کی طرح ڈالنے والے وہی تھے، جو اب عام ہوچکا ہے۔ ابھی میں نے جنوری تامارچ کے شمارے میں ان کا حضرت حسان (رض) بن ثابت کے بارے میں جو جامع مضمون دیکھا تومجھے ایسا لگا کہ وہ معلومات کا خزانہ ہے۔ میں نے ان (رض) پر اس سے بہتر مضمون سیرت نگار ہوتے ہوئے اپنی زندگی میں نہیں پڑھا ،میری ان سے دوستانہ درخواست ہے کہ وہ فن سیرت کی طرف توجہ دیں تو انشا اللہ کامیابی ان کے قدم چومے گی اور ان کا نام بھی حضور (ص) کے غلاموں میں شامل ہو جائے گا۔
اس شما رے میں باقی مضامین اور شاعری بھی اعلیٰ معیار کی ہے۔میرے خیال میں یہ اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے جبکہ زرِ تعاون بھی زیادہ نہیں صرف چالیس ڈالر یا تیس پا ؤنڈ سالانہ ہے ۔ اور ملنے کا پتہ ہے۔ الاقرباءفاؤنڈیشن ، مکان نمبر٤٦٤اسٹریٹ نمبر ٥٨،آئی٣\٨،اسلام آباد ( پاکستان )