یہ سیاسی بازی گراور ان کا اتحاد۔۔۔ شمس جیلانی
ہمارے یہاں ایک پارک ہوا کرتا تھا جو پارک کے نام پر تہمت تھا جیسے کہ بعض ملک اسلام کے نام پر تہمت ہیں ؟کیونکہ اس میں کچھ بھی نہ تھا، ہروقت گرد اڑتی رہتی تھی اوراسے ہر قسم کے بازی گر، لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیئے استعمال کرتے تھے وہ کوئی ایک مسئلہ لے لیتے اور انہیں اس وقت تک الجھائے رکھتے جب تک کہ ان کی جیب ڈھیلی نہ کرالیں اور اس کے بعد چپکے سے کھسک جاتے؟ یہاں ایسے لوگ کون ہیں جنہونے پورے ملک کو پارک بنا رکھاہے انہیں ان کے کردار سے آپ خود شناخت کیجئے ہم نہیں بتائیں گے ؟ مگر اس کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آپ عصبیت اور جانبداری کی عینک اتاردیں، ورنہ ہمیشہ کی طرح اپنے لوگ اچھے نظر آئیں گے اور آپ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت با لائے طاق رکھدیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک بار پھر فیصلہ غلط ہو جا ئے گا۔ پھر سیاسی مداری جو گمراہ کر رہے ہیں وہ فرشتے نظر آنے لگیں گے ، اور فرشتے جو کہ پہلے ہی نظر نہیں آتے وہ اور بھی نظرنہیں آئیں گے؟ صرف وہی نظر آئیں گے جن کا یہ آبائی کاروبار ہے جو مال لگا کر ایک کے سو یا اس سے بھی زیادہ کمانے کا گر جانتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی غوغا آرائی سے اول توتبدیلی آسان نہیں ہے۔ اور اگر آگئی تو چونکہ وہی الیکٹ ابیل ہیں اور انہیں کی ہر ابھرنے والی پارٹی کو ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے وہ ٹکٹ لے لیں گے۔
اس کے بعدایک مرتبہ پھر طوفان سر پر اٹھالیں گے جس طرح کہ گزشتہ الیکشن میں سب چلا اٹھے تھے کہ اگر امانتدار ہونے کی دستوری اور اسلامی شرط قائم رہی تو سوائے مولویوں کہ کوئی اسمبلی میں نہیں آسکے گا؟ یہ دلیل خود انکی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ؟ اگر وہ طبقہ اتنا ہی اچھا ہوتا اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا تو آج دین کی صورت حال یہ نہ ہوتی ؟جبکہ وہ ان سے ناحق ہی الر جک ہیں۔ لیکن ہماری عقل کو کیا ہوا ہے کہ ہمیں کسی کو انتخاب کرنے کا جب موقعہ ملتا ہے تو ہم یہ یکھتے ہیں کہ یہ ہمارے کہاں تک کام آئے گا؟ جبکہ اللہ ! سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ً وہ اپنی نصرت روک دے تو تم خوار ہو جاؤگے اور کوئی مدد کرنے والا مدد نہیں پہونچا سکے گا۔ جبکہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہےکہ ہم اسوہ حسنہ (ص) پر چلیں۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ نمائندوں کے انتخاب میں حضو ر (ص) کی ترجیحات اور طریقہ کار کیا تھا؟ پہلا نمائندہ حضور(ص) نے جب چنا جبکہ پہلا موقعہ اسلامی تاریخ میں آیاکہ نجران کے نصار یٰ سے جزیہ دینے پر معاہدہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہمراہ کوئی ایماندار آدمی کر دیجئے جس کو ہم جزیہ ادا کر دیں؟ تو حضور (ص) نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، اس وقت تمام جلیل القدر صحابہ (رض) موجود تھے جبکہ ان میں ہر ایک سوچ رہا تھا کہ یہ میں ہونگا !حضرت عمر (رض) کے بقول “ میں کئی مرتبہ اچک کر سامنے ہوا کہ شاید حضور(ص) مجھے تلاش کر رہے ہوں ؟مگر انہوں (ص) نے جب مطلوبہ شخص نہیں پایا تو فرمایا کہ کل آنا، میں تمہارے ساتھ ایسا شخص کرونگا جو اس امت کا امین ہے؟ دوسرے دن وہ وفد پھر آیاتو دوبارہ حضور(ص) نے چاروں طرف نگا ہ ڈالی تو پھر ہر ایک پر امید طاری ہوگئی کہ دیکھیں تو وہ کون ہے ؟ کیونکہ کوئی بھی وہاں پرموجو دشخص (رض)تقویٰ میں کسی سے کم نہیں تھامگر یہاں منتخب کرنے والے وہ( ص) تھے جن کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ علوم اور حکمت سے نوازا تھا ان (ص) کی نگاہِ انتخاب حضرت ابو عبیدہ (رض) بن الجراح پر جاکر ٹھہر گئی، انہوں (ص)نے انہیں طلب کرکے پہلا امین جزیہ کی وصولی کے لیئے مقرر فرما کر اور ان کے ساتھ یہ فرماکر انہیں کردیاکہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے میں تمہارے ساتھ ایسے شخص کو بھیج رہا ہوں جو اس امت کا امین ہے؟ ان کا کردار یہ تھا کہ جب شام میں کمانڈر انچیف یعنی لشکر اسلامی کے امین تھے تو وہاں طاعون پھیل گیا؟ اسی دوران حضرت عمر (رض)کو وہاں جانا تھا، مگر وہ راستے میں سے ہی واپس ہوگئے کہ ً حدیث مبارکہ تھی “ جہاں وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں دوسرے شہروں سے لوگوں کو نہیں جانا چاہیے “ جبکہ اسی حدیث کادوسرا حصہ یہ تھا کہ جہاں وبا پھیلی ہو ئی ہو وہاں کے لوگوں کو دوسرے شہروں میں نہیں آنا چا ہیئے “ جبکہ حضرت عمر (رض) انہیں ضائع نہیں کرنا نہیں چاہتے تھے ان (رض) کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح وہاں سے وہ نکل آئیں۔ جبکہ انہوں (رض) نے اپنی زیر امانت فوج کو چھوڑ کر اور اس حدیث کی خلاف ورزی کرکے وہاں سے نکلنا پسند نہیں کیا؟ حضرت عمر (رض) نے آخری کوشش کے طور پر انہیں خط لکھا کہ “ میں آپ سے کچھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں آپ دارالخلافہ تشریف لے آئیں “ ؟انہوں(رض) نے یہ فرماکر انکار کر دیا کہ “ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو کیا مشورہ کرنا ہے “اور وہیں انہوں (رض) نے طاعون میں مبتلا ہو کر اپنی جان اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سپرد کی؟ یہ تھی ان کی شان امانت؟ اور انہیں ملت کا مفاد کتنا عزیز تھا وہ ان کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں(رض) حضرت خالد (رض) بن ولید کی جگہ کمانڈر انچیف حضرت عمر (رض) نے مقرر کیا تو یہ اس وقت وہاں پہونچےجب دمشق میں فوج برسرِ پیکار تھی ۔ اس وقت بجائے ان سے چارج لینے کہ ان (رض) ہی کی قیادت میں ایک عام مجاہد کی طرح لڑنا پسند فرمایا کہ کہیں قیادت کی تبدیلی سے اسلام اور اسلامی ریاست کو نقصان نہ پہونچے، جب دمشق فتح ہوگیا تو انہوں نے اس حکم کو ظاہر فرمایا؟
پھر جب یمن فتح ہوا تو پہلا گورنر حضور (ص) نےحضرت معاذ (رض) بن جبل کو مقرر کیا جن کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی نئی چیز کو اس اس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک یہ کسی دوسرے صحابی (رض) سے معلوم نہ ہو کرلیں کہ حضور (ص) نے وہ چیز کس طرح تناول فرما ئی تھی، تیسری تقرری انہوں نے یمن کے کچھ حصے پر جنکی فرمائی وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ جن کے فضائل کے بارے میں حضور (ص) کے بہت سے ارشادات ہیں جو مختلف مواقعوں پر جو کہ غزوہ بدر سے تبوک تک اور بعد میں آخری مرتبہ قیام ِ خم تک تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تمام بحث کا لب ِ لباب یہ ہے کہ حضور (ص) کےپیشِ نظر ہمیشہ انتخاب کے لیئے تقویٰ ، دیانت ،شجاعت اور امانت رہی۔ جس پر امام ابن ِ تیمیہ (رح) نے بھی زور دیا ہے کہ جب تم اپنا حکمراں منتخب کر نے لگو تو اس میں تقویٰ اور بہادری دونوں تلاش کرو؟کیونکہ اس کی بزدلی امت کے لیئے ہوگی؟ جبکہ خالی تقویٰ اس کے اپنے لیئے ہوگا؟
اس کے برعکس ہم کہتے ہیں کہ “ نہیں! ہمیں متقی نہیں چاہیئے ہمیں بہت بڑا ڈپلومیٹ چاہیئے اور اسکی وضاحت یہ کر تے ہیں کہ وہ کیسا ہو؟ جو جھوٹ اور فریب میں سب کو شکست دیدے ۔ اور اس کی صلاحیتوں پر خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو ایک ہی سب پربھاری ہے؟ اس طرح ہم صریحا ً اسوہ حسنہ (ص) کی خلاف ورزی کرتے ہیں پھر یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا بھلا کریگا؟ جبکہ مومن کی دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لیئے ہوتی ہے؟
اب آپ دیکھئے کہ جو لوگ قیادت کے لیئے ہمارے سامنے آرہے ہیں کیا وہ اسوہ (ص) پر عامل ہیں ؟ مثلاً ایک صاحب جو خود کو عالم ولی اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں؟اس کسوٹی پران کے صرف دو عمل تول دیکھئے تضاد واضح ہوجائے گا ؟ غزوہ خندق میں مدینہ کے بچاؤ کے لیے ایک خندق حضرت سلیمان فارسی (رض) کے مشورے پر تیار کی جارہی ہے؟جو میلوں طویل ہے ؟ نہ راشن ہے نہ پانی ہے حضور(ص) بھی عام مجاہدوں کی طرح کھدائی میں لگے ہوئے ہیں سب کے معدے خالی ہیں اس کی وجہ سے کمریں جھکی جا رہی ہیں ۔ان سے بچاؤ کا طریقہ یہ نکالا کہ ہر ایک نے ایک پتھر پیٹ پر باندھ لیا ایک صحابی (رض) نے حضور (ص) سےذکر کیاکہ دیکھئے حضور(ص) میں نے پیٹ سے پتھر باندھا ہوا ہے؟ حضور(ص) نے اپنا کرتا اٹھاکر دکھایا تو اس پر ایک کے بجائے دو پتھر بندھے ہو ئے نظر آئے؟ یہاں غزوہ نہیں ہے، دھرنا ہے ۔سخت جاڑوں کا مہینہ ہے ، عوام کھلے آسمان کے نیچے ہیں ان میں بچے بھی ہیں خواتین بھی ہیں۔ مگر موصوف ایک ٹریلر میں جس میں ہر سہولت میسر ہے تشریف فرما ہیں؟ پھر آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ اسوہ حسنہ (ص) کے مطابق ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر ولیوں کے سردار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کردار دیکھئے کہ وہ کیا تھا، یا غوث الاعظم حضرت عبد القادر جیلانی (رح) کاارشاد پڑھ لیجئے کہ “اگر کسی کا ایک فعل بھی خلاف ِ سنت ہے تو وہ ولی نہیں ہوسکتا “ دوسری مثال دیکھ لیجئے ؟ حضور (ص) پر کتنے قاتلانہ حملے ہو ئے کیا انہوں (ص) نے اپنے حجروں کے چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی کیں؟
اب وہی صاحب لوگوں سے، پولس سے اس وقت اپیل کر تے پھر رہے ہیں کہ حکومت کاکہا مت مانو! جبکہ فوج پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے؟ اگر اس کے نتیجہ میں ملک کے اندر انارکی پھیل گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا آپ نے سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا ۔ جبکہ ان کے پاس کوئی پلان نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بتانے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ میرے خیال میں وہی بازی گروں والا پلان ہے جس کا فائدہ بازی گروں کو پہونچ سکتا ہے عوام کو نہیں ؟ جن کا ابھی سے عمل یہ ہو؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ان پر اعتماد کیا جا ئے آخر ان کے پاس وہ کونسی ماورائے عقل طاقت ہے جو یہ معجزہ دکھا سکے؟ یہ مانا کہ موجودہ حکمراں برے ہیں مگر میں پوچھ سکتا ہوں کہ انہیں بھی چنا کس نے تھا؟ چونکہ میں گزشتہ ہفتے سانحہ لاہور پر لکھ چکا ہوں؟ اور مجھے کوئی تبدیلی آسانی سے آتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے؟ سوچ لیں کہ کہیں کسی بھی غلطی کے دہرانے کے باعث ملک کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے جبکہ مشہور حدیث ہے کہ ً مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا “ جبکہ آپ روز ڈسے جا رہے ہیں پھر بھی عقل استعمال نہیں کرتے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر ڈسے جائیں اور پاکستان بھی خدا نہ کرے دوسرا عراق بن جا ئے ۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے