کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

ہمارے سامنے جماعت اسلامی پاکستان کے سکریٹری جنر ل جناب لیاقت بلوچ صاحب کے چند ارشادات ہیں۔جو کہ ہم نے مورخہ 24 جولا ئی2014 ءکے جنگ اخبار میں پڑھے۔ ً جو یہ تھے کہ (١)گن پوائنٹ پرشریعت کے غلبے کی بات کرنے والے غلط راستے پر ہیں(٢) فاٹا پر تیسری بار آپریشن ہورہا ہے ،لیکن صورت ِ حال بہتر نہیں ہو رہی ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے اور عالم اسلام کو تقسیم کیا جا رہا ہے لیکن مسلمان حکمراں خاموش ہیں (٣) دہشت گردی او ر فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر آئی ڈی پیز کا خیال رکھنا بھی ہمارا فریضہ ہے ً
چونکہ ہم جانتے ہیں کہ لیاقت بلوچ صاحب ہمیشہ سچ کہتے ہیں ۔ لہذا ان پر وہ مثال صادق آتی ہے کہ “ کھری بات سعد اللہ کہیں اور سب کے من سے اترے رہیں “ ماہرین لغات نے اس پر کبھی قلم فرسائی نہیں کی کہ کوئی سعد اللہ نامی شخص تھے بھی یا نہیں ممکن ہے یہ بھی صرف دو ہندو سورماؤ ں “آلہ اودل “ کے جواب میں اکبر کے درباریوں کی تیار کردہ داستانِ  “امیر حمزہ “  ہوجس کا اصل حضرت امیر حمزہ  رضِی اللہ تعالیِ سے کوئی تعلق نہیں ہو اور اس میں بیان کردار عمر و عیار کی طرح جس کی زمبیل میں بہت سے شہر آباد تھے یہ بھی ایسا ہی کوئی کردار ہو۔؟ ہمیں معلوم نہیں کہ اگر واقعی کوئی سعد اللہ صاحب تھے تو وہ کس صدی میں تھے اور انکا انجام کیا ہوا۔ کیونکہ سچ کہنے والے کو ہمیشہ برا بنتے تو دیکھا پھانسی چڑھتے دیکھا مگر جمہوریت میں انتخاب جیتتے نہیں دیکھا؟ رہے سچے اور عادل حکمراں اور وہ پارلیمانی جمہوریت رائج ہونے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ لیاقت بلوچ صاحب جماعت کے امیر نہ بن سکے؟
لیکن ہمیں بلوچ صاحب کے یہ ارشادات بالکل پہیلی لگے ، ایسا جب ہوتا ہے کہ جب کوئی سچا انسان سچ کہنا چاہے اور مجبوریاں حائل ہوں تو اپنے خیا لات کو کاٹتا چھانٹتاہے اور اس کی وجہ سے جملے بے ربط ہوکر پہیلی نظرآ نے لگتے ہیں؟
سب سے پہلے (١) کو لیجئے کہ گن پوائنٹ پر شریعت کے غلبے کی بات کر نے والے غلط راستے پر ہیں ؟ یہ مبہم  اس لیے ہے کہ شریعت سے مراد دین ہے یا فقہ کیونکہ یہ اب دونو کے لیے رائج ہے۔ اگر ہم بھول نہیں رہے ہیں کہ بوڑھے ہوگءے ہیں۔  توجب جماعت اسلامی بنی اس وقت مولانا مودودی رحمہ اللہ تعالیِ  نے اس میں بڑی لچک رکھی تھی یعنی ہر مسلمان جو دنیا میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیئے کام کرنا چاہتا ،وہ اپنے عقائد پررہتے ہوئے اس میں شامل ہو سکتا تھا لہذا سب نے اس پرلبیک کہا علامہ اقبال (رح) جیسے صوفی منش آدمی نے بھی جماعت کے دعوے کے مطابق انہیں پنجاب میں آکر تبلیغ کرنےکی دعوت دی۔ اور انہوں نے گورداسپور کے علاقہ میں پہلی مثالی اسلامی بستی قائم بھی کی، جماعت ابھی پوری  طرح جڑ نہ پکڑ پائی تھی کہ پاکستان بن گیا۔ مولانا کو ہجرت کرنا پڑی اور یہاں آکر جب انہوں نے دیکھا کہ حکمراں اپنے وعدوں میں مخلص نہیں ہیں؟ تو اکیاون علماءکو جمع کرکے وہ بنیاد فراہم کی جس پر سب متحد ہو کر ملک میں رہ سکیں۔اس سے شیخ السلام مولانا شبیر عثمانی  (رح)کو تقویت ملی اور ان کے دباؤ کی وجہ سے قراردادِ مقاصد پاس تو ہوگئی مگر نافذ آج تک نہ ہوسکی۔؟

مولانا کےساتھ ان کے ہمسایہ بھی ہجرت کرکے پاکستان آگئے  بمع اپنے وکیل سر ظفر اللہ خان کے جنہوں نے اس بات کی وکالت کی تھی کہ ان کا مقدس مقام قادیان اور سکھوں کے مقدس مقامات گورداسپور کے علاقہ میں واقع ہیں لہذا اس کو پاکستان میں شامل نہ کیا جاے کیونکہ وہ خطرہ میں پڑ جائیں گےاور دلیل سائیمن کمیشن مان لیا بھی؟  بھارت کو فائدہ  یہ ہوا کہ اس کے نتیجہ میں اس کو کشمیر جانے کے لیئے زمینی راستہ مل گیا۔ پاکستان بن گیا نادیدہ ہاتھوں نے سرظفر اللہ خان وزیر خارجہ بنا دیا۔  چونکہ ان کے خلیفہ وقت بھی  وہ محفوظ مقام چھوڑ کر پاکستان تشریف لے آئے تھے انہیں بھی نوازا گیا اور سرکاری طور ربوا میں بسا دیا گیا۔ عوام میں بے چینی پیدا ہوئی تو مولانا مودودی (رح) تحریکِ ختم نبوت  میں شامل ہو گئے اور سزائے موت تک پہونچے؟سعودی عرب کی کوششو ں سے رہا ئی ملی۔،  رہائی کے ساتھ جماعت کی پالیسی بھی بدل گئی کیونکہ سعودی عرب سے دوستی کے لیے یہ ضروری تھا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے پرانے لوگ جماعت چھوڑ گئے ۔ جن میں مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی ، ڈاکٹر اسرار الحق وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد کتنے ہی دوراہے اور چورا ہے آئے مگر جماعت کا راستہ نہیں بد ل سکا ۔
جب  سےبدلی ہوئی جماعت سب کو ساتھ لیکر چلنے  کےبجا ئے اس کو بدعتوں سے پاک کر نے والوں کی جماعت بن گئی۔ اور  “لا اکراہ فی الدین “ سے ہٹ کرجبر والا راستہ اپنالیا ۔ کہ پہلے اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور پھر دین کی آڑ میں سعودی شریعت قائم کی جا ئے جبکہ اس سے پہلے وہ اسوہ حسنہ (ص) پر چل رہے تھے کہ “ پہلے وہ لوگ پیدا کیئے جا ئیں جو دین  پر یقین ِ کامل رکھتے ہوں تاکہ وہ اسلامی نظام کے لیے قیادت فراہم کر سکیں “ جبکہ شریعت سے مراد نبی (ص) کے دور میں فقہ نہیں بلکہ دینِ اسلام تھا۔ یہ تھا وہ موڑ جس سے جماعت اسلامی آج تک نکل نہ سکی ،جبکہ چاہتی تو ہے اور یہ بیان اس کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔ آگے وہ فرماتے ہیں کہ فاٹا پرتین مرتبہ آپریشن ہوا مگر صورتِ حال میں بہتری نہیں آئی؟جبکہ میرے خیال میں یہ بہترین فوجی حکمت عملی تھی کہ شر پسندوں کو پہلے ایک جنت فراہم کردی جائے ، پھر ہر طرف سے گھیر گھار کر ان کو ایک جگہ جمع کردیا جائے تاکہ بیخ کنی میں آسانی ہو؟ لیکن حتمی کاروائی میں شدت پسندوں کے سرپرست حائل رہے جس کی وجہ سے دیر لگی لیکن اب وہ اپنے منطقی انجام کے قریب ہیں ۔البتہ شاخیں ختم کرنے میں وقت لگے گا جو دوب کی جڑوں کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ جبک پروفیسر ابراہیم صاحب کی مخلصانہ ثالثی ناکام رہی بلکہ وہ اس سے اور بھی شیر ہو گئے تھے۔ بقول علامہ اقبال (رح) ع ۔“ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے  ہیرے کا جگر    مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر “
پھر فرماتے ہیں کہ دہشت گردی کاہم خاتمہ چاہتے ہیں، لیکن ڈی آئی پیز کا خیال رکھنا ہمارا فریضہ ہے۔ اس پر تو دورائے نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ اسلام نیکی میں تعاون اور برائی کے خلاف کھڑے ہونے کو کہتا ہے۔ شدت پسندی کے بیج بونے میں افغانستان جہاد میں جماعت نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ اب وہ اتنی مستعد دکھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی وہ طاقتیں جنہوں نے اس کی وجہ سے اس علاقہ میں قدم جما ئے تھے۔ جبکہ ان کے بوئے ہو ئے بیج پاکستان اکیلا کاٹ رہا ہے۔
اب رہ گئی تیسری بات  یہ کہ فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، عالم اسلام کو تقسیم کیا جارہا ہے لیکن مسلم حکمراں خاموش ہیں؟ اس کی وجو ہات بھی بلوچ صاحب کو معلوم ہیں؟ کہ جہاں سے مسلمان حکمراں کنٹرول ہو تے ہیں وہ جب کہتے ہیں تب مسلم حکمرانوں  کاچودھری بولنے کی اجازت دیتا ہے اس کے یہ بولتے ہیں۔ جبکہ حماس کے سلسلہ میں چودھری کہہ  رہا ہےاور ماروکیونکہ یہ مجھے چودھری نہیں مانتے ہیں؟ رہی یہ بات کہ عالم اسلام کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر پرانی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں عالم اسلام کو اس وقت تقسیم کیا گیا تھا جب خلافت ختم کر کے با دشاہتیں قائم کی گئیں تھیں۔اور ایک نیا فقہ طاقت کے ذریعہ حرم شریف پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ فرقہ بندی اور شدت پسندی کو عالمی حیثیت مل جائے۔ جو اسے مل چکی ہے۔

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.