موت موت اور موت ۔۔۔از ۔۔۔شمس جیلانی

آج کل مسلم امہ کے لیے سب سے پسندیدہ جو چیز ہے وہ موت ہے! جس طرف نظر ڈالیے موت کی خبریں ملیں گی، افغانستان میں موت، عراق میں موت ، شام میں موت فلسطین میں موت، برما میں موت ،وغیرہ وغیرہ ۔ غرضیکہ کی جدھر دیکھئے ادھر موت ہی موت ہے ؟ جس کی یہ ملت اب اتنی عادی ہوچکی ہے کہ اگر کہیں نہ ملے تو یہ خود اسے جاکر دعوت دیتی ہے؟ ویسے تو پاکستان میں بہت سالوں سے موت عام ہے اور کوئی تیوہار بغیر موت سے دوچار ہوئے نہیں گزرتا تھا جس میں عید بھی شامل تھی ؟ اس مرتبہ فوج کی انتھک کوششوں اور مسلسل قربانیوں کی وجہ سے امن رہا ،تو اہلِ کراچی نے خود موت کی تلاش شروع کردی اور اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ کیونکہ خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لیے کچھ فن ( (fun ہونا ضروری ہے؟ وہ زمانے گئے جب مسلمان عید کے دن شکر ادا کیا کرتے تھے ؟ یہ ہی حال اور عبادتوں کا بھی ہے کہ ہم نے بہت سے حاجیوں کو حج سے واپس آکر یہ کہتے سنا کہ وہاں بڑا فن تھا ،وہ عبادت کے قصے کم سنا تے ہیں، کھانے کی فراوانی اور فن کے قصے زیادہ سناتے ہیں۔  وہ لوگ جوتیرہ ہزار ڈالر خرچ کرکے ( پاکستانی روپیہ میں تقریبا ً بارہ لاکھ بنتے ہیں) ہاں جاتے ہیں، ان کے واقعی وہ فن ہی ہو تا ہے کیونکہ انہیں تمام جدید ترین سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ اب وہ پہلے والا حج جس میں لوگ لٹ جاتے تھےاور جو اب حکمران وہ لوٹ لیا کرتے تھے، بہت سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور چھ مہینے سے لیکر ایک سال کا وقت درکار تھا حج کے لیے۔ جب اس صعوبت بعد وہ حاجی بنتے تھے تو شکر ادا کرتے ہوئے  گھرآتے تھے جبکہ اب موجودہ حکمرانوں نے جدید ترین سہولتیں فرا ہم کر کے لوٹنے کے لیے اپنے ہوٹل بنا لیے ہیں، اسے  انہوں نےفنی بھی بنا دیا ہے۔
   ہاں ! تو ہم بات کر رہے تھے کہ کراچی والے موت کو تلاش کرتے ہو ئے فن کے لیے سمندر میں نہانے پہونچ گئے اوراب تک کی خبر ہے36 مجاہد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ابھی ہنوز تلاش جاری ہے۔ جبکہ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وہاں دفع 144 لگی ہو ئی تھی اور نہانے پر بندش بھی تھی۔ اس کے بر عکس ڈی آئی جی ساؤتھ کا کہنا یہ ہے کہ انہیں نہانے پر پابندی کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ملا۔ اس “ملا “ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ڈھونڈے سے نہیں ملا، یا ڈئ جی آفس کو نہیں ملا ؟اگر مل بھی جاتا تو وہ کیا کرتے جبکہ قانون شکنی کی پوری قوم عادی ہے اس لیے کہ اسے سزا کا خوف ہے ہی نہیں ہے نہ یہاں نہ وہاں ؟ یہاں کا تو اسے پتہ ہے کہ کبھی رسوخ کبھی پیسہ اور معاملہ زیادہ سنگینی اختیار کر جائے تو دونوں کے استعمال سے وہ چھٹ جا ئے گا ؟رہا وہاں کا معاملہ وہ بھی یہیں جیسا وہ قیاس کرتا ہے کہ مال حرام میں سے وہ اچھا خاصہ حصہ نیک کاموں پر بھی خرچ کر دیتا ہے اور مطمعن ہوجاتا ہے وہاں بھی سب خیرہی خیر ہے۔ لہذا وہ جو قتل کرتے نہیں ڈرتے وہ موت کے منہ میں کودتے ہوئے کب ڈریں گےا؟لہذا وہ لوگ بھی سمندر میں کودجاتے ہیں جنہیں تیر نا نہیں آتا ترقی یافتہ ملکوں کی نقل میں؟ جبکہ ترقی یافتہ ملکوں ک یہ عالم ہے کہ وہ ہر بچے کو تیرنا اسکول سے سکھاتے ہیں تاکہ ایمرجینسی میں کام آئے، جبکہ ہمارے بچوں کی اکثریت اسکول جاتی ہی نہیں ہے اور ملک آبادی کے لحاذ سے بہت بڑا ہے ابھی چھٹے نمبر پر کچھ دنو ں میں پیش گوئی ہے کہ دنیا میں چوتھے نمبر پر آجائے گا۔
 اس کی روشنی میں کمشنر کراچی کا کہنا یہ ہے کہ ساحل بہت بڑا ہے لہذا قانون شکنوں کو روکنا مشکل ہے؟ ان کے اس بیان سے ان کی بے بسی جھلک رہی اس لیے کہ یہ اس غلط بخشی کا نتیجہ ہے جو بھٹو صاحب سے شروع ہوئی یعنی بغیر پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیے لوگ کمشنر ہونے لگے اور ترقی کرکے یہاں تک پہونچا کہ ان کے نواسے کے دور میں دسویں جماعت فیل قومی اداروں کے چیر میں ہونے لگے ؟ممکن ہے وہ بھی انہیں میں سےہوں جو وایا بھٹنڈہ اس عہدے پر آئئے ہوں اس کا حل یہ ہے کہ کمشنری حلقے مختصر کردیے جائیں اور ہر گاؤ ں پر ایک کمشنر لگا دیا جا ئے؟ جس طرح پہلے ہم نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو لخت کرکے چھوٹا کیا تھا؟ تاکہ انتظام میں آسانی رہے۔
      بعد از خرابی ِ بسیار انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کے وہاں جانے والے راستے بند کر دیئے ،پھر بھی بھی لوگ ساحل پر پہونچ گئے تو ان کی خاطر تواضع ڈنڈے سے کرنا پڑی یعنی لاٹھی چارج کر نا پڑا۔یہاں کئی باتیں غور طلب ہیں کہ جب راستے بند تھے تو، پھر وہ مار کھانے کو پہونچے کیسے ؟ اس کاصرف ایک ہی جواب ہے کہ قائد اعظم کے ذریعہ سے مگر کل تک یہ ہمارا گمان تھا لیکن اس کا ثبوت بھی آج ایک تازہ خبر میں مل گیا ؟ کہ لوگوں وہاں سے نا امید ہوکر کنجھر جھیل کا رخ نہانے کے لیے کرلیا جہاں سے کراچی کو پینے کا پانی سپلائی ہوتا ہے؟ اور وہاں نہانے پر انتہائی سخت پابندی ہے۔ جس تک رسائی مہذب ملکوں میں کسی کی بھی نہیں ہوتی اور اس میں داخل ہو نا سخت قابل ِ سزا جرم ہے مگر میڈیا کے مطابق یہاں بھی ان کی مشکل انہیں نوٹوں نے حل کردی جن پر قائد اعطم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ قصہ یہ ہے کہ جب عید آتی ہے تو وہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا ہے، ہرایک جیب ان نوٹوں سے بھر جاتی ہے جن پر قائد اعظم کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اور ہر آدمی اسے خرچ کرنے کے لیئے بے چین ہوتا ہے کہ کہاں خرچ کیا جا ئے؟ جس طرح وصولی کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے ہیں ،جیسے چور بازاری ھرام خوریاور رشوت ستانی وغیرہ وغیرہ، جس کا نتیجہ ہوش ربا گرانی ہوتا ہے؟ وہیں موروں پر چور پڑجاتے ہیں کہ وہ جبریہ فطرہ وصول کر نے آجاتے ہیں جبکہ وہ کم ظرف ہیں جواسے بھتے کانام دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ فطرہ لیتے ہیں اور ان کے روزوں کو پاک کرتے ہیں۔ جو کہ حلال مال اور سچائی کے بغیر رکھتے ہیں۔ یہ ہی نہیں کہ انہیں حلال کھانا نہیں ملتا، سچ بولنے کو نہیں ملتا بلکہ باقی کمی وہ دوسرے ذرائع سے پیدا سے پوری کرلیتے ہیں جیسے کہ غیبت کرنا کم تولنا ہر چیز میں ملاوٹ کرنا اتنے آلودہ روزوں کو پاک کرنے کے لیے جیبوں کی صفائی کرنے والوں کو بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، اس لیے وہ فطرے کا بھاؤ بڑھا دیتے ہیں جیسے کہ لانڈری والے جب میلی کالر دیکھتے تو کہتے ہیں کہ اس قمیض کے کالر کی صفائی کے الگ پیسے ہونگے؟ اور وہ غریب یہ ٹیکس اس جرم میں ادا کرتا ہے کہ اسکے پاس دست غیب نہیں ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک دفع کی دھلی ہوئی قمیص اس کا بس چلے تو مہینہ بھر تک پہنے رہے۔ مزے ان کے ہیں جن کو فضل ِ ربی یا دست غیب حاصل ہے وہ فراغ دل ہوتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے خرچ کرتے ہیں اور اس کوخرچ کرنے کہ ہر سال نئے طریقہ ایجاد کرتے رہتے ہیں؟
 کراچی والے بیچارے پانی بھی امپورٹیڈ پیتے ہیں وہ نہانے سمندر میں نہ جائیں جھیل میں بھی نہ جائیں تو جائیں کہاں کہ اس سال پانی کی بلیک بہت بڑھ گئی تھی جو کہ تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ گئی یعنی دس ہزار روپیہ فی ٹینکر جو کہ گزشتہ سال صرف پانچ ہزار تک تھی، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انہیں پتہ تھا کہ مسلمان ہیں لہذا نہانا سب کوہوگا اور پانی دودھ میں ملانے کے لیے اور پینے کے لیئے بھی چاہیے ہو گا؟ عوام سے جو رقم مانگو وہ ملے گی اس کے لیے ممکن ہے کہ یہ بجلی کا ٹریپ ڈاؤن خود ہی کرادیا ہو، تاکہ پچھلے دنوں جو چند ہائی ڈرینٹ نمائشی طور پر بند رہے تھے اور ایک شاہ کے منہ بولے بھائی کو جو اس محکمہ کا وزیر تھا استعفیٰ دیناپڑا تھا۔ وہ پوری ہوجا ئے؟ رہے خواص وہ تو جس طرح باہر سے امپورٹیڈ پانی پیتے ہیں وہ نہابھی بوتلوں سے لیں گے اگر سوکے اٹھ گئے اور نماز کے لیے جانا ضروری سمجھا ؟
 یہ سب کیوں ہوا ؟ اس کے لیے کسی سقراط کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ؟ آپ کے پاس وہ کتاب موجود ہے جس کو ہم نے پسِ پشت ڈالدیا ہے اور ہم اس جرم میں معتوب ہیں ۔ لہذا ہر طرف عذاب کی شکل میں موت دستک دے رہی، ہلاکو اور چنگیز شکل میں داعش میدان میں آچکے ہیں جو اپنی افزائش نسل کے لیے عراق  کےایک شہر میں شادی دفتر بھی کھول چکے ہیں اپنی افزائش نسل کے لیے؟ جن کی معاون دولت کی فراہمی کے لیے وہ طاقتیں جن کے ہاں تیل پانی کی طرح بہتا ہے۔ اس کا حل کیا ہے صرف سزا دینے والے کی طرف رجوع کرنا یعنی توبہ کرنا جو اسی میں لکھا ہواہے۔ ورنہ مزید نت عذاب بھگتنے کے لیے ہم سب تیار رہیں ،کہ محاورہ ہے کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.