مسلمان پاکستان سے پہلے اور بعد میں۔۔۔از ۔۔ شمس جیلانی

    جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تو یہ دیکھا کہ مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندوستان کے کچھ حصوں پر حکومت کر رہے تھے کیونکہ یہ انگریزوں کا طرز حکمرانی تھا کہ جن حصوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں ہندو حکمرانی کا کا انجام دیں اور جہاں ہندو اکثریت میں ہوں وہاں مسلمان۔ مزہ یہ تھا کہ سب بھائیوں کی طرح رہتے تھے اور سب ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بھی۔ یوں مسلمان اکثریت کے جن کو بخوبی قابو میں کیے ہوئے تھے۔  اس پرکمال یہ تھا کہ سب ایک دوسرے کے تیو ہاروں میں شریک ہوتے تھے مگر انہیں احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ الگ شناخت بھی رکھتے ہیں؟ لیکن ایک نادیدہ حصار تھا جس کے اندر مسلمان قلعہ بند تھے اور وہ اس کے ذریعہ اپنی شناخت بر قرار رکھتے تھے اور کبھی اتنے خلط ملت نہیں ہوئے جیسے کہ غیر محسوس طریقہ سے آج ہندو تہذیب کے چنگل میں اب ثقافت کے نام پر ہیں کہ ہندوستاں میں نوبت شادی بیاہ تک پہونچ گئی پاکستان نے یہاں تک تو ترقی نہیں کی مگربچے بچے کی زبان پر ہندوستانی گانے ہیں اور مہندی سے لیکر نکاح تک کی تمام تقریبات پاکستانی تہذہیب کا حصہ بن چکی ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ، ان میں اچھوں کا تناسب بہت زیادہ تھا کہ اس وقت برائی کو برائی سمجھا جاتا تھا اور اس پر نگراں بزرگ تھے اور ان کا سب احترام کرتے تھے وہ کسی نام پر بھی غیر اسلامی ثقافت کو رائج نہیں ہونے دیتے تھے؟   جبکہ برے گنتی کے چند لوگ ہوتے تھے۔وہ کوئی برائی اگر کرتے بھی تھے تو چوری چھپے؟ مسلمانوں کے پیشِ نظر یہ فخر تھا کہ ہم راہ ِ راست پر ہیں اورایک ہی بات کی لگن تھی کہ اسلام کی نشاة ثانیہ کیسے ہو ؟ اس پر مسلمانوں میں دو رائیں نہیں تھیں اور تمام فرقے متفق تھے۔
 حالانکہ فرقے تھے تو اس سوقت بھی تھے مگر فرقہ بندی نام کی کہیں کوئی برائی موجود نہ تھی۔ کہ ایک آواز کہیں سے اٹھی کہ “یہ بد عتی اور وہ بد عتی “ جس سے خلیج پیدا ہو کر بڑھنے لگی، پہلے سنیوں میں تفرقہ بازی پیدا ہوئی اور ملت دیوبندی اور بریلوی عقائد میں بٹ گئی۔ پھرسن چالیس کی دہائی میں شیعہ سننی کشیدگی پیدا ہوئی؟
 لیکن اسی دوران پاکستان کی تحریک شروع ہوگئی اور انہیں نعرہ دیاگیا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اللہ الا اللہ ، سب نے آواز سےآواز ملائی اور فضا “ اللہ اکبر “ کے نعروں سے گونجنے لگی۔ ہندوستان بھر میں اس کارد ِ عمل ہوا اور ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے لہذا اکثریت کے خوف سے مسلمان پھر متحد ہوگئے، اس وقت بنگال سے صرف مولوی فضل الحق مرحوم کی آواز گونجی جوکہ متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے کہ “ اگر ایک مسلمان کو بھی کہیں نقصان پہونچا تو ہم اس کا بدلہ لیں گے “ اس کے صلے میں مسلم امہ نے انہیں شیر بنگال کے خطاب سے نوازا۔ مسلمانوں نے ازسر ِ نو اپنا تنقیدی جائزہ لیا جو تھوڑی بہت برائیاں تھیں ان کو بھی دور کرنا چاہا سوائے نام نہاد “ بد عتوں “ کے کیونکہ یہ مختلف فرقوں کے عقائد کا معاملہ تھا؟ بلا تفریق مساجد بھر گئیں امت نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیا اور وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ یہ اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ پاکستان بن گیا، بنا بھی اس مقدس مہینےاور رمضان شریف کی مقدس ترین رات میں یعنی ستائیسویں رات کو۔
 یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ مسلمانوں کو تیاری کا موقعہ ہی نہیں ملا؟ اتنے میں دونوں طرف فسادات پھوٹ پڑے اور دونوں طرف سے آبادی کا انخلا شروع ہوگیا جوکہ کسی کے خواب اور خیال میں بھی نہ تھا، چونکہ مسلمان فوجوں کو جان کر اغیار نے ملک سے باہر ڈالا ہوا تھا لہذا مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہوا۔ ،سڑکیں غیر محفوظ ہو گئیں، ریلوے جو اس وقت سب سے بڑا نقل و حمل کا ذریعہ تھی وہ راستہ بھی مخدوش ہوگیا ،دونوں طرف خون میں نہائی ہوئی ٹرینیں بچی کچھی لاشوں کو لیکر آنے جانے لگیں، کچھ  لوگ ان کو غیر محفوظ دیکھ کر قافلوں کی شکل میں چلے ان پر بھی راستے میں حملے ہوئے؟ لیکن جن کی موت نہیں لکھی تھی وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان پہونچنے میں کامیاب ہوگئے؟ مقامی لوگوں نے انصارِ مدینہ کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے مہاجر بھائیوں کا استقبال کیا؟
اس پورے عرصے میں کوئی عصمت دری کا واقعہ نہیں ہوا ، زندوں اورمردوں کی جبیں ٹٹولنے کا واقعہ بھی پیش نہیں آیا، جو آج کل عام ہے نہ ہی چوری، نہ ڈکیتی، دھوکہ دہی کاواقعہ پاکستانی علاقہ میں پیش آیا۔
    کہتے ہیں کہ بگاڑ ہمیشہ اوپر سے شروع ہو تا ہے۔ پہلا بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب کہ مسلم رہنماؤں نے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ یہاں اس کی حکمرانی ہوگی؟ اسی کے ساتھ ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا ؟ پھر ہرایک اسلام کے لانے اور احتساب کے نام پر آتا رہا ہے؟ مگر ہم اسلام سے اتنے ہی دور ہوتے چلے گئے ، جتنے کہ پہلے قریب تھے؟ اب ہم پستی کے اس گڑھے کے قریب ہیں جو قرآنی زبان میں دوزخ کہلاتی ہے اور اس کی تپش ہم سب کو جھلسائے دے رہی ہے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے وعدہ خلافیوں کی بنا پر اپنی نصرت روک لی ہے۔ وہ محبت جو ہمارے دلوں میں تھی جس سے مواخات مدینہ ہوئی تھی مہاجر اورانصار کے درمیان،  جس کو مثال بنا کر انصار ِ پاکستان نے ان مقدس نفوس (رض) کے اتباع میں جو خود کو بطور ماڈل پیش کیا تھا وہ جذبہ نہ صرف دھندلاتا چلا گیا بلکہ آج ناپید ہے ۔ جھوٹ وعدہ خلافی نا انصافی وہ لعنتیں ہیں جو باہمی اعتماد کی دشمن ہیں۔ ان کیوجہ سے آج ہم میں باہمی اتحاد اور اعتماد مفقود ہے؟ پہلے ہم ہر مسلمان پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرلیتے تھے۔ مجھے سندھ میں رہنے کی وجہ سے وہاں کاتجربہ ہے کہ کسی کے دروازے پر چلے جاؤ اور کہہ دو کہ ہم مہمان ہیں؟  گھر پر مرد بھی نہ ہو، تو بھی خواتین کھانا دیدیتیں۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی ہمدردی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ دھوکہ دہی کی واردات نہ کر جائیں چور اور ڈاکوؤں کے ساتھی نہ ہوں؟
   ہمارے رہنماؤں نے یہ سوچ کر کہ وعدہ کرکے پھرنا برائی نہیں ہے، اسی روش کو عوام کے ساتھ بھی جاری رکھا کہ الیکشن کے لمبے چوڑے وعدے کرو اور پھر کانوں میں روئی دے لو،اور کہہ دو کہ وعدے قر آن اور حدیث نہیں ہوتے؟ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں؟علماءکا اتحاد بنا وہ کہیں کہیں پر بر سرِ اقتدار بھی آیا، لیکن کیا وہ حسب وعدہ پرانے بھاؤ اور خلافت راشدہ واپس لاسکے، جو انہوں نے بھٹو صاحب کے دور میں عوام سے وعدے کیئے تھے؟ضیاءا لحق ایک قدم اورآگے گئے کہ انہوں نے اقتدار پرقبضہ کرتے وقت کہا کہ دوسرے صرف زبانی جمع خرچ کرتے رہے، میرا وعدہ ہے کہ میں اسلام کو پاکستان میں عملی طور پر ہر شعبہ میں نافذ کرونگا ! مگروہ گیارہ سال میں نہیں کرسکے؟ پھرمشرف صاحب تشریف لے آئے انہوں نے عوام کو اسلام کی ڈگر سے ہٹا کر پاکستان کو ماڈرن بنا نا چاہا، وہ بھی جذوی طور پر کامیاب ہو سکے اوران کے گرد وہی لوگ جمع ہوسکے جو مفاد پرست تھے کیونکہ ابھی تک یہ ملت اس کے باوجود کہ اس میں تمام خرابیاں آگئیں ہیں ! اپنی تمام پریشانیوں کاحل اسلام میں ہی ڈھونڈتی ہے۔ جبکہ عمل کے اعتبار سے اسلام سے بہت دور چلی گئی ہے؟ اب آگے کیا ہونے جا رہا ہے اللہ جانتا ہے؟
   وجہ وہی ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی وہی کام کیا جو جانے والے کرتے آئے تھے۔ یعنی جھوٹے وعدے، بجلی کا بحران ہم چٹکی بجا تے ہی حل کر دیں، بد عنوانیاں دور کر دیں گے، سب کو روزگار مہیا کردیں گے؟ جبکہ انہیں معلوم تھا کہ بجلی گھر ایک دن میں نہیں بنا کرتے، اس سلسلہ میں گزشتہ حکومت کی ناکامی بھی دیکھ چکے تھے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کر تے نہیں ہواور اللہ کو یہ بات سخت نا پسند ہے(سورہ الصف آیات ١،٢)
اب جو رہنما بطور حزب ِاختلاف میدان میں ہیں وہ بھی وہی کام کر رہے ہیں یعنی گمراہ کن وعدے ؟ ان میں ایک جماعت وہ بھی شامل ہے جو کہ ایک صوبہ پر حکمراں ہے۔ وہ بھی اپنے وعدے وہاں پورے نہیں کر سکی گوکہ اس نے مخلصانہ کوشش کی،اور نہ ہی کوئی ان حالات میں پورے کرسکتا کیونکہ جب معاشرہ پورا کا پورا بد عنوان ہو تو وہ کل اور پرزے کہاں سے آئیں گے جو انقلاب بر پا کر کے اسے چلا سکیں؟ یہ ا نقلاب بھی جس کے آج کل نعرے لگ رہے ہیں اور تاریخیں دی جارہی ہیں یا تو مزید خون خرابے پر متنج ہونگے؟ اور اگر کسی اور کے اشارے پر ہورہے ہیں تو وہی ہو گا جو اب تک ہو تا آیا؟ کہ ً بی فاختہ ہمیشہ کی طرح انڈے دینگی اور سہیں گی بعد میں انہیں کوئے کھا جا ئیں گے؟ اب آپ پوچھیں گے کہ اس کاحل کیا ہے وہ بھی قرآن نے ہمیں بتایا ہوا ہے کہ “ اگر تم سے کوئی غلطی ہوجائے تو مجھ  (اللہ )سے ہی رجوع کرو توبہ کر کے آؤگے تو میں معاف کردونگا۔ اللہ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرما ئے ( آمین) اس یوم ِ استقلال سے من حیثیت القوم اس پر عمل پیرا ہوں۔ تاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ راضی ہو جا ئے اور عذاب ٹل سکے۔
 مگر یہ سب کچھ ہوگا کیسے؟ کیونکہ ہم برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں جو توبہ کریں۔ لیڈروں میں سے بشمول اسلامی جماعتوں کے دستور کی اسلامی دفعات کے نفاذ کی کوئی بات نہیں کرتا سوائے طاہر القادری  صاحب کے جوکہ اس پر خود عمل کرتے ہوئے ہمیں دکھائی دیتے؟ا جب تک ایسا کوئی  نہیں ملے گا، جو اسوہ حسنہ (ص) کو اپنائے کام کیسے بنے عوامی دباو اس سلسلہ میں پیدا کیسے ہوگا جبکہ مسلمان کہلانے کے باوجود عوام الناس کی اکثریت برائی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.