جھوٹوں کی لڑائی اس پر چوروں کی گواہی۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

       پرانے زمانے میں آگ سے آگ سلگا ئی جاتی تھی، پھر اسے اچھی طرح بھڑکاتے تب کہیں جاکر کھانا پکانے کی نوبت آتی۔اگر وہ بجھ جاتی تو دوبارہ جلانے کے لیے یاتو برابر والے گھر یا بستی سے مانگ کر لاتے تھے۔ ورنہ ایک درخت عرب میں پایا جا تا تھا جس کی دو شاخوں کو آپس میں رگڑ کر پیدا کر تےتھے۔ اس کا ذکر قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے فردیا تھا۔ اُس وقت یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ اس کی وجہ انسانوں کو معلوم نہ تھی ۔ جبکہ وہ صرف عرب میں ہی پایا جاتا تھا یا دنیا کے اوربھی خطے بھی اس سے کام لیتے تھے یہ ابھی تک صیغہ راز میں ہے ۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتاہے کہ آگے سلگانے کے لیے کافی وقت اور سفر درکار ہو تا ہوگا۔ اسی لیئے چنگاری کو اسوقت بہت سنبھال کر اور راکھ کے ڈھیر میں بہت گہرا دبا کر رکھتے تھے۔ کیونکہ گھر گھاس پھوس کے تھے اور آگ پکڑنے میں دیر نہیں لگتی تھی؟ اس کے بعد انسان نے چقماق ( پتھر) معلوم کر لیا اور آگ پیدا کر نا بہت آسان ہو گیا۔ پھر ماچس کا دور آیا جس سے آگ جلانے کے لیے “ تِیلی دکھانے کا“  محاورہ معرض وجود میں آیا۔ لیکن بجلی کی دریافت کے بعد اب یہ وجہ ہر بچے کو بھی معلوم ہے کہ دوچیزوں کو مستقل رگڑ نے سے حدت پیدا ہوتی ہے جو آگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جس کا آئے دن آگ بھڑکنے کا مشاہدہ جہاں جنگلات ہیں وہاں عام ہے۔ بجلی کی مزید ترقی سے پھر یہ دریافت ہوا کہ اگر چنگاری کو کچھ فاصلے سے جمپ کرائی جائے تو بھی آگ پیدا ہوسکتی ہے ؟لہذا تیلی دکھانے کی اب ضرورت بھی نہیں رہی آجکل ہم اور ہمارے علاوہ جو فضاؤں میں اڑرہے ہیں وہ اسی دریافت کا کرشمہ ہےاس پر طرہ یہ کہ سب کچھ دور بیٹھ ریموٹ سے کنٹرول ہو تا ہے لہذا کوئی دیکھائی بھی نہیں دیتا؟ چونکہ یہ بہت ہی وسیع مضمون ہے اگر تفصیل میں جا ئیں تو صفحات ناکافی ہونگے ،دوسرے ڈر بھی ہے کہ ہمارے علماءیہ کہتے ہیں کہ قر آن سائینس کی کتاب نہیں؟ ۔ جبکہ ہم جیسے جاہلوں کو ہر علم کی بنیا دغور کرنے سے وہیں نظر آتی ہے ،جو ابھی تک نظر نہیں آئی وہاں تک انسانی علم نہیں پہونچا؟ چلیے اس بحث کو چھوڑ کر بزرگوں کا قول لیتے ہیں کہ چنگاری ہمیشہ دبا کے رکھو، ورنہ آگ لگ سکتی ہے۔ نواز شریف صاحب سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ آگ کی بھٹی کیسے سلگائی جاتی ہے اور پتھر کیسے بھٹی کو سلگانے میں مدد گار ہوتے ہیں اور جب لوہا تپ جا ئے تو انتہائی ٹھوس دکھائی دینے کے باوجود وہ پھلجھڑی بن کر ہوامیں تحلیل ہو جاتا ہے؟
انہوں نے نہ اپنے تجربات سے فائدہ اٹھایا نہ بزرگوں کے اقوال سے، جو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ خون ِ ناحق رائیگاں نہیں جاتا،نقل میں کوئی عقل نہیں ہو تی ،دوسرے یہ کہ بڑا نوالہ کھالو۔ مگربڑی بات نہ کرو، پھر آگے قرآن ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے “ تکبر میری چادر ہے اس سے دور رہو“
 انہوں نے پہلے تو چنگاری کو حقیر سمجھ کر اس پر راکھ ڈالنے کے بجا ئے اسے اوپر آنے اور بھڑکنے دیااور جب بات اتنی بڑھی کہ خون بہانا پڑگیا تھا؟ تو بھی وہ اگر اس وقت  انصاف کی راہ میں حائل نہ ہو تے تو بات اتنی نہ بڑھتی، مگر وہ جہاں آٹھ سال جلا وطن رہے ہیں؟ ان کے فلسفہ سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ انہوں نے طرز حکمرانی بھی وہی اپنا لیا کہ صرف اپنے قبیلہ کو حکمراں رکھو، ہر عہدہ انہیں کو دو ؟یہ نہیں سو چاکہ وہ ایسے کسی قبیلہ کے سربراہ نہیں ہیں، جس کا قبیلہ عربوں جیسی روایتی قبائیلی عصبیت کی بنا پر ان کا ساتھ دے؟
 اس کے برعکس پاکستانی ایک قوم ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کے شیدائی ہیں وہ بھی اصلی اسلام کے کسی اور چھاپ کے نہیں ۔ لہذا ان میں “ نیکو کار “ پیدا ہو تے رہیں گے۔ اور اسلامی قدروں کی بات کریں گے اور حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق عوام پرظلم نہیں توڑیں گے کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والے بھی ظالموں کے زمرے آتے ہیں ، دوسرے چاہیں عوام خود دین پر عامل ہوں یا نہ ہوں ؟ مگر پھر بھی وہ دہرائیں گے ضرور حضرت ابو بکر (رض) کے الفاظ  “ میں جب تک قرآن اور سنت پر چلوں تو میرا اتباع کر نا ، جب مجھے غلط راستے پر دیکھو تو روک دینا؟ حضرت عمر (رض) کے الفاظ  “ اگر ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوکا مر جا ئے تو عمر ذمہ دار ہے، پھر انہیں حضرت عثمان (رض) کے الفاظ بھی یا دہیں کہ “ چاہیں میری جان چلی جائے میں اپنے لیے مسلمانو ں کاخون بہتانہیں دیکھ سکتا  “ وہ باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول دہرا ئیں گے کہ “ انسان کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں “ کیونکہ وہ اپنے حکمرانوں کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ یہاں بسم اللہ ہی غلط تھی کیونکہ ضیا ءالحق کی شاگردی اور اس کے انجام سے بھی انہوں نے کچھ نہیں سیکھا ؟ جو سب کو پیچھے چھوڑ کر اور یہ نعرہ لیکر آئے تھے کہ “ میں اسلام  کوعملی طور پر نافذ کرونگا ،جو پہلے والے نے دستور میں دفعات ہو نے کے باوجود نافذ نہیں کیا  “اور ان کی منکسر المزاجی بھی نہیں اپنا ئی کہ تمام طاقت کا سرچشمہ ہو نے کہ با جود وہ ہر ایرے غیرے کو دروازے تک لینے اور چھوڑ نے آتے تھے؟ جبکہ میاں صاحب سے ملنے کے لیے عوام تو عوام، سینٹ، پارلیمنٹ اوروزاءتک ترستے ہیں؟ بلکہ اس کے برعکس اس بات پر خاموش رہ کر اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھاکر مجرمانہ غفلت برتی کہ “ اگر یہ دفعات نافذ کر دی گئیں تو سوائے مولویوں کے اسمبلیوں میں کوئی نہیں آئے گا؟ اور اس کے نتیجہ میں کسی غیبی اشا رے کی بنا پر تمام چھان بین بند کر دی گئی کہ قابلِ انتخاب لوگ جو سب پارٹیوں کی اساس تھے وہ اس پر پورے نہیں اترتے تھے؟ اس پر ظلم انہوں نے یہ کیا کہ خود ایسے وعدے کرڈالے جن پر عمل نہیں کر سکتے تھے ؟ جبکہ وہ اس پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے تجربہ نہیں تھا کیونکہ وہ کئی مرتبہ کے وزیر اعلیٰ اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم ہو کر تشریف لا ئے ہیں، یہ درست ہے کہ ان کے اصل مخالف عمران خان بھی اپنی وعدے پورے نہیں کر سکے ؟ مگر وہ یہ کہہ کر جان چھڑا سکتے ہیں ،قائد اعظم کی طرح کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ “ میری جیب کے سارے سکے کھوٹے ہیں “
 انہوں نے تاریخ سے بھی سبق نہیں لیا کہ یہاں آج تک جو بھی آیا، یا جس نے تختہ الٹا اسلام کے نام پر ہی الٹا کسی نے اصل اسلام لا نے کی بات کی کسی نے مساوات ِاسلامی کی بات کی اور کسی نے ماڈرن اسلام کی؟ اب بھی دو کھلاڑی میدان میں ہیں ۔ میرے نزدیک ان میں سب سے اہم طاہر القادری صاحب ہیں ۔ کیونکہ وہ اسلامی انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ واضح رہے میں کبھی ان کے معتقد ین میں شامل نہیں رہا، ثبوت یہ ہے کہ ہمیشہ ان کے خلاف لکھتا رہا ہوں ؟ لیکن میں اس کا قائل ہوں کہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہاہے، یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟
 چند دن پہلے ٹی وی پرایک بہت ہی بزرگ صحافی جو کہ کبھی عمران خان کے طرف دار تھے ،اب پتہ نہیں کہ ہیں یا نہیں؟ کہہ رہے تھے کہ جتنے بریلوی تھے وہ تو نکل چکے اب مزید نہیں نکلیں گے اور عمران خان نے ان کا ساتھ دیکر اپنی سیاسی تنزلی کا آغاز کردیا ہے ؟ اس طرح وہ تاثر دے رہے تھے کہ علامہ طاہر القادری بریلویوں کے ترجمان ہیں ۔ اس کا مقصد شاید اہلِ تشیع کے بعد اب بریلویوں اور دیوبندیوں میں سر پھٹول کرانا ہے ۔ جبکہ طاہر القادری نہ بریلوی ہیں نہ دہلوی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہی سب کچھ ہیں ۔ جن کو انہیں وجو ہات کی بنا پر پر کوئی فرقہ بھی پسند نہیں کر تا، سوائے ان کے اپنے ماننے والوں کے؟ اگر موصوف کی مراد اس سے وہ اسلام ہے جو صوفیا ئے کرام سے چلا آرہا ہے جس کے آخری سرخیل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) یا دیوبند کے بانی حضرت امدا اللہ مہاجر مکی (رح) تھے تو وہ غلطی پر ہیں؟ وہ تو ابھی تک اس صوبے میں بھی برابر ہیں جو ان کے مخالفین کا گڑھ ہے؟ جو اس بیان سے ظاہر ہو تا ہے کہ جو مر کزی رویت ہلال کمیٹی کے چیر مین مفتی منیب الرحمان صاب نے فرمایا کہ “ ہماری اور ان کی مساجد تعداد میں برابر ہیں ،اسی سے وہ باقی پاکستان کابھی اندازہ کرسکتے ہیں۔ اگر اس سے مراد وہ فرقہ ہے جو مولانا احمد رضا خان  بریلوی (رح) کا اتبا ع کرتا ہے تو یہ نہ خود کو ان کا پیرو کہتے ہیں نہ وہ انہیں اپنا کہتے ہیں۔البتہ یہ ماننا پڑیگا کے ایک زمانے میں نواز شریف صاحب ہی طاہر القادری صاحب کو میدان میں لا ئے تھے۔ جوکسی وجہ سےبعد میں ذاتی دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔ جس کا قوم اب خمیازہ بھگت رہی ہے۔ جب میں یہ سطور اخبار کو بھیج رہا ہوں ابھی تک صورت حال میں سوائے اس کے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہو گیا ہے اور وہ اس قتل عام پرحکمرانوں کی پیٹ ٹھونک رہی ہے؟ کیونکہ اگر فائلیں کھلیں تو چھٹی سب کی ہو جا ئے گی سوائے دوبارہ انتخابات کے کوئی اور چارہ کار نہیں ہو گا، اسے مزید سہارہ دینے کے لیے افواہوں کا زور ہے ، بے انتہا مقبولیت ثابت کر نے کے لیے نئے سروے لا ئے جا رہے ہیں جو مضحکہ خیز ہیں اگر خون بہانے کے بعد بھی کسی کی مقبولیت کا گراف بڑھ سکتا ہے؟ تو پھر بجا طور پر کہنا پڑے گا کہ پاکستانی قوم اس طرزِ حکمرانی کی بطور عذاب مستحق ہے؟ صورت ِ حال انتہا ئی متنازع ہے ۔ کبھی ان کا پوا بھاری ہوجاتا ہے کبھی ان کا ، دونوں طرف سے دعوؤں اورالزاموں کی بھر مار ہے۔  جبکہ ملک کی کسی کو فکر نہیں ہے جومعاشی طور پر پہلے ہی بد حال تھا اب مزیر تباہ ہورہا ہے؟ دنیا لین دین کرتے ہوئے موجودہ حکومت سے گھبرارہی ہے لہذا محب الوطنی تقاضہ یہ ہے کہ ذاتی عناد چھوڑ کر اس تعطل کو فوری طور پر ختم کیا جائے ۔ جس کی بظاہر دونوں طرف سے امید نہیں ہے ۔آئیے دعا کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے( آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.