واقعی کیا جاگ رہا ہے پاکستان۔۔۔ شمس جیلانی

آج جو حصہ پاکستان کہلاتا ہے اور جو پہلے صرف مغربی پاکستان کہلا تا تھا ، شاید اپنی قسمت میں ہی اشرافیہ کی غلامی لکھا کر لا یا تھا۔ جہاں ابھی تک دنیا کا سب سے فرسودہ نظام چل رہا ہے اوراس کے نتیجہ میں اس پر آج تک وہ راج کر رہی ہے۔ اس سے پہلے جب مشرقی پاکستان اس میں شامل تھا یا وہ مغربی پاکستان میں شامل تھا۔ تو انہوں نے 1945 ءکے الیکشن میں ا شرافیہ سے جان چھڑالی تھی کیونکہ وہاں سے زیادہ تر درمیانہ طبقے اور نچلے طبقےکے لوگ اسمبلی میں بھیجے  گئےتھے۔ مگر ان کے ساتھ  پاکستان میں مرکز کی نہیں بنی او ر اس کے نتیجہ میں 1954 ء  کےصوبائی انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست دی اور تین سو دس کے ایوان میں صرف وہ چند سیٹیں حاصل کر سکی ۔     چونکہ وہ سرمایہ داری ،جاگیرداری اور زمینداری کے ڈسے ہو ئے تھے۔ لہذا ان کا منشور تھا کہ وہ کامیاب ہو کر یہ تمام برائیاں ختم کردیں گے جوکہ انہوں نے ختم کردیں اور ہندو اشرافیہ جو انگریز کی پالیسی کی وجہ سے مارواڑی بنیوں اور ہندو زمینداروں اور جاگیرداروں کی شکل میں صدیوں سے ان پر راج کر رہی تھی اس کو جڑ سے اوکھاڑ پھینکا ۔  پھراسی متحدہ محاذ کی ایک پارٹی عوامی لیگ کے سربراہ جناب حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے جبکہ ان کی حکومت میں مغربی پاکستان کی ریپبلکن پارٹی بھی شامل تھی جو کہ آج کی طرح اس وقت بھی اسی اشرافیہ کے آبا و اجداد پر مشتمل تھی؟
جب سہر وردی مرحوم نے لا ہور کے موچی دروازے میں ایک بہت جلسے عام سے خطاب کر تے ہو ئے فر مایا کہ یہاں کئی زمینداروں کے پاس پچھتر ہزار ایکڑ سے بھی زیادہ زمین ہے میں ان سے لیکر مزار عوں او ر ہاریوں میں تقسیم کر دونگا ؟تو ان کو صدر اسکندر مرزا نے ایوان صدر طلب کر کے پہلے ایوب خان کا چہرے کی زیارت کرائی اور ایوان صدر سے جب واپس جانے دیا جب استعفٰی لے لیا۔ وہ کہتے ہی رہ گئے کہ مجھے پارلیمنٹ کے سامنے جانے دیجئے۔اگر میں اعتماد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو میں خود استعفٰی دیدونگا مگر ان کی ایک نہیں سنی گئی۔
جو جیسا کرتا ہے ویساہی بھرتا ہے ۔اس کے بعد اسکندر مرزا جو فوج کے بل بوتے پر صدر بنے ہو ئے تھے ۔اور فیروز خان نون جو سہروردی صاحب کی غیر مشروط سپورٹ پر وزیر اعظم تھے انہوں نے یکے بعد دیگرے دونوں کی چھٹی کر کے مارشل لاءلگا دیا ، عوام بہت خوش ہو ئے۔ چونکہ عوام کے کانوں میں یہ بات پڑ چکی تھی کہ زمینداری بھی ختم بھی ہو سکتی ہے۔ان  کےآنسو پوچھنے کے لیے انہوں نے ایک ہزار ایکڑ تک حد رکھی اور بڑے زمینداروں نے پٹواریوں وغیرہ سے ملکر جو اچھی زمین تھی وہ اپنے آئندہ پیدا ہو نے والے بچوں تک کے نام منتقل کردی؟ جو ناکارہ تھی وہ انہوں نے چھوڑدی وہ ایوب خان کی حکومت نے کاشتکاروں میں تقسیم کر دی؟
پھر ایوب خان کے ما رشل لاءکی کوکھ سے ہی بھٹو صاحب نے جنم لیا اور انہو نے طالع آزمائی شروع کی وہ انتہائی صلاحیتوں کے مالک اورذ ہین آدمی تھے۔ انہوں نے بھی عوام سے یہ ہی وعدہ کیا کہ میں زمین ہاریوں میں بانٹ دونگا۔ انہیں بے انتہا کامیابی  اپنے “ نعرے روٹی کپڑا اور مکان “ کی وجہ سے ہوئی اور وہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کر گئے ۔ پاکستان کا نصف حصہ اس مرتبہ بھی مشرقی پاکستان کے نمائندوں کی شکل میں پھٹے حال لو گوں پر مشتمل تھا، جو عوامی لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو ئے تھے اور اس پوزیشن میں تھے کہ وہ کسی چھوٹے صوبے کو ساتھ لے لیتے تو حکومت بنا سکتے تھے؟ لہذا عافیت ان سے جان چھڑانے میں سمجھی گئی اور ان سے نجات حاصل کر کے بھٹوصاحب برسرِ اقتدار آگئے، انہوں نے بھی مزید آنسوپوچھنے کی کوشش کی، انہیوں نے زمینداری کی حد ایک ہزار ایکڑ یا 36 ہزار یونٹ سے گھٹاکر پانچسو ایکڑ (18000)یونٹ کر دی اور مالکان کو اجازت تھی کہ وہ اتنے عرصہ میں اپنے اہل ِ خاندان کے نام  زمین منتقل کر سکتے تھے۔ جو انہوں نے کر لی البتہ جو سرکاری زمینیں تھیں وہ ہاریوں کو نام منتقل ہو گئیں ان میں سے زیادہ انہیں زمینداروں کے بچو ں کے پاس گئیں ۔ کیونکہ بھٹو صاحب کا خاندان خود پچیس ہزار ایکڑکا مالک تھا اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھی اشرافیہ میں سے  ہی تھے۔
ا ب عمران خان آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی پارٹی میں سب تو نہیں مگر کچھ سیٹیں چھٹ بھیوں کو دیں ۔جو کہ زیادہ تر جیت نہیں سکے ؟ انہوں نے بے انصافی کے خلاف چلائی اور آج کل دھر نا دیئے بیٹھے اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہو چکا ہے اورجاگ کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ جیسے کہ اسوقت سہروردی صاحب کی للکار سے ہو ئے تھے۔ جس سے غریب عوام کے نا چاہتے ہو ئے بھی حکمرانوں کو آنسو پوچھنے پڑے؟
جس کے روز بروز ثبوت سامنے آرہے ہیں کہ اشرافیہ کا رعب روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کل ایک ٹی وی پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب گنا رہے تھے کہ ایک گدھا گاڑی والا سندھ کے چیف منسٹر کے شاہی جلوس میں اپنی لا علمی کی بنا پر حائل ہوا تو ان کی شاہی سپاہ نے دھنائی کر دی ؟ عوام اس کی حمایت میں نکل آئے اور وزیر اعلیٰ نے خود عوام کے سامنے پیش ہو کر معذرت فرمائی، مگر انہوں نے سید باشاہ کی بات بھی نہیں مانی؟ مجبورا“ انہیں راستہ بد لنا پڑا؟ دوسرا واقعہ وہ بھی بہت مشہور ہوا کہ جس کے پسِ پردہ ایک نو دولتیہ سنیٹر تھے پاکستان ایر لائن کا جہاز ان کے لیے لیٹ کیا جارہا تھا؟ اور ممبر قومی اسمبلی کو جو باہر ان کا انتظار کر رہے تھے یا وہ وی آئی پی لا ؤنج میں بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے لو گوں کے غضب کا شکار بنے لوگوں نے انہیں اندر داخل نہیں ہو نے دیا؟ تیسری بات انہوں نے یہ بتا ئی کہ شریف خاندان کے افراد جہاں جارہے وہاں لوگ  “گو ، گو  “کے نعرے لگا رہے ہیں جبکہ ایک جگہ تو ان میں سے ایک صاحب پر جو تا بھی پھینکا گیا مگر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی کے وہ ان کو لگا یا نہیں؟ جوتا پھینک  کرمارنے کی تاریخ بہت پرانی ہے اس سے بڑوں بڑوں کی خاطر ہو ئی جس میں مراثی سے لیکر پاکستان کے سابق صدور ، وزیرائے اعظم اور سپر پاور کے صدر تک شامل ہیں؟ مگر اس میں نشانہ ہمیشہ خطا ہو جاتا ہے اور تارگیٹ زیادہ یہ کہتے سنا گیا کہ میرے لگا تو نہیں یا میرے آدمیں اس کے جواب میں جو جوتا مارنے والے کی درگت بنا ئی وہ آپ نے نہیں دیکھی ؟ گو کہ کہن ا ور جوتا مارنا علامتی چیزیں ہیں؟ جو کہنے سے یا پھینکنے سے غیرت مندوں اور صرف غیرتمندوں پر اثر کرتی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف دو ایسے آدمی گزرے ہیں ایک  جوعوامی مطالبہ پر مستعفی ہو گئے ایک تھے چو دھری محمد علی جن کا یہ احسان اتار نے کے لیئے مہاجروں نے ان کے بنگلے پر جا کر مطالبہ کیا کہ استعفیٰ دیدو؟ کیونکہ انہو نے باقی ہندوستان کے مہاجروں کی چھوڑی ہو ئی جائیداد کے لیے ایک  قانون بنا یا اور ان کو بھی مہاجر تسلیم کیا؟ جبکہ ان سے پہلے والوں اور زیادہ بعد والوں نے صرف باتیں بنا ئیں اور وہ مقبول بھی رہے اور ہیں؟  مگر اس سے جوآجکل خائف ہیں انکو سوچنا چاہیئے کہ بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ چودھری محمد علی کہا ں سے لا ئیں گے؟دوسرے تھے ایوب خان  جو استعفٰی مانگنے نہیں مگرانہوں  نے غیرت دلانے پر صدارت چھوڑدی؟
اب میدان عمران خان کے ہاتھ ہے ۔ آئندہ کیا ہوگا کون جانتا ہے کہ سب کے لیئے جو الیکٹ ابیل ہیں وہ ان کی مجبوری ہیں؟اور جب وہ انہیں ساتھ لے لیتے ہیں تو وہ لیڈر بھی مجبور ہو تے رہے ہیں لیکن اب امید اس لیے بڑھ رہی ہے کہ خود اس طبقہ نے اپنے ہاتھوں خود کشی کی ہے ۔ تمام زمین سے ہاریوں کو بے دخل کر کے اس کو میکنایئزڈ فارمنگ میں منتقل کر دیا ہے اور مزارعے یا ہاری جو پہلے شہر کی طرف دیکھتے تک نہیں تھے اب رہتے شہروں میں ہیں ۔ فصل کی کٹائی وقت گاؤں میں مزدوری کرنے چلے جا تے ہیں جبکہ ان کے ووٹ دیہاتوں میں ہی درج ہیں۔ بچے پڑھ لکھ کر بیدار ہو چکے ہیں ؟ اگر عمران خان اپنے وعدے پورے کر سکے تو تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے جا وداں ہو جا ئے گا۔
فل الحال تو یہ ماننا پڑیگا کے انہوں نے عوام میں جرا ءت اوربیداری پیدا کردی ہے۔اور علامہ صاحب کے با ریش ساتھیو تک کو نا چنے پر مجبور کر دیا ہے؟ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں ان کو گروپ کو ناچتا دیکھتے ہو ئے تحریک ہو ئی ہے ۔ یا وہ بزرگ اس صوفیوں کے  طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ملا متیہ کہلاتا تھااور لوگوں میں اپنے خلاف نفرت اس لیے پیدا کر تھا کہ لوگ ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالیں ؟ مستقل میں ان دونوں گروپوں کے ساتھ چلنے کے امکان بہت کم ہیں کہ طاہر القادری صاحب کے خلاف سارے سعودی نواز ہیں جو میدان  میں کود نے کے لیے پر تول رہے ہیں ۔اور سعودی عرب کو یہ فخر حاصل ہے کہ پاکستان کے تینوں بڑے عہدے اس کی جیب میں ہیں ۔ اور لاکھوں مدرسوں میں پڑ ھنے والے طالب علم یا طالبان جو نام بھی نام دیں مگر وہ  سب اس کے ہیں ۔   لہذا یہ آسان نہیں ہے  کیونکہ حکومت سارے سعودیوں کے آزمودہ حربے بھی استعمال کریگی؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.