ہر بات پہ ابتودھرنا ہو گادھرنا ہوگا دھر نا ہو گا۔ لیکن اس کے برعکس جو اہلِ نظر ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ “ ظلم ہٹے گا جب ہی ہم سے ہم سب کو رب کی مرضی پر چلنا ہوگا“ عمران خان صاحب اور طاہر القادری صاحب سے بہت عرصہ سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں اور سب سمجھ رہے تھے کہ برے دن اب جانے والے ہیں؟ جبکہ ہم مذبذب تھے کیونکہ ہمیں شروع سے ہی بیل منڈھے چڑھتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ عمران خان کا قبلہ اور تھا اور قادری صاحب کا اور؟ ان کے مطالبے اور تھے اِن کے مطالبے اور ۔ مگر ہم نے یہ دیکھا کہ قادری صاحب نے اس حد تک لچک دکھا ئی کہ اپنے کیمپ میں رقص با ریش اپنے مریدوں کوکرنے کا حکم دیدیا ؟ اب آپ کہیں گے کہ یہ تہمت ہے اورحکم نامہ دکھا کر ثابت کرو۔ بھائی جواب یہ ہے کہ پیر طریقت کی مو جودگی میں مریدوں کا رقص منعقد ہو ئی ہی نہیں سکتا جب تک پیر حکم نہ دے۔ ان کایہ رقص خود اس بات کا ثبوت ہے کہ حکم دیا گیا ورنہ نورانی ہستیوں کو کو ٹی وی والے رقص کرتے ہو ئے کیسے دکھا سکتے تھے جب تک کہ مرید اپنے رقص سے ان کے دل نہ موہ لیتے۔ادھر بھی بچے یاجوان رقص کر رہے ہوتے تو ہم مان لیتے کہ وہ دوسرے کیمپ کے اپنے ہم سنوں سے متاثر ہو گئے ہونگے۔ کیونکہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ہمارے جیسے سوچ رہے ہونگے کہ اب وہ کس کا دامن پکڑیں، کیونکہ جن (ص) کا دامن پکڑنے کا ہمیں حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا یہ فرماکر کہ “ تمہارے نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے لیے کافی ہے “ وہ دامن تو مدت ہوئی ہم چھوڑ بیٹھے۔ جب سے بھٹک کر نئے نئے تجربے کر رہے ہیں ۔ جبکہ صورت ِ حال یہ ہے کہ اس کے بعد اب تک جس کا بھی دامن پکڑا، ناامید ی ہوئی، حالانکہ وقت کے دانشور اور مسلم رہنما یہ کہتے رہ گئے کہ جو خود عملی طور پرمسلمان نہیں ہیں ان کے پیچھے چل کر فلاح کیسے پا ؤگے؟
پچھلی صدی میں ہمارے ایک بزرگ نے یہ فتویٰ دیکر مزید راہیں کھول دیں کہ “ بڑی برائی سے چھوٹی برائی بہتر ہے“ نتیجہ یہ ہوا کہ اس طرح ہم سے وہ آئینہ بھی چھن گیا جو صدیوں سے ہمارے پاس چلا آرہا تھا کہ جو کہے کہ میرا اتباع کرو؟ تو پہلے یہ دیکھو کہ اس کا کوئی فعل اسوہ حسنہ (ص) کےخلاف تو نہیں ہے؟ بجا ئے اس پیمانے کہ اب یہ جاننا ہماری اپنی صواب دید پررہگیا کہ ہم خود دیکھیں کہ کون کم برا ہے؟ اور اس کا اتباع کریں لہذا آجکل لوگ دو دھڑوں میں بٹ گئے ہیں کہ ایک کے خیال میں وہ بہتر ہیں جو چھپ کر مجرے سنتے اور بیابانوں میں محافل رقص وسرود منعقد کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ اس کا حامی ہے کہ برائی بھی چھپ کر کر نا منافقت ہے بہتر وہ ہیں جو کھلم کھلا رقص کر رہے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ قوم مار پر مار کھا رہی، ہنوز تجربات جا ری ہیں اور ہم روز بروز اسوہ حسنہ (ص) سے دور ہو تے چلے جا رہے ہیں؟ جس طرح جو بوکر گندم نہیں حاصل کیے جاسکتے اسی طرح نبی کو چھوڑ کر اللہ کو راضی نہیں کیا جاسکتا؟
جو وقت اس وقت ہمارے اوپر پڑا ہے یہ اسی کانتیجہ ہے! وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ “ میں کسی کوسزا دیکر خوش نہیں ہوں بس تم میری بات مان لیا کرو “ وہ بات کیا ہے؟ ایمان لاکر احکامات پر عمل کر نا؟ اگر ہم اللہ کے پسندیدہ بندے بننا چاہتے ہیں تو نبی (ص) وہ نمونہ ہیں جو یہ فرماکر ہم کو قیامت تک کے لیے عطا کر دیا گیا ہے کہ“ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کا اسوہ حسنہ کافی ہے“ ان کی پوری زندگی ہما رے سامنے ہے ۔ جب بھی کوئی مشکل وقت آیا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے ، رو ئے گڑ گڑائے کہ اے اللہ ! یہ مٹھی بندے جو تیرے نام لیوا ہیں اگر کام آگئے تو پھر تیرا کوئی نام لیوا نہیں بچے گا ۔اپنی نصرت سے ہمیں نوازدے “
قر آن گواہ ہے ،دعا قبول ہوئی اس نے نواز دیا ۔ وہ مٹھی بھر مسلمان جن کے پاس سواری تک نہیں تھی ،اسلحہ نہیں تھا وہ ایک ہزار سے زائد بہترین مسلح فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری مثال میں نتیجہ ا س سے مختلف نکلا کہ انہیں مقدس ہستیوں (رض) میں سے کچھ تیر اندازوں نے نبی (رض) کے حکم کے خلاف کیا اور شکست کھائی، پھر اپنی غلطی پر نادم ہوئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمائی اور وہی شکست خوردہ فوج پھر جیت گئی۔ تیسری مثال غزوہ خندق کی ہے کہ دس ہزار سے زائد فوج مسلمانو ں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آگئی اور اس نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ سابقہ تجربہ ان کے سامنے تھا اس مرتبہ انہوں نے پورا پورا خیال رکھا کسی نے بھی سر بہ مو حضور (ص) کے کسی حکم سے انحراف نہیں کیا ۔ ان کی ثابت قدمی سے متاثر ہو کر نہ صرف غنیم کو ہوا اور طوفان بھیج کر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پسپا کردیا بلکہ مزید کرم یہ فرما یا کہ یہ خوش خبری عطا فرمادی کہ اب یہ تمہارے مقابل آئندہ اکٹھا ہو کر نہیں آسکیں گے ؟
حضور(ص) کے بعد بھی بہت سی مثالیں ہیں جہاں مسلمان قلیل تعداد میں ہو نے کے باوجود فتح یاب ہو ئے، مگر سب کے یہاں ایک بات مشترکہ تھی کہ وہ اسوہ حسنہ پرعامل ہوکرراتوں کو قرآن پڑھتے اور دعائیں مانگتے رہے؟ ایک لمحہ کے لیے بھی دل بہلانے کا انہوں نے اہتمام نہیں کیا سر تال پر قومی نغمے نہیں گا ئے ۔ یہ ہی وجہ ہماری مایوسی کی ہے کہ ہم نے نہ ہی قر آن میں اور نہ ہی تاریخ اسلام میں ڈسکو کلچر پر رحمت الٰہی کبھی نازل ہوتے دیکھی، پڑھی یا سنی؟
ہاں! ایسی حرکتوں پر پچھلی قوموں کے قصوں میں غضب نازل ہو تے ہوئے ضرور پڑھا اور اب دیکھ بھی رہے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی سنت بدلتا نہیں ہے لہذا آپ ببول کے در خت سے انگور نہیں اگا سکتے؟ یہاں بھی ہوا اور طوفان ظالموں کو بھگانے کے لیے نہیں ،بلکہ مجاہدین کو اجاڑنے کے لیے متواتر آر ہے ہیں۔ جو ناراضگی کا اظہار ہے خوشی کا نہیں۔
اس پر بیجا ضد ہے کہ ہم نواز شریف کا استعفیٰ لیکر جا ئیں گے ؟ یہ عقل کا کم اورانا کا مسئلہ زیادہ معلوم ہوتا ہے ؟ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اگر وہ استعفیٰ دیدیں تو اس معاہدے کو نافذ کرنے کی ضمانت کون دے گا کیا پارلیمنٹ؟ پھر پارلیمنٹ کی ضمانت کون دے گا؟ وہ جن میں سے اکثر کے نزدیک عہدو پیمان سرے سے کوئی چیز ہی نہیں ہیں؟۔ اب رہا کوئی اور ادارہ اس کی ضمانت کون دیگا، وہ جو نوے دن کے لیے آتا ہے اور نو سال کے بعد بمشکل جاتا ہے؟ اگر انا کی بنا پر یہ مہم ناکام ہوتی ہے تو کیا یہ دھرنے کے لیے لوگوں کو دوبارہ نکال کر اسلام آباد تک لا سکیں گے؟ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں عمران خان بہت زیادہ مقبول ہو کر ابھریں گے؟ کیااس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ اور کوئی گم نام اللہ کا بندہ ان کے مقابلے میں آجا ئے اور وہ ڈسکو کے بجا ئے راتیں تلاوت میں گزارے، اس کی قیادت میں قوم بھی دین پر پہ عامل ہو جا ئے جس سے اللہ راضی ہو جائے پھر کیا ہوگا؟
دوسرے موجودہ حکومت کے وزیر اطلا عات بار بار یہ دھمکیاں بھی دے چکے ہیں کہ طاقت سے کام لیکر ہم ایک دن میں دھرنے ختم کر سکتے ہیں ؟ ان کی حکومت اپنی طاقت کا دو دفعہ مظاہرہ کر چکی بھی ہے؟ یہ ہی سہ بارہ کر گزرنا ان کے لیے مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے سامنے جو طرز ِ حکمرانی ہے وہ سعودی نژاد ہے، وہ دور گیا جب پاکستانی فوج انہیں جا کر بچا یا کر تی تھی۔ اب وہ ساری دنیا کو نچا رہے اور اپنے یہاں اب تک لاکھوں آدمیوں کو ٹھکانے لگا چکے ہیں ۔ لہذا یہاں بھی وہ اپنے مریدوں کی مدد کو آسکتے ہیں ؟ اللہ ہمارے عوام اور لیڈروں کو سوجھ بوجھ دے کہ وہ دور کا بھی دیکھ سکیں ؟ رہیں انسانی یا اخلاقی قدریں تو وہ وہاں کامیاب ہوتی ہیں جہاں خوفِ خدا ہو یا لوگ اپنی بدنامی سے ڈرتے ہوں؟
ہمیں خطرہ ہے کہ یہ دھرنے کا ہتھیار بھی کثرت استعمال کی وجہ سے اپنی قدر کھودے گا، اور ملک میں پہلے ہی کوئی کام نہیں ہوتا ہے آئندہ اور بھی نہیں ہوگا؟ ثبوت یہ ہے کہ پہیہ جام سے اب الطاف بھائی اس طرف مائل ہو گئے ہیں ۔ کیونکہ ان کے کھالوں کے کاروبار کو اس مرتبہ خاصہ نقصان ہو نے کا خطرہ ہے ۔ پہلے تو ان کے خوف کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے کارکن بکرے کو صرف کہہ د یتے تو وہ خود اپنی کھال اتار کر ان کے ڈپو پر پہونچا دیتا تھا ۔ صرف اسے پرچی دینا ہو تی تھی ،اب وہ بات نہیں ہے۔غالبا ً اسی کے توڑ کے لیے کو ئی تنظیمی میٹنگ ہو رہی ہو گی جس پر رینجرز نے چھاپہ مرکر ان کو للکارا ہے؟ جبکہ کراچی پہلے ہی ہڑتالوںکا مارا ہے، بھتوں کا مارا ہے اور اغوا برائے تاوان کا مارا ہے اب دھرنو ں کا مار ا بھی جلد ہی بن جا ئے گا۔ الطاف بھائی کا کہنا یہ ہے کہ دھرنوں میں مساوات کیوں نہیں برتی گئی ، اگر چھاپے مارنا تھے تو جماعت اسلامی کے اور پی پی پی کے دفاتر پر بھی ما رنے تھے؟ یہ مطالبہ بھی ان کے ہر مطالبہ کی طرح وزن رکھتا ہے ؟ہم نے اپنے ایک بہت پرانے سندھی دوست سے پوچھا کہ تم چار،چار بیو یوں کو کیسے رکھتے ہو، جبکہ آج کے دور میں اوروں سے ایک نہیں سنبھلتی ؟ کہنے لگے مساوات کے ذریعہ؟ “اگران میں سے کوئی ایک غلطی کرے تو میں سب کی پٹائی کر دیتا ہوں“ تاکہ ایک کو پٹتا دیکھ کر دوسری ہنسیں نہیں ۔ بعض ما ؤں کو بھی ہم نے دیکھا ہے کہ خطا ایک بچے کی ہوتی ہے اور وہ پٹائی سب کی کر تی ہیں۔ اور اس کو عدل جہانگیری بھی سمجھتی ہیں ؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے