قارئین گرا می۔عید گزرگئی آپ رو ا یتی طو ر پر تو حضرت ابرا ہیم (ع)کا قصہ پڑھتے اور سنتےرہے مگر میں آج جو رخ آپ کے سا منے پیش کر نے جا رہا ہو ں وہ غور طلب اور ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ ہےایک مثا لی خا ندا ن ! جس میں بھائیوں بہنوں اور بچوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے ۔ کیونکہ یہا ں آپ کو عا ئلی زندگی کا وہ بہترین نمو نہ نظر آئے گا جو کہ نہ صرف تو کل علی اللہ کا مظہر ہے بلکہ فریقین میں ایک عظیم اعتما د کا مظہر بھی اور یاد رکھئے کہ اعتماد فقط سچائی سے حاصل ہوتا جبکہ جھوٹ اس کی ضد ہے جو باہمی اعتماد کھودیتا ہے ۔ اگر ہم ان کی پیروی کریں تو ہما ری زند گی نہ صرف اپنے لیے جنت بن جا ئے گی۔ بلکہ اورو ں کے لیے بھی نمو نہ ہو گی ۔آپ سب یہ تو جا نتے ہیں کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو متعد با ر امتحا نا ت سے گذر نا پڑا، پہلی مرتبہ جب، جبکہ انہو ں نے اپنے آبا واجداد کو جو کہ بت پر ستی میں مبتلا تھے بڑی خو بصو رتی سے سبق دیا، وہ قر آن کی زبا ن میں سنئے۔ پہلے ایک ستا رے کو دیکھا اور فر ما یا کہ یہ میرا رب ہے ۔ لیکن تھو ڑی دیر کے بعد وہ معدو م ہو گیا تو فر ما یا نہیں ،نہیں معدو م ہو جا نے والا میرا رب نہیں ہو سکتا، اس کے بعد چا ند کو دیکھا اور فر ما یا کہ یہ میرا رب ہے ۔ مگر چند گھڑیو ں کے بعد وہ بھی غا ئب ہو گیا تو فرما یا یہ بھی میرا رب نہیں ہو سکتا ،پھر سورج کو طلو ع ہو تے ہو ئے دیکھا اور فر ما یا یہ میرا رب ہے۔ کیو نکہ یہ سب سے بڑا ہے(اور زیادہ چمکدار بھی ) مگر جب وہ بھی غرو ب ہو گیا تو فر ما یا کہ تغیر پذیرکوئی چیز رب نہیں ہو سکتی ۔ لہذا دعا فرمائی اے میرے رب! تو ہی راستہ دکھا ۔ رب چونکہ حدیث قدسی میں فر ما تا ہے کہ جو میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہو ں۔ رب نے را ستہ دکھا دیا اور انہو ں نے علی الا علان کہنا شرو ع کر دیا کہ تم گمرا ہ ہو، جنہیں خو د اپنے ہا تھ سے گڑ ھتے ہوا ور انہیں ہی خدا بنا کے پو جتے ہو تم سا ا حمق کو ن ہو گا ؟ با دشا ہ نے اس جر م میں حکم دیدیا کہ ان کو زندہ آگ میں جلا دیا جا ئے ۔ وہ آگ میں ڈا ل دیئے گئے۔ اس مر حلے پر بعض روا یتیں یہ بھی ہیں کہ جبر ئیل علیہ السلام نے امداد کی پیس کش کی مگر وہا ں توکل کا یہ عا لم تھا فر ما یا نہیں! میرا رب مجھے کا فی ہے ۔اور رب نے کفا یت فرما ئی کہ براہ راست حکم فرمایا “ اے آگ! تو ڈھنڈی ہو جا “ اس نے تعمیل ِ حکم کی اور وہ اللہ کی حمد کرتے ہوئے آگ سے نکل آئے ۔
یہ ہے قر آن کی زبا ن میں مسلما ن کی تعریف۔ اس لیے قر آن نے انکی زبا ن سے ان کو پہلا مسلم کہلا یا ۔اب آپ پو چھیںگے کہ آگ کا کا م تو جلا نا تھا پھر اس نے جلایا کیو ں نہیں ؟تو ایک با ت جا ن لیجئے کہ تما م صفا ت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہیں، جو کہ اس نے با نٹ رکھی ہیں ۔جیسے کہ ہمیں خلیفہ بنا یا ہو ا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ہمیں نا فر ما نی کی بھی چھوٹ دی ہو ئی ہے جبکہ دوسری مخلوق کو نہیں ہے ۔ لہذا ہم سب سے زیا دہ نا فر ما نی کرتے ہیں جبکہ اور کر ہی نہیں سکتے۔ یہا ں سے وہ سر خرو نکلے، یہ پہلا مر حلہ تھا جو انہیں پیش آیا۔ اور پھر تو مر حلے پر مر حلے پیش آتے رہے اور وہ سر کرتے رہے حتیٰ کہ خو د اللہ تعا لی ٰ نے فر ما یا کہ “ ہم نے کئی با تو ں میں آز ما یا مگر وہ پو رے اترے “اس سے بڑی سند کی اورکہا ں گنجا ئش ہے ۔ یہ ہے ایک مو من کی شا ن۔
ویسے توہم بھی خو د کو مومن کہتے ہیں مگر ہم اپنی طرف دیکھیں تو فورا ً اپنے پیر نظر آجا ئیں گے۔آئیے اب آئیے سب سے بڑے امتحا ن کی طرف ۔ انکی پہلے سے ایک بیو ی مو جو د ہیں جن کا نا م حضرت سا ئرہ ہے لیکن وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور خود حضرت ابرا ہیم (ع)بھی عمر کے اس حصہ میں ہیں جہا ں اولاد پیدا کر نے کی صلا حیت ختم ہو جا تی ہے۔ دوسری بیو ی حضرت حا جرہ (رض) سے ایک بچہ ہے جس سے ان کا نا م چلنے کی واحد امید ہے ۔ لیکن حضرت سا ئرہ کے لیے دو نو ں ما ں اوربیٹے کا وجو د ناقا بلِ بر داشت ہو جاتاہے اور وہ ان سے جان چھڑا نا چاہتی ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام پریشان ہیں ۔ اب آگے اس مسبب الا سبا ب کا اپنا منصو بہ شروع ہو تا ہے۔ وہ دنیا کو ایک ایسی دا ئمی عبا دت گاہ دینا چا ہتا ہے جو ہر قسم کے تغیر سے محفو ظ ہو ۔ حضرت حا جرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک وطن بھی عطا کر نا چا ہتا ہے۔ تاکہ وہ خلیل اللہ (ع) پر اپنے انعامات کی تکمیل کردے، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی نسل میں سے پیدا فر مائے اور پھر ایک عظیم امت کو حکم دے کہ وہ قیامت تک دور بھیجتے رہیں اور ان کی سنت کو بھی زندہ رکھے ۔ لہذا حکم ہو تا ہے کہ ما ں اور بیٹے کو وادی ِغیر مزرو عہ میں چھو ڑ آ ؤ ۔ وہ تعمیل ِ ارشاد با ری تعا لی ٰ میں بلا چو ں وچراں روانہ ہو جا تے ہیں اور انہیں و ہا ں چھو ڑ کر الٹے پا ؤ ں وا پس مڑ نے لگتے ہیں تو حضرت حا جرہ پیچھے پیچھے تشریف لا تی ہیں اور پو چھتی ہیں کہ ہمیں آپ یہا ں کیو ں چھو ڑے جا رہے ہیں؟ کیا مجھ سے کو ئی کو تا ہی ہو ئی ہے یا اللہ تعا لیٰ کا حکم ہے۔ وہ خا مو ش رہتے ہیں کہ یہ اللہ وا لو ں کا خا صاہے کہ وہ کبھی اللہ تعا لیٰ کے را ز ظا ہر نہیں کر تے ۔ جس طر ح ہم یہ نہیں پسند کرتے کہ ہما را کو ئی دو ست ہمارے راز دنیا بھر میں گا تا پھرے ،اسی طرح وہ بھی یہ پسند نہیں فر ماتا کہ اس کے راز ظا ہر کیئے جا ئیں ،جو کہ اس نے تھو ڑے بہت کسی کو بتا دیے ہیں۔ کیو نکہ اس کے راز تو کا ئینا ت کے رازہیں ان کا اظہار دنیا کی تبا ہی کا با عث بھی ہو سکتاہے۔ وہ جواب نہیں دیتے ہیں۔ حتیٰ کے وہ تین دفعہ پو چھتی ہیں اب وہ مجبو ر ہو جا تے ہیں فر ما تے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے ۔ یہ سن کر انہیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ اگراللہ کا حکم ہے تو وہ مسبب الا سبا ب ہے۔ اور انہیں یہ بھی ترد دنہیں رہتاکہ میرے پاس کچھ کھا نے کو نہیں، بچے کا ساتھ ہے، پینے کے لیے پا نی بھی نہیں ہے اور نہ سر پر سا یہ نا م کی کو ئی چیز ہے ہم دونوں زندہ کیسے رہیں گے ؟وہ انکے پا ؤں کی بیڑی نہیں بنتی ہیں۔ حا لا نکہ وہ جا نتی ہیں کہ اب ان کے شو ہر کی منزل ان کی سو کن حضرت سا ئرہ ہیں۔ شک جنم لے سکتا تھا وسوسے جنم لے سکتے تھے ،مگر وہ ایک جلیل القدر پیغمبر (ع) کی بیو ی اور دو ہو نے وا لے جلیل القدر پیغمبرو ں (ع) کی ما ں تھیں لہذا اللہ پر پو را بھرو سہ تھا۔ یہ ان کے توکل کی مثا ل تھی ،اور میا ں بیو ی کے با ہمی اعتما د کا بہترین نمو نہ بھی ۔
خدا پر جو اعتماد کرتا ہے خدا اس کی ہمیشہ کفا لت کرتا ہے۔ یہا ں بھی کی ،وہ پا نی کی تلا ش میں دو ڑ رہی تھیں بچہ پیا س سے تڑپ رہا تھا ،جب وہ آخری چکر لگا کر واپس تشریف لا ئیں تو دیکھا کہ بچہ جہا ں ایڑ یا ں رگڑ رہا تھا وہا ں پا نی کا چشمہ جا ری ہو گیاہے۔ پا نی دیکھ کر پرندے آگئے اور پرندو ں کو دیکھ کر قا فلہ آگیا اور اس طرح دنیا کے قدیم شہر “ ُام القریٰ “کی بنیاد پڑی جو کہ پہلے بکہ کہلا یا اور پھر کثرت ا ستما ل سے مکہ ہو گیا۔ جس کو قیا مت تک کے لیے عبا دت گا ہ بنناتھا ،جس میں کفار کا دا خلہ قیا مت تک کے لیے ممنو ع ہے ۔ جس کو ابرا ہہ کا حشر دیکھنے کے بعد شا ید ہی کو ئی طا لع آزما دو با رہ ڈھا نے کی جرا ءت کرسکے۔
اب آئیے ایک اور امتحا نکی طرف۔ اس مرتبہ ایک عرصہ کے بعد وہ پھر تشریف لا تے ہیں ۔ اور ایک با لکل ہی انہو نی با ت فر ما تے ہیں کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیٹے کی قر با نی دو ں ۔ایسی مثال تاریخ عا لم میں کبھی سنی ہی نہیں گئی کہ اللہ تعا لیٰ نے کسی بندے کی جا نی قر با نی ما نگے، ہو وہ تو حیات عطا کر نے والا ہے ۔ مگر انہو ں (ع) نے اس انہو نی بات پر بھی حکم کے آگے سر جھکا دیا ۔ پھر وہ بیٹے سے با ت کرتے ہیں۔ بیٹے کی سعا دتمندی ملا حظہ فر ما ئیے کہ وہ بھی کو ئی سوال نہیں کرتے ،فر ما تے ہیں کہ اگر آپ کوحکم ہوا ہے تو آپ کر گذریے انشا اللہ مجھے صا برین میں پا ئیں گے ۔آگے تو آپ سب ہی کو پتہ ہے کہ ما ں بچے کو تیا ر کر دیتی ہیں، بیٹاکہتا ہے با با آپ اپنی آنکھوں پر پٹی با ند ھ لیجیے تاکہ ذبح کرتے وقت ترس نہ آئے، مگراللہ تعا لیٰ کو جا ن نہیں لینا تھی ۔ صر ف نیت اور خلو ص دیکھنا تھا ۔ لہذا اس نے اس قر با نی کو ان کی ذریت کو نوازنے کے لیے ذبیحہ عظیم سے بدل دیا ۔ یو ں یہ پورے کا پورا کنبہ باپ بیٹے اور بیوی علیہ الصلاة واسلام اپنے توکل اور با ہمی تعا ون سے اسقدر عظیم ہو گیا کہ اللہ تعا لیٰ نے انکے ہر ،ہر فعل کو شعا ئر ِ حج میں دا خل کر دیا اور میا ں بیوی کے اس اعتماد کی کہا نی کوہمیشہ کے لیے قر آن میں بھی محفو ظ کر دیا۔ جس کی حفا ظت کی ذمہ داری خو د اس نے لے رکھی ہے ۔اگر اس میں سے کوئی ایک بھی تعاون نہ کرتا تو کیا یہ عظیم کا میا بی ممکن ہو سکتی تھی؟ اس میں جو سبق ہے وہ آپ کے سامنے غور و فکر کے لیئے چھو ڑتا ہو ں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے