ایک درمندِ ملت کا خط اور اس کا جواب۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

ایک درمند ِ ملت کا خط اور اس کا جواب۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی
میرے ایک نادیدہ کرم فرما ہیں جناب مشتاق احمد صاحب جن کا تعلق وینکور سے ہے ۔ میں ہر ایک کاجواب فو راً دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں مگر وطن عزیز کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے میں ان مسائل میں الجھا رہا اور میں ان کا جواب نہیں دے سکا۔ سب سے پہلے تو میں ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ میرا کالم سب سے پہلے پڑھتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے جو سوالا ت اٹھا ئے ہیں جو تمام عالم کو محیط کیے ہو ئے ہیں ،ان پر بات کر تا ہوں۔ تاکہ تمام دنیا میں میرے پڑھنے والے اس سے مستفیض ہو سکیں۔ اس خط میں انہوں نے میرے ایک کالم میں لکھی ہوئی میری ان دوباتوں سے اختلاف کیا ہے کہ “ ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی وہ ڈالر کمانے میں لگے رہتے ہیں اور بیٹے اعراق میں جاکر پھٹ پڑتے ہیں اورلڑکیاں مجاہدین کی بیویاں بننے کے لئے شام پہونچ جاتی ہیں تب کہیں جاکر ان کے والدین کو خبر ہوتی ہے “ انہوں نے اس کا ذمہ دار بھی مدرسوں کو بنا یا ہے ؟ یہ وہ حقائق ہیں جو خبروں میں پچھلے دنوں آپ سب کی نظروں سے گزر چکے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سب مدرسے ایسے نہیں ہیں، والدین بچوں کوداخل کرنے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لیں اگر وہ بچوں کی طرف سے اپنی مصروفیت کی بنا پرلاپروائی برتیں گے تو اس قماش کے لوگ تاک میں تورہتے ہی ہیں ؟
اس کے بعد انہوں نے لندن کے کسی مولوی کا ذکر کیا ہے کہ ان کا کسی اخباری اشتہار میں نام دو لائن کاتھا ۔ بھائی بات یہ ہے کہ پہلے علم کی خوشبو خود بخود پھیلتی تھی اس لیئے علماءمیں لمبے القاب لگانے کا رواج ہی نہیں تھا۔ اور وہ علم کو کاروبار کے طور پر نہیں ، بلکہ اس حدیث کے تحت حاصل کر تے تھے کہ حضور (ص) نے فرم یا کہ “ وہ فلاح پاگیا جس کو اللہ نے علم دیا ور اس نے اللہ کے لیے لوگوں میں بانٹا “ یہ چونکہ خالص اللہ کے لیے ہوتا تھا لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کی خوشبو دنیا میں پھیلا دیتا تھا۔ اب جو لوگ علم حاصل کرتے ہیں وہ زیادہ تر ان کی اپنی ذات کے لیے ہو تا ہے؟  اس لیےاپنا تعارف بڑھا چڑھا کر پیش کر نا پڑتا ہے تاکہ لوگ مرعوب ہوں، ان میں وہ القابات اورڈگریاں بھی شامل ہو تی ہیں جو دنیا کے کسی ادارے یا یونیورسٹی سے نہیں ملتیں؟ ان میں سے ایک تو بہت ہی عام ہے جو میں دہرانا نہیں چاہتاکیونکہ بہت سے دوست ناراض ہو جائیں گے۔ جولوگ کسی اور مقصد کے لیے علم حاصل کر تے ہیں ان کی نگاہ سے وہ حدیثِ قدسی شاید نہیں گزری جس کا ایک جز یہ ہے کہ ً قیامت کے دن ایک عالم میرے سامنے پیش ہوگا وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لیے علم حاصل کیا میں جواب دونگا کے نہیں تو نے شہرت کے لیے علم حاصل کیا تھا وہ تجھ کو میں نے دنیا میں عطاکردی،یہاں تیرا کوئی حصہ نہیں ہے “آگے انجام بھی اسی میں بیان فرمادیا ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ اس انجام سے محفوظ رکھے؟
پھرا نہوں نے ایک اور عالم کا ذکر کیا ہے کہ وہ جب کنیڈا آئے تو شرما ئے شرمائے اور دو پٹے سے منہ ڈھکے رہتے تھے۔ اب کنیڈا کی ہوا لگی تو اندھوں میں کانے راجہ بن گئے، گھونگھٹ اتر گیا؟ اور زبان بھی چل پڑی “ بھائی یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ کچھ علماءایک رومال ڈالے رہتے ہیں اگر یہ اتباع رسول (ص) میں ڈالتے ہیں۔ تو ثواب کے حقدار ہیں اور اگر اس لیے ڈالتے ہیں کہ لوگ دور سے پہچان لیں کے یہ عالم ہیں؟ تو پھر وہ نام و نمود کے لیئے ہو گااوراوپر والی حدیث کے زمرہ آئے گا۔ اب تو بہت ہی قیمتی توب، حبے جبوں کا رواج عام ہو گیا ہے جن کی قیمت حسبِ حیثیت اور مراتب ہزاروں سے لیکر لاکھوں تک ہو تی ہے۔ ایسے لباسوں کو حضور (ص)  اورآئمہ کرام (رض) سے کوئی نسبت نہیں ہے ۔ ایسے لباس پہلے صرف با دشاہ پہنا کر تے تھے پھر ان کے دیکھا دیکھی درباری علماءپہننے لگے ۔ بادشاہ زیادہ تر غاصب اور ظالم ہوتے تھے ، جبکہ درباری علماءان کے ہر اقدام پر مہرِ تصدیق ثبت کر نے والے ہوا کرتے تھے؟ ان کے برعکس پہلی قسم کے علماءکوڑے کھانا قبول کرتے تھے مگر وہ درباری بننے سے گریزاں رہتے تھے۔
آگے انہوں نے یہ لکھا ہے کہ “ ایک بیسمنٹ کوئی کرایہ پر دے، تو سارے محلے میں پوچھتاپھر تا ہے، مگر عالموں کی قابلیت چیک کرنے کاکوئی رواج نہیں ہے، جس نے چند انچ کی ڈارھی اور ٹخنے سے اوپر شلوار پہن لی اور چند سورتیں یاد کر لیں اس کو عالم مان لیتے ہیں ً پھر میرے کالم کا حوالہ دیا ہے کہ ً جبکہ آپ لکھتے ہیں کہ پہلے تمام عمر گزار دیتے تھے تب کہیں جاکر، ان کوعلمائے وقت فتویٰ دینے کی اجازت دیتے تھے اور وہ مفتی کہلانے کے مستحق ہو تے تھے اب مدینہ یونیورسٹی سے چند سال میں مفتی کورس کر نے کے بعد سند مل جاتی ہے “
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیئے مسلمان خود ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم جو مسجد بنانے اور اس کو چلانے کے لیے افراد چنتے ہیں وہ اسمبلیوں کی طرح ذات اور برادری اور خاندان کی بنیاد پر چنتے ہیں۔ علم دین اور تقوے کے بنیاد پر نہیں ، تو جب وہی علما ءکا بھی انتخاب کرتے ہیں جوکہ دین سے نا بلد ہوتے ہیں تو یہ ہی نتائج مرتب ہوتے ہیں؟ یا پھر اپنی لا علمی کی بنا پر یہ ہوگا کہ علماءکی تعلیمی قابلیت بغیر سوچے سمجھے ایسی رکھدی جا تی ہے کہ اس معیار کا کوئی عالم ہی نہ ملے ۔ پھر بھی غلطی سے کوئی مل جا ئے تو اس کی وہ خواری لگتی ہے کہ اللہ پناہ دے ؟ اس پر عجیب عجیب الزام لگتے ہیں “مثلاً وہ بیوی کے ساتھ بازار میں گھوم رہا تھا، یا برف باری کی وجہ سے اس نے اجما ئے بین الصلا تین (دونمازیں ایک ساتھ کیوں پڑھادیں) برفانی طوفان میں تو نہیں اس لیے کے برف مدینہ منورہ میں نہیں گرتی ہے ، البتہ بارش اور طوفان میں حضور (ص) سے یہ ایسا کرنا ثابت بھی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وجہ سے کوئی اچھا عالم ٹک نہیں پاتا ، اور اکثر مساجد بغیر اماموں کے چل رہی ہیں۔ جو ہیں وہ اتنے محطاط رہتے ہیں کہ جہاں نکاح پڑھانے جاتے ہیں تو خواتین کو ہال سے باہر نکلوا دیتے ہیں، بغیر یہ خیال کیے ہوئے کہ ان میں کچھ معذور خواتین بھی ہیں انہیں میرا مشورہ ہے کہ تھوڑا سا انکا بھی خیال رکھیں۔ قر آنی حکم کے مطابق  وہ آپ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں پھر انہیں بھی تلقین کریں جو کہ آپکا کام ہے۔ اس مرتبہ عید الضحیٰ کے مسئلہ پر جو مفتیان عظام نے جرا ءت دکھائی وہ سرا ہے جانے کے قابل ہے۔ اس لیے کہ ہر اچھی بات کو سراہنا چاہیے تاکہ ان کی ہمت افزائی ہو؟
پھر انہوں نے پیروں کی خبر لی ہے کہ یہ یلغار کیے ہوئے ہیں۔ دیکھئے ! چینٹے وہیں پا ئے جاتے ہیں جہا ں چینی با افراط ہو؟ یورپ توہم پرستی میں ہم سے بہت آگے ہے اور یہاں ملتے بھی ڈالر یا پونڈ ہیں لہذا ہر ایک کی خواہش ہے کہ یہاں آئے؟ اس میں بھی دونوں طرح کے لوگ ہیں کچھ حضور (ص) کے اس ارشاد کے تحت گھر بار چھوڑ کر نکلتے ہیں کہ حضور (ص) نے تمام مسلم امہ کو دین کا پیغام پہونچانے کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے۔ پہچان ان کی بہت آسان ہے۔ اگر انکی نگاہ آپ کی جیب کی طرف ہے تو اسے کٹنے سے بچالیں؟ اور اگرآپ کے دل کی طرف ہے ،تو واقعی وہ پیر ہیں پھر ان کی اور بھی مز پہچان یہ ہے کہ “ ان کا کو ئی فعل خلاف سنت نہ ہو اور یہ کہ پیر جاہل بھی نہ ہو ، جاہل بھی پیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تزکیہ نفس شروع سے ان ہی کے ذریعہ چلا آرہا ہے پہلے یہ دونوں شعبے ایک ہی جگہ تھے۔ چونکہ حضور (ص) واحد نبی ہیں جن کے ذمہ تزکیے نفس کرانا بھی تھا۔ جس کی وجہ سے پہلے اپنے اوپر پورا دین انہوں (ص) نے  نافذکرکے دکھایا اور ان کی صحبت میں رہ کر وہ نفوس قدسی (رض) اپنے تقوے میں اتنے بلند ہوگئے کہ دنیا نے ایسے لوگ نہ پہلے دیکھے نہ ان کے بعد ؟ آپ نے جو حضور (ص) کے خواب میں زیارت کے سلسلہ میں ڈاکر طاہر القادری صاحب کاذکر ان الفاظ کے “ ساتھ کیا ہے کہ دنیا میں چند لوگ ایسے ہیں جن کو حضور (ص) کی زیارت خواب میں نصیب ہوتی ہے“ بے شک ہیں! مگر چند نہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اور جنہوں نے تصوف کے مدارج طے کیئے ہیں انہیں یہ راز معلوم ہے ،مگر اسے راز رکھنا پہلی شرط ہے سوائے ان کے جو کہ تبلیغ پر معمور تھے اور انہیں ظاہر کر نے کا حکم تھا۔ وہ بہت تھوڑے سے لوگ ہیں، جیسے حضرت حسن بصری ، حضرت جنید بغدادی، حضرت عبد القادر جیلانی اور اسی قسم کی شہرت کے حامل دوسرے بزرگ ہا ئے گرامی رحم اللہ تعالیٰ۔ اگرڈاکٹر طاہر القادری صاحب انہیں میں سے ہیں تو اور بات ہے ۔ میری کم علمی اورکم ما ئیگی اس سلسلہ میں کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان کو منع کیا گیا کہ “جس کا تمہیں علم نہ ہواس پر بات مت کرو “
آخر میں انہوں نے بڑا اہم سوال کیا کہ لوگ ہر سال بطور ملازم حجاج کے قافلوں کے رہنما بن کر جاتے ہیں۔ اور واپس آکر الحاج کہلاتے ہیں ؟ کیا حضور (ص) خود کو حاجی کہلاتے تھے ،آپ کیوں نہیں کہلاتے ہیں؟
دیکھئے یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ بہت سے رضاکار بھی بغیر کسی معاوضے کے حجاج کرام کی خدمت کرنے جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر طالب علم ہو تے ہیں۔ جو لوگ تنخواہ پر جاتے ہیں وہ بھی غلط نہیں کہے جا سکتے کہ حج کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنا فضل تلاش کر نے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اور وقوف عرفات کو حضور (ص) نے حج فرمایا ہے چونکہ وہ مقام ِ عرفات تک پہونچ جا تے ہیں تو حاجی تو ہو ہی جاتے ہیں۔ اب یہ کہ وہ حج ِ مبرور سے بھی نوازے گئے یا نہیں؟ وہ ان کی واپسی کے بعد ان کے عمل سے پتہ چل سکتا ہے۔ اگر ان میں وہ برا ئیاں ابھی تک باقی ہیں جو پہلے تھیں تو وہ دریائے رحمت تک پہونچے تو ،مگر اس سے سیراب ہو ئے بغیرواپس آگئے۔ دوسرے وہ ہیں جو جاتے ہی حاجی کہلانے یا تجارت کرنے یا زکات بٹورنے کے لیے ہیں، ان کے مقاصد اور ہیں۔ لہذا وہ اس حدیث کے زمرے میں آتے ہیں جس کا ذکر میں شروع میں کر چکا ہوں۔ آپ نے جو مجھے سراہا ہے اور میری صحت یابی کے لیے دعاکی اسکے لیے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کاشکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اپنے دین کی فہم دی اور وہ مجھ سے یہ کام لے رہا ہے اور اس کے بعد آپ کاشکریہ بھی ادا کر تا ہوں کہ مجھے بندوں کا بھی شکریہ ادا کرنے کاحکم ہے۔ جو آپ نے مجھے دینی سوالات کے لیے سوالوجواب کا سلسلہ شروع کرنے کا حکم دیا تو عرض ہے کہ میں تو ایک طالب علم ہوں خود علم کامتلاشی ہوں۔ چونکہ میں مفتی نہیں ہوں اس لیے اسکا مجاز بھی نہیں ہوں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , , . Bookmark the permalink.