خود نہ بدلیں، مگرقرآن بدلنا چاہیں۔۔۔از۔۔۔شمس جیلانی

کل ہم نے دو المناک خبریں پڑھیں ایک یہ تھی کہ ایک مسیح جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا۔ دوسری خبر یہ تھی کہ گجرات میں ایک سب انسپکٹر نے طفیل حیدر نامی شخص کو تحقیقات کے دوران حوالات میں پڑی کلہاڑی سے قتل کردیا جوکہ بقول اس کے صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کر رہا تھا جو وہ برداشت نہیں کرسکا؟ پہلے والے واقعہ پر ایک مباحثہ بھی دیکھا جس میں شامل ایک مولوی صاحب تھے ، انسانیت کی ہمدرد ایک خاتون تھیں اور ایک وزیر تھے۔ پہلے دوفرد کہہ رہے تھے کہ ہم نے اس قانون میں یہ یہ ترمیمات کیں اگر وہ اسمبلی پاس کردیتی تو ایسا نہیں ہوتا؟ حالانکہ قوانیں کا وہاں کوئی مصرف ہی نہیں ہے جہاں کوئی ان پر عمل نہ کرنا چاہے؟ دوسرا مباحثہ اس پرتھا کہ جس میں آئین کی دفعہ62 اور63زیر بحث تھیں، جس سے چَھنے بغیر کوئی کسی اسمبلی نہیں جا سکتا۔ لیکن جس طرح چپراسی کی مٹھی گرم کرکے کوئی بھی کہیں تک پہونچ سکتا ہے ،یہاں بھی سب بندشیں دھری رہ جاتیں ہیں اور وہی لوگ واپس آجاتے ہیں جو تجربہ کار ہیں ؟
چونکہ دو نو ہی آجکل گرماگرم عنوان ہیں۔ لہذا ہم دونوں ہی پربات کر یں گے۔ کیونکہ جب تک کوئی طبیب بیماری نہ سمجھے وہ علاج تجویز نہیں کر سکتاہاں!  اگر عطائی ہے تو اور بات ہے کہ اس کا اصل مقصد اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہو تا ہے ،چاہیں اس کے اس عمل سے دوسروں کے بچے تیم کیوں نہ ہو جا ئیں؟
پہلے والی خبر میں ایک نہیں تین گاؤں کے 600سو باشندے ملزمان میں شامل ہیں۔  جبکہ مظلومین پرالزام یہ ہے کہ انہوں نے اوراق مقدس کی بے حرمتی کی یہ واضح نہیں کہ ان میں جرم کا ارتکاب کس نے میاں نے یا بیوی نے؟ مگر سزا پانے والوں میں ایک ایسا بچہ بھی تھا جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا، کیونکہ وہ خاتون حاملہ تھیں۔ یہ عدل و انصاف کا وہ نمونہ ہے جو دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا؟
اوراس لیے بھی کہ مسلمان کی غیرت جو اسلام پہ عمل نہ کرنے سے نہیں جاگتی ہے وہ اوراق مقدس کی حفاظت کے لیے دوسروں کو مارنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ بغیر یہ تحقیق کیے کہ حقیقت کیا ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں ہر اخبار پر آیات اور احادیث لکھی ہوتی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ہمیشہ دین کو دلوں میں تازہ رکھنا چا ہیئے ، سب سے اچھے مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر وقت موت کو یاد رکھتاہے، مگرہم عمرِ جا ویداں تو سب چاہتے ہیں ، موت شاید ہی کسی کویاد آتی ہو، اس میں سب شامل ہیں موت نہ اخبارات کے مالکان کو یاد ہے، نہ ایڈیٹروں کو یاد ہے اور نہ عام مسلمانوں کو یاد ہے۔ رہے عوام الناس ان کا یہ عالم ہے کہ وہ عربی میں جوکچھ بھی لکھا ہواسے اوراق ِ مقدس ہی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ یہ ہی سارے اخبار بعد میں ردی میں بکتے ہیں، چونکہ پاکستان کی زیادہ ترآبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے وہ اس ردی کو خریدتے ہیں اور ان سے لفافہ بنانے والے لے جاتے ہیں۔ پھر وہ لفافے بنا کر بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ اس میں دکاندارہر قسم کی چیزیں ڈال کر فروخت کرتے ہیں ، ٹھیلے والے سالم اخبار بھی ردی میں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح یہ کسی گھر میں بھی پہونچ سکتے ہیں۔ اور کسی کی موت کا پروانہ بن سکتے ہیں، اگر پڑوسی سے دشمنی ہو تو وہ بھی استفعادہ حاصل کرسکتا ؟ مگر ہماری غیرت َاسلامی اس پر کبھی نہیں جاگی کہ اخباروالے اپنے خریداروں سے پرانے اخبارواپس جمع کرکے ری سائیکل کر یں ،جو مہذب دنیا کا طریقہ ہے ؟ یہاں آپ پوچھ سکتے ہیں کیا کنیڈا میں ایسا ہوتا ہے ؟ اول تو یہاں ہر قسم کی چیزوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے شہری ٹیکس اس سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ، جو جتنے ذمہ دار ہیں دوسرے یہ  کہ اخبار میں مقدس آیات نہیں لکھتے؟
مگر اس کی تعلیمات پر عمل ضرورکرتے ہیں؟ مثلا یہ ملک فلاحی ریاست ہے ، جھوٹ یہاں نہیں، بد عنوانی نہیں عدل و انصاف ہے قانون کا احترام ہے یہ چیزیں انہوں نے ہم سے ہی لیں ہیں جوکہ ہم نے بیکار سمجھ کر سرد خانے میں ڈالدیں تھیں، اور اب ہمارے یہاں رائج نہیں ہیں اور نہ ہی آئندہ رائج کرنے کاارادہ ہے۔
اخبار والوں کوریسائی کل کرنے کی تجویز ہم نے اس لیے نہیں دی کہ ردی عام طور پر پاکی کے تقاضے پوری نہیں کرتی اور مسلمانوں کو صرف پاک چیزیں استعمال کرنے کاحکم ہے؟ لہذا صفائی کا تقاضہ ہے کہ ردی تلف کردی جائے، نہ ردی ہوگی نہ کوئی حاجی صاحب تھوک میں خریدیں گے، نہ چلر میں بیچیں گے نہ یہ مسئلہ پیدا ہو گا؟ ویسے بھی ردی کو ٹھکانے لگانا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے مسلمان ہو نے کی حیثیت سے۔ سب سے پہلے تو وہی ذمہ دار ہیں کہ جو لکھیں اس پر عمل نہ کریں اگر عمل کرتے توپھر ردی میں اسے بکتا دیکھ کر انہیں دکھ  ضرورہو تا۔
یہاں بھی ایک ٹھیلے والے کا ذکر ہے۔ بھٹے والے کا بھی ذکر ہے۔اور یہ بھی ذکر ہے کہ وہ “ بندھی “ مزدور تھے، بھٹے والوں کے اور ان کے درمیان پچاس ساٹھ ہزار پر تنازع چل رہا تھا۔ بھٹے والوں کے مظالم کی داستانیں وہاں عام ہیں جبکہ مشق ستم زیادہ تر مسلمان ہیں۔ جس طرح  وہا ں مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے اس سے سب واقف ہیں؟ لیکن آج تک محکمہ محنت نے کچھ نہیں کیا۔ ان سب کڑیوں کو ملالیا جا ئے تو پوری کہانی سامنے آسکتی ہے۔ مگر یہ کڑیاں کبھی نہیں ملیں گی اس، لیے کہ ایف آئی آر ( ابتدائی اطلاع جسے کہتے ہیں ) اسی پہ پورے مقدمہ کا دارومدار ہوتا ہے۔ وہ چھ سو آدمیوں کے خلاف ہے۔ جس میں ساٹھ اس میں نامزد ہیں۔یہ بات دیکھنے میں بڑی اچھی لگتی ہے مگر پانچ سے زیادہ تعداد پر بلوہ کا مقدمہ دفعہ 107کے ساتھ درج ہوتا ہے۔لہذا سابقہ روایات کے مطابق آج تک کوئی ایک بھی مجرم ثابت نہیں ہوسکا۔ اس سے کم ہوں تو302کے تحت کاروائی ہوتی ہے جس میں سزائے موت ہے۔ یہاں بھی پہلے ایک ہی دو تھے جنہوں نے ان کو چھت توڑ کر نکا لا اور بھٹے تک زد وکوب کرتے ہوئے لے گئے وہ کون تھے ، بھٹے والوں سے انکا تعلق کیا تھا، پھرانہوں نے جلانے کے لیے بھٹہ ہی کیوں منتخب کیا۔ یہ اس مقدمے کی بہت ہی اہم کڑیاں ہیں ۔ مگر کوئی جوڑےگا نہیں۔ یہ مقدمہ بھی گزشتہ تمام مقدمات کی طرح ختم ہو جا ئے گا ۔ کیونکہ عدالت سزا ان مقدمات میں دیتی ہے جہاں پوری ثبوت مہیا کیئے گئے ہوں ۔ا گر ثبوت ہی کمزور ہوں، گواہ بعد میں منحرف ہو جا ئیں، تو عدالت شبہ کا فائدہ ملزمان کو ہی دیتی ہے لہذا وہ بری کر دیتی ہے۔
چونکہ عوام کی اکثریت جا ہل ہے اور( موب اسپرٹ )عوام میں احتجاج کا رجحان جوکہ یہاں ایک صدی پہلے پاکستان بنا نے کے لیے بڑھایا گیا تھا، وہ روزبروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔جبکہ ہمارے برعکس دوسری قوموں نے انہیں آزادی کے بعد تعمیر میں لگا دیا ،تو ترقی کر گئیں جس کی مثال ملک چیں ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اسے اپنی کرسی قائم رکھنے کے لیے کام نکلنے بعد بھی ایسے ہی چھوڑدیا گیا جیسے کہ افغانستان میں مجاہدوں کی فوج ؟ جس کی سزا قوم کئی عشروں سے بھگت رہی ہے۔ وجہِ بیماری کیاہے ؟ یہ سب جانتے ہیں “ خود غرضی اور بد عنوانی “
جب پولس عہدے خریدے گی، تھانے ٹھیکے پر لے گی تو اسے کہیں سے پورا تو کر نا ہوگا اور جنہوں نے اہلکاروں سے رقم لی ہوگی انہیں بھی آنکھیں بند کر نا پڑیں گی۔ مباحثہ میں موجود وزیر صاحب نے اس کا بڑا اچھا حل بتایا کہ “پارلیمنٹ یہ غور کرے کہ ان دفعات کو کیسے پاکستانی قیادت کے مزاج کے مطابق بنا یا جا سکتا ہے “ وہ دفعات کیا ہیں ؟کہ انتخاب میں وہی امید وار حصہ لے سکتے ہیں جو صادق اورامین ہوں۔جبکہ ان میں ابھی تقویٰ شامل نہیں ہے، جوکہ لازمی ہے اور حضور (ص) کے اسوہ حسنہ سے ثابت ہے جسے اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی فرماتا ہے ، انہوں (ص) نے پہلے جو دو گورنر مقرر فرمائے۔ وہ تھے حضرت معاذ بن جبل  (رض)اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ اور جو پہلے کلکٹر مقرر فرمائے وہ تھے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رض) جوکہ سنت سے کہیں بال برابر بھی انحراف نہیں کرتے تھے جن کی تعریف میں متعدد احادیث،تاریخ اور سیرت کی کتا بوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں وہاں پڑھ لیں۔ جس کا خیال بعد میں بھی آنے والوں نے رکھا۔ لیکن جب ترجیحات بدلی گئیں؟ تو پھر بگاڑ پیدا ہوا؟ جو ہنوز جاری ہے۔ جب ان کے قدردان نہ رہے تو نہ وہ تزکیہ نفس کرانے والے رہے نہ مدرسہ رہا نہ استاد ۔ البتہ وہ چبوترہ باقی ہے جہاں یہ پڑھتے پڑھاتے تھے،جو حضور (ص) کی ابدی آرام گاہ کے ساتھ ہے۔ وہاں زائرین بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک ثواب کے لیے کرتے ہیں۔ جبکہ پہلے وہاں قرآن کو سمجھا، سمجھایا اور اس پر عمل کرنا سکھایا جاتا تھا ۔اب اسکا یہ ہی واحد مصرف رہ گیا ہے پڑھ لیا اور بس۔اور ہمارے پاس یہ عذر ہے کہ ہم میں ایسا کوئی ہے ہی نہیں۔ لائیں کہاں سے؟
اب ہم دوسرے مقتول کاذکرکے بات ختم کرتے ہیں۔کہ پہلے اسی قسم کے ادارے محبت سکھا یا کرتے تھے۔ صحابہ کرام (رض)اسی ادارے سے فارغ التحصیل تھے جس کے سربراہ رحمت اللعالمین(ص) تھے۔ انہوں نے سیکھا ہی یہ  تھا کہ محبت کو فروغ دو۔ لہذا وہ اتباع حضور(ص) میں محبتیں بانٹتے تھے۔ لہذا اسلام پھیلتا چلا گیا کیونکہ لوگ کرداروں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ جبکہ بقول علی کرم اللہ وجہہ کے اچھی باتیں تو سبھی کرلیتے ہیں۔ اب نہ ایسے مدرسے اس کام استعمال ہوتے ہیں ، نہ وہ خانقاہیں نہ منبر؟ نئی نسل انہیں کی زہریلی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسموم ذہن لیے پیدا ہورہی ہے۔ یہ سب انسپکٹر بھی نئی نسل کا نقیب ہے۔ وہ گزرا جو قرآن منع کر رہا ہے کہ “ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے “ آج ہم سب یہ شعر صادق آتا ہے۔ یہ مسلماں ہیں کہ ایمان بدلنا چاہیں   خود نہ بدلیں مگر قر آن بدلنا چاہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , , . Bookmark the permalink.