ایک زمانہ تھا کہ لندن کو دنیا میں کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ جوکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد باقی نہیں رہی پہلے اسکی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب نکلتا نہیں ہے۔ مگر اب بھی تمام ممالک کے لوگ اس کو سازشوں اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ان سب کی وہ ثانوی رہائش گاہ بھی ہے۔ آجکل وہاں ایسا ہی دو گروپوں کا اجتماعِ ضدین برپا ہے جو کہ پاکستان میں کبھی لڑے اور کبھی ملے رہتے ہیں ۔مگر جب لندن جاتے ہیں تو ایک ہوجاتے ہیں جو اس سے ظاہر ہے کہ ٹھہرنے کے لیے وہ ہوٹل بھی ایک ہی چنتے ہیں ۔ جبکہ پاکستانی میڈیا کو اس پر اعتراض ہے کہ جب وہاں گھر ہے تو ہوٹلوں میں کیوں ٹھہرتے ہیں ،پاکستان جیسے غریب ملک پر بوجھ کیوں ڈالتے ہیں ؟اور ان کو ملاتے ہیں مدینہ منورہ کی پہلی اسلامی سلطنت کے سربراہ (ص) سے کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان (ص) کے اسوہ حسنہ کومسلمانو کے لیے کافی قراردیا ہے ۔ طفصیل اتنی طویل ہے کہ اس چھوٹے سے مضمون میں نہیں آسکتی۔ آپکوایک جھلک دکھا ئے دیتا ہوں۔ وہ پہلے بھی فقیروں کی جھولی بھرتے تھے اپنی خالی رکھتے تھے پھر حکومت ملی توبھی خود فاقے سے رہتے تھے اور سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے۔ بیت المال با قاعدہ بنا نے کی حاجت انہیں اس لیے پیش نہیں آئی کہ اسوقت ضرورت مند زیادہ تھے اور مال کم تھا، صبح سے شام تک جو کچھ ان (ص) کے پاس کہیں سے آتا شام تک کچھ باقی نہیں بچتا تھا۔ پھر ان کے بعد مسلمانوںکے سربراہ حضرت ابوبکر (رض) بنے انہوں نے مال رکھنے کے لیے ایک کوٹھری تو بنا ئی اور ایک بڑا سا تالہ بھی اسے لگا دیا۔ لوگ سمجھتے رہے کہ اس میں بہت مال ہو گا، مگر ان کے نزدیک اپنے مقابلے میں نبی (ص) کے اسوہ حسنہ کے مطابق عوام کی ضروریات زیادہ اہم تھیں ؟ جب ان کے وصال کے بعداسے کھولا گیا تو ا س میں صرف ایک درہم تھا۔ انہوں نے اپنا دور یہاں سے شروع کیا کہ حکمراں منتخب ہونے کے بعد بھی اپنا کاروبار نہیں چھوڑا اور حسب دستور جب پہلے دن وہ اپنے مال ِ تجارت کندھے پر ڈال کر بازار کی طرف چلے، تو لوگوں نے کہا کہ اے امیر المونین! اس طرح کام نہیں چلے گا ؟
بہتر یہ ہے کہ آپ اب کارو بار چھوڑ دیں اور کچھ بیت المال میں سے لے لیا کریں ۔ مگر انہوں نے شروع میں گوارا نہیں کیا ۔ آخر ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ اپنے دور کے کامیاب ترین تجار اور سابق امیر ترین شخص کے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی! تو انہوں نے شوریٰ کے مشورے سے اتنا لینا شروع کیا کہ جس سے روکھی سوکھی چلتی رہے۔ وہ بھی اپنے آخری وقت میں حساب کرکے اور اپنا (رض) مکان بیچ کر ادا کر یا۔ حضرت عائشہ (رض) جو کہ ان کی بیٹی اور وہ ام المونین تھیں جن کے حجرے میں حضور (ص) کا وصال ہوا۔ ان سے پوچھا کہ میرے آقا (ص)کے کفن کے لیے کتنے پارچہ جات تھے؟۔ جواب ملا تین تو فرمایا کہ میرے پاس چار ہیں دو میں پہنے ہوئے ہوں دو دھوکر رکھتا ہوں، اس مرتبہ میں بیماری کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکا وہ دوتم دھوکر میرے کفن کے لیے استعمال کر لینا اور ایک نیا بازار سے خریدلینا! انہوں (رض) نے فرمایا کہ ہم تینوں کپڑے نئے کیوں نہ خرید لیں؟ فر مایا نہیں !میں ایک بھی نیا استعمال نہیں کر تا، مگر ہر مسلمان پر حضور (رض)کا اتباع فرض ہے۔ اور میرے پاس پرانا کپڑا تیسرا ہے نہیں ۔ ورنہ میرے نزدیک نئے کپڑوں کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔اسی پر عمل کیا گیا اور ان کے بعد بھی کسی کی جراءت نہ ہوئی کہ وہ ان کی وصیت کو تبدیل کر دیتا۔
اب دوسرے جانشین (رض) کی بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے دوبارہ تجربہ نہیں کیا اور شوریٰ کے کہنے پر اتنا لینے لگے، جس سے وہ عام آدمی جیسا کھانا کھا سکیں۔ ایک دن بیوی نے میٹھا بنا لیا، تو پوچھا یہ کہاں سے آیا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میں نے خرچے میں سے کچھ پسِ انداز کر کے بنایا ہے ۔ کہنے لگے اگر تمہارا روزینہ اتنا ہے جو اس میں سے پس انداز کرلیتی ہو، تو اسے کم کر دیتا ہوں۔ لہذ ا اس کے بعداس سے کچھ کم دینا شروع کردیا۔ ان (رض) کے دورِ حکومت میں قحط پڑگیا تو انہوں (رض) نے وہ چیزیں جو انہیں مرغوب تھیں یہ کہہ کر اپنے دسترخوا ن سی ہٹا دیں جن کا کہ عرب میں استعمال عام تھا، جیسے کہ شہد، انہوں نے یہ فرماکر اپنے سامنے سے ہٹادیں کہ یہ اب عام لوگوں کو میسر نہیں ہیں۔ لہذا اب میں بھی انہیں استعمال نہیں کرونگا۔
ظاہر ہے کہ ایسا شخص (رض) محل کیا بناتا دربان کہاں رکھتا؟ کبھی مسجد میں سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر سوجاتے ،کبھی کسی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنا عصاءسر کے نیچے رکھ کر سوجاتے ایسے میں ایک وفد با ریاب ہوا اس نے یہ دیکھا تو کہا کہ ً ایک دن یہ شخص ضروردنیا کو فتح کر لے گا ً
ان کے زمانے میں سرحدیں پھیلتی چلی گئیں اس زمانے کی دونوں سپر پاورزکو انہوں (رض) نے شکست دیدی۔ جو مال ان کے خزانوں میں بیکار پڑا ہوا تھا۔ وہ مال غنیمت کے طور اتنا آیا کہ رکھنے کی جگہ نہ رہی، تو انہوں (رض) دنیا کے سامنے فلاحی مملکت کا تصور پیش کیا۔ بچوں، بیواؤ ں اور بوڑھوں کا، وظیفہ مقرر کر دیا ۔ فوج کو با قاعدہ تنخواہیں مقرر کیں اس سے پہلے با قاعدہ فوج نہیں تھی، وقت ِضرورت لوگ شامل ہو جاتے تھے، جب فتح ہوتی اور مال ِ غنیمت ہاتھ آتا تھا تو اس میں سے خمس نکال کر باقی مال، سواروں میں دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ تقسیم ہو ا کرتا تھا۔ تنخواہیں مقرر کرنے بعد فوجیوں کو حکم دیدیا کہ وہ اسلامی مملکت میں کہیں زمین نہیں خرید سکتے(تاکہ ان کا دل اپنے فرائض منصبی میں لگا رہے ، پلاٹو ں کے حصول ، تجارت اورمال کمانے میں نہ لگا رہے) جو اہلکار تھے ان کے لیے ایک معیار مقرر ہوا کہ وہ ڈیوڑھی نہیں بنا ئیں گے ،دربان نہیں رکھیں گے چَھنے ہو ئے آ ٹے کی روٹی نہیں کھا ئیں گے۔ موٹا جھوٹا پہنیں گے غیرہ وغیرہ۔
مساوات پر وہ (رض) اتنے عامل تھے۔ کہ جب بیت المقدس کے مذہبی رہنماؤں نے یہ شرط رکھی کہ ہم اس شہرکو پرامن طورپر سرنگوں کر نے کو تیار ہیں ،مگر شرط یہ ہے کہ ہماری کتابوں میں جو فاتح کی پہچان لکھی ہے ہم وہ ان میں پائیں؟ اس لیے وہ خود تشریف لا ئیں۔ انہوں نے خونریزی بچانے کے لیے دا رالحکومت چھوڑ دیا جس کو چھوڑنے سے پہلے شوریٰ نے انہیں منع کیا تھا،جب وہ ایران کے خلاف لڑنے جا رہے تھے۔ اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تجویز پر حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کو اپنی جگہ اس ہدایت کے ساتھ ایران بھیجا کہ تمہیں حضور (ص) سے قرابت کہیں مغرور نہ کر دے اور تم ہلاک ہوجاؤ؟ وہاں ہمیشہ یہ معلوم کرتے رہنا کہ عوام تمہا رے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
لیکن اس مرتبہ وہ (رض) کسی کی بات نہیں مانے اور انہوں (رض) نے جانے کا فیصلہ کر لیا؟ جب یروشلم کے قریب پہونچے ،تو ایک منزل پہلے چند اسلامی جنرل آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں امراءزرق برق لباس پہنتے ہیں اور ان کے ساتھ فوجی دستہ ہوتا ہے؟ آپ بھی لباس تبدیل فرمالیں اور ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ وہ یہ سن کر برہم ہوگئے فرمایا میں ایسے ہی جاؤ نگا۔( کیونکہ وہ پہلے ہی دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہمارے اور ایران کے درمیان آگ کا سمندر حائل کردے تاکہ ہمیں ان کے خلاف لڑنا نہ پڑے، کیونکہ ان کی برا ئیاں ہم میں بھی آجا ئیں گی اور ہم بھی ہلاک ہو جا ئیں گے۔ اس کے توڑ کے لیے جیسا کہ ہم نے اوپر بتا یا کہ انہوں نے یہ انتظامات کیے )۔ جنرلوں کو واپس کر کے پھر وہ اس شان سے چلے کہ اونٹ ایک تھا،ایک دن و ہ سوار ہو تے تھے اور غلام اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلتا تھا اوردوسرے دن غلام سوار ہوتا تھااور وہ نکیل پکڑ کر چلتے تھے۔ آج نکیل پکڑ کر چلنے کی ان (رض) کی باری تھی؟
اہلیان یروشلم فصیل پر سے کھڑے ہو ئے دیکھ رہے تھے۔ اور منتظر تھے کہ فوج ساتھ ہو گی دھول آسمان کو چھوتی ہو ئی نظر آئیگی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے ہے اوردوسراس پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہاں جو مسلمان ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے پہچان کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہا مرحبا یا امیر المونین! تو انہیں اندازہ ہوا کہ جن کا انتظار تھا وہ ان ہی میں سے ایک ہے وہ یقیناً سوار ہو گا ۔ مگر مسلمانوں نے بتایا کہ جو سوار ہے وہ غلام ہے، جو نکیل پکڑے ہو ئے ہیں یہ امیر المومنین (رض) ہیں۔ ان کے مذہبی رہنما نے کہا کہ یہ ہی ان کی پہچان ہماری کتابوں میں تھی۔ وہ باہر آئے اور اپنے جلو میں ان (رض) کو لیے ہوئے قلعہ میں داخل ہو گئے۔ اسی میں نماز کا وقت آگیا، تو انہوں نے پیش کش کی کہ آپ یہیں ہماری عبادت گا میں نماز پڑھ لیجئے؟ انہوں (رض) نے کہا کے نہیں میں باہر جا کر پڑھونگا ،مجھے ڈر ہے کہ میرے (رض) بعد مسلمان کہیں اس کو مسجد نہ بنا لیں ۔ انہوں (رض) نے عبادت گاہ سے باہر نکل کر سیڑھیوں پر جاکر نماز پڑھی جہا ں لوگوں کے پاؤں پڑتے تھے۔کچھ بچھایا بھی نہیں، جا ءنماز کا ان کے دور میں رواج شروع نہیں ہوا تھا ۔ حتیٰ کہ مسجد نبوی بھی ابھی کھجور کے چھپر کی تھی اور مسجد میں جب نمازی سجدہ کرتے تھے، تومتھے میں کنکریاں چبھ جا تی تھیں۔ یہ تھے حضرت عمر بن خطاب (رض) ۔ جو تاریخ میں فاروقِ اعظم کے نام سے مشہور ہیں۔ جنکے دور میں دجلہ اور فرات تک کا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ اسی لیے انہوں (رض) نے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جا ئے تو عمر ذمہ دار ہے؟
آخر اوروں طرح ان کا وقت بھی آپہونچا اور ایک منصفانہ فیصلے کی پاداش میں ایک ایرانی غلام ناراض ہو گیا، اس نے مسجد میں جاکر انہیں شہید کردیا۔ ان (رض) کی زبان مبا رک سے سب سے پہلی بات یہ نکلی کہ خدا شکر ہے کہ میرا قاتل مسلمان نہیں ہے؟ انہوں نے بھی پہلے والے کا اتباع کرتے ہو ئے حساب کتا ب کیا، جتنی رقم بیت المال سے اب تک لی تھی وہ اپنی ایک جائداد فروخت کر کے ادا کردی۔
انا للہ وانا علیہ راجعون ہ
آپ یہ پوچھیں گے کہ آپ نے یہ قصہ یہاں کیوں دہرایا ؟ پہلا جواب تو یہ ہے کہ ع ہرگز نہ ناپئے انہیں اسوہ رسول (ص) سے جو سر تک اٹے ہوئے ہوں دنیا کی دھول سے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہوٹل میں اس لیے ٹھہرتے ہیں کہ رعب پڑتا ہے اور وہ بھی سرکاری خرچے پر۔
ا