جوگرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

یہ محاورہ بڑا قدیم ہے۔ یہ کب اور کس نے کہا تھا اسکا تاریخ ِادب میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قادر ہے۔ کبھی بادلوں کے کاندھوں پر رحمت بھیجتا ہے کبھی عذاب، جب کہ لوگ بادلوں کو دیکھ کر خوشی منا رہے ہوتے ہیں کہ خوشک سالی دور ہوجا ئے گی۔ اور ایسا ہی ایک قوم کے ساتھ ہوچکا ہے۔ جس نے اپنا وفد حرم شریف میں بارش کے لیے دعا کرنے بھیجا تھا،چونکہ قوم عیاش تھی، وفد بھی ویسا تھا وہ وہاں رنگ رنگیلیوں میں لگ گیا۔ جب میزبانوں نے انہیں کسی ترکیب سے یاد دلایاکہ تم کس مقصد کے لیے آئے تھے اور کر کیا رہے ہو؟ توانہیں ہوش آیا اور دعا کی تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں کئی قسم کے بادل دکھائے کہ ان میں سے پسند کرلو وہی بادل ہم وہاں بھیجدیں گے ! انہوں نے جو سب سے زیادہ سیاہ رنگ کا بادل تھا یہ دیکھ کر پسند کیا کہ اس میں پانی بھراہوا ہے یہ جل تھل کردیگا، مگر آواز آئی کہ تم نے اپنی قوم کے لیے وہ بادل پسند کیا ہے جس میں آگ بھری ہوئی ہے۔ جس سے وہاں کوئی زندہ نہیں بچے گا؟ وفد وہیں رہ گیا کیونکہ وہ دوڑتا بھی تو بادل اس سے پہلے پہونچ جاتے؟ اور بادلوں نے وہاں جاکر تباہی مچادی اور پوری قوم تباہ ہوگئی ۔
اس واقعہ سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک اللہ کی نگاہ سیدھی نہ ہو بھلائی نہیں آسکتی ، کیونکہ معلوم نہیں کہ ہم جس کو رحمت سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے لیے زحمت نہ بن جائے؟ اسی کو راضی کرنا چاہیے تا کہ وہ ہمارے حق میں بہترفیصلے کرے ورنہ پھر یہی صورت حال رہے گی کہ ع کوئی امید بر نہیں آتی   کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ہمارا حال صدیوں سے یہ ہی ہے کہ کبھی یہ دامن پکڑ تے ہیں کبھی وہ دامن پکڑتے ہیں۔ پردہ اسکرین پر جو تصویریں اکثرخوشنما دکھائی دیتی ہیں انہیں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور جب انہیں چھونے کی کوشش کرتے ہیں تو انگلیاں پردہ سے ٹکرا جاتی ہیں۔ اسی صورت حال سے وطن عزیز پھر دوچار ہے۔ ملک پر سیاسی بادل چھا ئے ہوئے ہیں۔ ان سے کیا بر آمد ہوگا یہ مستقبل بتائے گا؟کیونکہ خوف ِ خدا دونوں طرف نہیں ہے۔ پیمانہ مختلف ہوسکتا ہے کہ ایک کے دل میں کچھ کم ہو اور دوسرے کہ دل میں کچھ زیادہ ،مگر ہمیں جو پیمانہ اسوہ حسنہ (ص) کی شکل میں ناپنے کے لیے دیاگیا ہے اس پر نہ ہم پورے اتر تے ہیں اور نہ ہمارے مسیحا؟ جہاں تک ہم سمجھے ہیں دونوں کا مقصد صرف مہلت حاصل کرنا ہے؟
حکمراں پارٹی یہ سوچ رہی ہے کہ ہم وقت پورا کریں اور اس میں منصوبے پورے کرلیں، تاکہ عوام کے سامنے ہم جا ئیں تو وہ خوشی خوشی ووٹ دیں۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جو چھلنی میں دوھ رہے ہیں ۔ اس سے چھن کر کچھ بچے گا تبھی تو عوام تک پہونچے گا؟ ہر عقلمند یہ ہی کہے گا کہ پہلے چھلنی کے چھید بند کرو؟ پھر اس میں دودھ ڈالو ؟
دوسری طرف اپوزیشن ہے وہ بھی یہ ہی چاہ رہی کہ موروثی حکمراں پارٹیوں کو اتنا خوار کرد ے اور تاخیر سے انہیں اتنا مجبور کردے کہ انتخابات غیر جانبدارانہ ہوں۔ اور منصوبہ کوئی بھی مکمل نہ ہوسکے تاکہ حکومت کی جھولی میں پاپ کارن (مکئی کی کھیلوں )کی طرح ووٹ خود ہی اچھل کر نہ جاپڑیں؟
اس پورے تماشے کہ پس پردہ کوئی تیسری طاقت بھی ہے۔ وہ اس سے ثابت ہے کہ حکومت دھمکاتی تو بہت ہے مگر کر کچھ نہیں پاتی ۔ جبکہ حزب اختلاف تاریخیں دیتی رہتی ہے اور بس ؟۔ جبکہ مشاورت تیسری طاقت کی چل رہی ہے جو دونوں کو نچا رہی ہے اور اپنے مفادات ہمیشہ کی طرح حاصل کر رہی کیونکہ دونوں دھڑے اسی کے ہی رہینِ منت ہیں؟ نتیجہ کیا نکلے گا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ کہ ان گھٹاؤ سے وہ کچھ بھی برسا سکتا ہے۔ اب اگلی تاریخیں سیاسی میچوں کی پھر ملی ہیں۔
پہلے ببھی لمبے لمبے بیان دونوں طرف سے آئے کہ ہم یہ کردیں گے ہم وہ کردیں گے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ پہلی تاریخوں کی طرح یہ تاریخیں بھی نکل جا ءیں گی اور سب اسی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے؟ اس کانتیجہ کیا ہوگا ۔ قوم پر قرضوں کا بوجھ اور بڑھ جا ئے گا۔ اور“ دکھ سہیں بی فاختہ اور کوئے انڈے کھائیں والی مثال صادق آئے گی “ جو 68 سال سے اس ملک پرحکومت کر رہے ہیں وہی حکومت کرتے رہیں گے؟ اور کٹ پتلیوں کا یہ تماشہ اسی طرح جاری رہے گا۔
میڈیا پہلے ایک تھا تو اس سے کچھ امید تھی مگر اب وہ بھی بٹا ہوا ہے۔ وہ روزانہ سیکڑوں اسکینڈل دکھا رہا ہے، موتیں دکھا رہا ہے بھوک اور بد ھالی دکھا رہا ہے۔ اس میں ایک آدھ کیس حکومت منتخب کرلیتی ہے اور وہ چینل جس نے سب سے پہلے خبر دی تھی ، اس کو اسکورنگ ملجاتی ہے کہ سب پہلے یہ خبر دینے کا اعزاز ہم نے حاصل کیا تھا۔ اتنے چور دروازے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مرحلے پر یاتو بعد میں مکمکا ؤہوجاتا ہے۔ یا پھر لوگ عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے تھک کر خود ہی منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔ آجکل تھر کا مسئلہ میڈیا میں زیر بحث ہے ۔یہ بد قسمت خطہ صدیوں سے یہ عذاب بھگت رہا ہے۔ جہاں وسائل موجود ہی نہ ہوں۔ اور ان کے دردوں کا مداوا کرنے کے کوئی موڈ میں بھی نہ ہو۔ پھر یہاں بھی چھلنی آڑے آتی ہے کہ جو وہاں بھیجا جا ئے تو ان تک پہونچتا نہیں ہے ،جو تعمیر ہوتی وہ ریت میں غائب اور پیسہ یاروں کی جیب میں ؟
ہاں کوئی کر نا چاہے توکر سکتا ہے کہ 71کی جنگ میں انڈیا نے اس کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے رسل و رسائل کے لیے ریلوے کے پرانے لکڑی کے پھٹے استعمال کیے اور اس پر کولتار ڈالکر سڑکیں چند مہینوں میں بنالی تھیں۔ جوکہ وہ واپس جاتے ہوئے ساتھ لے گئے۔ اس کے بعد جو پاکستان کو آباد کاری فنڈ ملے تو سڑک بنانے کے ٹھیکے سیاسی رہنماؤ کو مل گئے ۔ اس سے ریت کی سڑک بنی جو بعد میں ہوا اڑا لے گئی۔
تیسرے فریق جماعت اسلامی کے امیرمولانا سراج الحق صاحب بھی اپنی جماعت میں نئی جان ڈالنے کی فکر میں ہلکان ہورہے ہیں۔ یہ کوئی ان ہونی بات بھی نہیں ہے فارسی مقولہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر نیا آنے والا نئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اگر اینٹ، سیمنٹ اور سریہ نہ بھی ہو، تو بھی خیالی قلعے تو تعمیر کر ہی سکتا ہے۔ میں نے یہ اس لیئے کہا کہ وہ بھی اپنے آئندہ جلسے میں اسلامی روڈ میپ دینے جارہے ہیں؟ بڑی اچھی بات ہے۔ مگر اس نظام کے چلانے کے لیے اسکی بنیادیات توجماعت ایک صدی میں تیار نہیں کرسکی، مگر جیسے سب جماعتیں اور آمر الیکٹ ابیل کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ،اسی طرح جماعت کو بھی رجوع کرنا پڑا اور اس نے اپنے یہاں بھی درجہ بندی کرکے تین ،درجے پیدا کر لیے یعنی،متاثر ، متفق ،اور رکن۔ گزشتہ کئی انتخابات میں اس نے متفقوں کو ٹکٹ دے کر تجربہ بھی کیا جو امید افزا نہیں رہا، جماعت میں اپنے عہدیداروں کے انتخاب میں صرف ارکان کوووٹ کاحق ہے ۔ باقی کو نہیں۔ اگر متاثرین اور متفقین کام اچھے کریں تو کریدٹ جماعت لے لیتی ہے اگر بد عنوانی کریں تو اپنادامن یہ کہہ کر چھڑا لیتی ہے کہ وہ رکن نہیں ہیں ۔ جبکہ جماعت ابتدا میں بہت اچھی چلی تھی ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس میں شامل تھے شدت پسندی کوسوں دور تھی۔ اور حضور (ص) کےاسوہ حسنہ پر چل رہی تھی کہ پہلے نظام کو چلانے کے لیے کل پرزے تیار کیے جائیں پھر اقتدارمیں آئیں۔ اپنے اس دور میں جماعت نے ایسے افراد پیدا کیے جوکہ دنیا میں اب موجود نہیں ہیں مگر ان کے کار ناموں کی بنا پر ان کی آج تک ہرمکتبہ فکر میں بہت ہی عزت و احترام ہے۔ میرے خیال میں ایسے ہی لوگ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں اینٹ، سیمنٹ اور سریہ کاکام دے سکتے تھے۔ جن کی تعداد اب جماعت میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام کا روڈ میپ تو وہ عطا فرمادیں گے ،مگر اسے چلائے گا کون کیوںکہ ایک صدی میں معاشرہ میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ پچھلی صدی میں مسلمان اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کیا کرتا تھا، بے ایمان، بدعنوان دال میں نمک کے برابر تھے، معاشرے وہ نکّو بنے رہتے تھے۔ بہرام اور سلطانہ جیسے لوگ گوکہ بہت مخیر تھے مگر ڈاکو کہلاتے تھے ۔ آج وہ فخر سے تن کر چلتے ہیں ان کے بر عکس جو متقی ہیں ۔ وہ معاشرے میں نکّو بنے ہوئے ہیں اور ہیں بھی دال میں نمک کے برابر؟ جبکہ موجودہ اسلام کے حامی اور مخالف دونوں کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ خدارا ہمیں سلام سے بچاؤ ۔ اگر ہم اس پر عمل کریں گے تو ہمارے بچے بھوکے مر جائیں گے ،ہم کھائیں گے کیا؟ کیونکہ غلط راستے تو سارے بند ہوجائیں گے۔ جبکہ دوسری قومیں جو کہ مسلمانوں کو فرشتہ اور نجات دہندہ سمجھا کرتی تھیں۔ اسلامی تاریخ پڑھ کر اور یہ تاثر عام تھا کہ اسلام غریبوں کامذہب ہے اب وہ مسلمانوں کے موجودہ دونوں روپ دیکھ کر جس میں ایک طرف شدت پسندی ہے اور دوسری طرف بد عنوانی ۔ کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے بچاؤ۔ ایسے میں ہم سراج الحق صاحب کی کامیابی کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں اور بس؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.