ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔؟ از۔۔۔ شمس جیلانی

ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔؟ از۔۔۔ شمس جیلانی
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو۔ پتہ نہیں شاعر کی اس سے مراد کیا تھی ،اسے دوست نادان ملے تھے؟ یا وہ حضرت خود کسی کی جان کو دوست کی شکل میں کمبل بن گئے تھے۔ چونکہ شعر ذو معنی ہے لہذا اس کے دونوں پہلوؤں پر ہی بات کرلیتے ہیں ۔آزادی سے پہلے ہم ا یک ملک کے دوست بن گئے تھے جو ہمیں بنا نا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر دل جو آگیا تھا اور کہتے ہیں کہ دل پر کوئی زور نہیں ہوتا؟نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی دوستی حاصل کرنے کے لیے ہمیں بچھ جانا پڑا کیونکہ معاملہ نصف، نصف کا تھا یعنی ہم تو اسے پوری چاہتے تھے مگر وہ ہمیں گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ حالانکہ ہم اس کے رقیب کا دعوت نامہ جیب میں ڈالے دکھا نے کے لیے گھومتے رہتے تھے حتیٰ کہ ہم اسے اپنی آزادی کے بعد سے چار سال تک مستقل مزاجی سے دکھا تے رہے۔ آخر امید بر آئی۔ کیونکہ حالی کہہ گئے ہیں۔ کہ
ع پتھر پہ پانی پڑے مستقل مبادا کہ گِھس جا ئے پتھر کی سل۔ ہمارے وزیر اعظم نے وہ جیب میں اس وقت بھی احتیا ط ً رکھا ہوا تھا جب وہ ملنے جارہے تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ اندر کی خبر آپ تک کیسے پہونچی آپ روشن ضمیر تو نہیں ہیں؟ اس کا پہلا جواب تو ہے کہ ہم روشن ضمیر تو نہیں ہیں مگر با ضمیر ضرور ہیں ۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے یاداشت ہمیں اچھی عطا فرمائی ہم اوروں کی طرح بھولتے نہیں ہیں۔ اور دوسروں کی طرح صرف مطلب کی ہی کی نہیں سنتے ، بلکہ سب کی سنتے ہیں جب لکھتے ہیں تو عدل کرتے ہیں ۔ اسی بری عادت کی وجہ سے ہم ہمیشہ غیر جانب دار رہتے ہیں کسی نے اچھا کام کیا تو تعریف کر دیتے ہیں، برا کیا تو وہ بلا کم وکاست صفحہ قرطاس پر لے آتے ہیں ۔ہمارے سامنے ابھی بھی وہی منظر ہے اور وزیر اعظم کا جواب ،ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے کہ ایک صحافی نے جب ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ جناب وہ دعوت نامہ کیا ہوا جو پاکستان بنتے ہی ایک پڑوسی نے بھیجا تھا ؟ تو جواب ملا کہ “ ہاں! وہ میری جیب میں ہے “۔ ظاہر ہے وہ جھوٹ تھوڑی فرمارہے ہونگے۔ ساتھ لے جارہے ہونگے دکھانے کے لیے جبھی تو فرمایا ؟
اس صحافی نے ہمیں یقین ہے کہ اپنے اندر پوری جرا ت پہلے سمیٹ لی ہوگی یہ سوال پوچھتے ہوئے؟ آج کے صحافی اسے سمجھ نہیں سکیں گے، یہ وہ دور تھا کہ اس ملک کانام لینا گناہ تھا اس کے سفارت خانہ کے قریب سے گزرنا جرم تھا۔ اس زمانے میں پیمرا نہیں تھی مگر “ پ“ سے ہی پبلک سیفٹی ایکٹ تھا جو کئی صحافیوں کو جیل کی ہوا کھلا چکا تھا۔
بعد میں اللہ کاکرنا یہ ہوا کہ ہمارے محل ِ وقوع بنا پر دوست کو ہماری ضرورت پڑگئی ۔ جبکہ ہم تو پہلے سے ادھار کھائے بیٹھے تھے اور اس چکر میں اس کے دوست ہمارے دوست اس کے دشمن ہمارے دشمن پہلے ہی بن چکے تھے۔ تب کہیں جاکر ہماری یک طرفہ محبت کو شرف ِ قبولیت بخشا گیا ۔
وہ دن ہے اور آجکا دن ہے کہ نہ وہ کمبل چھوڑتا ہے نہ ہم اسے چھوڑتے ہیں ۔ کیونکہ اسے چھوڑنے میں ایک طبقے کا نقصان زیادہ اور فائدہ بالکل نہیں ہے؟ رہے عوام انہیں یہاں کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں ؟ کیونکہ ان کے لیے کرکٹ کے ایک دومیچ کرادینا ہی کافی تھا وہ اس میں ہی جیت کا سن کر بہل جا یا کرتے تھے۔ جبکہ دوست کی ضرورت عجیب ہے جس طرح درختوں کی جتنی چھٹائی کی جائے اس میں سے اتنے ہی کلے پھوٹتے ہیں ۔ وہ بطور مالی ان کو پالتا ہے ، پھرجب انہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو بھوکے کیا نہ کرتے وہ اسی کارخ کرلیتے ہیں اور اسے پھر آنا پڑتا ہے؟ ابھی وہ ایک عرصہ کے بعد واپس جانے کے لیے بستر باندھ ہی رہا تھا اورالقاعدہ اور پھر طالبان کا بمشکل تیا پانچا کرپایا تھا کہ اسلامی حکومت کے داعی ، داعش کی شکل میں نکل آئے، اب دوست کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس کو ختم کرنے میں مزید پانچ سال لگیں گے جب تک اور کلے پھوٹ کر درخت بن چکے ہونگے، اس کی نرسری میں جوان کا دوست ہونے کی وجہ سے ہمارا بھی جگری دوست ہے ورنہ پہلے ہمارے بجا ئے وہ “ سیدی نہرو “ کے گن گایا کرتا تھا۔
اسکے مشورے بھی ماننے پڑتے ہیں جو بطور حکم ہمیں اور دوست کو بطور سفارش ملتے رہتے ہیں ۔کل ہی اس نے کہا ہے کہ شام اور عراق کے مسئلہ سے نکلنے کے زمینی فوج وہاں بھیجنے پڑیگی ، یہ وہ دوست ہے جس نے اپنے یوم ِ تاسیس سے لیکر آج تک نفرتوں کو فروغ دیا لیکن برا ہو مصلحتوں کا کوئی یہاں سچ کہنے والا نہیں۔ جبکہ ایسا ہی ایک واقعہ ہمیں ہندوستان کی تاریخ میں ملتا ہے کہ کلکتہ میں فسادات ہوئے تو الزام اس صوبے کے وزیر اعظم پر تھا جب گاندھی جی اسے ساتھ لیکر امن کے  لیےنکلے تو لوگوں نے کہا کہ قصائی کو تو آپ ساتھ لیے پھر رہے ہیں؟ اور چلے ہیں امن قائم کرنے؟ مگر یہ ساٹھ ستر سال پہلے کی بات تھی اس وقت ڈالر یاریال سے منہ بند کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے اب ہم نے کسی کو یہ کہتے بھی نہیں سنا؟ قصائی ساتھ ہیں پھر بھی کوئی نہیں پوچھتا !یا دشمن ِ امن اور ہم آہنگی ساتھ ہیں ۔ تو امن کیسے قائم ہوگا؟ پتہ نہیں ہم اپنی جُنگ میں نہ جانے کیا کہہ گئے ،خدا کرے کہ کوئی کچھ نہ سمجھے؟ اس کے لیے اس مصرع میں ترمیم کرکے جو کہ اصل میں اس طرح ہے کہ ع تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو، اب اس کو اپنے لیے اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ اپنی تو فکر کرنہ ان کی نبیڑ تو۔
خبریں یہ ہیں کہ پہلے پاکستان کی دیواروں پر میاں داعش نظر آئے ، لیکن حکومت نے کہا کہ نہیں وہ بچوں نے مذاق میں لکھ دیا ہوگا؟ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ وہ ہرڈھیلے کے نیچے سے نکل رہے ہیں ؟ مگر ان کی موجود گی ماننے کے لیے حکومت ابھی بھی تیار نہیں ہے نہ ہی یہ کہ وہ ہمارے اندر ہی موجود ہیں۔ کیونکہ ہماری روایت یہ ہے کہ ہم جب مانتے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوجا ئے؟ اس سے پہلے نہیں ۔ حالانکہ کتنی ہی تنظیمیں ہیں جن کو حکومت کالعدم قرار دے چکی ہے جو طالبان سے متعلق تھیں اور وہ صرف نام بدل کر سرگرم ِ عمل ہیں۔ اب انہیں کو اگر مال ملا، یا “ بدعتیوں “ کو قتل کرنے پر جنت کا وعدہ ہوا تو داعش بن جا ئیں گے بلکہ اب تک بن بھی چکے ہونگے۔ ایسے میں ملک میں انتشار ہوناایک انتہائی خطرناک صورت ِ حال ہے۔ جبکہ ہر طرف دھرنے جاری ہیں ۔ حکومت انہیں اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ جس کسی نے انہیں سہارا دیا تھا اس نے اپنا کام نکال لیا ہے اس سے انہیں اب ڈر نہیں ہے؟ دوسرے ان کا مطالبہ ہی ایسا ہے؟ اس لیے حکومت بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ جب سے ملک بنا ہے صحیح الیکشن ہوئے کب اور کرا ئے کس نے، تھوڑے دنوں کے بعد عوام بھول جاتے ہیں اور وہی لوگ اسی راستے سے پھر آجاتے ہیں جس سے کوئی انہیں لانا چاہتا ہے۔
اور یہ بھی کسی کی مرضی پر ہے منحصرہے کہ وہاں کون آئے گا۔ جبکہ ووٹ دینے کہ تہمت عوام پر آتی ہے؟ فخرو بھائی بڑے زعم سے آئے تھے ،چلے گئے سب کو معلوم ہے۔ اب نئے الیکش کمشنر بھی آگئے ہیں یہ بھی بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ا گر وہ اتنا ہی کرجائیں توبہت ہے کہ دستور کی شق 62 اور 63 جن کو فخرو بھائی نافذ نہیں کرسکے ،وہ کردیں کیونکہ یہ تازہ بہ تازہ اسلامی شرعی عدالت کے چیف جسٹس رہ کر آرہے ہیں۔ ویسے تواس راہ میں مشکلات بہت ہیں اور جان ایک ہے اور انہیں چار ووٹوں میں سے دو ووٹ بھی حاصل کرنا ہیں۔ ویسے بھی ایک الیکشن کمشنر ہر پولنگ پر تو بیٹھنے سے رہا۔ جبکہ ابتدا یہاں سے ہوتی کہ پہلے مردم شماری ہواکر تی تھی اور اس میں جعلی نام ڈالدیے جاتے تھے اور اسی کی بنیاد پر ہر الیکٹ ابیل کے حلقے اس کی مرضی کے مطابق بنتے تھے۔ چلیے اب وہ بدعت تو چھوڑ دی ہے کہ اب بغیر مردم شماری کے ہی کام چل رہاہے۔ جس پر دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے؟ اسے کیا پتہ منصوبے کیسے بنتے ہیں اور الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟ پہلے جعلی ووٹوں کا اندراج ہوتا ہے جو زیادہ تر محکمہ تعلیم کے اہلکار کرتے ہیں ۔ ان کی کیا مجال ہے کہ وہ موروثی امید واروں کے سامنے چوں بھی کرسکیں ، پھر پریزائیڈنگ آفیسرز پہلے ہی طے ہوجاتے ہیں کہ کون ،کون سے لینا ہیں جو مشکوک ہیں ان کا نام اس لسٹ سے نکالدیا جاتاہے۔اگر وہ امیدوار اسکرینگ سے  بچ بھی گئے تو پولنگ کے دوران ہی تھپڑ سے تواضع ہوتی ہے جبکہ دوسروں کی انڈوں پراٹھوں اور حلوے سے۔ پھر چاروں طرف ورکروں کی فوج دنداتی پھر رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں انتخابات ایک ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں ۔ بھلا ایسی پارلیمان میں انتخابی قوانین میں تبدیلی لا نے کو کون راضی ہوگا اگر کوئی راضی ہو بھی جا ئے؟ تو اسے موروثی امیدوار (الیکٹ ایبل) جن پر سینٹ اورپارلیمان مشتمل ہے کب پاس ہونے دیں گے؟ ہاں البتہ کچھ غیب سے ظہور پزیر ہو جائے تو اور بات ہے۔ جس کی ہمارے اعمالوں کی بنا پر امید کم ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.