ہماری پوری تاریخ کاروانوں کے لٹنے سے عبارت ہے۔ ایک سو پینتیس ما ؤں کی گود اجڑ گئی۔ جانے انہوں نے کن امیدوں کے ساتھ اپنے بچوں کو پڑھنے کے یے بھیجا ہوگا ، ان میں ہر قسم کی مائیں ہونگی ،کچھ اپنے بچوں کو ماڈرن بنا نا چاہتی ہونگی! مگر وہ اسکول چونکہ آرمی کے نام سے موسوم ہے زیادہ تر وہ ہونگی جو انہیں“ جرنیل کرنیل بنا نا “ چاہتی ہونگی۔ کیونکہ وہ سرزمین ہی ایسی ہے کہ جہاں جرنیل اور کرنیل بنانا ہر ماں کا خواب ہوتا ہے۔ کچھ مائیں ایسی بھی ہونگی جنہوں نے اسلامی تاریخ پڑھی ہوگی اور آرمی اسکول بچوں کو پڑھنے کے لیے اس حکم کے تحت بھیجا ہوگاکہ علم کا حصو ل ہر مومن کا فرض ہے اور میرا بچہ وہاں سے حضرت علی (رض) ، حضرت خالد (رض) بن ولید اگر نہ بھی بن سکا تو طارق بن زیاد تو بن ہی جا ئے گا؟ مگر علم کے دشمنوں نے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور بزعم خود دنیا میں اپنے برانڈ کا اسلام لانا چاہتےہیں۔ جبکہ قرآن کے مطابق شیطان ان کے کردار انکی نگاہ میں اچھا بنا کرپیش کرتا ہے کہ وہ اپنے خیال میں جنتیوں جیسا کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ معصوموں کے معصوم ہونے کے بارے میں دورائیں نہیں ہوسکتیں ؟ جبکہ اسلام تو خواتین، بچوں اور بوڑھو کی حالت جنگ میں بھی حفاظت کاحکم دیتا ہےاور ان کے علاوہ ہر بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے ۔ انہوں نے تو معصوم اور ایسے معصوموں کو موت کے نیند سلا دیا جس کی تلقین سوائے شیطان کے کوئی نہیں کرسکتا؟
جب کہ اسلام نے ہر اچھے مسلمان کی پہچان یہ بیان کی ہے کہ اس کے ہاتھ سے کسی کو ضرر نہ پہونچے؟ پھر قرآن کہہ رہا کہ ایک مومن کے قتل کی سزا ہمیشہ کے جہنم ہے جس سے قاتل کسی کی سفارش کسی کی شفاعت سے معاف نہیں کیا جا ئے گا۔ اللہ تعالیٰ نہ ایسوں کو پاک کریگا نہ ان سے کلام فرمائےگا۔ اس کے برعکس فرشتے منہ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ لیکن ظلم یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہورہا اسلام کے نام پر اور طالبان کے نام پر ہے لہذا یہ بھی نہیں کہا جاسکتا جو مار اور مر رہے ہیں ان کی نگاہوں سے یہ قر آنی تعلیم نہیں گذری ہو گی جو کہ ہم نے اوپر بیان کی۔ پھر وہ کونسا جادو ہے جو کہ ان کے کانوں میں پھونک دیا جاتا ہے کہ وہ جہاں علم دین حاصل کرنے گئے تھے وہیں سے درندے بن کر نکلتے ہیں ؟ جب کے ایک صدی پہلےتک مدرسوں کا یہ کردار نہیں تھا گو کے علم کا معیار وہ نہیں رہا تھا جو پہلے تھا۔ مگر اس کے باوجود کم ازکم یہ درسگاہیں درندے تو نہیں بنا رہی تھیں؟ وہ مساجدکو امام اور درگاہوں گدی نشین فراہم کر رہی تھیں ۔ آخر یہ کیا ہوا کہ نفرتوں کاوہ جن پھر بوتل سے باہر آگیا جوکہ ایک ہزار سال کےبعد ہلاکو نے بوتل میں فدا ئین کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بند کیا تھا۔
اب ماشا ءاللہ ہمارے یہاں علم کا تناسب اس وقت سے تو کہیں زیادہ ہے جبکہ لکھے پڑھے لوگ خال خال پائے جا تے تھے۔ آج انٹر نیٹ کی دنیا ہے ہر قسم کا تاریخی مواد ایک سیکنڈ میں ہرایک کے بارے میں مل جاتا ہے؟ ساری دنیا اسے ڈھونڈ نکلالنے میں ناکام کیوں ہے کہ ایسا کیوں ہوا ،کب سے ہوا اور اس کے ذمہ دار کہیں وہ ہی تو نہیں ہیں جو بھیڑیئے ہیں اور کھالیں بھیڑ کی پہن رکھی ہیں۔ جو ملت اسلامیہ کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ ہونے کے باوجود اپنی عیاریوں کی بنا پر اسلام کی نشاة ثانیہ کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں ۔ جنہوں نے بھائیوں کو بھائیوں سے لڑا دیا اور اس قدر فضا میں زہر بھر دیا کہ جرم قتل جوکہ اسلام میں سب سے زیادہ قبیح فعل ہے وہ ان کی قائم کردہ یونیورسٹیوں کے علماءاور طالبعلموں کی نگاہوں میں مستحسن بن گیا؟
وہی آجکل ہمیں یہ سبق سکھا رہے ہیں کہ غیر مسلم قومیں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی جبکہ وہ شروع سے ان کے آلہ کار بن کر ابھرے اور جتنا ان کی شدت پسندی نے دنیا میں اسلام کو بدنام کیا اتنا کسی نے نہیں کیا۔جبکہ غیروں پر الزام لگانے کے بجائے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھیں تو چودہ سو سال میں جتنا مسلمانوں نے خود مسلمانوں کو قتل کیا اس کا عشر ِعشیر بھی غیر مسلموں نے نہیں کیا۔
آجکل وہی تسلی بھی دے رہے ہیں ان ماؤں کو جو ان کی بوئی ہو ئی نفرت کی کھیتی کا شکار ہوئیں اور انکی گود اجاڑ نے کاباعث بھی۔ انہیں تلقین کر رہے ہیں کہ فکر مت کر و تمہارے شہید بچے تمہیں جنت میں لے جانے کا باعث ہونگے۔؟کوئی ان سے پوچھے کہ اب تک ان کے اپنے بچے ان کو جنت میں پہونچانے کا کتنا ذریعہ بنے ہیں ، جواب نفی میں ملے گا؟ کیوںکہ وہ تو عوام کی جیب پر یورپ اور امریکہ میں پڑھنے کے نام پر عیاشی کررہے ہیں جب کہ فارغ تحصیل ہو کر بھی ان کا دل اپنے ملکوں میں نہیں لگتا اور وہاں عیاشی کرتے رہنے میں ہی انہیں اپنی عافیت نظر آتی ہے۔آخر یہ ہمارے اپنوں کا گھنونا کردار ہمیں کیوں نظر نہیں آتا؟ یہ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے؟
یہ معصوم بچے یقینا اپنے ان مان باپ کے لیے شفیع ہونگے جنہوں نے خود کو اسلامی کردار میں ڈھا لا ہوگا اور انہیں اچھا مسلمان بننے کا سبق بھی دیا ہوگا ۔ جس کی پہچان یہ ہے کہ جس کے شر سے پڑوسی سے لیکر ساری دنیامحفوظ ہو۔ جو اللہ کے بتا ئے قوانین پر عمل کرتا ہو برائی سے روکتا ہو۔ بھلائیوں کی تبلیغ کرے ۔نہ کہ نفرت اور برائیوں کی تبلغ کرتا ہو؟
ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے سنت نہیں بدلتا وہ ان قوموں کو تباہ کر تا آیا ہے جو اس کے احکامات کے آگے سر نہیں جھکاتی تھیں؟ جبکہ ہماری اس کے بنا ئے ہوئے قوانین پر عمل کرتے ہوئے جان جاتی ہے یاشرم آتی ہے؟ ہزاروں دہشت گر اب تک جیلوں میں سالوں سے بند تھے ، جن کا بوجھ حکمرانوں کی طرح عوام کی جیبوں پر ہے۔ ان کو پھانسی اس لیے نہیں دی گئی کہ ہم کو ان سے شرم آتی ہے جو سزائے موت پر یقین نہیں رکھتے ؟ پھر بھی ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور اور ترقی یافتہ ملک امریکہ میں سزائے موت پر آج بھی عمل ہورہا ہے ۔ حالانکہ ہمیں اس سے شرما نا چاہیے جوکہ ہمارا رب ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں بھی تحریر کرچکا ہوں؟ پھر دہرا رہاہوں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سورہ زخرف کی آیت ٥ میں فرمارہا کہ تم کیا چاہتے ہو کہ میں تمہارے اوپر سے قرآن ہٹالوں ؟ پھر آگے کی آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ یہ اسکی رحمت ہے کہ لیت ولعل اورانکار باوجود ابھی تک سزا یوں نہیں دے رہا ہے اور صرف ڈرارہاہے۔ (کہ شاید سدھر جائیں)
کل پھر اس سانحہ عظیم پر ساری قوم اکٹھا ہو گئی اور اور مدھانی میں سے بلونے کے بعد جو مکھن بر آمد ہوا وہ یہ تھا آٹھ ہزار میں سے صرف وہ جنکو دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی اورجو صرف تعداد میں چارسو ہیں ان کو پھانسی دیدی جائے۔( جوکہ پانچ سال سے بحکم سرکار رکی ہوئی تھی جس کا کسی مسلمان کو حق نہیں ہے مگر مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو ہے، جبکہ ملزموں کوسزا دیتے ہوئے رحم کھانا بھی اسلام میں منع ہے)۔ یہ ان ہزاروں میں سے ایک مثال ہے جو پاکستانیوں نے اس کے قوانین التوامیں ڈالے ہوئے ہیں۔ گر اسکے بجا ئے وہ ان میں سے ایک کا اور اضافہ کردیتے کہ جو صادق اور امین نہیں ہیں وہ خود مستعفی ہو جا ئیں ؟ ورنہ انہیں عدالتیں فارغ کردیں تو بہت بڑا کارنامہ ہوتا؟ اور ہم مغضوب ِ علیھم سے انعمت علیھم میں شامل ہو جاتے ؟کیونکہ ان کی جگہ پھر ایسے لوگ لیتے جو خدا سے ڈرنے والے ہوتے، اس کے بعد طالبان کے اپنی برانڈ کا اسلام لانے کے سارے منصوبے ناکام ہوجاتے، اس لیے کہ دین تو امراءکا چلتا ہے اگر وہ نیک ہونگے توسارا نظام خود بخودنیک بنے گا؟ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم اگر میرے راستے پر چلوگے تو میں اپنی رحمتوں سے نوازونگا۔
مگر باقی معاملات وہیں کے وہیں رہے جس کی وجہ سے ان کو بڑا دھچکا لگا جو اپنی قیادت سے امیدیں باندھ یٹھے تھے۔ ہم نے انہیں بہت پہلے کہدیا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا؟ وہ اب سب کے سامنے آگیا ہے کہ امپائر نے اپنا کام نکالنے بعد ہاتھ اٹھا دیا ہے جبکہ ہاتھ اٹھا تو پہلے ہی لیا تھا۔ لہذا ماؤں کے کارواں کے ساتھ سیاسی کارواں بھی ایک دفعہ پھر لٹ گیا اور کسی کوکانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ کیونکہ اس سانحہ نے انہیں موقع فراہم کیا جو پھنسے ہوئے تھے کہ یک جہتی کے نام پر اپنی جان چھڑالیں۔ اس لیے کہ جان بچانا فرض ہے جو سب کو پیاری ہے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے