کس قدر دھوکا دیارنگِ گلستاں نے ہمیں۔۔۔شمس جیلانی

دنیا کا قاعدہ ہے کہ ہمیشہ بہتری کی طرف جاتی ہے۔ لیکن ہم بجائے اس کے ملک حاصل کرنے کے بعد تجربات میں لگ گئے۔ کہ ہمارے لیے کونسا نظام بہتر رہے گا۔ یہ مسئلہ ہم اگر پاکستان بننے سے پہلے طے کرلیتے تو کہیں بہتر رہتا جیسا کہ ہمارے ایک دن بعد آزاد ہونے والے پڑوسی ملک بھارت نے کیا کہ آزادی سے پہلے دستور کی تیاری کے لیے کانگریس نے دستور ساز کمیٹی بنا دی اور اس نے ملک کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی دستور کا ڈھانچا تیار کر لیا اور جیسے ہی آزادی ملی ا ور پارلیمنٹ بنی اس نے ایک سال میں ہی نافذ کردیا۔ جبکہ ہماری قیادت نے ان کامذاق یہ کہہ کر کے اڑایا کہ ان بیچاروں کے پاس تو دستور ہے ہی نہیں اس لیے انہوں نے دستور سازی کے لیے کمیٹی بنا ئی ہے؟ ہم کیوں بنائیں جبکہ ہمارے پاس تو قر آن کی شکل میں دستور موجود ہے۔ بات معقول تھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور مسلمان ہوتے ہوئے اس پر کوئی اعتراض کر بھی کیسے سکتا تھا ،عمل نہ کرے یہ اور بات ہے۔ ویسے بھی ہم ایک عرصے سے ہیرو پرستی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہم نہ اپنے ذہن سے سوچتے ہیں نہ اپنے لیڈر کی کسی بات پر اعتراض کرتے ہیں۔
ہم نے اس کے برعکس چلنا ضروری سمجھا اور دستورکامسئلہ بعد کے لیے اٹھا رکھا ۔یاد اس وقت آیا جب کہ پاکستان بن گیا اور روزمرہ کے لیے دستور کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم نے تمام معاملات یکجا رکھنے اور جلدی دستور بنا نے کے لیے اپنی پارلیمان کا نام ہی دستور ساز اسمبلی رکھدیا۔ جبکہ آزادی ملتے ہی مسائل کی وہ یلغار ہوئی کہ اسے دستور سازی کا وقت ہی نہیں ملا آخر لوگوں کو اور کام بھی تو کرنے تھے، کئی برسوں میں جب دستور نہ بن سکا اور اسمبلی گورنر جنرل غلام محمد کے آڑے آئی تو اس نے اس کو برطرف کرکے اس سے جان چھڑادی۔اس کے اس فیصلے کے خلاف سندھ چیف کورٹ نے جراءت دکھا ئی اس کا فیصلہ کل عدم قرار دیدیا مگر فیڈرل کورٹ نے جسٹس منیر صاحب کی قیادت میں نظریہ ضرورت کاسہارا لیکر چیف کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا۔ وہ دن ہے کہ ہم نظریہ ضرورت سے باہر نکلنا بھی چاہیں تو نکل نہیں سکتے؟ کل ہم نے وزیر اعظم کا اعلان سنا جسے قوم کے لیڈران کے مشترکہ بیان کا درجہ حاصل تھاکیونکہ وہ قوم کے تمام لیڈروں کی منظوری سے جاری ہوا تھا۔ جس میں تمام اچھی اچھی باتیں جمع تھیں سوائے قومی فلاح کے؟ اسے شاید اس لیے التوا میں رکھنا پڑا کہ جب تک امن نہ ہو تو قوم دس سال میں جو کارخانہ بنا ئیگی وہ کوئی پھٹ پڑنے والاایک لمحہ میں اڑادے گا۔ اس میں سب کے فائدے ہیں ۔ نہ کارخانہ رہے گا نہ کوئی بد عنوانی پکڑی جائیگی۔ ع رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتے ہیں رہزن کو
پھرہم نے پاکستان کے وزیر اطلاعات پر ویز رشید صاحب کا یہ اعتراف سنا کہ قوم سانحہ پشاو رکو کبھی فراموش نہ کر سکے گی، مگر ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہاکہ “ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں اپنا احتساب کرنا ضروری ہے؟ مگر ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ خود احتسابی کی جومثال حضور (ص) اور ان کے خلفا ءنے قائم فرمائی تھی اس کاتو اب رواج ہی نہیں ہے؟ اس کے بعد ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا ہمارا احتساب کرے اسکے لیے سب سے پہلے محکمہ انسداد رشوت ستانی بنا ،پھر اس کے بعد محکمے پر محکمے بنتے چلے گئے ۔ پھر بھی کام نہیں چلا تو پھر مرکزی اور صوبائی محتسب ِ اعلیٰ بنے جو شروع میں جج ہوا کرتے تھے۔ بعد میں اس کی بھی قید نہیں رہی پھر جو بھی آیا، بالم کا انتخاب ہونے کی وجہ سے عالم میں لاجواب تھا۔ ایسے میں خود احتسابی یا احتساب کی بات ؟ان کی سادگی پر ہنس نے کو جی چاہتا۔
دوسری بات جو انہوں نے اہم کہی وہ واقعی بہت اہم ہے اور وہ بیماری کی جڑ تک پہونچ گئے ہیں بلکہ سب کو آئینہ بھی دکھادیا ہے انہوں نے فرمایا کہ ملک میں سوائے قومی سکیوریٹی کے اداروں کے کسی کومسلح افراد رکھنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے؟ وہ شاید اس سے ناواقف تو نہیں ہونگے کہ جو نظام آجکل پاکستان میں رائج ہے ۔وہ دو صدی پہلے سے برطانوی عملداری پر چل رہا تھا کہ انہوں نے صرف شہروں تک اپنی حکومت محدود کر رکھی تھی، رہے دیہات وہ ان درمیانی لوگوں پر چھوڑ دیے تھے جو وہاں ان کے مفادات کے نگراں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نے بجا ئے فوج رکھنے کے ڈاکوؤں کے ذمہ اپنے اور اپنے علاقہ کی حفاظت کا بار ڈال رکھا تھااور ان کو کچھ نیازی چراغی دیتے رہتے تھے۔ الحمد للہ وہ آج تک وہاں بخیر خوبی چل رہا مگر اب ڈاکو ویسے با اصول نہیں رہے اوربے اصول بن گئے ہیں تو وہ بیچارے کیا کریں؟ اس پر ستم یہ ہوا کہ ہم اپنی دوستی سے مجبور ا ہوکرفغان جنگ میں کود گئے اور اب اس نے اتنے چالیس سال میں انڈے، بچے اور گروہ عنایت کر دیئے ہیں کہ اس پہ قابو پانے کے لیے ہلاکو چاہیئے ،جس کی اب دنیا کے گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے گنجائش نہیں ہے؟ دوسری بات انہیں کے محکمے کے متعلق ہے کہ سوشیل میڈیا کوبھی کنٹرول کیا جائےگا ۔ ہمیں ان کی نیت پر شبہ نہیں ہے مگر یہ دیو اتناطاقتور ہے کہ اس کے خلاف ملکوں کی سرحدیں کو ئی سد سکندری نہیں بنا سکتیں کیونکہ وہ اس کاتوڑ اور توڑ کا توڑ دریافت کرلیتی ہے ۔ مگر اچھی بات کہنے میں حرج بھی کیا ؟ وہ تو سبھی کہتے ہیں۔
یہ تھیں دشواریاں جو ہم نے گنا دیں۔ مگر مایوسی کفر ہے۔ اگر واقعی حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو پہلے تو دوستیاں بالا ئے طاق رکھنا ہونگی ، مراعات یافتہ طبقہ کی مخالفت مول لیناہو گی۔ پھر پہلی فرصت میں یہ کام کرنا ہوگا اور کچھ کریں یا نہ کریں ؟ کہ اسلام کا اخلاقی کوڈ آف کنڈیکٹ نا فذ کر دیں ۔ جو حکومت کے لیے قطعی بے ضرر ہے؟ پورا نہ سہی
اتنا ہی کریں۔ صرف یہ ایک ہی آیت لے لیں جس کا بامحاورہ اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ اے مومنو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں (اللہ کی نگاہ میں) نہ خواتین، خواتین سے (تمسخرکریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤاور نہ ایک دوسرے کا برانام رکھو، ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا (گناہ) ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم لوگ ہیں “ سورہ (49حجرات آیت11) بس اس کو نافذ کرکے قابل سزا جرم بنا دیں ۔ اور تمام منبروں اور لاوڈ اسپیکروں پر پابندی لگادیں کہ کوئی کسی کے عقائد کی بنا پر اس کی مذمت نہ کرے۔ نہ کافر قرار دے ،نہ بدعتی قراردے ،نہ میلادی قرار دے اور نہ وہابی ۔ فتوٰی جاری کرنے کا کام محکمہ مذہبیی امور کے سپرد کردیا جائے جس میں ہر فقہ کے ماہر ہوں اور ان کے عقیدے کے مطابق فتوی دیں۔ اسی طرح جمعہ اور عیدین کے خطبے حکومت جاری کرے تاکہ اس میں کوئی قابل ِ اعتراض بات منبر سے نہ کہی جاسکے جو کسی کی دل آزاری کا باعث ہو؟ مثلاً ایک فرقہ میں ہر خطیب کے لیے   یہ کہنا لازمی ہے کہ “بدعت ذلالت ہے اور اس پر عمل کرنے والا گمراہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بدعت ذلالت ہے۔ مگر وہ ساتھ میں بد عت کی وضاحت بھی کردیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اگر بدعت کے لغوی معنی لیں تو ہر نئی چیز یا ایجاد بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ مگر اسلامی اصطلاح میں صرف وہ چیز بدعت ہے جو حضور (ص) کے اسوہ حسنہ سے ٹکراتی ہو؟ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ جو چاہتا ہے کسی چیز کو بھی بدعت کہہ دیتا ہے۔
یہ کام جو میں نے تجویز کیا آج کی دنیا میں مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ہے ۔ یہ نتائج پاکستان کے پڑوسی اور بہت چھوٹے سے ملک مسقط عمان کے نئے حکمراں نے صرف چالیس سال کے مختصر سے عرصہ میں حاصل انتہائی شدت پسند قوم کو آج اتنا روادار بناکر دکھایا کہ کسی مسلمان ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی ؟اور وہ ہر سال اپنے یہاں ایک کانفرس منعقد کرکے تمام مسلمان ملکو ں کو دعوت بھی دیتے ہیں کہ آؤ اور رواداری ہم سیکھو ۔ اس کے تمام ہمسایوں سے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں جبکہ اس کا ایک ہمسایہ سعودی عرب ہے ، دوسری طرف ایران ہے اور تیسری طرف اس وفاق کے ساتھ بھی دوستی رکھے ہوئے ہے جو عرب اما رات کہلاتا ہے۔ باہمی طور پر ایک دوسرے مذہب کو سمجھنے کے لیے انہوں نے ہر مذہبی طالب علم کے لیے تمام مذاہب کی تعلیم لازمی قراردی ہوئی ہے ۔ وہاں سکھ بھی ہیں ،عیسائی بھی ہیں اور ہندو بھی ہیں ۔ اور سب امن اور چین سے رہ رہے ہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.