موجودہ دور میں مسلمانوں کی اقسام ۔۔۔ از … شمس جیلانی

ہم نے گزشتہ صدی کے مشہور پاکستانی عالم حضرت مولانا حتشام الحق تھانوی(رح) کو اپنی تقریر میں میر پور خاص میں فرماتے ہوئے سنا، کہ ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا کہ بزرگوں کی کتنی قسمیں ہیں ؟(شایدوہ نذرانہ لینے والے پیر نہیں تھے ورنہ کہدیتے کہ مجھے کیا معلوم، نذرانہ دو اور کوئی سفارشی چٹھی وغیرہ کسی  بھی شاہی دربار میں چا ہیئے ہو تو لے لواور چلتے بنو؟ چونکہ اس وقت یہ پیروں کی ذمہ داری میں شامل تھا کہ وہ ان کے ہر سوال کاجواب دیں اورتزکیہ نفس بھی کرائیں تاکہ ان کے اعلیٰ کردار کو دیکھ کر دوسرے بھی مسلمان ہوں)لہذا پیر صاحب نے جواب میں فرمایا کہ تم جامع مسجد چلے جاؤ وہاں تین بزرگ عبادت میں مصروف ملیں گے۔ ان میں سے ہر ایک کے ایک چانٹا مارنا انکے رد عمل سے تمہیں پتہ چل جا ئے گا۔ (اس زمانے میں مرید بھی ایسے ہوتے تھے کہ جو پیر نے کہدیا تو وہ کرنے کو تیار چاہیں اس کھیل میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ پیر جھوٹ نہیں بولتے۔ کیونکہ پیر بننے کے لیے شرائط ہی ایمان لانے کے بعد دو تھیں، صدق ِمقال اور اکل حلال یعنی سچ بولنا اور حلال کھانا۔) مرید بے فکر ہوکر جامع مسجد چلاگیا اور جو اسے حکم ملا تھاوہ عملا ًکر گزرا؟ پہلے بزرگ نے اسے گھور کر دیکھا اور پھر عبادت میں مصروف ہو گئے،دوسرے نے جواب میں تھپڑ رسید کر دیا اور وہ بھی عبادت میں مصروف ہوگئے،تیسرے نے عبادت چھورڑدی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر سہلانا شروع کردیا کہ بیٹا میرے جسم میں گوشت تو ہے ہی نہیں صرف ہڈیا ں ہی ہڈیاں ہیں تمہیں چوٹ تو نہیں لگی ؟

واپس آکر مرید نے پورا ماجرا اپنے پیر صاحب کے گوش گزار کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ بس بزرگوں کی یہی تین اقسام ہیں ۔ آگے تقریر سیاسی تھی اور وہ ایوب خان کی حمایت میں تھی  وہ سیاست میں بہتے چلے گئے اور ہم گھر چلے گئے۔ مگر ہم نے جو اس سے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اسی کہانی سے سمجھانا کیا چاہتے تھے۔ وہ یہ تھا کہ وہاں ترتیب غلط ہوگئی ۔ کہ جنہوں نے بدلالیا وہ وہ تصوف کے پہلے درجہ میں تھے، اور جنہوں نے معاف کردیا وہ دوسرے درجہ میں اور اکملیت کے قریب تھے۔ لیکن جنہونے نے اسکا ہاتھ سہلانا شروع کردیا وہ بزرگ کامل تھے؟

کیونکہ قرآن میں بدلا لینے کا حکم تو ہے مگر اتنا ہی جتنا کہ مظلوم کو ضرر پہونچا ہواوراسے معاف کردینے کی ترغیب بھی دی گئی ہے؟ پھر صبر کرنے کی بہت زیادہ تعریف فرمائی گئی ہے۔اوران بزرگ کا بجائے غصے کرنے کے ،عبادت چھوڑ کر خدمت خلق میں لگ جانا ان کی بزرگ کی روحانی عظمت پر دلالت کر تاہے۔ اب یہ آخری قسم نا پید ہے پچھلی صدی تک ان کے بڑے بڑے دربار ہوا کرتے تھے بلا تفریق ِ مذہب و ملت وہ سب کی خدمت کرتے تھے،اور ان کا ایک ہی اصول تھا کہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں، ان کے پاس سے عطر کی خوشبو آتی تھی دربار خوشبوؤن سے مہک رہے ہوتے تھے۔ جو صبح سے شام تک وہاں آتا وہ حضور  (ص)کا اتباع کرتے ہوئے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے ۔ لطف کی بات یہ تھی کہ نہ ان کے پاس راشن ختم ہوتا نہ انکا لنگر بند ہوتا ۔انہو ں نے دنیا میں اپنے اسی اخلاق اور کردار سے اسلام پھیلایا۔ اب ان کے چربے تو بہت ہیں لیکن آجکل اصل اتنے کمیاب ہیں کہ اول تو کہیں دکھائی نہیں دیتے اگر کہیں مل بھی جائیں تولوگ ان کو چربوں کے دھوکے میں طنز سے  “درودّیے  “کہہ دیتے ہیں کیونکہ اکثر وہ بھی انہیں کی طرح درود پڑھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ قرآن نے غصے کوبرداشت کرنےوالے کی سورہ مومن میں شروع کی آیات میں بڑی تعریف کی ہے۔ جبکہ بدلا لینے والے کی مذمت تو نہیں کی مگر تعریف بھی نہیں کی البتہ اس کو یہ تنبیہ ضرور کی ہے کہ دیکھو بدلا لینے میں حد سے مت گز ر جانا ورنہ تم خود ظالموں میں شمار ہو جاؤگے اور ایک دوسری آیت میں فر مایا کہ اللہ ظالموں (حد سے گزرنے والوں) کو پسند نہیں فرماتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ صرف  “درود “ہی کیوں پڑھتے ہیں ۔ اس لیے کہ جس طرح حضور (ص) کااسوہ حسنہ قرآن اور ارشادات عالیہ کا مجموعہ ہے اسی طرح یہ اللہ سے استدعا برائے رحمت رسول کریم اورخاندان عالیہ کا مجموعہ یعنی اہلِ بیت پرکرتے ہے۔ پھر دوسرے ذکر واذکار کی تعداد مقرر ہے جبکہ درود شریف کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے بلکہ حضور (ص) نے اپنے ایک صحابی  (رض)فرمادیا کہ جتنا وقت چاہواتنا پڑھو ؟ انہوں نے وضاحت چاہی کہ کیا سارے وقت ؟تو ارشاد ہوا “ ہاں یہ ٹھیک ہے“ پھر پرانی کتابوں میں بھی درود ِ ابراہیمی کی بڑی تاکید ہے دیکھئے (جنیسس حصہ سوئم ورس نمبر ٢ ا) جبکہ سلام میں درود پڑھنے کے بے انتہا فضائل ہیں اور ہمیں حضور (ص) نے جو درود پڑھنے کے لیے بتایا وہ درودِ ابراہیمی ہے جو اکثریت نماز میں پڑھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بے انتہا فضائلِ درود کے موجود ہیں جو قرآن اور احادیث کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ پھر جو مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں انہیں مشاہدہ ہوا ہوگا کہ صبر کا دامن وہاں بھی حجاج چھوڑ کر لڑپڑتے ہیں۔ حاضرین دردو پڑھنا شروع کردیتے ہیں ! درود سنتے ہی اکثر لوگوں کو حرم کا احترام یاد آ جاتا ہے اور دونوں لڑنے والے شیطان پر لعنت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ غرضیکہ  اس کے روحانی اور دنیاوی فوائد بے شمار ہیں ۔

جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ اب یہ طبقہ نایاب ہے اور مسلمانوں کی پہچان مختلف ہوگئی ان کے بجائے  کچھ مسلمان “بارودّیے  “بن گئے ہیں جنہوں نے دنیا کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں جن کے جسموں سے عطر کی خوشبو کے بجائے بارود کی بدبو کے بھپکے اٹھتے ہیں ۔ جو بغیر وجہ بتائے جان سے ماردیتے ہیں ! بلاوجہ پھٹ پڑتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو ساتھ میں لے مرتے ہیں ۔ وہ ہرایک سے نفرت کرتے ہیں،ان کی زبان زہر اگلتی ہے۔بات بات پر کفر کے ڈونگرے بر ساتے رہتے ہیں مگر خدا کاشکر ہے کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
اب مسلمانوں کا تیسرا اور بڑا گروہ جو اکثریت میں ہے وہ ہیں “ سرودّیے “ یہ لفظ آپ کو لغت میں نہیں ملے گا۔ قافیائی ضرورت کے تحت ہم نے اسے نہ صرف شامل ِ مضمون کرلیاہے بلکہ ماہرین لغت سے یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی گلو بٹ کی طرح شامل لغت ہوجا ئے گا۔
اس کی اصل کیا ہے۔ علامہ اقبال نے قوموں کی تقدیر کے عنوان سے بتایا ہے کہ پہلے ہر قوم اپنی تقدیر تیغ و سنا کے ذریعہ بناتی ہے۔ پھر اسے عیاشی سوجھتی ہے اور وہ رقص و سرود میں کھوجاتی ہے۔ جس کو انہوں نے طاؤس اور رباب سے تشبیہ دی ہے۔ وہاں طا ؤس اپنی وجہ شہرت رقص کی وجہ سے اور“ رباب ساز“ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ہم نے ان کی پیر وی کرتے ہو ئے سرودّیے لفظ “ سرود “سے لیا ہے۔  کیونکہ آجکل پوری قوم اسی میں مگن ہے۔ ہماری عیدین ، جو ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ فرما کر مرحمت فرما ئی تھیں کہ زمانہ جہالیہ میں کفار اپنے تیوہاروں پر ناچا کودا اور سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ گمراہ تھے، آئندہ سے تم اس دن میرا نام لیا کرو گے اس لیے کہ تم مومن ہو؟ پاکستان بھی ایسی رات میں دیا جو عبادت والی ہے یعنی ستائیس رمضان المبارک، کہ اس میں کسی رقص اور سرود کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مگر ہم نے اس کو ثانوی حیثیت دیدی اور اس کے بجا ئے 14گست اپنالیا، کہ  "رقص وسرود میں رخنہ نہ پڑے "۔ ہماری ان حرکتوں کی بنا پر رب نے ناراض ہوکر ہماری طرف بلائیں بھیجنا شروع کردیں تاکہ عبرت حاصل کریں ۔ کیونکہ اس کی یہ سنت رہی ہے کہ سزا دینے سے پہلے وہ انتباہ کرتا ہے۔ اگر ہم حضرت قتادہ (رض) کی یہ وضاحت مان لیں کہ اہلِ اقراءپرعذاب تلوار کی شکل میں آتا ہے۔ جبکہ دوسروں پر طوفان ،سیلاب ،ہواؤں اور چنگھہاڑ وغیرہ کی شکل میں آیا کرتا تھا۔ جس کی پوری تفصیل ابن ِ کثیر (رح) نے سورہ انعام کی آیت نمبر65  کی تفسیرمیں کی ہے۔ تو ہم اس کیفیت سے بھی کافی عرصے سے گزرہے ہیں ۔ مگر ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ابھی چند روز پہلے قو م پشاور میں جس اندوہناک سانحہ سے گزری وہ اتنا بھیانک تھا کہ پوری قوم ہل گئی اور متحد ہوگئی۔
مگر جیالوں کو داد دینے کو جی چاہتا ہے ان کی اس ثابت قدمی پر کہ ہمیشہ کی طرح قوم تھوڑی دیر روئی اور پھر “ رقص و سرود “ میں مصروف ہوگئی۔ کیونکہ شمسی کلینڈر کے سال کا پہلادن آگیا تھالہذا نہو ں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو منانے کے بجائے ،نیا سال منانے کا فیصلہ کیا؟ اس کے آپ نے ٹی وی پر نظارے دیکھے ہونگے۔ اگر بڑے لوگ صرف کلبوں میں ناچتے، بنگلوں میں رقص کرتے تو شاید ہم جیسے پردیسیوں کو نظر نہ آتا، مگر جب لوگ سڑکوں پر ناچ رہے ہوں تو پھر کیمرے کی آنکھ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ مہینہ ربیع الاول کا بھی تھا یعنی وہ مہینہ جس میں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اس کی راتوں میں ہرجگہ نعت خوانی جاری رہتی ہے ، اگر لوگ ناچنے کے بجائے سیرت پڑھتے اور علماءسے سنتے سناتے تو شاید اسوہ حسنہ (ص) پر قوم عمل پیرا ہوکر رب کو منالیتی ،جسکو منا نا موجودہ صورتِ حال میں کلچر کے تقاضے پورے کرنے سے کہیں زیادہ اہم تھا؟ لیکن ہر فرد یاقوم کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں انہوں نے اسے مناکر یہ ثابت کردیا کہ ہم ماڈرناور بہادر قوم ہیں ،  لاشوں پر بھی مسکرا سکتے ہیں اور رقص بھی کرسکتے ہیں ۔ آخر میں، میں اپنی بات اس دعا پرختم کر تا ہوں کہ اللہ اس قوم کو ہدایت دے( آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , , . Bookmark the permalink.