بھانت بھانت کی بولیاں ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

ہمارے سامنے آج تین گرماگرم عنوانات ہیں ۔ ہمارے قارئین تینوں پر ہمارے خیالات پڑھنا چاہتے ہونگے مگر ہم نے اپنے اوپر خود ساختہ پابندی عائد کررکھی ہے جیسے کہ بعض لوگ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلیتے ہیں؟ چونکہ ہمارے لیے عہد کی پابندی لازمی ہے۔ جبکہ بعض مسلمان یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ عہد تو ہوتے ہی توڑنے کے لیے ہیں اور وعدے ہوتے ہی ٹہلانے کے لیے ہیں؟ ہم چونکہ پرانے وقتوں کے لوگوں میں سے ہیں ،اپنا عہد نبھاتے ہوئے ہفتے کے ہفتے  ہی لکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں کوئی ایک عنوان منتخب کرنا پڑتا ہے۔ مگر آج تینوں عنوانات ایسے ہیں جن پر لکھنے کو دل مچل رہا ہے۔ اس لیے جیسے کہ لوگ نظریہ ضرورت کے تحت چار شادیا ں کرلیتے ہیں ہم نے بھی آج تینوں عنوان منتخب کرلیے ۔سب سے پہلا تو ہے ایک پھانسی کامعاملہ؟
جبکہ آپ نے اکثر یہ محاورہ تو سنا ہوگا کہ “ کرے داڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا “ مگر یہاں معاملہ الٹا ہو گیا کہ کرے  مونچھو ں والا اور پکڑا جا ئے داڑھی والا۔ معاملہ تھا دو دہشت گردوں کا جو کہ ہم نام تھے۔ دونوں میں “اکرام“ مشترک تھا یعنی دونوں کے نام اکرام تھے ایک کے ساتھ حق لگا ہواتھا اور دوسرے کے ساتھ کچھ بھی نہیں ۔ جبکہ ایک کی مونچھیں اور دوسرے کی گھنی داڑھی تھی، ایک سندھ میں پیدا ہوا تھا اور دوسرا جھنگ کے علاقے شور کوٹ میں ؟ لیکن کہلاتے دونوں لاہوری تھے۔ جبکہ لاہور جو داتا (رح) کی نگری ہے، میاں میر (رح) کا شہر ہے جنہوں نے زندگی بھر محبت بانٹی ۔اس کا بھلا دہشت گردوں سے کیا تعلق؟ مگر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو کیسے بندوبست کرتا ہے۔ پولس نے ڈیتھ وارنٹ اکرام الحق کے حاصل کر لیے؟ اکرام لاہوری کے جرم میں، جس کی تاحال سندھ سے منتقلی بارہ سال میں نہیں ہوسکی اور اسے پولس ہر مقدمے میں اکثرلاپتہ قرار دیتی رہی ۔ چونکہ انتطامیہ جلدی میں تھی پولس کویہ مقدمہ ٹھکانے لگانے کا موقعہ مل گیا؟
میڈیا کوجیسے ہی پولس نے اطلاع دی ۔اس نے حسب روایت اکرام کی ویڈیو تک دکھانا شروع کردی کہ وہ اتنا با اثر تھا کہ وزیر اعظم کے گھر میں ان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر نکل گیا۔ یہ جانتے ہو ئے بھی کہ آج کے دور میں جعلی ویڈیو اور فوٹو سب کچھ عام بنتے ہیں۔ جب کہ اکرام الحق کے سرپرستوں کو پتہ چلا کہ اب ان کے شاگرد کو پھانسی ہو ہی جانا ہے تو وہ جھنگ پہونچ گئے اور مک مکاؤ ہوگیا؟ اس کی درخواست پر مجسٹریٹ نے پھانسی پر عملدر آمد روک دیا ۔ حالانکہ ڈیتھ وارنٹ پر وقت تک لکھا ہوتا ہے پہلے وقت نکل جائے تو پھرپھانسی نہیں ہوسکتی تھی۔ اب پتہ نہیں کہ یہ لاسٹک اور چنگم کا دور ہے ۔ لہذا اب چھوٹی سی رسی کھنچ کر بہت دور تک پہونچ جاتی ہے۔ جو کہ کسی چھوٹی سی ڈبیہ میں بند ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اس تصویر کا کرشمہ ہے جو اس پر بنی ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں ایک کے بجا ئے تین قسم کے قوانین نافذ ہیں لہذا پتہ نہیں کہ کس نے کونسا استعمال کیا ؟ لہذا پوری فائیل دیکھے بغیر کو ئی بڑے سے بڑا قانون داں یہ نہیں بتا سکتا کہ پولس نے کونسا قانون استعمال کیا اور عدالت نے کس قانون کے تحت چھوڑا۔؟جنہیں پاکستان چھوڑے زیادہ عرصہ ہوچکا انہیں شاید پتہ نہ ہو لہذا میں بتا ئے دیتا ہوں کہ وہاں جو تین اقسام کے قوانین نافذ ہیں۔ ایک بر طانوی قانون ہے جو ورثے میں ملا تھا اور اب وہ پاکستان کریمنل کوڈ کہلاتا ہے ، دوسرا شریعت لاءہے جو ضیاالحق صاحب کا عطا کر دہ ہے اور تیسرا دہشت گردی ایکٹ جو غالباً مشرف صاحب کی دین ہے۔
آجکل پولس چالان کرتے وقت پوچھتی ہے کہ کونسی دفعہ لگوانی ہے۔ مثال کے طور پر قتل کرکے اگر چھٹنا ہو تو شریعت لاءکہ اگر قاتل واقعی پھنس گیا تو لے دے کے چھٹ جا ئے گا۔ اگر دفعہ تین سو دو لگی ہوئی ہے تو مدعی حکومت ہوتی ہے پولس پیروی ویسی ہی کرتی ہے جتنا اسے گڑ پڑتا ہے اور جس طرف سے پڑتا ہے؟اس میں چھٹنے میں تھوڑی مشکل ہو سکتی ہے ۔اور تیسرے ہنگامی قوانین مشرف کے دور کے ہیں ان عدالتوں کی اپیل صرف سپریم کورٹ میں ہوسکتی ہے۔ اکرام الحق کو سزا دہشت گردی کی عدالت سے ملی تھی ،  تومجسٹریٹ کے پاس پھانسی روکنے کی بظاہر کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مگر وہ کیا کرتا کہ ایک طرف تو ساری دہشتگردوں کی قیادت اور دوسری طرف نہ جانے کیا کچھ۔ سامنے تھا؟ بہر حال داڑھی والا مونچھوں کی جگہ پھانسی پاتے پاتے رہ گیا؟
ورنہ اس توزک ِ جہانگیری میں ایک اور اضافہ ہوجاتا، جس میں بہت سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے جیسے کیس بھی شامل ہیں۔ یہاں تک تو پہلے عام تھا کہ پولس نظریہ ضرورت کے تحت ملزم اگر نہ پیش ہو تو دوسرے کو اس کی جگہ پیش کرکے تاریخ لے لیتی تھی۔ مگر یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقعہ تھا کہ اصل کے بجا ئے ڈیتھ وارنٹ اس نے دوسرے کے کسی اور کے لیے جاری کرالیے۔ لہذاان لوگوں میں تشویش ہونا قدرتی بات ہے جن کی گردنیں موٹی ہی؟
اب آتے ہیں عمران خان کی شادی کی طرف؟ اس شادی میں جلدی انہیں یوں کرنا پڑی کہ میڈیا نے ان کے اس ارشاد کواتنا اچھالا، جو کہ انہوں نے جلسے میں جوش خطابت یا ازرراہ تفنن فرمادیا تھا۔ کہ “ جس دن نیا پاکستان بن جا ئے گا میں شادی کرلونگا“ وہ کپتان کے ساتھ خان بھی ہیں چونکہ نیا پاکستان بننا یا نہ بننا تو کسی اور ہاتھ میں ہے اور اس سلسلہ میں تاریخ یہ ہے کہ کوئی بھی ابھی تک وہ وعدہ پورا نہیں کرسکا۔؟مگر انہوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا جوکہ ان کے ہاتھ میں تھا یعنی شادی کرلی۔ میڈیا سونگھتی ہی رہگئی؟ مگر مولانا تک نے بھنک نہیں پڑنے دی، پتا جب چلا جب نکاح ہو چکا تھا اور وہ بھی لڑکی کے گھر نہیں بلکہ لڑکے گھر میں ، شاید مستقبل میں یہ نئے پاکستان کی ریت بن جائے کہ دین امراءکا چلتا ہے؟ جبکہ وہاں سے صرف ایک ہی خبر مل سکی کہ نکاح خواں اپنے ہی دستخط کرنابھول گئے ؟شکر ہے کہ انہوں نے دولہا دلہن کے دستخط کرالیے تھے۔ اب خانصاحب اور بیگم صاحب ایک اور ایک مل کر ماشاءاللہ گیارہ ہو گئے ہیں؟ خواتین کا ونگ آئندہ سے بیگم صاحبہ سنبھالا کریں گی اور مردوں کاوہ خود؟ جو اس اعلان سے ظاہر ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ١٨جنوری کو بیگم صاحبہ بھی ان کے ساتھ  دھرنے میں شامل ہونگی؟ اس پر دو تبصرے بڑے دلچسپ ہیں ۔ایک تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اور دوسرا ہے ان کے پرانے ساتھی جناب جاوید ہاشمی صاحب کاکہ مولانا نے اپنی عمر تو بتائی نہیں مگر یہ فرما یا کہ “ عمران خان تو مجھ سے بڑے ہیں “ حالانکہ ان کی عمر کسی نے نہیں پوچھی تھی؟ کیونکہ سال گرہ منانا انکے یہاں بدعت ہے۔ لہذا وہ کسی کو معلوم بھی کیسے ہوسکتی ہے؟ جبکہ جاوید ہاشمی صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ عمران خان کے شادی کرنے کے بعد ان کی بیوی ڈرنے لگیں ہیں اور پہلے سے زیادہ خدمت کرنے لگی ہیں “ ( یہ خبرمردوں کو مبارک ہو)۔ جبکہ پرویز رشید صاحب نے ٹیپ کا بند یہ کہا ہے کہ ہم اٹھارہ جنوری سے پہلے ہی جوڈ شیل کمیشن کی بریکنگ نیوز چلوادیں گے تاکہ وہ بجائے دھرنا دینے کہ اپنا ہنی مون منا سکیں۔ اس سلسلہ میں تازہ خبر یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی بیگم صاحبہ مع بچوں کے مدرسے گئے اس سے وہ کیا پیغام قوم کو دینا چاہتے ہیں وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، یہ مستقبل میں پتہ چلے گا؟ جبکہ ایک خبر یہ ہے کہ ولیمے میں صرف اسکول کے بچے اور فقراءاور مساکین مدعو ہونگے ؟ شاید مولوی صاحب یہ ان کو بتادیں کہ ولیمہ حضور (ص) کی وہ سنت تواترہ ہے جو انہوں نے کبھی ترک نہیں فرمائی۔ اور وہ (ص) بلا تخصیص سب کو دعوت دیتے تھے؟
تیسری بات ہے مولانا فضل الرحمٰن اور ایم کیو ایم میں جاری مناظرہ ؟ انکا فرمانا یہ ہے کہ ایم کیو ایم والے “ پ “کاپرندہ بنالیتے ہیں؟ مولانا وہ کیا کریں کہ لغت تو بدل نہیں سکتے کہ پرندہ لغت میں ہے ہی  “پ“ سے اور پر بھی “ پ“ سے ہے جب تک پرندہ پرنہ نکالے وہ اڑبھی نہیں سکتا، جبکہ انسان بغیر پرکی اڑاتا بھی ہے اور اڑتا بھی ہے۔ اسے سن کر ہمیں بہت پرانی تا ریخ یاد آگئی ، ایک صاحب ہوا کرتے تھے خواجہ حسن نظامی جو بہ یک وقت اخبار نویس بھی تھے لیڈر  بھی تھے اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) کے سجادہ نشین بھی ۔ مگر جب وہ لکھنے پر آتے تو پھرکسی کو بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ مگرمولانا کی یہ روش پہلے تو نہیں تھی اب کیا ہوا؟ پہلے اگر ان کی ذات کے بارے میں کوئی اخبار نویس پوچھ لیتا تھا تو وہ ناراض ہوجاتے تھے؟ ان کے مزاج میں یہ بڑی اہم تبدیلی ہے خدا خیر کرے اس کی کوئی فرسٹریشن تو نہیں ہے ؟ میرے خیال میں وہ جلد ہی نارمل ہو جا ئیں گے ۔کیونکہ نواز شریف صاحب نے حکم دیدیا ہے کہ ان کے تحفظات دور کر دیے جائیں؟ وہ اکثر دور ہوہی جاتے ہیں ؟ یہ تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہوتا ہے ۔ ہمارے ایک وزیر اعظم صاحب نے الیکشن اسی مسئلہ پر لڑا کہ انہیں ایک معاہدے پرتحفظات تھے۔ جو تھا امریکہ اور کنیڈا کے درمیان، وہ منتخب ہوگئے۔ پھر ان کی طلبی ہوئی، امریکن صدر سے ملاقات ہوئی واپس تشریف لائے تو انکے تحفظات دور ہوچکے تھے؟ پاکستان میں بھی زیادہ تر کے تحفظات دور ہوچکے ہیں ۔ جو رہ گئے ہیں ان کے بھی جلد دور ہوجا ئیں گے کہ گردن تو سب کو پیاری ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.