ناموسِ رسالت کا دشمن کون ہے؟۔۔۔ از ۔۔۔ شمس جیلانی

آپ نے دیکھا ہوگا اور سنا بھی ہوگا کہ اگر کوئی بیٹا اپنے باپ دادا کی روش کے خلاف کام کرے، تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو اپنے خاندان کے بر عکس نکلا اور اس نے تو باپ دادا کانام ہی ڈبو دیا؟ جبکہ نبی (ع) ہر امت کے لیے باپ سے زیادہ ہے۔ اس سلسلہ میں حضور (ص) کا ارشادِ گرامی ہے کہ “جو مجھے اپنے باپ دادا، بیٹا بیٹی ، جان اور مال سے زیادہ نہ چاہے وہ مومن ہی نہیں ہے “۔ جبکہ ہم سب حضور(ص) سے الفت کے دعویدار توہیں جوکہ ہمارے بات بات پرمشتعل ہو جانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ مگر ان تقاضو ں کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں جو مسلمان ہونےکی وجہ سے ہم پر لازم آ تے ہیں کیونکہ زبانی جمع خرچ میں پاس سے کچھ نہیں جاتا ۔ اگر ملک میں ایمرجینسی ہو مارشلا ءہو جو کچھ بھی صورت ِ حال ہو پھر بھی جلوس نکالنے اسکی قیادت کرکے خود کوچمکانے کا ایک موقعہ مل جاتا ہے؟
کل اور آج کی خبریں دیکھئے ، ساری دنیا میں جلوس نکل رہے ہیں وہ بھی جلوس نکال رہے ہیں جن کی حفاظت کے لیے کئی کئی موبائل پولس وین چلتی ہیں۔ کیوں؟ اسلیے کہ انہوں نے بھیڑیئے کالباس اتار کے بھیڑ کی کھال پہن لی ؟۔ اس میں وہ بھی پیچھے نہیں رہے جو خود اعتراف کرتے رہے ہیں کہ اگر امین اور صادق والی اسلامی دفعہ نافذکردی گئی تو ہم میں سے کوئی کہیں آئی ہی نہیں سکتا صرف مولوی آئیں گے، مگر آج ناموس ِرسالت کی حفاظت کے لیے وہی ارکان ِپارلیمنٹ انہیں مولویوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جلوس کی شکل میں باہر نکل آئے؟
کاش کہ وہ اسی جذبے کے تحت ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یہ کہتے کہ ہم اسلام کی بدنامی کا باعث ہورہے ہیں اپنے غلط کردار کی وجہ سے ۔ لہذا اس دستور کو پوری طرح نافذ کر دیتے ہیں جس کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے کہ“ حکمرانی یہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی اور کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا، جو قوانین غیر اسلامی ہیں ان کو دس سال کے اندر اسلامی بنانا ہے اس کے بجا ئے اکتالیس گزرگئے ہیں اب مزید تاخیر کے بغیر فوراًتبدیل کر کے نافذ کیے دیتے ہیں“ لیکن یہ بڑا مشکل کام ہے، اس سے یہ آسان لگا کہ باہر آئے فوٹو سیشن ہوا پریس کانفرنسیں ہوئی اور واپس پارلیمنٹ میں چلے گئے ۔ اس لیے کہ اس میں سب سے پہلے تو انکے اپنے مفاد ات متاثر ہوتے ہیں، بہت سی مراعات ختم ہوجاتیں ، جھوٹی شان ختم ہوتی ہے؟ پھر دوستوں کی ناراضگی کا ڈر الگ ہے ۔
جب کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے سب سے زیادہ مجھ سے ڈرو ؟اگر مجھ سے ڈروگے تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت اس لیے نہیں پڑے گی کہ میں اور میری نصرت تمہاری پشت پر ہوگی۔اگر میں نہ چاہوں تو ساری دنیا تمہیں ملکر بھی نقصان نہیں پہونچا سکتی اور سب ملکر تمہاری مدد کرنا چاہیں اور میں نہ چاہوں۔توتمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتا۔ اور میں تمہیں سزا دیکر خوش نہیں۔ بس اتنا کرو کہ میری بات مان لیاکرو؟اور بات کیاہے کہ میرے رسول (ص) کا اتباع کرو، میں نے تمہیں ایک مکمل دین ،مکمل کتاب اور کامل انسان اور نبی (ص) تمہارے لیے نمونہ بنا کر بھیج دیا ہے۔ جس نے تمہیں میرا ہر حکم اپنے اوپر نافذ کرکے دکھا بھی دیا ہے۔ تم نے اس(ص) کا ہر دور دیکھا۔ جب اسکے پاس کچھ نہیں تھا تب بھی وہ (ص) صادق ،امین صابراور شاکر تھا۔ اسے کسی نے کبھی کسی موقع پر غضب ناک نہیں دیکھا۔ میں نے ہر طرح امتحان لیا اس نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا؟ اور یہ معاملہ اسکی اپنی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ جومٹھی بھر اس (ص) کے ماننے والے تھے ان پر ہر طرح کا ظلم کفار نے روا رکھا؟ انہیں ریگستان کی دھوپ میں پیاسا زمین پر گھسیٹامگر ان کی زبان سے العطش العطش سے پہلے اور بعدمیں احد احد کی صدائیں آتی رہیں ۔ ظالموں نے خواتین کو بھی معاف نہیں کیا راہ خدا میں پہلی شہید خاتون حضرت سمیّہ (رض) کے ساتھ یہ ظلم بچشم ِ خود دیکھا کہ ابو جہل مصر ہے ان سے کہہ رہا کہ اس دین کو چھوڑ ے، ورنہ میں نے سزا دینے کے لیے یہ دو اونٹ منگوالیے ہیں انہوں نے اسکی بات ماننے سے انکار کردیا تو اس نے ان کا ایک پاؤں ایک اونٹ کی ٹانگ سے اور دوسرے اونٹ کی ٹانگ دوسرے پاؤں سے باندھ کر پھر ایک مرتبہ ڈرایا، پھر بھی حضرت سمیہ (رض) دین کے خلاف ایک لفظ کہنے کوتیار نہیں ہوتی ہیں تو اونٹوں کو اسکے حکم پر مختلف سمتوں میں ہانک دیا گیا اور ان کے بیچ میں سے دو تکڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے شوہر بھی اس کی خواہش پوری نہیں کرتے ہیں وہ بھی شہید ہو جاتے ہیں۔ حضور (ص) اس پر بھی صبر فرماتے ہیں اورصرف یہ جملے ادا فرماتے ہیں کہ خاندان یا سر (رض) جنتی ہے۔ کیونکہ اس وقت تک لڑنے کے لیے رب سے انہیں حکم نہیں ملا تھاہر حالت میں صبر کرنے کا حکم تھا۔ ہم اسوہ حسنہ (ص) کو سامنے رکھ کر یہ سوچیں کہ ہم میں ان جیسے صبر کا ہزرواں حصہ بھی ہے ۔؟ جواب آپ پر چھوڑتا ہوں ۔
یہ تو ایک مثال تھی حضور (ص)کی سیرتِ مبارکہ سے جبکہ وہ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے اور یہ بھی ہمارے لیے سبق ہے کہ انہوں (ص) نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی کسی  سےانتقام نہیں لیا ،کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا؟ جبکہ ہم (ص)نے ان کا بتایا ہواراستہ چھوڑ دیا ہے نتیجہ کے طور پرزیر عذاب ہیں اور آج اپنے کردار کی بنا پر انہیں (ص) اور ان کے دین کو بدنام کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ آج بھی ایماندار مورخ ان کے کردار کو سراہنے کے بعد بڑے افسوس کہتے ہیں کہ ان (ص)کو ان کے ماننے والوں سے کوئی نسبت نہیں ہے؟یہ کیا ہم ان کے نام کو بٹہ نہیں لگارہے ہیں ؟ ان کو اذیت نہیں پہنچا رہے ہیں۔ جس کے بارے میں وہ (ص)خود فرما رہے ہیں کہ “ جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کواذیت پہنچائی“ کیا ہم اپنے کردار درست کر کے اس گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ جہاں یہ انتباہ سورہ حجرات میں ساتھ میں موجود ہو کہ “ نبی کے سلسلہ میں محتاط رہو اپنی آواز بھی بلند مت کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں خبر بھی نہ ہو اور تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجا ہو جائیں ؟
مگر ہم نے قرآن سے لا پروائی برتی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے چھپن ملک بھی ہیں ڈیرھ ارب کے قریب آبادی بھی ہے اٹامک پاور بھی ہیں اور دنیا کی بڑی افواج رکھنے والی قوموں میں بھی ہمارا شمار ہوتا ہے۔ مگر ہم سوائے احتجاج کے کچھ نہیں کرسکتے ہیں ۔ اس لیے کہ اسوہ حسنہ (ص) سے ہٹے ہو ئے اور آپس میں بٹے ہوئے ہیں ؟ کسی ایک مسئلہ پر بھی اتفاق ِ رائے نہیں ہے۔ اس کا حل کیا ہے اسی دامن رحمت میں واپسی ،پھر ویسا ہی بننا جیسا ہمارا بنانے والا ہمیں دیکھنا چاہتا ہے؟ وہ ہم میں یہ دورخی نہیں دیکھنا چاہتا کہ آدھے تیتر ہیں آدھے بٹیر ہیں کیونکہ وہ فرماتا کہ سب سے بہتر رنگ میرا (اللہ) کا ہے بس اسی رنگ میں رنگ جاؤمیں تمہیں دوبارہ اپنالونگا، مگر ہم نہ اس کا رنگ اپنانے کوتیار ہیں ، نہ اس کے نبی کا اسوہ حسنہ (ص) اپنا نے کو تیار ہیں ۔ بس اس طرح چاروں طرف بھٹک رہے ہیں جیسے کہ کوئی مسافر اپنی راہ کھو بیٹھا ہو ۔ نتیجہ یہ ہے کہ سب سے ڈرتے ہیں سوائے اللہ سے ڈرنے کے ۔ جب کہ اس نے قرآن میں مثال دی ہے کہ وہ غلام بہتر ہے جس کا ایک مالک ہو؟یا وہ بہتر ہے جس کے ایک سے زیادہ مالک ہوں اور ہرایک اپنی طرف گھسیٹتا ہو؟
ظاہر ہےایسے میں کوئی ایک بھی راضی نہیں رہ سکتا۔ وہی حالت اب ہماری ہے کبھی ایک کہتا ہے کہ ڈو مور (Do more ) کبھی دوسرا کہتا ہے کہ ڈومور ، جبکہ ہم نے بلا تفریق ہرایک سے اپنا ناطہ جوڑ رکھا ہے یہ دیکھے بغیر کہ انکے راستے مختلف ہیں اور ہر ایک کے اچھے بننے کی کوشش کر رہے ہیں ،جبکہ ا یسا ناممکن ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے؟ کبھی اس کے پاس بھاگ کر جاتے ہیں تاکہ اس کو مطمعن کرسکیں کہ اتنے دوسرا ناراض ہوجاتا ہے؟ شدت پسند بھی ساتھ ہیں ان کے مخالف بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ مگر اس کی سنت ہے کہ وہ رحم اس پر فرماتا ہے جو دوسروں پر مہربان ہو اور اپنی جان پر ظلم نہ کر تا ہو؟ ظلم کیاہے ۔کسی کا حق تسلیم نہ کرنا۔ اسی لیے شرک کواللہ تعالیٰ نے ظلم سے تعبیر کیا ہے کہ بندہ پہلے اس کا نا فرمان بنتا ہے، پہلے اسی کے حقوق سے منحرف ہو تا ہے؟ پھر کہیں جا کر دوسروں کے حقوق نظرانداز کرنا شروع کرتا ہے اگر خوف خدا ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی کے حقوق غصب کر سکے کسی کے ساتھ برائی کر سکے ؟ اس کی مثالیں صحابہ کرام (رض) کے کردارکی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ،اولیائے کرام (رح)کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ۔ جبکہ مسلمان وہی ہے جو حضور (ص) کا پیرو ہے اور اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ پورے معاشرے کےلیے بے ضرر ہو اور اس کے برعکس آج مسلمان کی پہچان کیا ہے۔ وہ بھی آپ پر چھوڑتا ہوں ۔تاکہ ہم سب اپنا حتساب کرسکیں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.