پاکستان میں اسوقت 29 جنوری کی شام ہو چکی ہے جب کہ ہمارے یہاں یعنی وینکور میں 29 جنوری کی صبح کا سورج طلوع ہو ا ہے ۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے بجائے شہر کانام لکھنے کے کنیڈا کیوں نہیں لکھدیا ؟ وجہ یہ ہے کہ نکتہ داں مجھے جھوٹا ثابت کردیتے؟ کیونکہ جب کنیڈا کہو تو پاکستان میں صرف ٹورنٹو مشہور ہے؟ جو تقریبا ً کنیڈا کے مرکز میں واقع ہے ۔جبکہ وینکور میں اور ٹورنٹو میں تین گھنٹے کا اوقات میں فرق ہے۔جبکہ یہ کنیڈا کے مغرب میں ہے اور مشرق میں ایک جزیرہ جو صوبہ بھی ہے اس میں اور وینکور میں ساڑھے چار گھنٹے کا فرق ہے۔ تمہید لمبی ہوگئی وجہ وہی ہے کہ نکتہ چینوں سے ڈر لگتا ہے؟
آج جو ہم نے عالمی اخبار کھولا تو پنجاب کے گورنر کے استعفیٰ کی خبر تھی اور انہوں نے اپنی بے اختیاری کا جہاں یہ فرماکررونا رویا کہ یہاں قبضہ گروپ کا رکن گورنر سے زیادہ با ختیار ہے وہیں یہ بھی فرمایا کہ یہاں جھوٹ بہت ہے؟ چونکہ وہ کافی عرصہ انگلینڈ میں رہ کر اور وہاں سچ کے ذریعہ کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر کے اسکے عادی ہوگئے ہیں ،شاید وہ اس سے واقف نہیں تھے کہ وطن عزیز اسکی مختلف سمت میں چل کر خاصی ترقی کر گیا؟ ہمارا ماتھا جبھی ٹھنکا تھا جب انہوں نے یہ خدمت قبول کی تھی۔ اب وہ فرمارہے ہیں کہ میں نے بغیر کسی کو اعتماد میں لیے ہوئے صدر کو اپنا استعفیٰ بھجوادیا ہے اور یہ کہ استعفٰی کسی نے مانگا نہیں میں نے خود دیا ہے ۔ لیکن ان کے بیان کی یہ بات خوش آئند ہے کہ وہ ہمت نہیں ہارے اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ واپس لندن نہیں جائیں گے بلکہ وطن عزیزکی خدمت کریں گے۔ ایوان صدر کہہ رہا ہے کہ استعفیٰ ہمیں ملا نہیں اس کے عموما ً معنی یہ ہوتے ہیں کہ ابھی ظاہر کرنا عوام کے مفاد میں نہیں ہے؟ ورنہ دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے وہاں کے ڈاکخانے کو آزمایا ہو اور بجائے الیکٹرانک ذرائع استعمال کر نے کہ ڈاکخانے سے بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ بھیجا ہو ؟ خدا کرے کہ وہ صدر صاحب کو مل جائے اور وہ بر طانوی اور پاکستانی عوام کی نظروں میں بطور صادق اور امین سرخرو ہوجائیں جس بری عادت کی وجہ سے انہیں استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ راست گوئی وہاں کسی کو بھی پسند نہیں ہے۔ (خدا کاشکر ہے کہ یہ خبر آئی ہی گئی کہ انکا استعفیٰ مل بھی گیا اور قبول بھی کرلیاگیا۔ ہم انہیں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں وہ خوش قسمت ہیں کہ اتنی جلدی انکا استعفیٰ منظور ہوگیا )۔
جبکہ بہت سو ں کے استعفے سالوں اٹکے رہتے ہیں؟ لہذاوطن ِ عزیز میں کوئی چٹھی، وی آئی پی، یا ٹرین کہیں وقت پرپہونچ جا ئے تو لوگ مبارکباد دینے ہار پھول لےکر جاتے ہیں ۔ اب تو پتہ نہیں ٹرین کے بارے میں؟ جب ہم 26سال پہلے وہاں تھے تو ایک لطیفہ بڑا مشہور تھا، اس پیسنجر ٹرین کے بارے میں جو کراچی سے پنڈی تک جاتی تھی، ہر اسٹیشن پررکتی ہوئی؟ چونکہ ہمارے یہاں وی آئی پی کلچر ہے اس لیے اسکے ساتھ عوامی ہونے کی وجہ سے عوام جیسا برتاؤ ہوتا تھا ۔ اسکو سائڈ لائین پر ڈال کرایکسپریس ٹرینیں پاس ہوتی رہتی تھیں اور وہ بیچاری صابر اور شاکر تھی لہذا وہ کبھی کہیں وقت پر نہیں پہونچتی تھی ۔ایک دن شہداد پور کے باشندوں نے یہ عجیب ماجرا دیکھا کہ وہ وقت پر پہونچ گئی تو وہاں کے لوگو ں نے یہ سوچا کہ اس میں نئے آنے والے اسٹیشن ماسٹر کا شاید کوئی دخل ہوگا، وہ مبارکباد دینے پہونچ گئے؟ مگر انہوں نے سچ بول کر ان کی غلط فہمی دور کردی کہ نہیں جی یہ تووہ ٹرین ہے جس کو کل آنا تھا؟ نوٹ۔ چونکہ لطیفہ ہے ہم اسکے سچ ہونے کی یقین دہانی نہیں کراسکتے ؟
پھر سوچا کہ چلو آج ساری خبروں کا تجزیہ کرڈالیں۔ جو اخبار جنگ میں چھپیں ہیں ۔ کیونکہ پاکستان کو اردو کے دو اخبار ورثہ میں ملے تھے ۔ایک جنگ دوسرا انجام۔ جنگ زندہ رہا کہ دور اندیش تھا، انجام نے اپنی پرانی روش نہیں چھوڑی لہذا زیادہ نہیں جی سکا اس کے پہلے مالک عمر فاروقی مرحوم ناکام ہوئے پھر اسے انعام درانی صاحب نے خرید لیا جو کہ روہیلکھنڈی پٹھان تھے؟ کہاں خانصاحبی اور کہاں اخبار نویسی، وہ انکے ہاتھوں جلد ہی اپنے انجام کو پہونچ گیا ؟جبکہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہاں میرصاحب بھی عزت ِ سادات بچائے ہوئے کامیابی سے چل رہے تھے اور یہ انہیں کا جگرا تھا کہ اس میدان میں کامیابیوں پر کامیابیاں نسل در نسل حاصل کیں ؟ ہر وہ خبر معتبر سمجھی جاتی تھی جو جنگ میں چھپے ،جس طرح اکبر الہ آبادی مرحوم نے کبھی انگریزی اخبار پانیر کے بارے میں فرما یا تھا کہ خبر وہی جو پانیر میں چھپے؟ اس وقت انڈیا میں وہ معتبر سمجھا جاتا تھااور ابھی تک نکل بھی رہا ہے۔ چونکہ عرصے سے جنگ پڑھتے آرہے ہیں ۔لہذا آج بھی حسب عادت پہلے عالمی اخبار پڑھنے کے بعد پھر اسے کھولا ؟
وہاں ہم نے ایک دوسری خبر دیکھی کہ جس میں الطاف بھائی نے شکایت کی تھی کہ پہلے دن سے مہاجروں کو پاکستان میں قبول نہیں کیا گیا؟ ہم پھر سوچنے بیٹھ گئے کہ اس کو سچ مانیں یا اپنے ذاتی تجربے کو جھوٹ ؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے ابھی بھی ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کو انڈیا نے تسلیم نہیں کیا؟ جبکہ حقیت یہ ہے کہ اگر وہ نہ تسلیم کر تا تو آج اس کا ہائی کمشنر ہمارے یہاں اور ہمارا ہائی کمشنر اس کے یہاں کیوں ہوتا؟ ہمیں آزادی ایک دن پہلے ملی تھی جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے اس نے پاکستان کوتسلیم کیا؟ چونکہ ہم اسکے دعویدار نہیں جب کہ ہم سے کم عمر کےلوگ آج کے دور میں قائد اعظم کے ساتھی بنے ہوئے ہیں اور اس کی بنا پر لال بجھکڑ کہلاتے ہیں؟ مگرہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ“ لیکر رہیں گے پاکستان کے نعرے لگا نے والوں میں ہم بھی شامل تھے“ لوگ اسوقت پوچھتے تھے کہ تم تو یہاں رہ جاؤگے تمہیں وہاں کیا ملے گا؟ کیونکہ اسوقت تک نہ کسی نے تبادلہ آبادی کا سوچا تھا ،نہ ہی کسی کے سامنے کوئی ذاتی خواہش تھی؟ جواب سب کا ایک ہی ہوتا تھا کہ جو ہندوستان کے مسلمانوں کا دیرینہ خواب ہے وہ پورا ہو جائے گا کہ ہمارے مسلمان بھائی آزاد ہو کر حسب ِوعدہ ایک مثالی اسلامی حکومت قائم کرلیں گے۔ جو دنیا کے لیے نمونہ ، مسلمانوں کے لیے فخر اور تقویت کا باعث ہوگی؟ ان کی طاقت ہماری طاقت ہوگی؟ ان میں سے کچھ پورے بھی ہوئے سوائے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کے ۔ کرتے کیا کہ حالات ایسے ہوگئے کہ پھر مسائل سے فرصت ہی نہیں ملی؟
لوگوں کو تبادلہ آبادی کرنا پڑا ؟ سب سے پہلا تو مسئلہ نئے ملک کو چلانے کا آیا تو تمام ہندوستان کے مرکزی ملازمین سے پوچھنا پڑا کہ تم کہاں خدمت کرنا پسند کروگے ۔تب بہت بڑی مسلم اکثریت نے پاکستان میں خدمت کرنے کو پسند کیا اور انہیں آپٹیز نام دیاگیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بہ حسرت و یاس انہیں رخصت کیااور انہیں پاکستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا؟۔
جی ہمارا بھی چاہا کہ جاکر نئے ملک کی خدمت کریں مگر دل مار کے بیٹھ گئے کہ آبائی جائداد پاؤں کی بیڑی بنی ہوئی تھی؟ جب زمینداری انڈیا میں ختم کردی گئی کہ مسلمان زمیندار زیادہ تھے اور خاتمہ ان کے منشور میں شامل تھا۔ تو سبق زممینداروں نے بھی مشرقی پاکستان کا رخ کیا کیونکہ وہاں اس وقت پاسپورٹ نہیں تھاسرحدیں کھلی ہوئی تھیں۔ وہاں انہیں نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ کثرت آبادی کے باوجود اپنے پاس جگہ دی ۔ جبکہ اس سے پہلے وہ ملازمین جنہوں نے پاکستان کی خدمت کرنا پسند کیا تھا ان کو ان وہ خوش آمدید کہہ ہی چکے تھے ۔ مغرب میں سندھ کی سرحد کھلی ہوئی تھی وہاں سے لوگ پاکستان آئے سندھیوں نے بھی خوش آمدید ایک کیا،کئی سالوں تک کہا لوگ اسٹیشنوں پر کھڑے رہتے کھانا لیے ہوئے؟ جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن جن کو میز بانی کاشرف حاصل ہوا ان سے سنا ضرور ۔ جبکہ ہم بعد میں بذریعہ بحری جہاز کراچی آگئے اور سندھ میں رہے اور میز بانی او ر بھائی چارے کو نہ صرف دیکھا بلکہ بھائیوں کی طرح برتا بھی۔
البتہ پنجاب کا معاملہ ذرا مختلف تھا کہ وہاں دونوں طرف پاکستان بنتے ہی آگ لگ گئی سرحدیں کھلی رکھناخطرناک تھا لہذا با قاعدہ تبادلہ آبادی اور تبادلہ ریکارڈ بھی ہوا۔ وہاں سے جانے والوں کی چھوڑی ہوئی جائداد آنے والوں کو ملی، زمینو اورگھروں وغیرہ میں آنے والوں کو ان کا استحقاق دیکھ کر آباد کردیاگیا؟ اب وہاں مہاجر نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ یہ ہی حال صوبہ سرحد کا ہوا کہ جو پٹھان ہندوستان کے کسی حصہ سے بھی آئے وہ اپنے قبائل میں ضم ہوگئے؟ اگر پاکستانی مہاجرین کوقبول نہ کرتے تو یہ کیسے ممکن تھا؟ ہمارے علم میں تو اس جی ایم سید کا یہ جرم بھی ہے کہ اس نے تمام ہندوستان کے مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی تھی۔کہ اب سندھ صوبہ بن گیا ہم نے اپنی جان چھڑالی ہے؟ ہمارے مسلمان بھائی ہندوستان سے آکر یہاں سرمایہ کاری کریں اور ہماری مدد کریں۔ جب بہار میں فسادات ہوئے تو ان کو خوش آمیدید کہنے کے لیے ۔کراچی میں 1946ع میں بہار کالونی بنائی گئی جو ابھی تک موجود ہے۔
آگے ایک اعلان اورپڑھا وہ بھی روایتی تھا۔ کہ الطاف بھائی نے اعلان فرمایا ہے کہ وہ آج کے بعد ایم کیو ایم سے لاتعلق ہو جا ئیں گے۔ حیدر آباد یونیورسٹی کے سنگ بنیاد پر آخری خطاب فرمارہے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر پڑھی کہ نائین زیرو پر کارکنان بے حد اصرار کے لیے جمع ہورہے ہیں ۔ جبکہ ہمیں امید تھی کہ وہ اس کڑے وقت میں کارکنوں کا مطالبہ ردنہیں کریں گے۔ اور اپنا استعفیٰ ضرور واپس لے لیں گے۔ (اللہ نے ہماری یہ دوسری آرزو بھی پوری کردی )
آج شاید قبولیت کادن ہے کہ ہماری دعائیں یا سوچیں پوری ہوئیں ۔ اب تیسری دعا مانگتے ہیں کہ شاید وہ بھی پوری ہو جائے کہ سارے مسلمان سچ بولنا شروع کردیں اس لیے کہ مخبرِصادق محمد مصطفیٰ (ص) نے جھوٹ کو گناہو ں کی جڑ قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ“ مسلمان میں ساری برائیاں ہو سکتی ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا “ ایک صاحب دربار رسالت میں پیش ہوئے جن میں ساری برائیاں تھیں؟ انہوں نے پوچھا کہ حضور (ص) پہلے کیا چھوڑوں! فرمایا “ جھوٹ“ انہوں نے وعدہ کرلیا ۔ بعد میں انہیں احساس ہوا کہ بغیر جھوٹ کہ صرف بھلائی ہوسکتی ہے، برا ئی نہیں کیونکہ برائی کو چھپانا پڑتا ہے۔ لہذا وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوکرمتقی (رض) بن گئے۔ آئیے! دعاکریں کہ “اللہ ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہماری مصیبتیں دور ہوں “ ( آمین )
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے