روٹھے منانے کا موسم ؟از۔۔۔ شمس جیلانی

پہلے زمانے میں زراعت پر سار ا دارومدار تھا فصل اچھی ہوگئی تو ساری تقریبات دھوم دھام سے ہوتی تھیں ورنہ اگلے سال پر ملتوی ہو جاتی تھیں، اگر فصل اچھی ہو تو پھر شادی بیاہ کا موسم اورروٹھنے منانے کا موسم بھی شروع ہو جا تا تھا۔ اس زمانے میں شادی کارڈ کا بھی رواج نہیں تھا شادی میں ،اصل کردارعموما ً نائی یا حجام جسے مسلمان نہ جانے کیوں خلیفہ بھی کہا کرتے تھے اسی کے ہاتھو ں انجام پاتے تھے۔ اسے خلیفہ کیوں کہا کرتے تھے وہ ہماری آجتک سمجھ میں نہیں آیا؟ اس میں ہندو بھی پیچھے نہیں تھے ان کے بھی کئی نام تھے وہ اسے راجا کہتے تھے، ممکن ہے کہ کوئی ظالم راجہ ایسا بھی گزرا ہو جو رعایا کی حجامت کر دیتا ہو کہ مالیہ کم ہونے کی شکایت تو سب کو ہی رہتی تھی جبکہ ریاستیں بہت تھیں۔ ہمارے یہاں ایک کے بارے میں تو تاریخ میں لکھا ہے کہ جب عمال نے یہ خبر دی کہ لوگ جوق درجوق اسلام قبول کر رہے ہیں اس سے جزیہ کم ہو تا جارہا تو اس نے حکم دیا کہ جو اسلام لے آیا ہو اس سے بھی جزیہ وصول کیا جائے؟  اس زمانے جمہوریت تو تھی نہیں کہ الیکشن کا ناٹک ہوتا ۔با دشاہت اور بادشاہ تھے اور جنہوں نے خلافت راشدہ نہیں دیکھی تھی صدیوں تک لوگ بادشاہوں کو ہی خلیفہ کہتے رہے جبکہ خلیفہ خداسے ڈرنے والے ہوتے تھے اور با دشاہ اپنی پرچھائیں سے بھی ڈرتے تھے ،اسی لیے وہ کوئی وارث تخت رہنے ہی نہیں دیتے۔
جیسے کہ آجکل حکمرانوں کے انداز شاہانہ ہونے کے باوجود ہم اپنے رہنماؤں کو جمہورکانمائندہ کہتے ہیں جن کے انتخاب تک میں ہمار ااپنا کوئی دخل نہیں ہوتا اور حکمراں خود بھی کسے کا بچہ جمہورا ہوتو حکمراں بنتاہے۔ اگر یہاں خلف کے لغوی معنی لیے جائیں یعنی بعد میں آنے والا تو بھی اسے خلیفہ کہنا مشکل تھا؟ کیونکہ وہ تو اس دور میں ان بیٹوں کے لیے مخصوص تھا ،جوکہ نیک چلن ہوتے تھے، اور خلف ِرشید کہلاتے تھے ۔ اس کے برعکس جو بچہ نالائق ہوتا اس کو ناخلف کہتے تھے۔ ہاں اگر اسے اس کی اس خوبی کی بنا پر خلیفہ مان لیا جائے جوکہ اس کی انفرادیت تھی کہ وہ پیچھے کھڑے ہو کر حجامت بنا تاتھا، تو کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ہم نے اس کاذکر اپنے ایک دوست کے سامنے کیا تو کہنے لگے کہ آپ کی یہ توضیح بھی غلط ہے ! ہم نے پوچھا کیوں! فرمایا کہ اس زمانے میں تو مسلمان درزیوں کو بھی خلیفہ کہتے تھے؟ جن کے بارے میں کہاوت ہے کہ درزی اور سنار اپنی ماں سے بھی نہیں چوکتے ،یعنی کسی نہ کسی طرح سگی ماں کا بھی کپڑا یاسونا مار ہی جاتے ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی  ؟اس سے ثابت یہ ہوا کہ ان کی بھی آنکھوں میں کچھ لحاظ تھا۔ ؟ جبکہ آجکل جیب کتروں ،چوروں ،اور بشمول ڈاکوؤں کے سب آنکھ میں آنکھیں ڈال کر اور روبرو ہوکر لوٹتے ہیں۔ جبکہ کہلاتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں مثلا ً خادم وغیرہ ، جس سے عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہ انہیں خادم سمجھنے لگتے ہیں ؟مگر ان کے خادم ہو نے کے راز اسوقت کھلتے ہیں جبکہ خدمت لینے کی کبھی ضرورت پڑجائے؟ہاں بات کر رہے تھے ،نائی کی کہ جس کے بارے میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ اس نے کہیں بٹتی ہوئی مٹھائی میں سے ایک کے بجائے چار حصے وصول کر لیے ! جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایک کے بجا ئے چار حصے کیوں لیے تو اس نے محتسب کو جواب دیا کہ سرکار گنیں ً میں اور میرا بھائی حجام، خلیفہ ، نائی، اس طرح میں چار حصوں کا مستحق ہوں شاید یہیں سے طبقہ اشرافیہ میں جائیداد اپنے بجائے رشتہ داروں کے نام پر رکھنے کا رواج شروع ہوا۔ مگر اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی قناعت پسند تھا ورنہ اس کے سپرد اس کے علاوہ بہت سی خدمات اور بھی تھیں، اور اپنے حصے زیادہ بنا سکتا تھا ۔ مثلاً اگرتک بندی کو شاعر ی مان لیا جائے تو وہ شاعر بھی ہوتا تھا جیساکہ ابھی آپ نے پڑھا۔ گانا بھی گاتا تھا، جہاں فنکار نہ ہوں تو وہ ضرورت پڑنے پر فنکار بھی بن جاتا تھا ۔
شادی کا دفتر بھی چلاتا تھا کہ آپس کے رشتوں کے علاوہ باہر سے جو رشتے آتے تھے وہ اسی کے معرفت آتے تھے اور اصیل النسل ہونے کی تصدیق کرنے کاکام بھی وہی انجام دیتا تھا۔ یہ بھی اسکے سپرد تھا کہ وہ سب کے شجرے یاد رکھے اور شادیوں کی تقریبات میں پڑھے تاکہ معلوم ہو جائے کہ لڑکی کس کی ہے اور لڑکا کس خاندان کا ہے ؟اسی وجہ سے گوتی کہلاتا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ محاورہ مشہور ہوا کہ “ میری ڈھلیا میں روٹی تو سب میرے گوتی؟ اسکے علاوہ وہ چند گھڑیوں کے لیے ہی سہی مگر جراح کا کام بھی انجام دیتا تھا اور بچوں کو مشرف با اسلام کرتا تھا۔ اب وہ ہمہ صفت پیشہ ہی معدوم ہوگیا اور اس کے بجائے وہ باربر کہلانے لگا پھر مزید ترقی کی اور اس میں دونوں صنفیں شامل ہو گئیں ۔ تھیں تو پہلے بھی مگروہ نائن کہلاتی تھیں اورزیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ جب مساوات کا دور آیا تو وہ بیوٹی پارلر کے مالک یامالکن بن کر بجا ئے ۔حجامت کرنے اور بال کاٹنے کہ کھال کھینچنے لگے؟ گئے وقتوں ان کو ایک فہرست میزبان کی طرف سے دیدی جاتی تھی جس میں مدعو مہمانوں کے نام ہوتے تھے اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ گھر گھر جائے اور فہرست پر “ صاد “کراکر لائے اور یہ بھی بتائے کہ کس نے صاد کرنے سے انکار کیا اور وجہ کیا بتائی ؟ پھر میزبان کی طرف سے منانے کی کوشش شروع ہو جاتی۔ اب شادیوں کے موسم کی جگہ الیکشن نے لے لی ہے ۔اس میں بھی بعض لوگ وہی کردار دا کرتے ہیں مگر انہیں کوئی نام نہیں دیا جاتا ۔ اس میں وہ سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ جو عام حالات میں کسرِ شان سمجھا جاتاہے؟ شہر شہر انسانوں کی منڈیاں لگی ہوتی ہیں؟ مگر دکھا ئی نہیں دیتیں،البتہ وہ شہزادے جن کے برابر سے معمولی آدمی نکل جائے تو ناک پر انگلی رکھ لیتے ہیں وہ ان کے ہی قالین پر اپنے مٹی میں لتھڑے جوتوں کے ساتھ آتا ہے ، برابر بیٹھتا ہے سرگوشیاں کرتا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ اور ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ کیونکہ ان کے یہاں یہ بھی کہاوت رائج ہے کہ وقت ِ ضرورت گدھے کو بھی باپ بنا نے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عوام اسی میٹھی چھری سے بار بار ذبح ہو تے ہیں، مگر سبق کبھی حاصل نہیں کرتے۔چونکہ آجکل عام انتخابات نہیں ہیں ،اس لیے سرگرمیاں ہیں تو سہی مگر دکھائی نہیں دے رہی ہیں سوائے میڈیاکے ۔ آج کل بکروں کے ریٹ کہاں تک گئے بعد کو پتہ چلے گا۔ جبکہ حاجی صاحب سترہ لاکھ کی گائے اللہ کی راہ میں قر بانی کے لیے لیتے ہیں تو فورا ً تصویر اخبار اور ٹی میں بھی آجاتی ہے۔ چونکہ یہ ا لیکشن اشرافیہ کے ہیں رمضانیوں کے نہیں ، ان کے راز کھلنے کے بعد بھی نہیں کھلتے ،اس لیے کہ سب مسلمان ہیں اورانہیں مسلمان بھائی کاپردہ رکھنے کا حکم ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.