پلے میں تمہارے دینے کے لیئے کیا ہے۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

ہم بڑے مذبذب ہیں کہ اپنی یہ دردمندانہ عرضداشت کس کی خدمتِ عالیہ میں پیش کریں؟ کیونکہ جن کے پاس بقول ان کے منڈیٹ ہے ان کے پاس “ منڈپ “نہیں ہے۔ اور جن کے پاس منڈپ ہے وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس منڈیٹ نہیں ہے کہ اسی میں ان کی بہتری ہے۔ آپ مطلب سمجھ گئے ہوں  گےکہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ اردو آج تک سرکاری زبان بن ہی نہیں سکی عام کاروبار انگریزی میں ہی چلتا ہے جبکہ “ منڈپ “انڈین فلمیں دیکھنے کی وجہ سے بچہ بچہ جانتا ہے۔ اگر کوئی صاحب ایسے بد ذوق ہیں کہ جن کی سماعت ٹی وی سے روشناس ہونے کے بعد بھی اس لفظ سے بچی رہی تو ہندی میں “ منڈپ “ اسے کہتے جس کے نیچے ایک دن کی با دشاہت کے لیے کسی کودولہا بنایا جاتاہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ زیادہ تر یہ دن سب کو دکھا تا ہے کہ دیکھیں اب یہ کیا کرتاہے؟
یہ تذبذب ہمیں اس لیے لاحق ہوا کہ اِن سے کچھ کہیں گے تو یہ بغیر اُن سے پوچھے کچھ نہیں کریں گے اور اُن سے کچھ کہیں گے تو وہ اپنا صاحب ِ اختیار ہونا مانیں گے نہیں ۔ لہذا ہماری یہ عرضداشت گیند کی طرح کرکٹ کے میدان میں بلّو ں سے ٹکراتی رہے گی۔ ایسے میں اب آپ ہی بتائیں کہ ہم کریں کیا؟کیونکہ ہمیں مسلم امہ کی بہی خواہی کا خبط بھی سوار ہے۔ اس لیے کہ ہمیں حکم ہی یہ ہے۔کہ اچھی باتوں کی ترغیب دلا ئیں اور بری باتوں سے منع کریں؟ اور یہ بھی کہ ہر ظالم کے سامنے کلمہ حق کہیں ،کوئی سنے یا نہ سنے مگر ہم اپنے فرض سے سبک دوش ہو جائیں۔اس کی وجہ سے بہت سے دوست ہم سے بچتے ہیں کہ وہ بھی کہیں ہم سے قربت کی بنا پرمعتوب نہ ہو جائیں ، اور ہم ان سے بچتے ہیں کہ کہیں ہماری وجہ سے بچارے مشکل میں نہ آجائیں ؟ مومن کی اللہ اور اس کے رسول (ص) نے پہچان ہی یہ بتائی ہے کہ وہ دوسرے مومن کے ساتھ اللہ کے لیے محبت کرتاہے اور یہ بھی کہ جو اپنے لیے چاہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی چاہے؟ مثلا ً ہم اپنے لیے جنت چاہتے ہیں تو اپنے بھائی کے لیے بھی چاہیں۔ اگر ہمیں یقین ہے کہ ہم راہِ راست پر ہیں تو بھائی کو بھی راہ راست کی طرف راغب کریں؟ تاکہ وہ بھی جنتی بن سکے۔ لہذا ہم اس یادداشت کو مکتوب الیہ کا نام لکھے بغیر انگریزی کایہ طریقہ اپنالیتے ہیں ۔ جووہ جب استعمال کرتے ہیں، جب مکتوب الیہ معلوم نہ ہو کہ کون ہے اور یہ کہاں کہاں جا ئےگا ، کس کس کی نظروں سے گزرےگا ۔ تاکہ “ اس کی جہاں ضرورت ہو، وہاں ضرورت مند استعمال کرلے “ جیسے کہ کبھی ہر مرض کی دوا امرت دھارا ہوا کرتی تھی،حالانکہ آج کے دور میں اب وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ لوگ اردو سمجھنے والے کم ہوتے جارہے اور انگریزی لوگ زیادہ سمجھتے ہیں وہ اصطلاح ہے ۔ ” To whom It may concern ”
ہمیں یہ خبط اس لیے سوار ہوا کہ ہم نے ٹی پر پاکستانی حکمرانوں کی یہ “ اپیل کہ غیرملکوں میں آباد پاکستانی واپس آجائیں اور یہاں سرمایہ کاری کریں بار بارسنی، جبکہ وہ خود اسکا الٹ کرتے ہیں؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ“ مومنوں! وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو ،اور یہ کہ اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے “ جبکہ علمائے کرام یہ وعظ روزانہ سناتے رہتے ہیں کہ یہ مت کرو وہ مت کرو، مگر شادی ضرور چار کرلو؟ پھر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ “ ہم سے تو ایک سنبھلتی نہیں یہ چار کیسے سنبھال لیتے ہیں۔ سود میں ملوث مت ہو؟ تمام ایسے اداروں سے دور رہوجہاں سود ی کاروبار ہوتا ہو ورنہ اللہ اور اسکے رسول (ص) سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ؟ اس کے برعکس کچھ یہ رعایت دیدیتے دکھائی دیتے ہیں کہ بنک میں ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ مگر اس سیکشن میں ملازمت مت کرو جہاں سودی دستاویز تیار ہوتی ہوں کیونکہ حدیث نبوی کے مطابق “ سود لینے والا، دینے والا، اسے لکھنے اوراس پر گواہی کرنے والے جہنمی ہیں “ جب کہ ملک میں کیا دنیا میں صحیح معنوں میں بلاسودی بنکاری کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی اکثریت مسلمان ہے اگر کوئی بھی یہ کام نہیں کرے گااور اپنی جگہ جہنم میں نہیں بنا ئے گاتو پھر بینک چلے گا کیسے؟ اور آمدنی کہاں سے ہوگی ، باقی عملہ کی تنخواہ کہاں سے نکلے گی؟ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر اسلامی ملکو ں میں جانا حرام ہے وہاں رہنا حرام ہے؟ جو باہر ہیں وہ واپس آجائیں؟ کیا اس پروپیگنڈے سے ملک کی مالی حالت مزید نہیں تباہ ہو جائے گی ؟ پھر وہاں آنے کے بعد کریں کیا؟ ملازمت وہ بغیر رشوت ملے گی نہیں اور کھائے کھلائے بغیر چلے گی نہیں۔ کارو بار کریں،صنعتیں لگائیں، یا زمین خریدلیں، بلنڈنگ بنا کر کرایہ پر اٹھادیں؟ کاروبار کریں بھتہ ، تاوان برائے اغوا ءاور رشوتوں کی مدسے کچھ بچ سکے گا ؟جواب نفی میں ہے؟ آنے والوں کو پچتاوے کہ سوا ملے گا کیا؟ اگر جان بچ گئی تو پھر وہیں واپس جانا پڑیگا ۔ اگر زمین خرید لیں تو قبضہ گروپ سے کیسے بچے گی۔ عمارت بنا کر کرائے پر اٹھادیں تو قبضہ دینے کے بعد کرایہ دارسے کرایہ ملناتو دورکی بات ہے۔ قبضہ واپس زندگی میں تو ملے گا نہیں ؟
ان سب مسائل کا حل کیا ہے صرف اور صرف دین کی طرف واپسی ؟ جو عام آدمی کی تبلیغ سے ممکن نہیں ہے؟ یہاں ایک مثال پیش کرتا ہوںکہ جنہوں نے دہلی کے اطراف میں ساتھ لاکھ میواتیوں کو جو نام کے مسلمان تھے، جب ان پر تبلیغ شروع کی تو ان کے پاس پیسے تھے وہ ہر صبح سڑک پر کھڑے ہوجاتے اور پوچھتے بھائی کہاں جارہے ہو؟ وہ بتاتے مزودری کرنے ،وہ پھر پوچھتے کہ کیا مزدوری ملے گی تو جواب ہوتا تھاکہ اتنی؟ تب وہ فرماتے کہ وہ میں دونگا؟ “ تم چالیس دن نمازیں پڑھ لو “ نتیجہ میں کچھ سدھر بھی جاتے تھے اور باقی پھر اپنے پرانے راستہ پرو اپس چلے جاتے تھے۔ مگر اس کو بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے فلاحی ریاست چاہیے کسی مالدار ترین آدمی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوسکتے کہ وہ سب کی کفالت کرسکے چاہیں وہ کتنا ہی بڑا کالے دھن کمانے کا ماہر کیوں نہ ہو ؟
سب کو رزق دینا صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کاکام ہے کہ وہ سب کا رازق ہے اور اس کے خزانے لا محدود ہیں۔اس نے اپنا نظام ہی اس طرح کا بنا یا ہے کہ کچھ سرمایہ دار بنیں کچھ مزدور بنیں؟ کچھ چور اور ڈاکو جیسے پیشے بھی اختیار کریں تاکہ پولس رکھنا پڑے اور دنیا ملکوں میں بٹی رہے۔تاکہ ہر ملک اپنی حفاظتی فوج رکھے؟ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کسی گروپ کا غلبہ نہ ہونے دے اسی لیے اسلام نے عدل پر سب زیادہ زور دیا کہ کوئی طاقت سر نہ اٹھا سکے۔ اگر سب چور بن جا ئیں تو بھی ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ چور بننے سے روکنے کے لیے خوف خدا اور حکومت کی طرف سے چور کی آباد کاری کا انتظام ضروری ہے؟ اسلام نے گھرے بغیر توبہ کے دروازے چور اور ڈاکوؤ پر بھی کھلے رکھے ہیں تاکہ وہ خود کو بدل سکیں۔ کیونکہ اچھا ماحول نہ ملے جو اسے بھلا آدمی رہنے کے لیے ضروری ہے، تو جس طرح وہ پہلے چور بنا تھا پھر چور یا ڈاکو بن جا ئے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی نے اپنے وفادار سپاہیوں کو بھی بے یار و مدد گار چھوڑدیا تو وہ اسی مالک کی کچھ زمین پر قبضہ کر کے راجہ یانواب اور با دشاہ بن بیٹھے؟ مسئلوں کا حل تلاش کیے بغر کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے دنیا بھر میں پھیلے کارندے ہیں جنہیں شرفِ حکمرانی بھی حاصل ہے۔ وہی عام انسان کی رگوں سے خون چوس کر پھل پھول رہا ہے ،اس کا اگر کوئی توڑ ہے تو وہ اسلام ہے جس میں فلاحی ریاست کا تصور موجود ہے اور یہ ہی اس کاجرم بھی ؟ جبکہ وہ نظام کہیں بھی دنیا میں موجود نہیں ہے اور مفاد پرستوں کی موجود گی میں آ بھی نہیں سکتا ہے؟ جب تک یہ خلاءباقی ہے یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہوسکتا؟ جتنا آپ مسلمانوں کو ڈرائیں گے اتنا ہی وہ چاروں طرف ہاتھ پیر ماریں گے ؟مفاد پرست اور نام نہاد اسلام پرست اسی طرح سبزباغ دکھاتے رہیں گے اور وہ نادانی میں ان کا شکار بنتے رہیں گے۔ جب تک کہ کوئی اللہ کابندہ ایمانداری سے اس پر عمل پیرا نہ ہو صرف زبانی جمع خرچ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا؟ اس میں علماءاور حکمرانوں دونوں پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اچھا حکمران وہی ہے جو عادل ہو انسان کا درد محسوس کرے جس کی اسلام نے بڑی تعریف کی ہے اور اچھا عالم وہی ہے جو حضور (ص) کی طرح خود عمل کر کے دکھا ئے ورنہ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے “ اچھی بات تو برا آدمی بھی کرلیتا ہے “ اگر یہ نہ کیا تو خصوصی طور پر سادہ لوح نو مسلم اپنی محدوداور شدت پسندوں کی فراہم کردہ معلومات کو اسلام سمجھتے رہیں گے اور ان کے آلہ کار بنتے رہیں گے ؟ اللہ سبھانہ تعالیٰ ہمارے کرتا دھرتاؤں اور دنیا بھر کے دانشوررو ں کوسمجھ بوجھ عطا فرمائے تاکہ موجودہ انارکی دور ہو (آمین)

پ

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.