وہ کہتے کیوں ہو جو کر نہیں سکتے؟۔۔ از ۔۔۔ شمس جیلانی

مورخہ4مارچ کے جنگ میں ایک خبر نظر سے گذری کہ وزیر مذہبی امور اور ہم آہنگی جناب سردار یوسف صاحب نے ارشاد فرمایا “ عنقریب پاکستان میں نماز کو لازمی قرار دیا جائے گا اسکولوں ،دفاتر اور چیمبر آف کامرس وغیرہ سب نمازوں کے اوقات میں بند رہا کریں گے جبکہ ابتدا پنڈی اور اسلام آباد ہوگی ؟ اذان تمام مساجد می بہ یک وقت ہوا کرے گی ۔ اس کے لیئے علماء کی ایک کمیٹی بنا ئی گئی ہے“ بڑی خوش آئند خبر ہے  پڑھ کرکہ دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ کچھ نئی باتیں علم میں آئیں اور کچھ  نہ جانے  کیوں ذہن میں کھٹکیں۔ کھٹکنے والیوں میں ایک تو یہ ہے کہ یہ خبر اسی وقت کیوں جاری ہوئی جبکہ وزیر اعظم صاحب اپنے اعلیٰ درجہ کے وفد کے ساتھ بادشاہ کی دعوت پر سعودی عرب تشریف لے گئے تھے۔     البتہ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ کم ازکم ان کا نام تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ کوئی وزیر مذہبی امور اورہم آہنگی بھی ہیں اور وہ ہم آہنگی پیدا کرنےابھی تک ایک کمیٹی سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں؟ وہ کب سے ہیں معلوم نہیں؟ غالبا ً اتنے عرصے  سے توہونگے ہی جتنے عرصے سے موجودہ حکومت ہے؟  جبکہ ان کے دور میں ایک حج بھی ہوگیا اور نہ وہ خبر بنے نہ ان کی وزارت؟ اس سے پہلے یہ وزارت ہمیشہ اپنے اعلیٰ اور اہم کردار کی بنا پر خبروں میں ہی رہتی تھی،اور جاننے والے جانتے ہیں کہ کورٹ کچہریوں اور جانے کہاں کہاں رہتی تھی ؟ اس دور میں حج کے انتظامات بھی اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ تھے۔ اسکی وجہ ممکن ہے کہ وزیر موصوف یا تو خاموشی سے کام کرنے کے عادی ہوں، یا پھر  نام ان انکا ہے اور چلتی کسی اور کی ہو جیسے اور کئی وزارتوں کے ساتھ ہے؟  بہر حال اگر وہ اس کے ساتھ  یہ بھی اعلان کردیتے کہ ہم پاکستان کو فوری طور پر فلاحی یا کم ازکم اسلامی ریاست بنا رہے ہیں ۔ جو وقت کی ضرورت تھی تو ملک کے لیےبہت اچھا ہوتا؟ کیونکہ مساجد تو ویسے ہی بھری ہوئی ہیں۔ مگر ان میں اسلامی قدریں مفقود ہیں ۔ اسلیے کہ سارا زور ظاہرداری پر ہے۔ تزکیہ نفس کا شعبہ صدیوں سے بند پڑا ہے۔ لوگ جو دکھائی دیتے ہیں زیادہ تر ویسے نہیں ہیں۔
کیونکہ عام رواج یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ جبکہ الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں۔ اور قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں، جس میں یہ دو آیتیں موجود ہیں کہ “اے ایمان والو! وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو“ اور اسکے بعد والی آیت  میں سخت انتباہ  بھی ہے کہ “ اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے “ چونکہ ہمارے اقوال اور کردار میں بہت فرق ہے اس لیے ہمیں جو تیسرا بہت ہی اہم حکم ہے کہ ہم اپنے مسلمانوں بھا ئیوں کے بارے میں ہمیشہ خوش گمان رہیں ؟اس پر عوام عمل نہیں کرتے اور ہر اچھے فعل کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ لہذا ان اقدام کے سلسلہ میں اپنے تحفظات پر بات کرنے سے پہلے ہم اپنے تھوڑے تجربات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔
پاکستان بننے  سے پہلے گمانِ یہ تھا کہ یہ ایک اسلامی مثالی حکومت ہوگی جوکہ مسلمانوں کاسرتمام دنیا میں فخر سے بلند کرے گی؟ جب کہ علماءکی اکثریت کہہ رہی تھی کہ جو خود باعمل نہیں ہیں وہ کیسے اپنے اطوار بدلیں گے؟
مختصراً عوام کو پہلی دفعہ امیدیں پیدا ہوئی تھیں منزل قریب نظر آرہی تھی اکثریت نے قیادت کی جھولی میں اپنے سارے ووٹ ڈال دیے۔ پاکستان عالم وجود میں آگیا پہلے تبدیلی یہ آئی کہ ہر ریلوے اسٹیشن پر قبلہ کا رخ بتانے کے قبلہ نما لگا دیئے گئے۔ اس کے بڑے اچھے نتائج بر آمد ہوئے۔ جو لوگ تقسیم کے بعد آئے ان کی روح یہ دیکھ کرخوش ہو جاتی تھی اور فوراً  ہرآنے والا الحمد للہ کہہ اسی ڈائریکشن میں پہلا سجدہ شکر بجا لاتا تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی(رح) ، ان چند علماءمیں سے تھے جو تحریک ِ پاکستان میں پیش،پیش تھے۔ پہلے تو کچھ دن دیکھا کیے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیونکہ سب کو غلط فہمی تھی ان کے شیخ السلام کہلانے کی وجہ سے کہ وزیر شرع یا قانون وہی بنیں گے، مگر بنے جوگندر ناتھ منڈل؟ جب انہوں نے دیکھا وہ پارلیمنٹ جس کانام دستور ساز اسمبلی رکھا گیا تاکہ وہ جلدی سے د ستور بنائے اور  فارغ ہوجائے؟ بجائے اس کے وہ اور سارے کر تی دکھائی دے رہی ہے مگر اس طرف نہیں آتی؟ تو انہوں نے آواز اٹھائی کہ ساتھیوں اصل کام کرو ؟تو جواب ملا کہ مولانا ہم کونسا اسلام نافذ کریں! مسلمان تو کسی ایک اسلام پر متفق ہی نہیں ہیں ۔ انہوں نے علماءکی ایک کمیٹی بنائی جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماءشامل تھے۔ سب نے بڑی عرق ریزی کے بعد ایک مجموعہ بنیادیات دیا کہ “ ہم سب اس اسلام پر متفق ہیں “ اس کے خلاف کسی بھی مکتبہ فکر کے  کسی عالم نے ایک لفظ نہیں کہا۔ مگر نہ جانے کیوں وہ مسودہ اسمبلی میں پیش نہیں ہوپارہا تھا ،اہلِ اقتدار ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے؟  بڑی مشکل سےمولانا کی اس دھمکی کے بعد کہ میں باہر جاکر تمام صورت ِ عوام کو بتادونگا؟ وہ مجموعہ “ قرارداد مقاصد“ کے نام  سےپاس تو ہوگیا مگر رکھا شیلف پر ہی رہا۔ کئی عشروں کے بعد جب ضیا الحق صاحب آئے تو انہونے اسے شیلف سے اٹھا کے 1973 ع  کے آئین کا حصہ بنادیا ، نماز لازمی کردی دفاتر میں چھٹی ہونے لگی چھوٹے ملازمین با قاعدگی سے نماز کے وقت باہر جانے لگے۔ کیونکہ انہیں کرکٹ کی کومنٹری بھی سننا ہوتی تھی اور بھی دوسرے نجی کام کرنا ہوتے تھے؟ افسر کوئی مسجد کو جاتا ہی نہیں تھا کہ انہیں پکڑے جانے کا ڈر ہو؟ وجہ یہ وہی تھی کہ اوپر تو وہی عالم  طاری تھا جو پاکستان سےپہلے  سے چلاآرہا تھا۔
صرف ایک نمونہ اس دور کا میں دکھا دیتا ہوں؟ محمد خان جونیجو مرحوم  اس وقت وزیر اعظم تھے۔  میر پور خاص کے مری قبیلے میں ایک موتہ ہوگیا تو تعزیت کے لیے وہ تشریف لے گئے ، اسی دوران مسجد میں اذان ہوگئی جوکہ بالکل سامنے تھی جہاں وہ تشریف فرما تھے۔ سب چلے گئے۔ جب وہ نہیں ہلے تو میں نے کہا کہ چلیے نماز کے لیے ! کہنے لگے آپ پڑھ آئے؟
وہ الحمد للہ ابھی تک دستور کاحصہ ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے کاجھومر بھی، مگر زیرِ عمل وہ دفعات بھی نہیں آسکیں جس میں ہر رکن حکومت کے لیے امین اور صادق ہوناشرط ہے؟ تو اس وقت یکایک اس اپھار کی وجہ کیا ہے جو اس وقت منظر ِعام پر آیا، جس وقت وزیر اعطم صاحب سعودی عرب کے دورے پرہیں؟ اس میں بھی کہیں ً ڈو مور ً کا تقاضہ تو نہیں کار فرما ہے؟ کیونکہ وزیر با تدبیر اس سے تو واقف ہونگے کہ ملک آتش فشا ں کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اس کے نتیجہ میں کہیں پھٹ پڑا تو کیا ہوگا؟ ان کے پاس وہ کونسی جادو ئی چھڑی ہے کہ وہ سب کو ایک وقت پر اذان دینے اور نماز پڑھنے پر قائل کر لیں گے؟ جبکہ صورت  ِحال یہ ہے کہ ایک مکتبہ فکر کہتا ہے ۔ فجر کی اذان میں جتنی جلدی ہوسکے وقت ہوتے ہی اذان دیدی جا ئے اور نماز ادا کر لی جائے، دوسرا کہتا ہے کہ نہیں بس اتنا وقت ہونا چاہیئے سورج نکلنے میں کہ اگر نماز میں غلطی ہو جائے تودہرا لی جائے؟ ظہر میں کچھ لوگ عصر اور ظہر ملاکر پڑھتے ہیں ۔ اسکے علاوہ سنیوں میں بھی عصر کی اذان کے اوقات مختلف ہیں ؟ رہی اب مغرب وہاں بھی اختلاف ہے؟  عشاءاسکے ساتھ بھی مسئلہ یہ ہی ہے کہ ایک مکتبہ فکر ملا کر پڑھتاہے ایک جلدی پڑھتا ہے ، جبکہ دوسرا وقت کی پرواہ نہیں کرتا ؟ یہ ہی سلسلہ کم اور بیش چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے؟ بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی ہو گذریں جن کی بات پوری امہ مانتی تھی مگر وہ بھی یہ تفریق ختم نہیں کرا سکیں ؟ اب تو ہم میں ایسی کوئی قد آور شخصیت بھی نہیں ہے۔
جبکہ اس کام کے لیے پہلے ہم آہنگی پیدا کرنا پڑے گی جسے برسوں چاہیے اثر ہونے تک؟ تب کہیں جاکر ایسی ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر ان کے ذہن میں سعودی عرب کی مثال ہے تو پھرا ور بات ہے؟کہ انہوں نے تو پہلے اپنے قبیلہ کو بدعت دور کرنے کے نام پر ابھارا، پھر حرم پر قبضہ کیا اور اس طرح مرکزی حیثیت حاصل کر نے کے بعد نماز اور اذان کایکساں وقت مقرر کرنے پر قادر ہوسکے؟ مگر اب وہ پہلے والا ماحول بھی نہیں، یہ قبائلی دور بھی نہیں ہے۔ جبکہ اسلام  “ہر جبریہ تبدیلی کے خلاف ہے“ لہذا یہ اسلام بھی نہیں ہے؟البتہ اس سے جو اتحادکی کوششیں ہورہی ہیں ان کو ضرور نقصان پہونچے گا۔ کیونکہ یہ عقیدوں کی بات ہے۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ وزیر با تدبیر جو فرما رہے ہیں پہلے والوں کی طرح کر نہیں سکیں گے۔ یہ تحریک ِ اذان  بھی ا قامت الصلواة کی طر  ح کامیاب نہیں ہوسکے گی بغیر جبر کے جبکہ جبر کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے؟ اسی لیے اسلام جبر کے خلاف ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.