کیا اسلام میں عورت ہو نا گناہ ہے؟ (قند مکرر) از۔۔۔ شمس جیلانی

آج دوخبریں ہمارے سامنے ہیں ایک چھوٹے بھائی پاکستان سے جو اسلامی جمہو ریہ پاکستان بھی کہلاتا ہے ۔ جہاں اس پر ابھی اختلاف ہے کہ آیا وہ اسلامی ہے بھی یا نہیں ہے؟ کیونکہ اسلام کے مختلف ایڈیشنوں کے بارے میں کچھ طبقوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں کہ آیا یہاں قائدِ اعظم والا اسلام آنا تھا جو وہ لانا چا ہتے تھے، یا ہادی بر حق صلی اللہ تعالیٰ و آلہ وسلم والا اسلام جو مسلمانوں کے لئے لے کر وہ تشریف لائے تھے؟اس پر آپ نے روزانہ ٹی وی پر بحث بھی سنی ہو گی جو آئے دن ہو تی رہتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں پاکستان اللہ کے نام پر بنا تھا اور اسی کا قانون یہاں نا فذ ہو نا چا ہیئے ، کچھ کہتے ہیں کہ قائد اعظم والا اسلام نا فذ ہو نا چا ہیئے اور اب ایک تیسرا فریق بھی میدان میں آگیا ہے جس کی طرف سے یہ کہاجا رہا ہے کہ صرف ہمارا والا اسلام ہی اصل ہے با قی سب غلط ؟ لہذا وہ لڑکیوں کے اسکول اورسی ڈی کی دکانیں جن میں قر آن کی سی ڈی بھی  ہوتی ہیں بلا تفریق جلا کر جہالت کو فروغ دے رہے ہیں جبکہ اسلام علم کا داعی ہے۔ ویسے توایک چوتھے فریق بھی تھے ، جناب مشرف جو اسلام کو ماڈرن بنا نا چاہتے تھے اور امریکہ کی طرف سے مبعوث کیئے گئے تھے ۔ان کا ذکر تو اب یوں بیکار ہے کہ مسلمان جانے والوں کو برا نہیں کہتے حتٰی کہ اگر یزید کو بھی کوئی برا کہے تو بھی برامانتے ہیں؟
اور دوسرے طرف ملکی صورت ِ حال یہ ہے کہ یہاں بہ یک وقت برٹش کا بھی قانون چل رہا ہے ،تو صدر مشرف کا لولا ، لنگڑا کیا ہوا دستور بھی چل رہا اور ضیا الحق کا اسلامی قانون بھی ۔اور پھر سرداروں کا قانون بھی ہے جو مذہب پر نہیں رسم و رواج پر یقین رکھتا ہے۔ جیسے کہ کفار مکہ کہتے تھے کہ ہم اپنے باپ داداؤں کے مذہب پر ہیں ۔ چند دن پہلے یہ خبر آئی تھی کہ بلو چستان میں کارو کاری یا غیرت کے نام پر پانچ عورتوں کو جن میں دو مائیں بھی تھیں زندہ دفن کر دیا، جبکہ مائیں صرف ماں ہو نے کی وجہ سے دفن ہو ئیں ۔ وہاں کے کئی ذمہ داروں کے بیان پڑھے ایک ڈپٹی اسپیکر بلو چستان اسمبلی کا بیا ن نظر سے گزرا ان کا کہنا تھا کہ اگر پانچ عورتیں زندہ دفن کردی گئیں تو آخر کونسی قیامت ٹو ٹ پڑی؟ ایک اور ذمہ دار کا بیان پڑھا وہ فر ما رہے تھے کہ آخر اب یہ کو نسی نئی بات ہے ۔ ہم تو پچھلے سات سو سال سے خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرتے چلے آرہے ہیں، یہ ہماری اپنی روایات ہیں ہمارے قانون ہیں اور یہ کہ ہم بھی مسلمان ہیں کافر تھوڑی ہیں۔ مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا وہ اپنے مردوں کو بھی اپنی پسند کی شادی اور تاکہ جھانکی کی بنا پر قتل کرتے ہیں ؟ کیونکہ اسلام میں تو برابری ہے۔ ہم وہ کوئی کام نہیں کرتے جو اسلام کہا ہے؟   جیسے کہ“ یہ حکم ہے کہ مرد اور عورتیں دونوں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“
چونکہ با ت عورتوں کی ہے لہذا ہمارے ذہن میں اس خیال نے چٹکی لی کہ دیکھیں توسہی کہ آخر ان بیچا ریوں کے خلاف یہ سازش کب ہو ئی کس نے کی کہ انہیں “ عورت  “کانام دیاجو کہ صرف ہندو پاک میں را ئج ہے۔اگر ہندی میں جا ئیں جو کہ یہاں کی پرانی زبان ہے تو اسے “ مہلا “ کہتے ہیں پنجابی، پشتو اور سندھی اور بلوچی میں جائیں تو ان میں بھی وہ عورت نہیں کہلاتی تو پھر یہ لقب آیا کہاں سے؟۔ ہم نے سوچا ، چونکہ اسلام عرب سے آیا ہے لہذا ہو نہ ہو یہ عربی سے آیا ہوگا؟ عربی لغت میں تلاش کیا تو وہاں بھی عورت نہیں ملی، فارسی میں ڈھونڈا تو وہاں اقبال کا ایک شعر ملا کہ وجود “ زن  “سے ہے کا ئینات میں رنگ۔ لہذا ہم سوچ ،سوچ کر تھک گئے اور یہ مسئلہ نہیں حل کر پا ئے کہ آخر ان کو عورت کا لقب کب ملا اور دیاکس نے ؟ کیو نکہ جس طرح “ الجی “ عرب میں بت پرستی اور بہت سی برا ئیوں کا بانی تھا۔ اسی طرح اس سازش کابھی کو ئی نہ کوئی موجد تو ہو گا ؟ تاکہ اسے الزام دیں جس نے تمام اسلامی تعلیمات بدل کر رکھدیں اور ان سے وہ حقوق چھین لیئے جو اسلام نے عطا کیئے تھے؟ ہم نے ایک مرتبہ پھر عربی لغت سے رجو ع کیا تو ہمیں لفظ عورت تو اس میں نہیں ملا البتہ ایک قریب تریں لفظ “عورة “ مل گیا اس کے معنی ہیں پوشیدہ  “اعضا ء “یا پھر دوسرے معنی ہیں “ نا قص العقل قابل ، مذ مت۔ ہمیں تعجب ہوا کہ ان القابات کو مسلم “خواتین “ نے چپ چاپ کیسے قبو ل کر لیا اور انہیں خبر تک نہ ہو ئی؟ اس کے اثرات یہ مر تب ہو ئے کہ ایک طبقہ علما ء نے انہیں اسلام کے بر عکس بجائے معززخواتین کے “ عورة “ قرار دیدیا یعنی( پوشیدہ رکھنی والی چیز یعنی وہ چیز جسے ہر طرح اور ہر اک نگاہ سے پو شیدہ رکھا جائے۔ دوسرے طبقہ علماءنے اس پر مزید اضا فہ کیا کہ وہ نا قص العقل بھی ہے،جبکہ اسلام نے انہیں برابری دی تھی ۔ اب ان معنوں کے اطلاق کے بعد وہ بجا ئے انسان کے ایسی چھپانے والی چیز بن گئیں کہ جس کی آواز بھی باہر نہیں جانا چا ہیئے اور ظاہر ہے جو چھپانے والی چیز ہو اس کو سامنے کیسا لایا جا سکتا ؟حالانکہ سب سے زیادہ پردے کاحکم ان کے احترام کی بنا پرجو تھا، وہ اہل ِ بیت (رض) اور امہات المو نیں (رض) کو۔ تھا مگر وہ بھی پردہ کے پیچھے سے سائلوں کے سوالوں کا جواب دیدیتی تھیں سوائے امہ سلمہ (رض) حج پر بھی جاتی تھیں ۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تو اسی فیصد خوا تین کھیتوں اور باغوں میں کام کر تی تھیں۔ اکثر مساجد میں نماز کے لیئے جاتی تھیں ان میں امہات المو نین(رض) بھی شامل تھیں۔پھر د دسری ضروریات کے لیئے جنگل بھی جاتی تھیں ۔ اور جنگ میں پانی بھی پلا تی تھیں، زخمیوں کی مرحم پٹی بھی کرتی تھیں ۔حضور(ص) کے دور میں تو ایسی کو ئی پابندی نظر نہیں آئی جس میں کہ خواتین کو گھر میں بند کر دیا گیاہو ؟ آخر پھر یہ ہدایات آئیں کہا ں سے ؟ ہم اس کے سوا اور کیا کہ سکتے ہیں،کہ یہ علما ءاور خواتین کا معاملہ ہے وہ جانیں جو کہ اہل ِ معاملہ ہیں ہم کو ن کہ خوا مخواہ؟
دوسری خبر بڑے بھائی ہندوستان سے آئی ہے۔
ہندوستان کی ایک ریاست سے جو کبھی صوبہ مدراس کہلاتا تھا آجکل وہ چنو ئی ریاست کہلاتی ہے وہاں سے ایک خبر نظر سے گزری کہ وہاں پچھلے سال سے عورتوں اورصرف عورتوں پر پندرہ سو روپیہ ما ہانہ افطاری ٹیکس لاگو کردیا گیا ہے۔ جبکہ مردوں سے ایسی کو ئی فیس نہیں لی جاتی ہے؟ انکے لیئے صلائے عام ہے جو چاہے آکر مسجد میں افطار کر سکتا ہے۔ جو چودہ سو سال سے اسلامی اخوت کا تقاضہ بنا ہوا ہے بلکہ عرب میں تو شیخوں نے افطار کے لیئے لوگوں کو پکڑ کر لانے والے نوکر رکھے ہو ئے ہیں کہ ہم نے خود دیکھا کہ شیخ َ مسجد نبوی  (رض)میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے کارندے روزہ داروں کو پکڑ پکڑ کے ،ان کے بچھے ہو ئے دسترخوان پر لا بٹھاتے ہیں کہ ثواب ملے گا۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہے کہ افطار کرو تو پیسے دو کیا ہندوستان میں اسلامی قدریں بدل گئیں؟
اس تفریق کے سلسلہ میں جب اس مسجد کے سکریٹری صاحب سے پو چھا گیا تو انہو نے بتایا کہ خواتین کو افطار کرانے میں کچھ مشکلات ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ وہ کیا ہیں۔تو اس پر انہوں نے روشنی نہیں ڈالی ۔ جن خواتین نے پریس سے فر یاد کی ہے انکی عمریں بیس اور ساٹھ کے در میان ہیں۔ لہذا بیس برس کے سن کی وجہ سے تو کوئی مسئلہ قرین قیاس  ہوسکتاہے ،مگر ساٹھ برس کی عمرتو بے ضرر ہو تی ہے۔ ہمارے خیال میں اور کوئی پرو بلم نہیں ہے ، صرف پروبلم ان کا عورت ہو نا ہے۔ اور وہ اس جہالت کا عطیہ ہے جو کہ اسلام کے ہندوستان میں داخل ہو نے سے پہلے توہادی بر حق  (ص)نے ختم کر دی تھی ،مگر یہاں آکر پھر مشرف بہ اسلام ہو گئی یعنی ہندو ازم سے ہم نے اسے پھر لے لیا اور اسی پر عامل ہو گئے ہیں۔ یہ اسی کا سارا کھیل ہے جوکہ ہندو پاک میں رائج ہے کہ خواتین مسجد میں نہ آئیں، قبرستان نہ جا ئیں نماز جنازہ نہ پڑھیں وغیرہ وغیرہ حالانکہ حضور(ص) کی پھو پھی حضرت زینب (رض) جنگ احد کے موقعہ پر قبرستان میں بھی تشریف لے گئیں تھیں اور اپنے بھائی حضرت حمزہ(رض) کی نماز جنازہ بھی پڑھی تھی ؟ اس ٹیکس سے ہماری سمجھ میں اس کے سوا کچھ نہیں آیا کہ اس سے خواتین کی حو صلہ شکنی مقصود ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں؟ پھر ہمیں گلہ یہ بھی ہے کہ اب مسلمانوں کا وہ کریکٹر نہیں رہا اور مسلم ما ئیں اچھے مسلمان پیدا نہیں کر رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر آپ اپنی اکیاون فیصد آبادی کو علم ِ دین اور مسجد سے دور رکھیں گے، تو آپ اس کے سواان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ جب وہ خود ہی دین سے بے بہرہ ہو نگی تو علم ان میں کہاں سے آئے گا اور اپنی اولادوں کو کہاں سے وہ پہنچا ئیں گی ؟ جبکہ تمام ماہر ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ماں کی گود ہی نہیں بلکہ ماں کی کوکھ بچے کی پہلی تر بیت گاہ ہو تی ہے۔ بچے کے اخلاق کی تربیت وہاں سے شروع ہو تی ہے۔ جہاں سے رحم ِ مادر میں وہ جگہ پاتا ہے۔ پھر یہ شکایت کیوں کہ ہماری آنے والی نسل فلمی ستاروں کا تو شجرہ فر فر بتا دیتی ہے مگر صحابہ کرام اور خلفا ئے راشدین (رض) کے نام تک نہیں جانتی ؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.