مسلمانوں کو صرف مظلوم کی حمایت کاحکم ہے۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں حکم ہے کہ ہم ظالموں کا نہیں مظلوموں کا ساتھ دیں۔ سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 19میں دونوں کا فرق یہ فرماکر واضح کردیاگیا ہے کہ “ظالم، ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ آپس میں دوست ہیں اور اللہ مومنوں کا ولی ہے؟ جبکہ ظلم کیا ہے؟ اسی کتاب ِمقدس میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے کہ کسی کے حقوق کو جھٹلانا ، غصب کرنا یا ادا نہ کرنا ظلم ہے۔ ان میں سب سے بڑ ا ظلم اللہ سبحانہ کے حقوق کی عدم ادا ئے گی اورٹال مٹول حیلے بہانے اور ہیر پھیر ہے۔ جبکہ اللہ کے حقوق بندے پر کیا ہیں؟ اسکی عبادت کرنا۔ اور عبادت کیا ہے اس کے دیئے ہوئے ضابطہ حیات پر اپنے مقدور بھر عمل کرنا۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے بندہ جو کچھ بھی کرے گا وہ عبادت ہے اور اس کا ثواب ہے۔ اگر وہ کسی کی طرف مسکراکر دیکھے تو وہ بھی عبادت ہے۔ اس میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف مسلمان بھائی کی طرف دیکھنا ہی صدقہ ہے جیساکہ حضور (ص)کا ارشاد گرامی ہے۔ مگر میرے خیال میں وہ رحمت عالم (ص) کے اسوہ حسنہ (ص) کو اپناتے ہوئے اگر غیر مسلم کی طرف بھی مسکراکر دیکھے تو بھی ثواب کا مستحق ہوگا۔ کیونکہ اس کے اخلاق سے غیرمسلم متاثر ہوگا۔ اور اس طرح اس کا یہ فعل اللہ کے دین کی سربلندی اور پھیلاؤ کا باعث بنے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی بد اخلاقی سے پیش آئے گا تو وہ گناہ کا مستحق ہوگا۔ اس لیے کہ وہ اپنے آقا محمد مصطفیٰ (ص) کا حق ِ نمائندگی ادا نہیں کرسکا جن (ص) کے خلق عظیم کی اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خودتعریف فرمائی ہے۔اور حضور (ص) کااپنے بارے میں ارشاد گرامی ہے کہ میں (ص) مکرم الاخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اگر بندہ اسوہ حسنہ (ص) پر عامل ہے اور پھر پنج وقتہ نمازی بھی ہے تو “ نور اً علیٰ نور “ کے مصداق ہے۔ چونکہ اس کی ایک نماز دوسری نماز تک کفالت کرتی ہے، لہذا اسکی مثال ہادی ِبرحق (ص) نے فرما ئی کہ “ جس کے دروازے پر دریا بہہ رہا ہو اور وہ پانچوں وقت نہائے تو کیا اس کے جسم پر میل باقی رہ سکتی ہے “ صحابہ کرام (رض) نے فرمایا کہ نہیں؟ تب ارشاد فرمایا کہ “ یہ ہی حال اس نمازی کا ہے جو پانچ وقت نماز پڑھے “ کیونکہ ححدیث ہے کہ “ ایک نمازدوسری نماز تک کفایت کرتی ہے۔ جبکہ دوسری احادیث میں ہے کہ نماز جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان کے روزے دوسرے رمضان تک اور ایک عید دوسری عیدتک کفایت کرتی ہے اس دوران اگر بندے سے کوئی گناہ کبیرہ بھی سرزد ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کر لے اور وضوع کرکے دورکعات نفل اداکر لے تو وہ ایسا ہو جائے گا۔ جیسا کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ بھولے سے غلطی ہوجانا بشریت ہے اور حضور (ص)) کے ارشاد کے مطابق میری امت کی بھول چوک معاف ہے۔ بندہ جو اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کریگا اس کے بدلے میں وہ وہاں کم ازکم ایک کے بدلے میں دس نیکیوں کی وجہ سے گناہوںوالے پلڑے کو پہلے ہی دابے ہوئے ہوگا۔ جب کہ نیکی کا ثواب سات سو گناہ تک بلکہ اور بھی زیادہ کا ذکر قرآن میں فرمایا گیاہے یعنی اجر بے حساب بھی ہوسکتا ہے، جس کا دار و مدار بندے کے خلوص اورنیت پر ہے۔ جو اپنے ہاتھ سے دے جائے گا وہ تو ہے ہی اسکا، اس کے علاوہ جو یہاں چھوڑ جائے گا وہ بھی صدقہ جاریہ ہوگا۔ جیسے نیک اولاد ؟
اس کے برعکس خدا اور بندوں کے حقوق کو تج دینا غلطی پر بضد ہونا اور ڈتے رہنا ظلم ہے؟
جنہوں نے دین خدا کو تج دیا ہو صرف اپنے غلط مفاد کے لیے دین کانام استعمال کرتے ہوں، بولتے جھوٹ ہوں ، کمائی حرام کی ہو، وہ اگر دن و رات سجدے میں پڑے رہیں۔ گلی گلی وعظ فرماتے پھریں۔ گناہِ ِجاریہ کے عذاب کے قیامت تک مستحق ہونگے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ مال حرام سے کچھ بھی قبول نہیں فرماتا لہذا وہ جو راہ خدا میں دے کر جائیں گے وہ بھی رائیگاں جا ئے گااور جو اپنے پیچھے چھوڑ جا ئیں گے۔ وہ بھی جہنم میں لے جانے کا باعث ہوگا۔ چونکہ حضور (ص) نے فرمایا کہ “ ہر عمل کا نتیجہ نیت اور اس سے مرتب ہونے والے نتائج پر ہوتا ہے“۔ جسکی مثال حضرت (ع) آدم کے اس صاحبزادے جیسی ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کرکے پہلی دفعہ دوسروں کو اس برائی کی راہ دکھائی لہذ آئندہ جتنے بھی قتل قیامت تک ہونگے وہ اس میں ان کا حصہ دار ہوگا۔
اس تمہید کے بعد آئیے ہم اپنے چاروں طرف دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے؟ ہم چند ووٹوں یا نوٹوں کے لیئے اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اور جانتے ہوئے ظالموں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتائج لاکھوں کروڑوں انسانوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ ایسی ہی چند عشروں پہلے پاکستان حکمرانوں نے ایک غلطی کی کہ سعودی عرب کی دوستی کی وجہ سے دلدل میں پھنس گئے جس سے نکلنے کے لیے ابھی تک ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور نکل نہیں پائے، یہ اسوقت کی ہماری غلط خارجہ پالیسی کانتیجہ تھا۔ اب داخلی پالیسی کے نتائج پر نظر ڈالیے۔ اس میں بھی ہم نے چند ووٹوں کے لیے اسلام کو ایک طرف اٹھا کر رکھدیا اور انصاف جیسا اہم فرض چھوڑ دیاکہ “ یہ اس کا بندہ ہے وہ اس کابندہ ہےہاتھ ڈالیں گے تو وہ ناراض ہوجائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جرائم پیشہ لوگ پورے ملک میں دنداتے پھرے ،ہرقسم کاظلم ، قتل اور غارت گری کرتے رہے؟ مگر کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکا ؟  جبکہ یہ سب جانتے ہیں کون کیا کر رہا مگر کسی ظالم کا آج تک کچھ نہیں بگڑا؟ گوکہ اس روش کی دنیا میں بھی بے انتہا مثالیں ہیں ۔ مگر وہاں ابھی تک کچھ ملکوں میں عدل و انصاف بھی موجودہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ بالکل مفقود ہے؟ ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم ظالم کا ساتھ نہ دیں مظلوم کے ساتھی بنیں ، مگر ہم کرتے اس کا الٹ ہیں ۔
جب پہلی غلطی پاکستان نے کی وہ وقت کچھ اور تھا ، لیکن آج یہ و قت اور ہے۔ اِسمرتبہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے حکومت پاکستان کو سو دفعہ سوچنا چایئے کیونکہ ہم پھر اوروں کی جنگ میں فریق بننے جارہے ہیں، جبکہ یہ کلیہ ہی غیر اسلامی ہے کہ دوست کا دشمن دشمن اور دشمن کا دشمن دوست، کیونکہ اسلام میں ظالم کا دوستی میں کوئی ساتھ دے تو وہ بھی ظالم ہے۔جبکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ دونوں ہی حق پر نہیں ہیں نہ وہ جو بے گناہ لوگوں کی گردنیں مار رہے ہیں۔ نہ سعودی حکمراں، پہلے تو سرے سے اسلام میں بادشاہت ہے ہی نہیں؟ پھر اگر عرب کے قبائیلی نظام کے مطابق جس کی اسلام نے نفی کردی تھی۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ قبائل کے سردار اپنے اپنے علاقے یں بادشاہوں جیسے اختیار رکھتے تھے۔ تو بھی حضور (ص)  نےعرب میں حکمرانی کا حق قریش کو یہ فرماکر دیاتھا کہ عرب کسی اور کی قیادت پر متفق نہیں ہونگے ؟ اسی حدیث کو حضرت عمر (رض) سے سن کر انصار (رض) اپنے حق ِ خلافت دستبردار ہوگئے تھے۔ جبکہ ان کی قبر بانیاں اسلام کے لیے بے حساب تھیں۔
جبکہ اس کے برعکس نجدیوں کی پیغمبر ِ اسلام (ص) اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں بے مثال تھیں جو تاریخ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کسی نجدی قبیلے نے حجاز (مکہ مدینہ) پر زمانہ جہالیہ میں بھی حکومت نہیں کی؟ سعودی کیسے قابض ہو ئے اور اس کار خیر میں ان کی کس نے مدد کی کس نے مکر فریب سے قابض کرایا وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ پھر بھی اگر ہم انہیں جائز حکمراں مانتے ہیں کہ انہوں نے ایک علاقے پر جارحیت کے نتیجے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ تواس کلیہ کو تسلیم کرنے کے بعد دنیا میں جہاں بھی غاصبانہ قبضے ہیں انہیں بھی ماننا پڑیگا ، پھر ہم کس منہ سے کشمیر یا فلسطین کی بات کرسکتے ہیں؟
پاکستان کے سامنے تین راستے ہیں راستے ہیں۔ایک خود صدر ِ پاکستان جناب ممنون حسین صاحب نے  اپنے بیان میں دیا ہے کہً پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیئے “ جوکہ عین اسلامی ہے اس لیے یہ  نص ِقر آنی ہے کہ جب دومسلمان لڑ پڑیں تو ان میں کوشش کر کے صلح کرادی جائے۔نہ مانیں تو جو ظالم ہو اس کے خلاف لڑیں۔ یہ تھے اس سلسلہ میں اسلامی احکامات۔ اگر ان میں سے کوئی صورت نہ بنے؟ تو پھرغیر جانبدار ہوجائے میں ہی عافیت ہے،انہیں اپنی جنگ خود لڑنے دیں۔ نہ کہ یہ پہلے کی طرح خود اس جنگ میں کود پڑیں جو کہ ہماری نہیں ہے ۔ پھر قابل ِ مذمت دونوں ہی ہیں وہ بھی جو انہیں کے برانڈکا اسلام ان کے ہی خلاف استعمال کر رہے ہیں اور ظالم وہ بھی ہیں جوکہ دوسروں کے علاقوں پر جارحانہ قبضہ کیے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو عقل دے اور وہ اپنے اس ملک سے وابستہ مفادات کو نہ دیکھیں؟ بلکہ اپنے ملک کے مفادات کو دیکھ کر فیصلے کرنے کی عادت ڈالیں ۔ اگر اس مرتبہ بھی وہی غلطی دہرائی تو پہلے کی طرح جنگ دوبارہ ہمارے ملک میں گھس آئیگی اور اس مرتبہ خدشہ ہے کہ کہیں وہ ہر گلی کوچے میں نہ لڑی جا ئے؟ ہاں! حکومت کا یہ کہنا درست
ہے اور اس پر پوری قوم اس کے ساتھ بھی ہوگی کہ اگر کسی نے حرمین شریفین کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھا تو بلا امتیاز مذہب اور ملت پوری قوم حکومت کی پشت پناہی کریگی؟
آجکل اللہ سبحانہ تعالیٰ نے موجودہ حکومت کو ایسی پوزیشن دی ہوئی کہ وہ قومی اسمبلی سے ہر قانون پاس کراسکتی ہے ۔ رہی سینٹ اگر حکومت نے اسکی اسکرینگ شروع کردی تو بہت تھوڑے ممبر بچیں گے جو باقی رہیں؟ لیکن تاریخ میں ان تمام لوگوں کے نام سنہری لفظوں سے لکھے جائیں گے۔ جو پاکستان میں بلا لحاظ سب کو انصاف فراہم کرکے امن وامان بحال کریں گے؟ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کارخیر میں ان کی مدد بھی فرمائے گا۔ کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ “جو میری طرف ا یک قدم بڑھے میں اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہوں“

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.