آخرکار بڑی رکاوٹ بھی ہٹ گئی۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

اس پر مورخین میں ہمیشہ کی طرح شدید اختلاف ہے کہ ایک بڑے نے اپنی بڑائی دکھائی اور رضاکارنہ طور پر رکاوٹ خود ہٹادی یاکہ جب نادیدہ طاقت کے حکم پر کراچی میونسپل کارپوریشن کے بلڈوزر روانہ ہوئے اور خبر بام ودر تک پہونچی تو اجازت مل گئی؟ دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ اگر ہمارے یہاں بڑوں کی یہ روش ہوتی تو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی ہی کیوں ہوتیں ؟ کیونکہ ہم تو الحمد للہ مسلمان ہیں، ہمیں  حکم  یہ ہےکہ کوئی سڑک پر سے پتھر یا کانٹا ہٹادے تو اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے۔ جو جتنا بڑا دفتر یا آدمی ہو وہاں فائل آگے بڑھنے میں ذرا دیر لگتی ہے اسی لیے تاخیر ہوئی۔ دونوں فریقوں کی باتوں میں وزن ہے۔ اور یہ فیصلہ اب اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عدالت میں بروز قیامت ہوسکے گا کہ جس نے رکاوٹیں سڑکوں پر کھڑی کیں وہ کس سزا کا مستحق  ہےاور جس نے ہٹائیں وہ کس جزا مستحق ہے؟ کیونکہ نیتوں کا حال تو صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی جانتے ہے۔
ویسے اگر تاریخ کا مطالعہ کریں توچونکہ ہر جگہ بڑا مثالی رکھتا ہے اس لیے اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ لوگ اس کا اتباع کرتے ہیں؟ جیسی جو طرح ڈالتا ہے وہ بطور گناہ  یاثواب اس کے کھاتے میں قیامت تک لکھی جاتی رہے گی ۔ اس میں صرف انساں کی تخصیص ہی نہیں بلکہ انسان کے اپنے بنائے ہو ئے بتوں میں بھی بڑے بت کا ٹوٹنے میں نمبر بعد میں آتا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں دیکھئے کہ انہوں نے سب چھوٹے بت توڑدالے اور بڑ ا رہنے دیا؟ تاکہ وہ ثابت کر سکیں کہ بڑائی صرف اللہ کے لیئے ہے دوسرے یہ کہ پوجنے والے شرمندہ ہوں کہ وہ کسے پوج رہے تھے، اس میں سبق ہے اگر اپنے ہاتھ سے بت بناکر پوجنے بھی لگو تو ایک دن وہ فنا ہو جائیں گے اور پوجنے والوں کو پچھتاوا اٹھانا پڑے گا۔ تیسرے یہ کہ اگر بڑا بت واقعی بڑا ہو تا، تو پہلے تو اپنے چھوٹے ساتھیوں کو ٹوٹنے ہی نہیں دیتا اوربچال لیتا، چوتھے یہ کہ یہ تم نے کیاڈھکوسلے بنا رکھے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جو واحد اور قابل عبادت ہے اس کو چھوڑ کر کبھی اس کو پوجنے لگتے ہو کبھی اس کو پوجنے لگتے ہو کہ یہ ہمیں بچا لے گا یا وہ ہمیں بچالے گااسلام میں یہ شرک ہے اورناقابل ِمعافی جرم بھی کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں شرک کبھی معاف نہیں کرونگا؟ مگر افسوس یہ کہ اگر اسکے مجرم آپ تلاش کریں تو آپ کو سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہی ملیں گے۔چلیں پاکستانی تاریخ سے ایک واقعہ اور بیان کرکے بات کو ختم کرتے ہیں تاکہ ہم جیسے عبرت حاصل کرنے والے عبرت پکڑیں۔
جب بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے ، توانہیں ایک پیر صاحب کے علاقہ میں دورہ کرنا تھا جن کی گدی سندھ میں سب سے بڑی ہے اور لاکھوں مرید ان کو اس لیے نذرانہ دیتے ہیں کہ اگر کہیں وہ پھنس جا ئیں تو ان کانام ان کی چھٹی یاان کا فون انہیں بچالے؟ چونکہ بھٹو صاحب اپنے پہلے الیکشن میں بڑے بڑے پرانے سیاسی بتوں کو توڑ کر کامیاب ہو ئے تھے اور ان کی مقبولیت کا گراف اتنا اوپر چلا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اس الیکشن میں کسی کھمبے کو ٹکٹ دیدیا تو وہ بھی کامیاب ہو گیا ۔ انہوں نے ان پیر صاحب کا غرور توڑنے کے لیئے اپنا ہیلی کاپٹرڈیڑھ گھنٹے جان کر لیٹ کر دیا ،سخت گرمی میں وہ دھوپ میں کھڑے رہے جب بھٹو صاحب ہیلی کاپٹر سے اترے اور پیر صاحب پیشوائی کو آگے بڑھے ،تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ کیا ابھی بھی تمہارے مرید تمہیں اتنا ہی مانتے ہیں؟ پیر صاحب بے بس تھے خاموشی سے سنا جواب نہ دے سکے۔
انہیں تو بھٹو صاحب نے نصیحت کی! مگر خود تھوڑے ہی دنوں بعد بھول گئے اور عوام کو چھوڑ کر خود اسی راستہ پر چل پڑے ۔ پھر کیا ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہو تا آیا ہے۔ اس کے بعد ان کے وارثوں نے بھی کوئی عبرت نہیں پکڑی؟ کئی دفعہ کرسی چھنی ،کئی دفعہ پھرسے ملی؟وہ بجائے عوام سے قریب تر ہونے کے دور ہوتے چلے گئے۔
آخر میں نوبت یہاں تک پہونچی کہ عوام کا اپنے محل کے قریب سے انہیں گزرنا بھی شاید اگوارا نہ تھا۔اسی لیے اپنے گھر کی طرف جانے والی سڑک بھی ان پر بند کر دی۔ جو سات سال تک بند رہی۔ تاکہ وہ اور ان کے ساتھی دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رہیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے اندر ان کے علاوہ چالیس ساتھیوں کے گھر اور بھی تھے ویسے یہ تعداد تاریخ اور ادب میں بھی بہت ہی اہم ہے۔  چونکہ اپنے مسلمان بھائیوں کے سلسلہ میں خوش گمانی کاحکم ہے ،ہمارے خیال میں غالباً یہ تعداد انہوں نے اس لیے رکھی کہ ہر مسلمان کو حکم ہے کہ وہ سونے سے پہل پتہ کر لے کہ چالیس گھرتک کوئی ہمسایہ بھوکا نہ ہو اور اس پر کھانا حرام ہو جائے؟ لہذا اس معاملہ میں وہ یہ تعداد پوری کرکے خود کفیل ہوگئے، کہ کم ازکم حقوق ہمسایئگی کے گناہ سے تو بچے رہیں گے کیونکہ اس کی بڑی تاکید ہے۔
یہاں وہ عوام کو اس حدتک بھول گئے کہ جن کے گھر ان محلات شاہی کے دوسری طرف ہیں انہیں متبادل راستہ اختیار کر کے اپنے گھر پہونچنے میں کتنی دیر لگے گی ؟ کیونکہ یہ عوام کا مسئلہ تھا ان کا نہیں۔ اور عوام کے مسائل کے بارے میں جبکہ سوچنے کا وہاں رواج شروع ہی سے نہیں تھا۔
ایک ان ہی کی بات کیا ؟ وہاں تو ہر ایک کو اپنی حفاظت خود کرنا ہوتی ہے ۔ حکومت اور اس کے ادارے ہیں توسہی مگر اُس کام کے لیے نہیں جس کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہر چھوٹے بڑے نے اپنے گرد حصار بنا رکھے تھے “ نو گو ایریا “موجود تھے۔ کچھ تو ایسے تھے جہاں پرندہ تک پر نہیں مارسکتا تھا اور اس طرح یہ تعداد ہزاروں میں جاپہونچی ؟ کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا اور دین امراء کاچلتا ہے۔ شہر کی اکثر گلیاں بند ہوگئیں ۔ جا بجا رکاوٹیں کھڑی کر کردی گئیں چوکیداروں کی روزی لگی ہوئی تھی۔ کیونکہ بچوں تک نے ڈکیتی جیسا معزز پیشہ شغل کے طور پر اختیار کر لیاتھا۔ جو بڑے تھے انہوں نے بطور پیشہ بھتہ برائے تاوان اور جو بہت بڑے تھے ان کے لیے اور بھی بڑامیدان تھا۔
نتیجہ ہوا کہ وہ کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، وہاں جاتے ہوئے لوگ گھبرانے لگے۔ ایسے میں تجار اور سیاح وہاں کیا آتے۔ انصاف کا یہ عالم تھا۔ کہ ان لوگو کے خلاف جو کئی عشروں سے کسی نہ کسی طرح حکومتوں میں شامل تھے ، جو کوئی آواز اٹھاتا وہ مارا جاتا ۔ اول تو اسکی رپوٹ کہیں درج نہیں ہوتی تھی اورا گر ہوبھی جاتی تو گواہ منحرف ہوجاتے ، نہیں ہوتے تومارے جاتے، وکیل مارے جاتے، منصفوں کو دھمکیا ں ملتیں وہ مقدمہ چلانے سے انکار کردیتے ۔یاملک سے باہر، لمبی چھٹی پر چلے جاتے، پھر مدعا علیہ خوشیاں مناتے کہ ہم باعزت بری ہوگئے ؟ جو اخبار نویس یامیڈیا سے متعلق شخص حقائق عوام کے سامنے لانے کی ہمت کرتا تو پھر زندہ نہیں رہتا۔ چونکہ سب کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ تھے،اس لیے کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔صنعتیں کراچی سے منتقل ہونے لگیں بے روزگاری بڑھتی گئی۔ہر ایک نے اب ضرورتاً رائفل اٹھالی۔ سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ مجھ سے ناشکرے کہہ رہے تھے، یہ عذاب جب ہی ٹلے گا جبکہ لوگ اجتماعی توبہ کرلیں۔ جبکہ وہاں لوگ برائی کو برا جاننے کے عادی ہی نہیں رہے تھے۔ لہذا مید کی کوئی کرن دکھا ئی نہیں دے رہی تھی۔
لیکن جو وہاں پر بچے ہوئے اللہ والے تھے وہ پوشیدہ طور پر دعائیں مانگ رہے تھے چونکہ وہ ان کی ضرور سنتا ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سن لی اور پوشیدہ طور پر قیادت کچھ ایسے لوگوں کو دیدی جنہیں پیسہ عزیز نہیں تھا۔ ایمان اور ملک عزیز تھا۔ جبکہ ہماری قیادت دہشت گردوں سے مذاکرات کے حق میں تھی اور مصروف بھی تھی۔ انہیں پورا موقعہ دیاگیا کہ وہ اپنا یہ شوق بھی پورا کرلیں، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو وہ سایے حرکت میں آگئے اورپہلے تو جرائم پیشہ لوگوں کی اس جنت کو ختم کیا جو تاسیس پاکستان سے بھی پہلے سے چلی آرہی تھی۔ پھر ان سایوں کے حوصلے اور بڑھے اور انہوں نے کراچی جو کہ پاکستان کی شہ رگ تھا۔ اس کو جرائم سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے حوصلے کی داد دینا پڑےگی کہ انہوں نے بہت ہی ٹھنڈے مزاج سے کام لیا اور جب دیکھا کہ وہ اس حد تک کامیاب ہوچکے ہیں کہ سارے بت توڑسکیں تو انہوں نے بلا امتیاز جرائم پیشہ لوگوں کی پناہ گاہوں پر چھاپے مارنے شروع کردیے اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ وہ پوری طرح حالات پر قابو پاچکے ہیں؟ تو انہوں نے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ کچھ نے تو وقت کی رفتار بدلتے دیکھ کر خودہی ہٹا لیے۔ صرف ایک بچا تھا جو سب سے بڑا تھا۔ اور جس کو اپنی سیاسی مہارت مقنا طیسی شخصیت پر یقین تھا اس نے روش نہیں بدلی۔ حتیٰ کہ تنگ آکر سایوں نے بلڈوزر ڈویژن کی کمان سنبھال لی تو غلط فہمی کچھ دور ہوئی اور وہ سڑک جو سات سال سے بند تھی بند کرنے والوں نے  بقول انکےخود ہی کھولدی۔ اسی کو کہتے ہیں کہ“ جادو وہ جو سرپر چڑھ کر بولے“
آئیے دعاکریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سایوں کومزید توفیق عطا فرمائے (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.