عمران خان کا دورہ کراچی۔۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

ہمارے یہاں کبھی پہلے کچھ جماعتیں تانگے والی جماعتیں بھی کہلاتی تھیں؟ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ کچھ رہنما جیسے حضرت علامہ مشرقی مرحوم (رح) جو کہ اعلیٰ تعلیمیافتہ اور ایک بڑی پارٹی کے رہنما ہونے کے باوجود تانگہ کو سواری طور پر استعمال کرتے تھے ، دوسرے بعض پارٹیاں تھیں بھی اتنی چھوٹی کہ ان کے اراکین کی تعداد چار یا اس سے بھی کم ہوتی تو انہیں طنزیہ تانگہ پارٹی کہتے تھے۔ جبکہ اسوقت اکثریت اراکین اور وزاءکی کارنشین نہیں تھی ۔ اسی پاکستان میں ایسے وزیر بھی ہو گزرے ہیں جو وزیر ہوتے ہوئے اراکین پارلیمنٹ کے ہوسٹل فریزر ہوسٹل کراچی میں رہتے تھے۔ جب وہ اپنی اس قیام گاہ سے باہر نکلتے تو نیچے فریادیوں کی لا ئن لگی ہوتی۔ پہلے وہ ان سے تحریری شکا یتیں وصول کرتے پھر سائیکل رکشا میں بیٹھ کر پہلے اپنا پرچم ہاتھ میں پکڑ لیتے اور رکشا ڈرائیور سے کہتے کہ چلو بیٹا! نہ ان کے آگے پائلٹ ہو تا موٹر سائیکل پر نہ پولس مبائل ہوتی نہ حفاظتی انتظامات جبکہ تھے وہ بھی وزیرداخلہ برائے مملکت؟ وہ بھی وزارت کر گئے اور نیک نامی کے ساتھ چلے گئے اور باقی زندگی کس حالت میں رہے جوکہ بہت بعد کی خبر سے ثابت  ہوتاہے کہ انہو ں نے اپنی گائے فروخت کر کے بیٹی کی شادی کی ان کا نام تھا جلال بابا۔ بعد میں ایسے وزیرِ داخلہ بھی رہے جن کی بد عنوانیوں کے چرچے روزانہ ٹی وی ٹاک شو میں رہتے ہیں؟
اس وقت ناہی ملک میں نو گو ایریاز کی بدعت روشناس ہوئی تھی، نہ ہی عوامی رہنما ؤں سے ملنے میں کوئی رکاوٹ تھی؟ آج بہت سے لوگوں کویہ باتیں الف لیلیٰ کی داستان نظر آئیں گی اورمیری بات کایقین نہیں کریں گے، سوائے ان کے  کہ جو جانتے ہیں  کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور نہ غلط لکھتا ہوں؟ باالکل اسی طرح جیسے کہ بہت سے پوتے یانواسے اپنے داد یانا کو پہلی جنگ عظیم سے پہلے کے بھاؤ بتاتے ہوئے سنتے ہیں، تو اگر وہ سعادتمند ہیں تو چپ ہوجاتے ہیں اور دوسرے بہن بھائیوں کو آنکھ کے اشارے سے کہتے ہیں کہ دیکھا، دادا یا نا نا کھینچ رہے ہیں۔اگر منھ پھٹ ہیں تو منہ پرکہہ دیتے ہیں کہ دادا ابا ایسا نہیں ہوسکتا!
چونکہ اس وقت میڈیا تک ہر ایک کی پہونچ نہیں تھی حالانکہ مولانا ظفر علی خان (رح) مرحوم “کا پیسہ اخبار “ ملتا بھی ایک ہی پیسہ میں تھا۔دوسرے زیادہ تر اخباروں میں بازار کے بھاؤ شائع کرنے کا بھی رواج نہیں تھا ۔ اس لیے بزرگوں کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک ناقابل یقین بات کا بچوں کو یقین دلا سکیں۔ مگر ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں وہ اتنا پرانا نہیں ہے۔ ابھی دارالحکومت اسلام آباد منتقل نہیں ہو اتھا،پرانی سندھ اسمبلی میں ہی مرکزی پارلیمان نے مہاجروں کی طرح پنا ہ لے رکھی تھی، اسی سے ملحق تغلق ہاؤس تعمیر ہو چکا تھا جس میں وزرا ءکے دفاتر ہوا کرتے تھے۔اسکندر مرزا صدر تھے ، انہوں نے ایک صوفی منش آدمی کو وزیر بنادیا؟ جبکہ پیشہ کے اعتبار سے وہ ایک لوہار کے بیٹے تھے۔ جس کا انکشاف بھی انہوں نے خود ہی کیا کہ جیسے ہی وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر میں داخل ہوئے تو انہوں نے جاءنماز بچھائی اور سجدہ کرنے سے پہلے انکشاف کیا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد، اسکندر مرزا کا بھی شکر گزار ہوں جس نے ایک لوہار کے بیٹے کو وزیر بنا دیا۔ اب رہا ثبوت وہ یہ  ہےکہ اس دور کے اخباروں میں سے جنگ ابھی تک شائع ہورہا ہے اس کی سن57 اور58 ءکی فائیلوں میں ملاحظہ فرمالیں۔
آپ پوچھیں گے کہ آپ کو یہاں اس ذکر کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ تو جواب دو ہیں پہلی  بات تو یہ کہ جنہوں نے اپنے پیچھے اچھی مثالیں چھوڑی ہیں وہ کہلانے کی حد تک ہی نہیں بلکہ واقعی   بڑےآدمی تھے اور ان کے کردار ہمیں آئینے میں اپنا منہ دیکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک ایسی ہی ان ہونی کچھ دن پہلے پاکستان میں ہوگئی جو کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو عام ہے، اسی لئے وہ خبر نہیں بنتی؟ مگر پاکستان میں شاذ ہے ۔ چونکہ ہمارے یہاں ایسی بدعتیں رائج نہیں ہیں، ہمارے علماء منع کرتے ہیں کہ یورپ کی اچھائی بیان مت کرو، کہ ہم بھی کہیں ویسے ہی نہ ہو جائیں، اس لیئے ہم اس کی تفصیل نہیں بیان کرتےہیں البتہ جنہیں رب نے اپنے “ فضل“ سے نوازا ہے وہ گھومنے تو وہاں جاتے ہی رہتے ہیں ایک مرتبہ اسوقت بھی چلے جائیں جب وہاں انتخابا ت ہورہے ہوں اور خود دیکھ لیں کہ وہاں انتخاب کیسے ہوتے ہیں اور یہ کہ ہم نے جو جمہوریت ان سے لی ہے وہ کیسے چلاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم کیاظلم کر رہے ہیں ؟
۔ پچھلے دنوں ہوا یہ کہ ان دو لیڈروں میں  سےایک جن میں اسوقت تک شدید اختلافات تھے اور ایک حلقے میں جہاں ضمنی انتخابات ہونے والے تھے حریف تھے ان میں سے ایک نے یورپ کی اس بدعت کو نہ صرف اپنایا بلکہ انہیں بھی بہت پیچھے چھوڑدیا؟ یعنی اپنے گھر میں ان کے لیڈر کے استقبال کی تیاریاں کرنے کا اپنے کارکنوں کو حکم دیدیا، کہ وہ بجا ئے ڈنڈوں سڑے ٹماٹراور گندے انڈوں کے ان پرپھولو کی پتیاں نچھاور کریں؟ یہ بڑی حیرت انگیز تبدیلی تھی۔ ان کی  سابقہ افتاد طبع  کو جانتے ہوئے دوسرے رہنما اور ان کے کارکن بار بار منزل ِ یقیں  سے بھٹکتے رہے کہ کہیں تردید نہ آجائے ،غلط نہ سنا ہو، ٹی وی پر ہر وقت کان لگا ئے رہے۔ کیونکہ جس طرح مورخین میں ہما رے ہاں عام  طورپر اختلاف رہتا ہے اسی طرح پاکستانی لیڈروں میں بھی سوائے مشترکہ ذاتی مفادات کے اور کہیں اتفاق نہیں ہوتا۔ الزامات کے تیر ایک دوسرے پر چلتے رہتے ہیں ۔ ہر ایک ،ایک دوسرے کے عیب گناتا رہتاہے۔ جبکہ مدت سے دنیا بھر کے اور قسم قسم کے الزامات ان پر اور ان کی جماعت پر لگتے رہے تھے کہ انہوں نے نو گو ایریا بنا رکھے ہیں وہ، الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ،وہ ہمیشہ نہیں نہیں کرتے رہے حتیٰ کہ وہ عادت ِ ثانیہ بن گئی اور یہ عادت بعد میں وہ گل کھلاتی ہے کہ لوگ آنکھوں سے دیکھ کر بھی، بار بار آنکھیں ملتے ہیں کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔اسی لیے اسلام نے اسکو گناہ ِ کبیرہ میں شامل کیا ہے۔
اسکی  ہم  ایک آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی مثال دیکر آگے بڑھتےہیں۔ ایک صاحب کی جھوٹ بولنے اور بات سے پھر جانا کثرت َ استعمال کی وجہ عادت ثانیہ بن گئی تھی، ایک وکیل نے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی وہ ان سے مختلف سوال کرتا رہا وہ ہر بات جواب میں کہتے رہے کہ غلط ہے؟ جب وکیل نے دیکھا کہ لوہا تپ چکا ہے تو اس نے ان کے بیٹے کانام لیکر پوچھ لیا کہ وہ آپکا بیٹا ہے یانہیں؟ اور وہ اسے بھی غلط کہہ گئے اور زندگی بھر کے لیے بیٹے کو خجالت کا شکار کر گئے؟
اس مرتبہ اسی جماعت کے لیڈر نے عملی مظاہرہ کرنے کی ٹھانی اور بدگمانی دور کرنے کی کوشش شروع کردی آدمی کرنا چاہے تو کیانہیں کرسکتا  ہے،  انہوں نے مخالف جماعت کے لیڈر عمران خان کو دعوت دیدی کے وہ وہاں آئیں اور ہمارے کارکن ان کا استقبال کریں گے؟ جبکہ اس سے پہلے ماحول بڑا تلخ تھا، نہ صرف دونوں غلط زبان استعمال کر رہے تھے ، بلکہ جوتم پھٹول کا سا ماحول تھا اورکارکنوں کے درمیان کبھی  کبھی لپا ڈپی بھی ہونا روزمرہ میں شامل ہو چکی تھی اور یہ ٹی وی پر ٹاک شو میں تو روزمرہ کی بات تھی۔ مگر انہوں نے اس مرتبہ یہ ثابت کیا وہ ایک منظم  جماعت کے لیڈر ہیں جو حکم دیں کارکن اسکے آگے سر جھکا دیتے ہیں؟ جو اس سے ثابت ہے کہ رہنما کے ایک حکم سے تمام صورت حال تبدیل ہو گئی ؟کہ الطاف بھائی نے انہیں حکم دیدیا ہے کہ جب عمران خان وہاں پہونچیں تو پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا ئیں ۔ یہ ہی نہیں بلکہ انہوں نے ان کی بیگم صاحبہ  کے لیے بھی، دو من پھول اور دو ہی لاکھ نوے ہزار کا سونے کا سیٹ پیش کرنے کاعندیہ دیا ، جبکہ عمران خان جناح میدان تک تو گئے جہاں انکی جماعت کے شہدا کی یادگاریں ہیں؟ اور وہاں ان کا استقبال بھی ہوا مخالف جماعت کے رہنما گلے بھی ملے۔ مگر نہ جانے کیوں وہ ٠90 انکے گھرتک نہیں گئے جہاں کہ بقیہ تقریب مکمل ہونا تھی بلکہ جلد بازی میں الٹا الزام میڈیا میں لگادیا ، یعنی میڈیا سے شکا یت کرڈالی کہ زیور نہیں ملا ؟جس کے جواب میں ان کی بیگم نے پتی ورتا (شوہر پرستی)کا اظہار کیا کہ مجھے خانصاحب جیسا شوہر مل گیا ہے ایک بیوی کو اچھا شوہر مل جائے کافی ہے اچھے شوہر سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔مگر الطاف بھائی نے جوکہا تھا وہ پورا کرنے کا حکم دیا بعد میں میڈیا پر خبر آگئی کہ اب جب ان کے پارلیمانی کارکن پارلیمان میں جا ئیں گے تو یہ ان کےگھر جاکر پیش کریں گے؟ اب ہم لگے ہاتھوں الطاف بھائی سے درخواست کریں گے کہ وہ عوام میں کس قدر مقبول ہیں جو انہوں ثابت بھی کردیا کہ قوم ان کے ایک حکم کی منتظر رہتی ہے تو ؟ وہ اس سے فائدہ اتھاتے ہو ئے اپنے کارکنوں کو حکم دیدیں کہ وہ توبہ کر کے آج سے پکے مسلمان بن جا ئیں تاکہ سب کی عاقبت بھی سدھر جا ئے اور تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جا ئے اور اپنے بعد ایک ایسا صدقہ جاریہ چھوڑ جائیں کہ قیامت میں بھی ان کا پلڑا بھاری رہے اسی طرح ان کے ماننے والوں نے اگر ان کے حکم پراللہ اور رسول  (ص)کے احکامات کی تعمیل بھی کی تو سب کی دنیا بنی ہوئی تو ہے ہی ،عاقبت بھی سنور جائے گی۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.