اب کون جانے ہمارے لیےاچھا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

ہمارے آباو اجد اد اس ایک کے ہورہے تھے۔ اور انہوں نے یہ ادراک اس نسخہ کیمیا سے حاصل کیا تھا جو ہمارے پیغمبر (ص) پر نا زل کر کے اور ان کو ہمارے درمیان بھیج کر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہم پر احسان ِ عظیم فرمایا تھا۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اگر کوئی صرف اس سے ڈرنے لگے اور پانچوں وقت دعا مانگنے لگے کہ “ مں تیری ہی عبادت کر تا ہوں اور تجھی سے دعا مانگتا ہوں “ تو پھر وہ اس بندے کا ولی بن کر کفیل بن جا تا ہے ،وہی اس کے ہاتھ پا ؤں اور آنکھیں بن جاتا ہے۔ لہذا حدیث ِ قدسی کے مطابق“ وہ دیکھتا اسی کی آنکھ سے ہے“ ہر فعل اس کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں؟ اس سے غلطی کا امکان تقریبا ً ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر زمین اور آسمان سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ جب غیروں کو بھی اس کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ تو معاملہ الٹ جاتا ہے ؟ کیونکہ شرک اسے سخت ناپسند ہے۔ پھر وہی بندہ جو جو کل تک کسی سے نہیں ڈرتا تھا اب وہ اپنے سایہ سے بھی ڈرنے لگتا ہے؟ ایک سے زیادہ کابندہ بننے کے بعد وہ ایک طرح سے فٹ بال کی مانند ہو تا ہے۔جسے کبھی ا یک کھلاڑی ٹھوکر مارتا ہے تو وہ دوسرے کی طرف لڑکا چلاجاتا ہے۔دوسرا کک مارتا ہے وہ تیسرے کی طرف دوڑتا ہے اور لطف یہ کہ کوئی ان میں سے اس پر قسمیں کھانے کے باوجود اعتبار نہیں کرتا ۔ زندگی ان دنیاوی خداؤں کو منانے میں گزرجاتی ہے۔ ہم نے جب سے اس کادامن چھوڑا روز بروز خوار ہو تے چلے گئے۔
جس طرح مشہور ہے کہ جب چنگیز خانی لشکر بغداد کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ تو ہمارے دانشور اس پر بحث فرما رہے تھے کہ کوّا حرام ہے یا حلال؟ اس کا فیصلہ اس نے اسی دن بغداد پہونچ کراور عباسی خلیفہ کو ایک ہاتھی کے پاؤں میں باندھ کر شہر بھر میں گھماکر کیا۔
بچھلے دنوں ہم بھی ایسے ہی ایک مرحلے سے گزرے ہیں ،اس وقت ہمارے دانشور اس بحث میں لگے ہو ئے تھے کہ کراچی کے حلقہ نمبر دو سو چھیالیس میں کون جیتے گا ؟ اور جو سوچنے کی بات تھی اس پر بغیر سوچے  سمجھےخوش ہوکر تالیاں بجا رہے تھے کیونکہ اسکے لیے سوچنے کا وقت نہیں  تھا؟ وہ تھے چین اور پاکستان کےدرمیان اکیاون معاہدات۔ کیونکہ کسی بھی شیخ کے لیے اونٹ کو خیمہ میں داخلہ کی اجازت دینا تو آسان ہوتا ہے مگر اسے خیمہ سے نکالنا پھر شیخ  کےبس کی بات نہیں رہتی؟
جب تک اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سے خوش تھا تو اس نے بنی آدم کو بہترین علاقہ دیا ۔ مگر ہمارے تجسس نے اور قناعت کی کمی نے ہمیں ہمیشہ اس طرف متوجہ رکھا کہ ان پہاڑوں پیچھے کیا ہے۔ ہر فاتح آگے بڑھتا اور افغانستان کی زمین اسے الجھا لیتی ؟جبکہ ان پہاڑوں سے ادھر بسنے والوں کی خواہش ہمیشہ یہ رہی کہ ہم بھی ادھر جھانک کر دیکھیں اور گرم پانیوں تک پہونیں؟ اس کوشش میں گزشتہ صدی میں افغانستان ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بنا ۔ مگر روس کو فوجی طاقت سے اوروں  کی طرح نا کامی نصیب ہوئی ، اس کے بر عکس ہمارا ہی ایک پڑوسی جو ہمارے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا۔  اس نےبجائے سیاسی طاقت بننے کے جاپان کی مثال اپنا ئی کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں تقریبا ً غلام بن چکا تھا مگر اس نے اپنی پوری صلاحتیں اپنی معاشی حالت بہتر بنا نے میں صرف کردیں اور اس نے یورپ کی مالی شہنشاہیت کو اسی کے ہتھیار سے زیر کرلیا۔ وہی پالیسی چیں نے اپنائی اور وہ اس دوڑ میں اس قدر آگے بڑھ گیا، کہ جو کام روس باوجود سپر پاور ہونے کہ نہیں کر سکا تھا وہ اس نے بغیر فوجی طاقت کے ہماری معاشی بد حالی سے فائدہ ٹھا کر حاصل کرلیا یعنی گرم پانیوں تک رسائی؟
اس کی پہلی اینٹ اس نے اس وقت رکھی جب سنگاپور کا ٹھیکہ ختم کراکر سابقہ حکومت سے گوادر کے بندر گاہ کا انتظام سنبھالا۔ اوراب اسے کا ریڈور بھی مل گیا۔ جبکہ ایک ہی کاریڈور ہمارے لیے  پہلے ہی عذاب بنا ہوا ہے ،جس کو راستہ دیناہماری بین القوامی ذمہ داری تھی اس لئے کہ وہ ملک سمندری راستہ نہیں رکھتا اور چارون طر ف سے دوسرے ملکوں سے گھرا ہوا تھا۔ ہم نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان میں خشک بندر گاہوں کاجال پورے ملک میں جب بلا امتیاز بچھا یا۔ تو صوبہ سرحد (خٰبر پختونخواہ) میں بھی ایسی ایک بندر گاہ بنادی۔  نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری امپورٹ بالکل ختم ہوگئی اس لیے کہ غیرملکی مال بازار میں سستا ملنے لگا، کیونکہ وہ بغیر ڈیوٹی ادا کیے ملتا تھا جبکہ پاکستانی بیوپاریوں کو ڈیوٹی دینا پڑتی تھی لہذا انہیں نقصان ہوتا تھا۔  پہلے صرف راستے سے مال غائب ہونا شروع ہوا ایل سی کابل میں کھلتی رہی  اور ادائیگی وہاں سے  بھیجنے والوں کوہوتی رہی، مال ہمارے بازاروں میں بکتا رہا۔ پھر اس کاروبار نے مزید ترقی کی تو ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر غائب ہو گئے جن کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ آئندہ اس کاریڈور کے فوائد کیا ہونگے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ کوئی معاشی طور پر بد حال ملک جو مالی بیساکھیوں کے سہارے جی رہا ہو اس کی تاریخ میں بہتری کی مثال کم ازکم ہمیں میں دھونڈے نہیں ملی۔ ا یسے ملک کی خود مختاری ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہمیں آئے دن ہو رہاہے؟ کہ کبھی ایک داتا ناراض ہوتا ہے تو ہمارے وزیر اعظم اسکو منانے جاتے ہیں، کبھی دوسرا داتا ناراض ہو تا ہے تو اسے مناتے جاتے ہیں۔ ملک میں رہنے کاوقت ہی نہیں ملتا کہ ان کی طرف دیکھ سکیں؟ جبکہ ہم اپنے قدرتی جائے وقوع کی بنا پر اس پوزیشن میں تھے کہ ہماری سب مانتے، مگر کہاوت ہے کہ “ بھکاری کو انتخاب کاحق نہیں ہوتا“اس پہ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں کے بھی مفادات ملک سے باہرہیں اور کئی داتا ملکوں میں بھی ہیں ۔
یہ تھی ملک کی معاشی حالت اور اس کی خارجہ پالیسی؟ اب اندورنی حالات کی طرف آتے ہیں ، کہ جس حلقہ انتخاب پر سب کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اس سے کیا سبق ملا؟
اس کاجواب ایک ہی ہے۔ کہ ملک مں عدل نہ ہونے کی وجہ سے سب عدم تحفظ کاشکار ہیں۔اس لیے انہیں سیاسی اور بڑے لوگوں کا، پیروں کا،  نام ونحاد فقیروں کا، چوروں اور ڈاکوؤ ں کا تحفظ لینا اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ انسانی درندوں سے انہیں کون بچائے گا، جن کا کبھی پیٹ ہی نہیں بھرتا؟جب تک عدل ملنے کی امید نہ ہو ؟ حالات جوں کے توں رہیں گے۔
اول تو پورے نظام میں نیک لوگ دھونڈے سے بمشکل ملتے ہیں ؟ پھر انہیں حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کی وجہ سے صرف دکھانے کے لیے دوچار چھوٹے پرندوں کا شکار کر نے کی اجازت ،کبھی کبھی ملتی ہے۔ اگر وہ بڑوں کو شکار کرنے کی کوشش کریں کیونکہ چھوٹوں کے ڈانڈے بڑوں میں ملتے ہیں؟ تو وہ انہیں یا تو ملازمت سے نکال دیتے ہیں یا وہ ناگہانی حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کی خبر تک نہیں لیتا۔ اس سلسلہ میں بات یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ “ پہلے چور ااور ڈاکو عوام سے منہ چھپاتے تھے اب یہ عالم ہے کہ آفسیر آن ڈیوٹی جب کسی کو پکڑنے جاتے ہیں تو وہ نقاب پہنے ہوتے ہیں“ تاکہ پہچانے نہ جائیں اس لیے کہ ان کے سامنے ان کے پیشرو آفیسروں کا حشر ان کی یاد داشت میں کہیں چھپا ہوتا ہے ؟
ہمارے یہاں آج نہ اسلامی حمیت ہے نہ پاکستان اور پاکستانی قومیت؟ بس اپنے آدمی کو سو خون معاف ہیں۔ اپنا اپنا ہے۔ اس میں بولی ہے، ذات ہے، علاقہ ہے گاؤ ں ہیں۔ اگر نہیں ہے تو اسلامی تشخص اور پاکستانی قومیت؟ اس پر طرہ یہ ہے کہ ہم کہلاتے مسلمان ہیں؟
ہم نے اب با امرِ مجبوری اپنے علماء کو ٹی وی پر یہ فتویٰ دیتے سنا ہے کہ اب حلال مال پاکستان میں دستیاب ہی نہیں ہے لہذا اگر “غلبہ کسی  کےمال میں حلال کا ہو تو وہ بھی مسجداور اسلامی مدرسوں میں  لگایا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کے امام حرم بھی بغیر تحقیق وہاں نماز پڑھانے تشریف لاسکتے ہیں ؟ انا للہ وانا علیہ راجعون ہ

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.