ایک تیر سے دو شکار۔۔۔ از ۔۔۔ شمس جیلانی

آپ نے یہ مثال سنی ضرور ہوگی ، ویسے ہر معاملہ میں ہمارے علماءجائز اور ناجائز کا فتویٰ دیتے رہے ہیں، مگر خصوصی طور پر اس سلسلہ میں جب بھی یہ کسی دور میں حکمرانوں یا رہنما ؤ ں نے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہمیشہ بڑی فراخ د لی دکھائی ؟ اور اس سلسلہ میں کنجوسی ہم نے تاریخ میں کہیں نہیں دیکھی ،ہونا بھی نہیں چاہیئے کیونکہ اسلام بخالت سے منع کرتا ہے۔ مسلم دنیا کی تاریخ تو بہت طویل ہے ۔ کیونکہ ہاں میں ہاں ،ملانابغیر سوچے سمجھے ہمارا وطیرہ رہا ہے۔ بلکہ کچھ نے توا سلام میں بادشاہت کا جواز بھی ڈھوندلیا ہے، اوریہاں تک بڑھ گئے کہ ایسی روایات بھی ڈھوندلی ہیں کہ بادشاہ کے ساتھ 21 ولیوں کی طاقت ہوتی ہے اور ظل ِ سبحانی (اللہ تعالیٰ کاسایہ ) بھی اسے بنا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی حکمراں اسلامی طریقہِ انتخاب سے منتخب ہوکر آیا ہو اور عادل ہو اور متقی ہو تو اسکی بڑی تعریف آئی ہے۔ وہ بے شک جنت میں حلقہ ابرار کے ساتھ ہوگا؟ مگربغیر تحقیق کے کہ ان کاکردار کیا ہے اس قسم الفاظ ان کے لیے استعمال کرنا میرے خیال میں تو گناہِ عظیم ہے۔ جس کی حضور (ص) نے بڑی مذمت فرمائی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کہنے سے پہلے یہ تتحقیق کرلیں کہ اس نے یا اسکے اجداد نے حکومت ہتھیائی تو کیسے ہتھیائی اوروہ بھی کیا ظلِ سبحانی تھے؟ جو ایک رات میں لاکھوں ڈالر جوئے میں ہار گئے تھے؟ اور وہ بھی جن کے اجداد نے حضور (ص) سے کہا تھا کہ تم (ص) ادھر کارخ نہ کرنا کیونکہ تم  (ص)آل سہیل میں سے ہو اور ہم آل مدار میں سے ہیں ہم کسی صورت اسلام قبول نہیں کریں گے۔ بعد میں انہیں کی طرف رخ کرنے کے جرم میں وہ 70حفاظ بئیر معونہ میں ان کے سردار امر بن طفیل کے ہا تھوں شہید ہوئے جو حضور (ص) نے وہاں تبلیغ کے لیے بھیجے تھے۔ پھر حضور (ص) کے زمانے میں ہی اپنے اوپر قریش کی برتری ختم کرنے کے لیے اپنے میں سے ایک جھوٹا نبی مسلمہ کذا ب پیدا کرلیا اور اسکے بھی ہاتھوں سے بہت سے مسلمان بہت بری طرح شہید ہوئے جبکہ قرآن میں مثلہ حرام کردیا گیا تھا ( البدایہ والنہایہ ابن کثیر)۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بدعت کے نام پر جو موجودہ سعودی حکومت کے دور میں مزارات مسمار کیے گئے اس کے پیچھے بھی قریش سے جذبہ انتقام کار فرماتھا ؟ خیر اس قصے کو بھی چھوڑ یے کہ کس کا کردار کیا تھااور کون کن کن ہتھکنڈوں سے بادشاہ بنا ؟چونکہ نجدی کبھی حجاز پر حکمراں نہیں رہے ،اس صورتِ حال کا تصور کیجئے کہ انہیں کتنی کراہیت کے ساتھ حجازیوں نے بطور حکمراں برداشت کیا ہوگا جبکہ حضور (ص) کا ارشاد گرامی ہو کہ عرب کبھی غیر قریش کی قیادت قبول نہیں کریں گے؟۔ لیکن ہر ایک دور کے درباری اور حکمراں اس مثال کو بہت خوش اصلوبی کے ساتھ استعمال کرتے رہے ۔مثلا ً جب پاکستان بن رہا تھا تو یہ نعرہ کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ؟ پھر پاکستان بن جانے کے بعد جنرل ضیاءالحق صاحب کا ریفرنڈم میں یہ نعرہ کہ اگر اسلام چاہتے ہو تو مجھے ووٹ دو ، وغیرہ ، وغیرہ۔ جبکہ مسلمانوں نے یہ سب تجربات کر دیکھے لیکن اسلام ابھی تک پاکستان میں داخل نہیں ہوسکا اور سرحد کے باہر سے جھانک کر “ اے تا “ کر رہا ہے؟ اس سمت میں ابھی تک ہوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ حکمراں کہتے کچھ رہے اور کرتے کچھ رہے ہیں ۔
ہمارے ایک دوست بہت سادہ لوح تھے لیکن ساتھ میں مومن کی فراست بھی رکھتے ان کا نام تھا مولانا وصی مظہر ندوی  (رح)انہوں نے کبھی کہیں مار نہیں کھائی؟ اگر ان کی زندگی دیکھنا تھی تو وہ صحابہ کرام کا نمونہ تھے ، ضیاءالحق سے ملا قات کرنے گئے ،اور انہوں نے کہا کہ مولانا میں اسلام نافذ کرنے کو تیار ہوں آپ میرے وزیر مذہبی امور بن جا ئیے ، اور وہ بن گئے۔ ضاءالحق کو دس سال سے زیادہ حکومت کر نے کے لیے ملے۔ انہوں نے وہی مجموعہ تعزیرات ہند جو اب تعزیرات پاکستان کہلاتا 1935 سے انڈیا ایکٹ کے نام سے چلاآرہاتھا۔باقی رکھتے ہو ئے پاکستان میں اسلامی حدودنافذ کردیں ؟ جس سے کسی کو فائدہ ہوا ہو یانہ ہوا ہو؟ لیکن پولس کو ضرور ہوا کہ اگر ہاتھ اپنے بچانے ہیں ، تو ریٹ رشوت کادگنا ہو گا، ورنہ ہاتھ سے ہاتھ دھو بیٹھو؟ جبکہ جہاں تک ہمیں یاد ہے کوئی خبر کسی اخبار میں نہیں آئی کہ کسی کا ہاتھ کاٹا گیا ہو ؟ اس لیے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا اس صورت میں ہے جب اسلامی فلاحی ریاست ہو؟ ورنہ بھوکے آدمی نے اگر کسی کے فرج سے کچھ چرا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیا تو اس پر حد جاری کر نے میں علماءکااختلاف ہے اسی طرح ایک دوسری دفعہ کا بھی غلط استعمال ہو اجو قتل ِ عمد کے بارے میں ہے وہ “ ڈیوڈ “جیسے ملزموں کو چھوڑنے کے لیے استعمال ہوئی۔ تیسری چیز انہوں نے کوڑوں کی سزا رو شناس کرائی جو انہوں نے اور کہیں استعمال نہیں کی، مگر پی پی کے جیالوں کو کچلنے کے لیے ضرور با قاعدگی سے استعمال کی جس سے اس مرد ِ حق نے دنیا میں اسلام کا نام کافی بلند کیا اور چلتے چلتے سعودیوں کی دوستی میں پاکستان کو طالبان کے سپرد کر کے چلاگیا ۔ جسے پاکستان آج تک بھگت رہا ہے؟
ضیا ءالحق صاحب ایسے موقعہ پر جب وہ مجبور نظر آتے تھے، تو فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس کوئی گیڈر سنگی نہیں ہے جو میں تمام مسائل حل کردوں ( شایدبھولے آدمی تھے اسکا پس منظر نہیں جانتے تھے ورنہ وہ یہ کبھی استعمال نہ کرتے)؟ لیکن میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر انکساری جو مڑی ہوئی تھی وہ گیدڑ سنگی نہ سہی گیڈر سنگی کی ہمشیرہ ضرور تھی جس سے وہ آدمی کو شیشہ میں اتارلیتے تھے۔ کہ مولانا آخر وقت تک اس بات کے قائل رہے کہ اس بیچارے کو وقت ہی نہیں ملا ، ورنہ وہ اسلام ضرورنافذ کر دیتا ؟ حالانکہ ضیاءالحق کا دور ، خلیفہ دوئم حضرت عمر (رض) کے دورسے زیادہ تھا جنہوں نے ساری اصلاحات اور اسلام اتنے عرصہ میں پوری طرح نافذ کردیا تھا جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ جبکہ اس دور میں وہ وسائل بھی نہیں تھے جو آج ہیں ؟ صرف ایک مثال لے لیتے ہیں جو فوج سے متعلق ہے۔ پہلے فوج کی تنخواہ مقرر نہیں تھی، انہوں نے مقرر کی اور فوج پر پابندی لگادی کہ وہ ممالک محروسہ میں زرعی زمین نہیں خرید سکے گی؟ جبکہ ضیاءلحق صاحب اس سلسلہ میں بھی انگریزوں کی پالیسی ، فوجیوں کوجاگیروں اور پلاٹوں وغیرہ سے نوازنا اپنائے رہے؟
دوسر شکارایک ناقابلِ تسخیر بزرگ رہنما نواب زادہ نصر اللہ خان تھے، ان کو بھی کوئی مسخر نہ کرسکا مگر ضیاءالحق صاحب نے انہیں بھی قائل کرلیا! وہ خود تو شامل نہیں ہوئے مگر انہوں نے اپنے چند وزیر دیدیے ،لیکن بعد میں وہ اس پر ہمیشہ پچھتاتے رہے۔
سہروردی اکادمی کا میں سکریٹری جنرل تھا ، اور ان کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان صدر نشین ، نوابزادہ صاحب کہیں ہوں سہروردی صاحب کی برسی کو کبھی ترک نہیں کرتے تھے اس میں ضرور تشریف لا تے تھے اس دور میں بھی تشریف لائے تو لوگوں نے ان کی توجہ ضیاءلحق صاحب کے وعدوں کی طرف دلائی اور سوال کیا کہ اب آپ اس حکومت کے خلاف تحریک کب چلا رہے ہیں ؟ تو کہنے لگے عنقریب شروع کرنے والا ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ“ نوابزادہ صاحب پہلے ہمیں اس بات پر فخر تھا کہ ایک ایسا آدمی ہمارے درمیان ہے جو کسی آمر کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھاسکتا؟ مگر اب یقین متزلزل ہوگیا ہے۔ تو کہنے لگے کہ ہاں! یہ مجھ سے غلطی ہوگئی“
تمہید بڑی طویل ہوگئی اسی کے مماثل آج کل ایک تحریک چل رہی ہے جس کو ہمارے کچھ دانشوروں، چندہ خوروں ، وظیفہ خواروں،اور خود پاکستان کی حکومت نے شروع کر رکھا ہے کہ سعودی بادشاہت کادفاع حر مین شریفین کا دفاع ہے؟ اور حرم خطرہ میں ہے ہم اس کو بچانے کے لیئے اپنی جانیں قر بان کردیں گے۔
حالانکہ یہ دو علیحدہ باتیں ہیں۔ پہلے تو یہ ہے کہ واقعہ “اصحاب ِفیل “ جو قرآن میں بیان ہوا ہے اس میں پوری دنیا کو چیلنج ہے کہ ایک سر پھرے نے حرم کے خلاف جراءت کی تو اس کاانجام کیا ہوا جو دنیا بھر کو ازبر ہے؟لہذا کوئی غیر مسلم تو اس کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اور رہے مسلمان ایسا کوئی بے حمیت ہو نہیں سکتا جو اس پر جان دینے سے کترائے ؟ مگر یہ کہنا بے انصافی ہے کہ بادشاہت کا دفاع حرمین شریفین کا دفاع ہے ۔ البتہ کہنے والوں کے اس فعل پر“ ایک تیر سے دوشکار کرنے والی مثال صادق آتی ہے“ اور ہم ایک دفعہ پھر پھنسنے جارہے ہیں؟ جبکہ سعودی عرب علاقے میں داروغہ کا کردار اپنائے ہوئے ہے لہذا آج اِس سے لڑتا ہے تو کل اُس سے لڑتا ہے؟ ہم اس کے لیے کس ، کس کو دشمن بنا ئیں گے؟ آخر یہ ہمیں سے مطالبہ کیوں ہوتا ہے کہ ہم اس کی لڑائی لڑیں ، ہمارے علاو ہ وہاں ہندوستانی ، بنگلا دیشی ، کورین۔ وغیرہ ملازمتوں میں ہم سے کہیں زیادہ ہیں ،جسکی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ سستے ملتے ہیں اور “ یس سر“ کرنے والے ہوتے جبکہ پاکستانی مہنگے بھی پڑتے ہیں اور برابری الگ کرتے ہیں ؟ دوسرے صرف مسلمانوں کی بات ہے تو پھر ترکی ہے ملائشیا ہے۔ انڈونیشیا ہے۔ ان سے وہ مدد کیوں نہیں مانگتے ، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب ہمارا واحد اور شروع دن سے مخلص دوست ہے۔ وہ ذرا یہ بھی بتادیں کہ شاہ فیصل سے پہلے اسکا رویہ پاکستان کے ساتھ کیا تھا؟ اسوقت کے سعودی باد شاہ کا یہ فرمان ریکارڈ پر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کامستقبل ہندوستان کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ پھر دانشوروں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ دنیا میں مسلم آمروں کے خلاف جن جن ملکوں میں تحریک چلی تو کوئی انہیں بچا نہیں سکا اور وہ ملک تباہ ہوگئے ان کی اجڑی تصاویر ہمارے سامنے ہیں نہ تیونس بچ سکا نہ لبیا اور نہ مراقش۔ اسی طرح اب جوشاہوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی ہے تو یہاں بھی ان کو کوئی بچا نہیں سکے گا؟ یہ مکافات عمل ہے اسکے آگے کوئی بند نہیں باند ھ سکتا، جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں سعودی جاتے ہیں اپنا سعودی برانڈ اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کے نتائج سے دنیا اب بہت زیادہ خوف زدہ ہے، اس لیے اسکے پھیلنے کہ امکانات نہیں رہے ہیں؟ گوکہ بد گمانی اسلام میں منع ہے؟ مگر کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ “ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہیں کہ ہمارے حکمرانو ں کامفاد ان کے ملک میں ہے “۔ واللہ عالم ۔ البتہ ہمارے خیال میں موجودہ صورت ِ حال میں فوج باہر بھیجنا اور مزید دشمن پیدا کرنا پاکستان کے لیے خود کشی کے مترادف ہوگا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اس عقلمندی سے محفوظ رکھے ۔آمین

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.