کچھ باتیں اپنی بہنوں سے ۔۔۔ از۔۔ شمس جیلانی

آج میں صرف اپنی بہنوں سے مخاطب ہوں چونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ میری بہنیں پڑھتی ہیں اس مرتبہ میں جو کچھ کہنے جارہاہوں اسی امید پرکہ وہ اسے ہمیشہ کی طرح پورے یقین اور بہت ہی غور سے پڑھیں گی۔ کیونکہ میرے دَور کا معاشرہ تقریباً تباہ ہوچکا ہے آپ میں سے شاید ہی کچھ نے اسکے کچھ کھنڈرات دیکھے ہوں۔ جن بہنوں نے نہیں دیکھے ان کو سب سے پہلے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے آج سے ستر سال پہلے خواتین کے ماہنامہ حریم لکھنئو سے لکھنا شروع کیا تھا جس کے ایڈیٹر نسیم انہونوی مرحوم تھے۔ان کے دل میں مسلمانوں کادرد تھا وہ ہمارے اسوقت کے میر کارواں تھے اور بدلتے ہوئے مسلم معاشرے کو دیکھ کر کڑھ رہے تھے۔ (جبکہ اب میر ِ کارواں پھر ایک درمند انسان جناب صفدر ھمدانی ہیں) اس دور میں دادیوں اور نانیوں کاراج  تھا، ان کی گود پہلا مدرسہ بنتی تھی وہ اپنادن قرآن شریف پڑھانے سے شروع کرتی تھیں اور ختم اول رات میں مشاہیر اسلام کے قصے سنا کرکرتی تھیں ۔ بلا امتیاز بچوں کے کانوں میں خاص طور سے انبیائے کرام  (ع) ،صحابہ اور صحابیات عظام  (رض)کی سیرت قصوں کی شکل میں ڈالتی تھیں۔فلم دیکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا، شرفا دیکھتے ہی نہیں تھے۔ ہمارے دلوں مییں نہ جانے کیوں یہ اندیشہ تھا کہ معاشرہ اب بکھر نے کو ہے ؟بندھ باندھنا چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا خاندان بکھر گئے اور وہ مدرسے اوروہ گودیں خاندانوں کے بگڑنے سے خود بخود دم توڑ گئیں۔ مجھے ہجرت اختیار کرنا پڑی وہ وہاں رہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے؟ اور میں ملکوں، ملکوں کی خاک ابھی تک چھانتا پھر رہا ہوں؟ مگر میرا قلم اس دوران بھی رینگتا رہا اور اب ذمہ داریوں سے پچیس سال پہلے سبکدوش ہونے کے بعد سے  پھردوڑنے لگا۔  میرا خیال ہےکہ اگر نانیاں اور دادیا ں دوبارہ اپنا کردار سنبھال لیں تو آج بھی بچے تعلیم کاتناسب بڑھ جانے کی وجہ سے دین کے لیے کہیں بہتر ثابت ہونگے۔ جوکہ دین کو نہ جاننے کی وجہ سے یاتو شدت پسندی کا شکار بن رہے ہیں یامذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ شدت پسندی کاجن پہلے بھی بوتل سے باہر آیا تھا اور دنیا اسکے سامنے بے بس ہوگئی تھی جس کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہلاکو جیسے ظالم کو بھیج کر ختم کیا۔1900 ع کے اوائل میں اپنے مکروہ عظائم کے لیئے اسکو اغیار نے پھر بوتل سے نکال لیا جس میں معاونوں میں ایک عالم اورایک عرب سردار شامل تھے انہوں نے اسے کامیابی سے  استعمال کیا اور اپنی 1933؟  میں مشترکہ حکومت قائم کرلی ؟اب صورت ِ حال یہ ہے کہ وہ خود اسکے شکار ہیں اور اس کے سامنے بے بس ہیں؟
جبکہ ہمارے یہاں یہ عجب مشکل ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ شدت پسندی غالب آجاتی ہے ۔ کبھی تو رسم و رواج اتنے غالب آجاتے ہیں کہ ہم دین کو لپیٹ کر ایک طرف رکھدیتے ہیں ؟ کبھی مذہب میں اتنی شدت پسندی آجاتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ حالانکہ اسلام دین ِ وسطیٰ یعنی ایک اعتدال پسند مذہب ہے اوریہ آیت اس کی مظہر ہے کہ “ دین میں جبر نہیں “ یہ شدت پسندی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمیں ہر میدان میں مسائل ہی مسائل کا سامنا ہے۔ جو روز بروز کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کی شادیوں کا مسئلہ؟ یہ شکایت ہر جگہ عوام ہوتی جارہی ہے کہ نقاب پہننے والی لڑکیوں سے لڑکے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جبکہ لڑکیا ں نقاب اتارنے کو تیار نہیں ، تو بات بنے تو کیسے بنے؟ وجہ یہ ہے کہ لڑکوں کے ذہن میں وہ خوف جگہ لے لیتا ہے ، کہ اس شادی کے نتیجہ میں انہیں اپنے عزیزوں سے بھی محروم ہونا پڑیگا۔ کیونکہ اسکے ساتھ وہ شدید قسم کا پردہ چھپا ہوتا ہے جو معاشرے سے کاٹ کر رکھدیتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں اجتماعی خاندانی طریقہ رائج ہے لہذا ایسے گھرانوں میں اور بھی مشکلات ہیں جہاں دیور اور جیٹھ ساتھ رہتے ہوں؟حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی شوہر گھر پر نہ ہو تو نا محرم عزیزوں کو ڈرائنگ روم تک بھی آنے کی اجازت نہیں ہوتی ؟ اگر وہ پردیسی ہے اور اپنے سگے بھائی سے ملنے آیا ہے اور وقت رات کا ہے اور جگہ دیہات ہے تو یہ مسافر کہا جائیگا کیا پھر دوبارہ وہ کبھی بھائی کے گھر آئے گا اور عزیزداری باقی رہے گی؟ جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔
یہ صورتِ حال اس لیے پیدا ہوئی کہ ہم نے رسم ورواج کو دین سمجھ لیا۔اور وہ زیادہ تر آجکل ان ملانیوں کے ذریعہ پھیل رہا ہے جو شدت پسند ہیں اور اصل دین سے نابلد بھی اور ہم ان کی کارستانیوں سے نابلد یوں رہتے ہیں کہ وہاں علماءاور گھر کے مرد پردے کی وجہ سے پر نہیں مارسکتے؟ جبکہ وہاں مسلمان خواتیں خصوصاً بچیوں کو شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی اسلام کے نام پر؟ اور طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ پہلے گھر کی بزرگ خواتین کو شکار کرتی ہیں؟ چونکہ وہ عمر کے اس حصہ میں ہوتی ہیں جہاں خوف خدا زیادہ دامنگیر ہوتا ہے۔ دوسری طرف جوبچے ادیان کا تقابلی مطالعہ درسگاہوں میں کر رہے ہیں انہیں اساتذہ ایسے ملے ہوئے ہیں جو انہیں فرقہ پرستی پڑھا رہے ہیں؟
اس لیے،میں اپنی بزرگ بہنوں کو یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ یہ بڑا اچھا جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ آخری وقت میں اپنی رحمت سے دلوں میں پیدا کرتا ہے تاکہ میرابندہ یا بندی سنبھل جائے ،اسکا نتیجہ جو مرتب ہوتا ہے وہ اس حدیث سے واضح ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ “ایک فرد زندگی بھر برائیاں کرتا ہے اور آخری وقت میں توبہ کر کے اس پر قائم ہوجاتا ہے توجنت کا حقدار بن جاتا ہے، اسکے برعکس ایک فرد زندگی بھر نیکیاں کرتا رہتا ہے اور آخری وقت میں گمراہ ہوکر جہنمی بن جاتا ہے “ اپنی عاقبت سنوارنے کےلیے  بزرگ بہنیں اپنی جگہ دوبارہ سنبھا ل لیں تو یہ ان کے لیے بھی بہتر ہوگا کیونکہ زندگی کو ایک مقصد مل جائے گا جبکہ ریٹائر منٹ  کےبعد بے مقصد جینا بہت مشکل ہوتا ہے! اپنے منصوبے پر دوبارہ غور کریں اور لمبے منصوبوں میں نہ جائیں مثلا ً جیسے کہ ملانیاں کہتی ہیں کہ پہلے آپ قرآن کاتلفظ درست کرلیں یعنی تجوید قر آن مکمل کرلیں پھر دوسرے کام کریں یہ پہلے ہونا چاہیے تھا؟ مگر اب آپ کے پاس وقت کم ہے؟ اسکے بجائے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنادین آتا ہے بس اسی پر عامل ہوکر وہی دوسروں کو پہنچا دیں، جس کا حکم حضور (ص) نے دیا ہے؟ دوسراعلم بڑھانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ حضور (ص) کی سیرت اپنی زبان میں پڑھیں اوراس پر عمل شروع کردیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسے یہ فرماکر سند دیدی ہے کہ “ تمہارے لیئے تمہارے نبی کا اسوہ حسنہ (ص) کافی ہے “ چونکہ اسوہ حسنہ مجموعہ ہے تمام ہدایات کا۔ اسی کو اپنے نواسی نواسوں پوتی پوتوں اور ہمسایہ کو پہونچانا شروع کردیں ،اس طرح آپ اپنی آخرت بھی بنالیں گے اور وہی بچوں تک پہونچاکر صدقہ جاریہ بھی چھوڑ جائیں گی کیونکہ یہ حدیث مشعل راہ ہے کہ ایک دن حضور (ص) نے فرمایا کہ “ وہ فلاح پاگیا “صحابہ کرام  (رض)نے پوچھا کون؟ فرمایا ، “ جس کو اللہ نے دین کا علم دیا اور اس نے بانٹا، جس کو اللہ نے دولت دی اور اس نے اس کی راہ میں خرچ کی ، اور جس کو قناعت عطا ہوئی “
پھر قوم کو ان برے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو کہ یورپین ملکو ں میں ملانیو کی شدت پسندانہ تعلیم سے مرتب ہو رہے ہیں کہ بچے زیادہ تر غیر مسلموں میں شادیاں کر رہے ہیں جو تہذیب کے فرق کی وجہ سے اکثر ناکام ہو تی ہیں اور ان کی زندگی برباد کرنے کاباعث بنتی ہیں یہاں مردوں کی حد تک تو شدت پسندی پر نگاہ رکھنا آسان ہے۔ لیکن خواتین میں جو شدت پسند قسم کی خواتین تبلیغ کر رہی ہیں ان پر معتدل مسلمانوں کا نگاہ رکھنا بہت مشکل ہے ؟کیونکہ وہ پہلے ہی پردے کی آڑ لیکر تمام مردوں کاداخلہ بند کر دیتی ہیں اور دنیا سے الگ کر کے پھر وہ جو سبق پڑھاتی ہیں وہ شدت پسندی ہے اوران کے مرد خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ ہماری خواتین اچھی با تیں سیکھ رہی ہیں۔ انہیں پتہ جب چلتا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو جاتا۔ جیسے کہ انگلینڈ میں عام ہے کہ لڑکیا ں یکایک گھر سے غائب ہوجاتی ہیں وہ پولس میں اغوا کی رپور ٹ درج کراتے ہیں! بعد میں خبر آتی ہے کہ وہ اپنی خوشی سے سیریا (شام ) مجاہدین کی بیویاں بننے چلی گئیں ہیں ۔ دوسری طرف صورت ِ حال یہ ہے کہ مسلم بچیاں یاتو شادی ہی نہیں کرتی ہیں اور ذہنی مریضہ بن کردین اور معاشرے دونوں کے لیے بیکار ہوجاتی ہیں! یا پھر اتنی آزاد ہوجاتی ہیں کہ غیر مسلموں سے شادی کرلیتی ہیں جو اسلام میں ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ لہذا اس افراط اور تفریط کو ختم کرنے کے لیئے مسلمان مردوں کو چاہیئے کہ وہ ان شدت پسند ملانیوں پر بھی نگاہ رکھیں، ورنہ آئندہ چل کر نئی نسل اسلام سے بہت دور چلی جائے گی ؟ اتنی دور کہ واپسی ناممکن ہو گی؟ اور اس سلسلہ میں ہر شخص انفرادی طور پر کوشاں ہو جائے، ممکن ہے کہ آپ پوچھیں کہ ایک فرد کی کوشش سے کیا ہوگا؟ آپ نے وہ مثل تو سنی ہوگی کہ ایک اور ایک مل کر گیارہ ہوجاتے ہیں؟ اسکو سمجھنے کے لیے میں ذیل میں تاریخ کا ایک حصہ پیش کر رہا ہوں ملاحظہ فرمائیں؟
میں یہاں اسکی دومثالیں پیش کررہا ہوں؛ انیسویں صدی میں قوم شرک و بدعات میں اتنی بہہ گئی تھی جس میں کہ صنف نازک تعلیم سے نا بلد ہونے کی وجہ سے سب سے آگے تھی؟ صرف ایک عالم نے ایک سردار کے ساتھ مل کر اصلاح کے نام پر حرم پر قبضہ کرلیا اپنا فقہ نافذ کرکے فائدہ اٹھایا اور یہ کوشش کی کہ ساری دنیا میں اپناہی مذہب پھیلائیں اور سب کو شدت پسندی عطا فرمائیں۔ دوسری طرف ہمارے یہاں ایک صوبے میں ظلم اتنا بڑھ گیاتھا کہ مسلم خواتین کو وراثت تک سے محروم کردیا گیا اور خلع کا حق بھی ان سے چھین لیا گیا ۔اس کے مقابلہ کے لیے دوسرے اکیلے عالم علامہ راشدالخیر ی (رح) اور صرف ایک “مسٹر “ سر محمد شفیع (رح) میدان میں آئے اور ایک بڑے خطرے کو ٹالدیا؟علامہ صاحب نے معتدد اصلاحی کہانیاں نانی عشّو،اصغری اور اکبری جیسی لکھیں اور سر محمد شفیع مرحوم نے جو کہ برطانوی حکومت میں بہت اہمیت رکھتے تھے ان کی مدد کی۔ بڑی جدو جہد کے بعد خواتین کےوہ دونوں حقوق وہاں بحال ہو ئے۔ بظاہر یہ دونوں باتیں بہت ہی معمولی سی لگتی ہیں۔ حالانکہ اس کے جو اثرات مرتب ہورہے تھے وہ بہت برے تھے۔ خواتین کو حصہ نہ دینا قر آن کے مطابق ایک ظلم ہے ،تمام مسلمان نسلاً بعد نسلاً اس ظلم کے مرتکب ہو کر ہر ظلم کرنے کے عادی ہو تے جا رہے تھے کیونکہ انسان کے قلب پر ایک حدیث کے مطابق “ پہلاگناہ کرنے پر ایک تل برابر کالا نشان پڑتا ہے پھر وہ گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے حتیٰ کہ پورا قلب سیاہ ہو جاتا ہے “ ہمارے یہاں یہ بات عام ہے کہ ظلم صرف مارپیٹ کو سمجھا جاتا ہے ؟مگر قرآن میں ظلم کی جو تعریف ہے وہ یہ ہے کہ “ظلم ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس سے کسی کو اس کے اصل حق سے محروم کردیا جا ئے “ مثلا ً اللہ سبحانہ تعالیٰ خالق ہونے کی وجہ سے لائق ِ عبادت ہے ،صرف اور صرف وہی قابل عبادت بھی ہم اس کے شریک خود گڑھ لیں؟
چنانچہ اس فعل کی مذمت علامہ نے اپنی تمام تصنیفات میں کی ، دوسری ظلم کی یہ صورت تھی کہ اگر بیوی چاہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسے حقِ علیحد گی عطا کیا ہوا تھا۔جوکہ غصب کرلیاگیا، تو نتیجہ کے طور صرف علیحدگی کے لیے مسلم خواتین کی بہت بڑی تعداد مذہب تبدیل کرکے عیسا ئی بننے لگی۔ان دونوں بزرگوں نے بڑی شدومد سے تحریک چلائی جس سے مرداور خواتین دونوں میں بیداری پیدا ہوئی اور مسلمانوں کی اس ظلم سے برِ صغیر ہندوستان میں جان چھٹی۔ قوم  انہیں بھول گئی جبکہ پھل مدتوں سے کھا رہی۔ مگر یہ دونوں بزرگ بے لوث تھے ان کے اپنے کوئی مقاصد نہ تھے۔اس طرح اپنے  پیچھے ایک صدقہ جاریہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے؟  جسکا ثواب انہیں تا قیامت ملتا رہے گا۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.