قائد اعظم کو اردو نہیں آتی تھی کیونکہ ان کی مادری زبان گجراتی تھی۔ لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ یہ بنگالی ، پنجابی، سندھی اور پختونوں اور بلوچو ں میں بٹی ہوئی قوم اگر متحد رہ سکتی ہے تو صرف مذہب اور زبان کے نام پر ۔ جبکہ وہ اس سے بھی واقف تھے کہ جتنا اسلامی اثاثہ اردو میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ہے ؟وجہ یہ تھی کہ عربوں کو اس کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی کہ عجمیوں (غیر عرب ) مسلمانوں کو تھی۔ لہذا پہلے دن سے عجمیوں نے اپنی زبانوں میں اسے منتقل کرنا شروع کردیا جو ہنوز جاری ہے۔ چونکہ خلافت عباسیہ کے کمزور ہونے کے بعد علم کا محور مرکزی ایشائی علاقہ بنا اور وہاں کی زبان فارسی تھی ، مزید یہ کہ بادشاہوں کی علم دوستی کی بنا پر علم ِدین بہت تیزی سے فارسی میں منتقل ہونا شروع ہوا اور جب وہ ہندوستان تک پہونچے تو اپنے ساتھ وہ اثاثہ بھی لیتے آئے۔ اس لیے کہ سوائے ہمارے ہر ایک کو اپنی زبان سے لگاؤ ہوتا ہے۔ اور وہاں غیر ملکیوں کے امتزاج کی بنا پر ایک ایسی زبان پیدا ہوکر جوانی کی طرف بڑھ رہی تھی جو کہ ملک کے مختلف حصوں میں کہیں کی زبان نہ ہونے کے باوجود ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ البتہ رسم الخط دو مختلف تھے لشکری اسے ان کی اپنی مناسبت سے اردو کہتے اور زیادہ تر الفاظ وہ عربی اور فارسی کے استعمال کرتے تھے، جبکہ مقامی باشندے دیوناگری رسم الخط میں لکھتے تھے ، جس کو بعد میں سیاسی ضرورت کے تحت ہندوستانی کہنے لگے؟ جبکہ مسلمانوں نے فارسی رسم الخط یوں اپنایا کیونکہ عربی کے مقابلہ میں فارسی میں زیادہ حروف تھے۔ یہ ہی اس کی وہ خوبی تھی جس کی وجہ سے اس کو بعد میں شاعروں نے اپنا لیا ؟ یہ رواج بھی شمالی ہندوستان سے شروع ہوا اور پہلی شاہی سرپرستی بادشاہ علی قلی خان کی حاصل ہوئی ، میرا خیال ہے کہ فیروز تغلق نے جب اپنا دار الحکومت دہلی سے شمال میں منتقل کیا تو اسکے امراءاور مقامی لوگوں کے امتزاج سے یہ دہلی پہونچی اور اس کے کافی عرصہ کے بعد اس کو مغل بادشاہ ظفر نے خود بھی اپنی شاعر ی کی وجہ سے استعمال کیا اور اسطرح اسکے پاوں وہاں جمے ۔ جبکہ اسکی مذہبی سرپرستی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے خاندان نے شروع کی جوکہ اس سے پہلے فارسی میں تفسیر قرآن تحریر کرکے پہلے ہی مشہور ہوکر رہنمابن چکا تھا اور اسی خاندان کے حضرت شاہ رفیع الدین (رح) نے قرآن کا لفظ بہ لفظ پہلا اردو ترجمہ حاشیہ کے ساتھ کیا ؟
مگر مغلوں کے دور میں چونکہ فارسی سرکاری زبان تھی لہذا اس کو سرکاری زبان کی حیثیت نہیں مل سکی۔ پھر جب مغل حکومت کمزور ہوئی تو یہ نوابین اودھ کے ذریعہ اس وقت کے اودھ اور آج کی یوپی میں پہونچی ۔ اور امرائے دکن کے ذریعہ یہ حیدر آباد دکن اور اس کے اطراف میں پہونچی، مگر سب سے زیادہ پزیرائی اس علاقے میں اسے حیدر آباد دکن میں ہی ملی ۔ اسی طرح یہ لاہو ر پہونچی۔ مگر اسے پورے ملک میں فروغ انگریزوں نے دیا جن کے لیئے ہندوستان میں سیکڑوں زبانیں سیکھنا اور بولنا سب سے مشکل کام تھا۔ جب کہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کسی کے دل میں اتر نے کے لیے اس کی زبان جاننا ضروری ہے کیونکہ اس سے آپس میں اپنائیت پیدا ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے دوسری اسلامی قدروں کی طرح یہ سبق بھی انہوں نے حضور (ص) کی حیات طیبہ سے لیا ہوگا کیونکہ جب ان کے پاس دور دراز علاقوں سے وفود آتے تھے تو وہ اسی قبیلے کی زبان میں اس سے بات کرتے تھے۔ انگریزوں کے دور میں ہی کلکتہ جو ان کاپہلا دارالحکومت تھا وہاں انہوں نے فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور اردو کی باقاعدہ درس اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں اسکو اشرافیہ کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ کیونکہ دین اور معاشرہ ہمیشہ حکمرانوں کا چلتا ہے۔
اسکے بعد جب تحریک آزادی شروع ہوئی تو صورت ِ حال یہ تھی کہ یہ ہی زبان عربی اور فارسی کے غلبہ کے ساتھ مسلمان بولتے تھے اور ہندو ہندی الفاظ کے غلبہ کے ساتھ بولتے تھے۔ جب مسلم لیگ نے دوقومی نظریہ پیش کیا تو اس کو اپنے منشور میں یہ کہہ کر شامل کرلیاکہ “مسلمانوں کا مذہب ان کی زبان ، طرز معاشرت سب علیٰحدہ ہے لہذا ان کو ان کے اپنے اکثریتی علاقوں میں حکومت کرنے کا حق حاصل ہے جہاں ان کا اپنا مذہب اور اپنی زبان اور طرز معاشرت ہو“ یہ تاریخ کا وہ خطرناک موڑ تھا جہاں سے یہ زبان متنازع بن گئی، ورنہ ہندؤں کی سب سے زیاد تعلیم یافتہ برادری جو کائستھ کہلاتی تھی ہم سے کہیں اچھی اردو بولتی لکھتی اور پڑھتی۔ مگر مسلمان اس پر بجائے ان کی ہمت افزائی کرنے کہ جو ان کی تلفظ میں فطری کمزوریاں تھیں اس کو پڑھ کر اور یہ کہہ کرناک ، بھوئیں چڑھاتے رہے کہ “ بوئے کچوری می آید “(اس میں کچوریوں کی بدبو آرہی ہے) تحریک ِ آزادی کے دوران یہ زبان سب جگہ سمجھی جانے کی وجہ سے بہت کارآمد ثابت ہوئی؟ اور گاندھی جی جو قائد اعظم کی طرح گجراتی تھے انہو ں نے بھی اسے سیکھا اور استعمال کیا۔ بلکہ وہ تو یہاں تک چلے گئے کہ حضرت قائد اعظم (رح) اور با بائے اردو مولوی عبد الحق (رح) کو دعوت دی کہ ایسا کریں کہ قومی زبان ایک ہی رہے ، مسلمان دیوناگری رسم الخط سیکھ لیں اور ہندو جوکہ پہلے ہی اردو رسم الخط استعمال کر رہے ہیں ان میں سے جو نہیں جانتے ہیں وہ اردو رسم الخط سیکھ لیں؟ مگر نمعلوم وجوہات کی بنا پر دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گاندھی جی آ خری وقت تک پاکستان کے مخالف رہے۔ جبکہ سیاست میں اردو کانام آنے کی وجہ سے مسلم لیگ نے اردوسے کافی فائدہ اٹھایا اور اسی وجہ سے اردو کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی؟
جب قیادت پنڈت نہرو کے ہاتھ میں آئی تو حالات یکسر بدل گئے ، جبکہ ان کی زبان اردو تھی؟ پھر باہمی نفرت نے اتنی شدت پکڑی کہ انہیں خود کہنا پڑا کہ ہم پاکستان دینے کے لیے تیار ہیں۔ لہذ انہوں نے اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں وہ تمام گھروندے ڈھا دیئے جس سے ا یک باہمی معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مراعات ملنا طے ہوئی تھیں اور ہندوستان کو ایک رہنا تھا؟ ۔ یہ وہ جملہ تھا جس نے ایٹم بم کا کام کیا کہ “ کیسا معاہدہ اور کس کامعاہدہ یہ تو آنے والی پارلیمنٹ طے کریگی کہ آئندہ ملک کا دستور کیسا ہوگا“ اردو بولنے والے اپنی مسلم لیگ دوستی کی بناپر غدار قرارپائے اور انہیں کے ساتھ اردو کو بھی اپنے تینوں قلعوں یعنی یوپی۔ دہلی اور حیدر آباد دکن سے دیس نکالا مل گیا؟ آزادی ملتے ہی چونکہ وہ پہلے ہی سے تیاریاں کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے راتوں رات پورے ملک میں سائن بورڈ بدل دیئے اور دیوناگری رسم الخط میں سنسکرت کے الفاظ کو ہندی کاجامہ پہناکر پوری طرح رائج ،بالکل اسی طرح زندہ کردیا جیسے کہ اسرائیل نے پانچ ہزار سال پرانی ابرانی زبان کو؟ نوبت ان کے یہاں، اس حد تک پہونچی کہ فرسٹ کلاس ویٹنگ روم کے مسافر بیت الخلا کارخ کرنے لگے اور بیت الخلاءکے متلاشی درجہ اول کے مسافر خانے میں جھانکنے لگے؟ تو نہرو جیسے کٹر ہندوستانی چیخ اٹھے اور اپنے ریلوے منسٹر پر ریلوے پلیٹ فارم پر ہی برس پڑے کہ “ منتری جی !ایسی زبان استعمال کرو کہ کم ازکم میں تو سمجھ سکوں “ ہندوستانیوں نے اپنی اس شدت پسندی کو جہاں تبدیل کرنا ضروری سمجھا وہاں نظر ثانن کرلی ؟جیسے کہ ان کی فلم انڈسٹری بالی وڈ جوکہ ہالی وڈ کی ٹکر پر تھی اور اب مرنے جارہی تھی۔ اس میں جو تبدیلی کی تھی وہ انہوں نے واپس لیکر اپنی ڈوبتی ہوئی صنعت کو بچالیا اور اسکے لیے فارسی اورعربی کے الفاظ اپنی ڈکشنری میں شامل کرلیے؟جبکہ اس کے برعکس ہمارے یہاں عملی کام کم اور نعرے زیادہ لگاؤ کا اصول رائج رہا؟ پہلے پاکستان کا اکثریتی صوبہ ناراض ہوا۔ جہاں اردو کا اتنا احترام تھا کہ اگر اردو میں لکھا ہوا ردی کاغذ بھی سڑک پر پڑاہوتا تو وہ چوم کر اور اٹھاکر کہیں رکھدیتے؟ اب اسی کو وہ پاؤں سے روند کر گزرنے لگے ۔
آخر بڑی مشکل سے 1956 کا دستور بنا جو کہ برابری کی بنیاد پر تھا؟ انہوں نے اپنی چار فیصد اکثریت اپنے مغربی پاکستان کے بھائیوں کے لیے چھوڑدی ۔ مغربی پاکستان کو برابر لانے کے لیے سب صوبوں اور ریاستوں کو ملاکر یک صوبہ بنا یا گیا؟ جس کی سرکاری زبان اردو بنانے کا اعلان ہوا۔ اس کے نتیجہ میں مقامی زبانوں کو چھیڑ دیا گیا اور سندھی جو مقامی زبانوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مکمل تھی۔ ان کے یہاں بھی سندھی ختم کر کے اردو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تو یہاں بھی اردو معتوب ہوگئی۔ مختصر اًیہ کہ پاکستان دولخت ہوگیا ؟ اور ونٹ یونٹ پاکستان بن گیا۔ صوبے بحال کردیئے گئے۔ سندھ میں لسانی فسادات شروع ہوگئے؟ پھر1973 کا دستور بن گیا اور اس میں اردو کو بطور قومی زبان کے اپنانے کے لیے ایک مہلت رکھدی گئی جس پر کبھی عمل نہیں ہوا ؟ اور اس پر ظلم یہ ہوا کہ تمام اسکول قومیا لیے گئے اور بد انتظامی کی وجہ سے وہ سب کے سب اسکول فیل ہوگئے جہاں اردو پڑھائی جاتی تھی۔
جبکہ اشرافیہ شروع سے ہی سے عام اسکولوں کے بجائے اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلاکر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن اور امریکہ بھیجدیتی تھی؟ ہماری قیادت اس سلسلہ میں شروع سے ہی اپنے منشور کے سلسلہ میں مخلص نہ تھی؟ جس کی وجہ سے وہ کردار کا حصہ نہیں بن سکا۔ نہرو لیاقت معاہدے کے موقعہ پرجب پنڈت نہرو پاکستان آئے تو لیاقت علی خان سوٹ میں ملبوس تھے جبکہ نہرو شیروانی میں تھے؟ انہوں نے اردو میں تقیریر کی جبکہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی میں ۔اس پر انہوں نے طعنہ دیا کہ “ مسٹر لیاقت علی! یہ ہی وہ تہذیب ہے جسے تم بچانا چاہتے تھے “ہماری اس گومگوں کی پالیسوں نے جو ابھی تک جاری ہیں قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑا؟ کبھی بات صاف نہ کی جس سے بد گمانیاں پیدا ہوتی رہیں ؟ دستور دیکھئے تو آپ کو نظر آئے گا کہ یہ کسی ایسے ملک کا دستور ہے جہاں کے لوگ اس پر عمل کرکے اب تک فرشتے بن چکے ہونگے؟ مگرعملی طور پر کیا ہے ،اسے جانے دیجئے میں نہیں بتاؤںگا ، جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “ مسلمانو ایسی بات کہتے کیوں ہو جس پر عمل نہیں کرتے ،یہ بات اللہ کو سخت ناپسند ہے “ لیکن ہم لوگ کچھ بھی کریں اسکے باوجود اللہ کے پسندیدہ اور بر گزیدہ بندے ہیں ؟
اب ایک اردو کے عاشق جناب اقبال صاحب زر کثیر خرچ کرکے سپریم کورٹ تک پہونچ گئے ہیں( حالانکہ یہ کام انہیں کرنا چاہیے تھا جو اردو کے طفیل دولت میں کھیل رہے ہیں) اور خبر یہ ہے کہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر حکومت سے یہ پوچھ کر بتائیں کہ اردو دستور کے مطابق قومی زبان کب بنے گی؟ جولوگ دستور کی اسلامی دفعات نافذ کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ اراکین چیخ اٹھتے ہیں کہ خدارا یہ قانوں ہم پر لاگومت کریں ورنہ ہم سب نا اہل قرار پا ئیں گے؟ جبکہ ،جن کے نفاذ کی کوئی مسلمان تو مخالفت کر ہی نہیں سکتا، اسکے ساتھ یہ سلوک ہے تو اردوتو صرف زبان ہے جو جز دستور ہے جزِ ایمان نہیں ہے اسے کون برداشت کریگا؟ دیکھیں حکومت اسکے بارے میں کیا کہتی ہے اور عدالت کیا حکم دیتی ہے؟ ہمارا مشورہ حکومت کو یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ صاف صاف کہدے کہ دستور ہم نے اچھا دکھانے کےلیے بنایا ہے اور عمل کرنے کے لیے نہیں تاکہ عدالتوں کا وقت بھی بچے اور حکومت کو بھی دستور ِ پاکستان سے آزاد ہوکر کھل کھیلنے کاموقعہ ملے؟ تاکہ ہمارے بہت ہی مقتدر شاعر جناب رئیس امروہوی کی یہ پرانی خواہش پوری ہوجائے کہ ً اردو کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ً اور ان کی بیچین روح کو سکون مل سکے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے