اچھا برا ہے کیا پہچان جا ئیے۔شاید بچا ہو وقت ابھی مان جائیے۔۔۔ آج میں اپنے ہی اس شعر سے مضمون کی ابتدا کر رہا ہوں؟ جس کی جراءت شاید ہی مجھ سے پہلے کسی مجھ جیسے چھوٹے آدمی نے کی ہو؟ یہ میں شعر اس لیئے استعمال کر رہا ہوں کہ آج کا دور تو بہت ی مصروف دور ہے۔ جب لوگوں کے پاس بہت سافالتو وقت تھا تو بھی وہ اشعار کو بڑے سے بڑا مضمون بیان کر نے کے لیئے ترجیح دیاکرتے تھے ۔ جبکہ آج نہ تو وہ سخن فہم لوگ ہیں اور نہ ویسے صاحب ذوق؟ جیسے کہ یہ شعر ع “حد سے نہ بڑھا پاکی ِ داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ “ غور فرمائیے کیسا منہ سے بولتا شعر ہے اور اس میں کمال کی منظر کشی ہے؟
اپنے ایک پچھلے مضمون میں، میں نے اپنی مسلمان بہنوں کی توجہ اس طرف دلائی تھی کہ وہ ہوشیار ہوجا ئیں اب شدت پسندی کے ہاتھوں ان کی بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب اسی کے ساتھ بھائیوں کی بھی توجہ اس طرف مبذول کرا رہا ہوں۔جبکہ اس عفریت کے ہاتھوں انکی ازدواجی زندگی بھی محفوظ نہیں ہے اور یہ عفریت اس راستے سے بھی بستے ہوئے گھروں کو بھی ڈسنے لگی ہے۔ جسے ملا اور ملانیوں کے علاوہ ان کے پیرو کٹھ ملے، یاملانیاں چلا رہی ہیں جو انہیں کے معتقد ہیں ۔اور وہی جدید ذرائع یعنی سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہر گھر میں گھس گئے ہیں ۔
جہاں حصول جنت بہت ہی آسان بتایاجارہا اور اتنی تحریص اسکے ذریعہ پھیلائی جارہی ہے جس کا گواہ ایک تازہ واقعہ ہے کہ آسٹریلیا کی ایک شادی شدہ خاتون اپنے شوہر سے طلاق لیے بغیر اور ان کو اطلاع دیے بغیر شام میں جہادیو ں کی خدمت کرنے چلی گئیں ۔اور آیا کے پاس اپنے دو سال اور پانچ سال کے دو بچے چھوڑ گئیں؟ اس میں جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ شوہر نے یہ جان لیا تھا کہ ان کی بیوی کے کسی جہادی خاتون سے تعلقات ہوگئے ہیں ۔ جس کو انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی ؟ یہ ہی غفلت انہیں لے ڈوبی ؟ اگر وہ ذرا سی بھی توجہ دیتے تو شاید نوبت یہاں تک نہیں آتی؟ اور آج اپنی ایک عشرے پر محیط ازدواجی زندگی کاماتم نہیں کر رہے ہوتے؟
اسلام پر اس سے برا وقت اسے پہلے کبھی نہیں آیا؟ سب سے برا وقت وہ تھا جبکہ خارجیت نے سر اٹھایاتھا؟ اس کے باوجود کہ حضور (ص) نے اسکی اطلاع بہت پہلے دیدی تھی؟ ان کے حلیہ تک بتادیے تھے یہ بھی بتادیا تھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے مدینت العلم کو کہ ان کی قراءت تم سے اچھی ہوگی ۔ شکلیں نورانی اور مقدس ہونگی اور وہ آخر میں تمہارے ہی ہاتھ سے مارے جائیں گے۔؟اگر تاریخ میں جائیں تو یہ سب آپ کو وہاں مل جائے گا، خارجی بھی آج کی طرح اسی خبط میں مبتلا تھے، کہ صرف ہم ہی مسلمان ہیں باقی سب قابل ِ گردن زدنی ہیں ان کا مال اور جان اور عزت ہمارے لیے سب حلال ہے؟ جبکہ اسوقت ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کی وہ خاکِ پا کے برابر بھی نہیں تھے۔ چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا۔ عام آدمی کی تو بات ہی کیا آخری وقت تک بڑے بڑے جید عالم اور کچھ صحابہ کرام (رض) مذبذب رہے۔ اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کی ابتدا بھی اس دور کے عمال کے ہاتھوں نا انصافیوں سے ہوئی؟ چونکہ اس وقت ان کی قیادت حفاظ کے ہاتھوں میں تھی لہذا انہیں کی قیادت میں انہوں نے دارالحکومت کی طرف رخ کیا ان کے مطالبوں میں ان ظالم قسم کے حکام کو بر طرف کرنے کامطالبہ تھا۔ جنکا سرخیل مروان بن الحکم تھا جس کے والدالحکم بن امیہ کو حضور (ص) نے مدینہ منورہ بدر قرار دیکر جلاوطن فرمادیا تھا اور وہ طائف میں قیام پذیر تھا، بعد میں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) بھی اسی پر عامل رہے ان کے وصال کے بعد اسکی نہ صرف جلا وطنی ختم ہوگئی بلکہ اس کے بیٹے مروان کو حضرت عثمان (رض) سے شرفِ دامادی حاصل ہوگیا اور وہ حضرت عثمان (رض) کاکا تب (سکریٹری ) بھی بن گیا اور مہر خلافت اس کے پاس رہنے لگی ، چونکہ وہ جعل سازی میں ید طولا رکھتا تھا لہذا وہ جعلی فرمان اورجعلی مکتوب ان کی طرف سے جاری کرنے لگا۔ وہ عامل جو اس سے متعلق تھے شیر ہوگئے اور عوام پر ظلم کرنے لگے ۔اس کی وجہ سے حالات نے یہ موڑ لیا؟ دوسری طرف حضرت عثمان (رض)نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے اور خارجیوں کے درمیان ثالث مقرر کردیا ان کی کوششوں سے وہ مطمعن ہوکر اور محاصرہ چھوڑ کر واپس چلے گئے اور ابھی وہ راستہ میں ہی تھے کہ اس نے ان کے مطالبوں کی شکل میں؟جب اپنی اور اپنے ساتھیوں کی موت محسوس کی تو اس نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا کہ ایک جعلی خط حضرت عثمان (رض) کی طرف سے بھیجا جس میں خارجی لیڈروں کی موت کاحکم عمال کے نام تھا۔ جو راستے میں واپس جاتے ہوئے خارجیوں نے پکڑلیا؟ وہ واپس آگئے مدینہ منورہ کا دوبارہ محاصرہ کرلیا؟ اس مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مداخلت کرنے سے انکار کردیا کیونکہ گزشتہ معاہدے پر حضرت عثمان (رض) کے نرم الطبع ہونے کی وجہ سے کوئی پیش رفت ہی نہیں ہوئی تھی۔ جب خارجیوں نے کوئی مزاحمت نہ دیکھی تو ان کی ہمتیں اور بھی بڑھیں اور انہوں نے حضرت عثمان (رض) کے گھرکا محاصرہ کرلیا۔تمام شہر بدستور غیر جانبداری اختیار کیے رہا اور اس فتنے کو اہمیت نہ دی؟ جو اس سے ثابت ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عثمان (رض) کی طرف سے تلوار اٹھانے کی اجازت چاہی ان کے نام تاریخ میں میں موجود ہیں جنکی تعدادانگلیوں پر گنی جاسکتی ہے؟ اس پیشکش کو بھی انہوں (رض) نے یہ فرماکر رد کردیا کہ میں اپنے (رض)اقتدار کے لیے خون نہیں بہانا چاہتا، اپنے غلاموں اور مزید یہ کہ اپنے ذاتی محافظوں کو بھی رخصت کردیا جن کی تعداد بعض روایات کے مطابق سات سو تھی ! وہی محاصرہ ان کی شہادت پر ختم ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہ
پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سب نے زور ڈال کر خلافت کے لیے تیار کیا جس کی لیے وہ با لکل تیار نہ تھے؟ پھر بھی انہوں نے مشروط طور پر اسے قبول کیا کہ اگر تین دن تک کوئی خلافت کا دعویدار پیدا نہ ہو تب وہ قبول فرما ئیں گے ؟ جب تین دن تک بھی کوئی تیار نہ ہوا تو انہیں خلافت قبول کرنا پڑی ۔ اس کے بعد ان کے اپنوں نے ہی نا سمجھی میں انوکھے مطالبات کاشروع کر دیے کیونکہ سابقہ فتنہ ابھی تک مروان کی شکل میں موجود اور سرگرم تھا؟ ان مطالبات میں سب سے اہم حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دینا تھی؟ دیکھنے میں یہ مطالبہ بڑا آسان لگتا تھا،جوکہ انہیں حکام کی طرف سے کیا گیا جن کااب بھی مروان مشیر اعلیٰ تھا، اس پر انہوں نے قطعی غور نہیں کیا کہ مدینہ منورہ ابھی تک محاصرہ کی حالت میں ہے؟ حالانکہ یہ بات بخوبی ان اپنوں کے علم میں بھی تھی جو صبح تک حضرت علی کرم اللہ وجہ کو خلیفہ بنا نے پر پورا زور صرف کر رہے تھے ،مگرشام کو وہی یہ مطالبہ لیکر آئے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسکے لیے کچھ وقت مانگا تاکہ وہ حالات کو سنبھال سکیں ؟ وہ ناراض ہوکر مکہ معظمہ چلے گئے جبکہ مروان پہلے ہی لوگوں کو وہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف مشتعل کر رہا تھا جو حج کے لیئے گئے ہوئے تھے۔ جبکہ دوسری طرف مدینہ منورہ کی آبادی بدستور غیر جانبدار رہی؟ دوسرے کوئی عینی شہادت حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کے سلسلہ میں موجود ہی نہ تھی کہ حضرت عثمان (رض) کوکس نے شہید کیا کیونکہ خارجیوں کے سوا وہاں اور کوئی موجود ہی نہ تھا سوائےان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ کےجن کا تعلق قبرص سے تھا وہ مقامی لوگوں پہچانتی بھی نہ تھیں۔جبکہ خارجی سب یک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ ہم سب نے مل کر حضرت عثمان (رض)کو قتل کیا ہے جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، تاکہ ان میں سے کسی کا مواخذہ نہ ہوسکے؟
اگراسوقت بھی اہلِ مدینہ اپنی غیر جانبدار ی ختم کردیتے تو شاید تاریخ کچھ اورہوتی؟ مگر سب اسی مسئلہ پر مذبذب رہے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں اور جہاد صرف کافروں کے ساتھ لکھا گیا ، وہ ہم نے حضور (ص) ہمراہی میں بخوبی کرلیا جو ہماری لیے کافی ہے ؟
آج ہم بھی اسی طرح تذبذب کا شکارہیں کیونکہ تاریخ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا؟ ان کی شکلوں سے مرعوب ہوجاتے ہیں ان کے بیانوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں جبکہ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ “ اچھی باتیں تو برے لوگ بھی کر لیتے ہیں “۔ جس کے وہی نتائج نکل رہے ہیں جو ہمارے سامنے آج آرہے ہیں ۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہم میں اچھی خاصی تعداد شدت پسندوں سے ہمدردیا ں رکھتی ہے یا مذبذب ہے۔ یادرکھیے یہ مذہب چونکہ قیامت تک لیے ہے؟ اسی لیے اس میں ہر موقع اور محل کے لیے اسکے رہبر محمد مصطفی نے تمام احکامات پہلے ہی دیدیے تھے کہ “ اگر ایسا ہو تو ایسا کرنا؟ انہیں میں شدت پسندی کے خلاف کاروائی کرنے کاحکم بھی شامل ہے؟ کیونکہ اسلام اور شدت پسندی دو علیٰحدہ چیزیں ہیں ۔ جنہوں نے اس صدی کے اوائل میں اسے فروغ دیا تھا، اپنے مزموم عزائم کو حاصل کرنے کے لیے۔ وہ اب خود اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ؟اس کا حل یہ ہی ہے کہ اسوہ حسنہ (ص) کی روشنی میں تمام امت شدت پسندی خلاف کے خلاف متحد ہوکر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوجائے،اور سب ملک کر اسکاتدارک کریں۔ اللہ ہمیں وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
ہمارے پاس ابھی وقت ہے کہ اپنی سوچ کو بدلیں ،اور ان کے فلسفہ جھٹلادیں جو ساری توضیحات اسلام سے ہی پیش کر کے ہماری ہمدریاں حاصل کر رہے ہیں ۔ اور ساتھ ہی اس طرز حکمرانی کا وہ بیش بہا نمونہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ چل کرکیسے حکمراں ثابت ہونگے ؟ جو کے سراسر اسلام کی روح کے خلاف ہے؟ یہ تضاد اس وجہ سے ہے کہ وہ انہیں کا تسلسل ہیں جنہوں نے انہیں پہلے یہ ہی تعلیم دی تھی ۔