سب سے پہلے یہ ا سلامی تاریخ میں اس وقت نظر آتا ہے۔ جب سورہ عبس کی بارہ آیتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے نبی (ص)کی توجہ بہت ہی محبت بھرے انداز میں نازل فرماتا ہے اور ان کی توجہ ایک ایسے نابینا کی طرف مبذول فرماتا ہے ، کہ وہ جب کوئی بات پوچھنے کے لیے دربار ِ رسالت مآب (ص) تشریف لائے اور اپنی قدرتی معذوری کی بنا پرادراک نہ کرتے ہوئے کوئی علمی سوال پوچھ لیا، اور حضور (ص)اس وقت سرداران قریش سے مصروف ِگفتگو تھے؟ ان کا مفسرین نے نام عبد اللہ بن اُمِ ِ مکتوم لکھا ہے۔ یہ ہر ایک جانتا ہے کہ جب کوئی شخص کچھ لوگوں کے سامنے اہم گفتگو کر رہا ہو اور اس کا تسلسل ٹوٹ جا ئے تواسکی وجہ سے تھوڑی بہت ناگواری ضرور محسوس کرتا ہے چاہیں کتنا ہی حلیم کیوں نہ ہو۔ یہ فعل حضور (ص) سے سر زد شاید نہ بھی ہوا ہو جو کہ تقاضہ بشریت تھا، کیوں کہ ان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہر وصف میں کامل بنایا تھا؟مگر ہماری رہنمائی کے لیے؟ وہ جو کہ دلوں کے حال جانتا ہے اس نے فوراً اپنے محبوب کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ آپ کو پہلی تر جیح تقویٰ کی بنا پر ان صحابی کودینا چاہیے ۔ پھر پہلی بارہ آیتوں میں یہ تلقین ہے کہ بعضے آنکھ سے بینا ہونے کے باوجود دل کے اندھے اور کانوں کے بہرے ہوتے ہیں ۔ “ان سے بہتر ہیں اللہ کے نزدیک وہ جو دل کے بینا ہوں “ نبی کریم (ص)جو کہ سب سے زیادہ احکامات کا خیال رکھنے والے تھے، انہوں نے ان کے ساتھ اور ان جیسے معذروں کے ساتھ اپنی بقیہ حیات منورہ میں کیسا خیال رکھا وہ یہاں دہرانے کی گنجائش نہیں ہے کہ واقعات بہت سے ہیں ؟ اسی طرح کی مثال ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کے بارے میں بھی ہے۔ جن کی انہیں کی طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فوراً سن لی اور سورہ مجادلہ کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں، ان کے ساتھ حضرت عمر (ص) کا خصوصی برتاؤ امت کے لیے سبق ہے ۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن جب وہ کہیں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے تو ایک خاتون سامنے آکر ان کو نصیحتوں سے نوازنے لگیں اور ان کو ان کا ماضی یاد دلانے لگیں، جس کا لب ِلباب یہ تھا کہ تمہیں یہ سب عظمت اسلام کی وجہ سے عطا ہوئی ہے ۔ ورنہ تم کیا تھے؟جب وہ خاتون خاموش ہوئیں اور وہ ساتھیوں کے پاس واپس آئے تو ساتھیوں نے کہا کہ اے امیر المونین ! آپ نے خوامخواہ ایک بو ڑھی کی باتیں سننے پر اتنا وقت خرچ کردیا ؟
حضرت عمر (رض) نے فرمایا جانتے ہو وہ کون تھیں ؟ اگر وہ پورا دن اور رات مجھے نصیحت فر ماتی رہتیں تو بھی میں صرف نمازوں کے لیے وقفہ کرتا اور ان کی باتیں سنتا رہتا ؟ اس لیے کہ یہ وہ خاتون ہیں جن کی بات اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فو راً سا تویں آسان پر سن لی تھی؟
یہ جواب سن کر ساتھیوں نے سرجھکالیا؟ اس میں ہمیں تین سبق ملتے ہیں ایک تو یہ کہ ہرایک حکمراں کو اپنی اوقات پہچاننا چاہیے کہ اسے جو کچھ ملا ہے وہ اسلام کے طفیل ہے نہ وہ مسلمان ہوتا نہ ہی اسلامی ریاست کا سربراہ یا اہلکار بنتا؟ دوسرے یہ کہ وہ ان کا بھی احترام کرے جن کو اللہ سے کسی طرح کی نسبت ہو اور کہیں سے یہ ثابت ہے کہ وہ دربارِ باری تعالیٰ میں صاحب اعزاز ہیں ، خاص طور پر جو اہلِ تقویٰ ہیں ان کا احترام سب سے زیادہ کرناہے ؟تیسرا سبق یہ کہ صحابہ کرام اور تابعین بھی وقت کی اہمیت کو بہت زیادہ ترجیح دیتے تھے کہ انہوں نے اپنی بے خبری میں خلیفہ کے اس فعل پر بازپرسی کی ؟ جبکہ ہم ہمیشہ وقت ضائع کرنے کے عادی ہیں کیا اس سے اسلام کے نام لیوا کوئی سبق لینا پسند کریں گے ؟ کیونکہ یہ تو ان کی باتیں ہیں جن سے اللہ راضی تھا اور وہ اللہ سے راضی تھے؟
اب آئیے ہم اسی سے رہنمائی لیکر اپنی باتیں کریں؟ افسوس کہ ہمارے کردار اس کے قطعی بر عکس ہیں ؟ ہم جو اہلِ تقویٰ ہیں انہیں ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں ۔اور اہل ِ اقتدار اور جو صاحب زر ہیں ان کو ہمیشہ ان پرترجیح دیتے ہیں ؟ اگر ہماری ترجیحات وہی ہوتیں جو مسلمان ہونے کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول (ص) کی ہدایات ہیں، تو آج ہر مسلمان ریاست کا منظر کچھ اور ہوتا؟ کیونکہ ہمیں احساس ہوتا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جن صلاحیتوں سے، جن نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے، وہ چونکہ ہماری اپنی نہیں ہیں بلکہ بطور امانت ہماری تحویل میں دی گئیں ہیں اور اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے ہم امین بنا ئے گئے ہیں! اس لیے نہیں کہ اس میں ہم خیانت کریں ؟
بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے امیروں کو منتخب کرنے کا جو ووٹ کی شکل میں حق دیا ہے جس کے لیے ہم سب مکلف ہیں کہ ہم اپنا ووٹ ان کے لیے استعمال کریں جو متقی ہیں ؟ مگر ہم ووٹ دیتے ہوئے اس کو با الکل نظر انداز کردیتے ہیں ۔ ہمارا رویہ قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں سے قطعی مختلف ہے۔ زیادہ تر ووٹ ہم خوف کی وجہ سے دیتے ہیں کیونکہ ہمارے کان میں یہ امید وار کی طرف سے کہدیا جاتا ہے کہ بچو! یاد رکھنا کہ رہنا تو یہیں ہے ،واسطہ تو ہمیں سے پڑیگا ؟ جبکہ مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتا ہو؟ پھر دوسری ترجیح ذات برادری ہے اور اپنا آدمی ہے، بلکہ اول ترجیح ذاتی مفادات ہیں کہ ہمیں اس سے کیا فائدہ پہونچے گا؟ بات بنے تو کیسے بنے؟ آپ پتھروں میں اگر دل تلاش کریں گے تو اپنا ہی سر پھوڑلیں گے؟ اس میں مجبوریاں بھی حائل ہیں، کہ پہلی مجبوری تو یہ ہے کہ اصل اورنقل کو کیسے پہچانیں ۔ کیونکہ جو اہلِ تقویٰ ہیں ان کی دکانیں نہیں پروپیگنڈہ کرنے والے چیلوں کی فوج نہیں ہے وہ صرف کردار سے پہچانے جاتے ہیں ؟ ان کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے نیچے کتنے کروڑ کی کار ہے ؟ بلکہ یہ “ آو بھگت ہو تو انہیں خوشی نہیں ہوتی ،نہ ہوتو غم نہیں ہوتا ہے“ البتہ جعلی اہلِ تقویٰ کی باقاعدہ دکانیں ہیں، چیلوں کی فوج ہے ۔ جس سے لوگ مرعوب ہوتے ہیں ؟ لہذا ہم انہیں کو اپنے ووٹ سے نواز تے ہیں جو نام ونمود کے قائل ہیں ؟
پھر ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ انصاف کریں گے؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فائیلیں دبی کی دبی رہتی ہیں جن کے پہیے نہیں ہوتے؟ان میں میں ایک مسئلہ یہ نابیناؤں کا بھی ہے؟ جو پاکستان بنتے ہی معرض ِ وجود میں آگیا تھا ؟ ان میں وہ نابینا شامل تھے جن کے دیکھ بھال کرنے دوران فساد شہید ہوچکے تھے۔ اب ان کا کوئی والی وارث نہیں تھا کہ ان سے کسی کو کیا لینا اور وہ ایسا بار تھے جن کو کوئی بھی قبول کر نے کو تیار نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد ابتدائی دنوں میں نابیناؤں کی ٹولیاں کی ٹولیاں اجتماعی یا انفرادی طور پر بھیک مانگنے کے لیے نکلا کر تی تھیں اور کچھ با جماعت اور بقیہ بے جماعت آواز لگاتی تھیں کہ “ با با انکھیاں بڑی نعمت ہیں “چونکہ اس زمانے میں کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا ۔ اور غیر ملکی سربرا ہان مملکت دورے کرتے رہتے تھے اس لیے کہ ملک نیا نیا، بنا تھا اور وہ بھی اسلام کے نا پر؟ یہ چونکہ راستوں پر کھڑے ہواکرتے تھے اور ان اہلِ اقتدار کو شرمندہ کرنے کا باعث بنتے تھے جن میں شرم باقی تھی ۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ سب کو پکڑ کر ایک دن پولس لے گئی اور گھارو کے پاس محتاج خانے( بیگر ہاؤس) میں لے جاکر چھوڑ دیا؟ یہاں سے ان کے معاملات میں پولس دخیل ہوئی اور رشوت کا بازار گرم ہوا، کچھ پیسے دے کر وہاں جانے سے بچ گئے، کچھ ہاتھ نہیں آئے نقل ِ مکانی کرکے پورے ملک میں پھیل گئے، جو بچے وہ گینگ والوں کے ہاتھ آگئے اور ان کے ذریعہ پولس کی کمائی کا ذریعہ بن گئے؟ جیسے کہ ہمارے یہاں جیلوں کا نظام ہے کہ وہاں کنکر ملی پتلی مسور کی دال ملتی ہے ،یہاں بھی وہی ان کو دی گئی جبکہ وہ اس کے عادی نہ تھے کیونکہ وہ گھروں کو چھاننے اور مرغن غذاؤں کے عادی ہوچکے تھے۔ دوسرے وہاں انہیں کرنے کے لیے کوئی کام بھی نہیں تھا اگر حکومت وہاں ان کو معاشرے کے لیے کار آمد بننے کا موقع دیتی اور کوئی ہنر سکھانے یا ان کی تعلیم کا بندوبست کرتی تو آج نتائج کچھ اور ہوتے۔ وہ اس ماحول سے اکتا کر بھاگتے رہے اور راز جب کھلا کہ ان میں کے تین مفرور کراچی آنے والی پانی کی پائپ لائین کا دروازہ توڑ اس میں کود گئے اور پانی انہیں بہا لے گیا پھرپائپ لائین کو صفائی لیے بند کر نا پڑا ؟ اس کے بعد ذکر کبھی نہیں ہوا کہ اس امحتاج خانے کا کیا ہوا؟ اگر بجا ئے اس کے حکومت انہیں تعلیم دیتی دستکاری سکھاتی تو آج وہ معاشرے میں ضم ہوچکے ہوتے ، حالانکہ پاکستان بننے سے پہلے پورے ہندوستان میں بصارت سے معذور لوگوں کے اسکول قائم ہو چکے تھے ، اور وہاں کے فارغ التحصیل ایک صاحب کا جو پاکستان آکر ایوب خان کے دور میں ایک شہری مسلم لیگ کے صدر بن گئے تھے ، کو غیر ملکی مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا جاتا تھا کہ یہ راجھتسان سے پہلے معذور گریجویٹ ہیں ۔ ایک اور صاحب کو بھی میں جانتا ہوں جو کرامتی طور پر تشریف لائے ، یہاں آکر تعلیم حاصل کی اور وہ ایک یونیورسٹی میں ایک شعبہ کے سر براہ بنے۔ لیکن وہ انفرادی کوششیں تھیں جو دال میں نمک کے برابر تھیں؟ ان کے مسائل اپنی جگہ رہے نہ کسی سیاستدان نے ان کے لیے کام کیا نہ کسی مخیر نے اور نہ ہی کسی چیف جسٹس نے نوٹس لیا؟ اور آج بھی صورت ِ حال یہ ہے کہ خواجہ سراؤں تک مسائل حل ہو گئے اگر نہیں تو ان کے؟ سب کے حامی موجود ہیں ان میں ملکی اور غیر این جی اوز بھی ہیں ؟ مگر نہیں ہے تو ان بیچاروں کا کوئی پرسان حال؟ وہ ہڑتال بھی کرتے ہیں تووسیع دسترخوان والے مخیر حضرات حرکت میں نہیں آتے کہ ان کو کم ازکم اس وقت بھوک مٹانے کا کوئی بندوست کر دیں جب وہ اپنی جانیں سڑکوں پر خطرے میں ڈالے لیٹے ہوں ؟
اب کئی مہینے سے صورتِ حال یہ ہے کہ وہ لاہور میں ہڑتال کا شغل اپنا ئے ہوئے ہیں ، اور صرف ان وعدوں پر عمل چاہتے جو صوبائی حکومت وقتاً فوقتاً ان سے کرتی رہی ہے؟ وہ پورے یوں نہیں ہوسکے کہ اگر ملازمتوں میں جو ان کا کوٹہ ہے وہ ان کو دیدیں ۔ جبکہ ساری آسامیاں برائے فروخت ہیں تو وہ نقصان کہاں سے پورا ہو گا لہذا خبر یہ ہے کہ کئی محکموں نے وزیر اعلیٰ کے احکامات کانوٹس ہی نہیں لیا؟ جبکہ عذر ِ لنگ یہ ہے کہ بقول ایک وزیر کہ “ ان کے گروپ بہت ہیں ؟ ایک گروپ کی مانتے ہیں تو دوسرا ناراض ہو جاتا ہے؟ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہر حکومت پچھلی سات دہائیوں سے ہر چیز کے نفاذ میں ڈھال بنا لیتی ہے؟ مثلا ً اسلام اس لیے نافذ نہیں ہوسکا کہ فرقے بہت تھے ،لہذا کونسا اسلام نافذ کریں ؟ شاید “اردو“ بھی اسی لیے نافذ نہیں ہوسکی کہ کونسی اردو؟ الحمد اللہ ہم سب مسلمان ہیں جن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عمارت میں اینٹوں کے مانندہوتے ہیں کہ ہر اینٹ سے دوسری اینٹ کو تقویت ملتی ہے؟ جبکہ ہماری صورت حال مختلف ہے؟ ہر اینٹ دوسری اینٹ سے بھاگتی ہے ؟اگر ان معذوروں کے رشتہ دار ہی انہیں اپنا لیں تو بھی ان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ کیونکہ ہمارے یہاں صلہ رحمی کا بدلہ دہرے ثواب کی شکل میں ملتا ہے اوردرازی عمر اور رزق میں برکت مفت میں عطا ہوتی ہے؟ جبکہ اس کی سزا جلد ہی دنیا میں ہی ملنے کے بارے میں قرآن اطلاع دے رہا اور بعد میں آخرت میں جو سزا ملے گی وہ تو ملے گی ہی۔ ہے کوئی اس پر کان دھرنے والا؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے