لو وہ بھی کہہ رہے ہیں۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

آج کل محاوروں کارواج آہستہ ، آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، یہ بھی  کبھی شعر کی طرح ذریعہ تھا چند لفظوں میں بہت کچھ کہہ دینے کا مثلا ً چھاج بولے تو بولے چھلنی بھی بولی جس میں بہتر سوچھید “ یہ اس موقع پر بولا جاتا تھا جب کوئی انتہائی داغدار کردار رکھتے ہوئے اپنی پارسائی بیان کرے؟ آجکل دو ایسے ہی جڑواں بھائیوں کی برہمی کی خبریں آرہی ہیں ، جوکبھی ایک دوسرے کو الزام دیتے پائے جاتے ہیں کبھی آپس میں مل جاتے ،تو کبھی روٹھ جاتے ہیں۔ کل ا یک پٹی ٹی وی پر چلتے دیکھی کہ دونوں بھائیوں میں فون پر رابطہ ہوا ہے اور یہ طے پایا کہ “ ایک سر زمین پر رہنے والوں کوایک ساتھ جینا اور مرناچاہیئے “ بڑا اچھا جذبہ ہے مگر مسلمانوں کو نہ جانے کیوں اس میں کانٹے نظر آتے ہیں، شاید اسکی قومی وجہ یہ رہی ہو کہ قومی شاعر علامہ اقبال (رح) کہہ گئے ہیں “ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے “ یا پھر وجہ یہ ہو کہ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ  “ صرف بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرو برائی میں نہیں “ اس لیے ہر مسلمان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ دین کے بجائے، زمینی یا خاندانی رشتوں کا خیال کرے؟
بھانت کی خبریں آرہی ہیں، دیکھئے کل کیا ہو، ہم کبھی فوج کے ثنا خواں نہیں رہے اس پر ہمارا83 سالہ ریکارڈ گواہ ہے۔ ا س لیے کہ ہمارے خیال میں فوج پاکستان کے بننے کے چند مہینوں کے بعد ہی سے سیاست میں اس لیے دخیل ہوگئی کہ اس وقت کے وزیر اعظم کو اپنی حکومت چلانے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑ گئی تھی، وہ دن اور آج کا دن فوج نے کبھی سامنے آکر حکومت کی کبھی پیچھے رہ کر حکومت چلائی ؟ لیکن اس میں بھی اسکی غلطی نہ تھی غلطی تو ان سیاست دانوں کی تھی جنہوں نے اسے بیساکھی بنا یا اگر وہ بیساکھی نہ بناتے تو سیاستداں اپنا کام کرتے ا ور وہ اپنا کام کر تے، جیسا کہ جمہوریت  میں ہوتا ہے؟ چونکہ اچھے برے سبھی میں ہوتے ہیں لہذا کبھی اچھے جنرل آئے کبھی برے جنرل آئے ؟ جب اچھے جنرل آئے حالات اچھے ہوگئے جب برے جنرل آئے تو حالات خراب سے خراب تر ہو گئے۔ یہ مختصرسی ہماری داستان ہے؟
جیسے کہ ہم نے تصوف کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک مرید نے اپنے پیر سے پوچھا کہ آجکل دہلی کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ قطبِ دوراں نرم خو ہیں ہے؟ کیونکہ اہل ِ تصوف کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا وی نظام کے متوازی ایک روحانی نظام بھی قائم ہے ؟ اور قطبِ وقت کی افتادِ طبع بھی بہت کچھ نظام دنیا کو متاثر کرتی ہے؟ مرید نے کہا کہ حضرت میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آجکل کے قطب کون ہیں اور وہ کیسے ہیں ؟تو انہوں نے بتایا کہ جامع مسجد چلے جاؤ وہاں سیڑھیو ں پر ایک صاحب بیٹھے خر بوزے فروخت کر رہے ہو نگے، جاکر دیکھ لو! وہ ان کے پاس پہونچے اور ایک خربوزہ خریدا کاٹ کر چکھا اوریہ کہہ پھینک دیا کہ “پھیکا “ ہے اس کے بدلے میں دوسرا مانگا اور وہ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے پیش کردیا کہ “ کوئی بات نہیں ہے بیٹا!دوسرا لیلو ؟ کچھ عرصے کے بعد دہلی کے حالات سدھرنے لگے تو اسی مرید نے پھر پوچھا کہ ا ب تو حالات بہتر ہو رہے ہیں وجہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اب قطب صاحب تبدیل ہوگئے ہیں پہلے والے پردہ فرما گئے اور ان کی جگہ نئے قطب نے لے لی ہے؟ انہوں نے انہیں دیکھنے کی بھی خواہش ظاہر کی تو پیر صاحب نے پھر فرمایا کہ جامع مسجد چلے جاؤ وہاں ایک صاحب کھڑے ہوئے مشک اٹھا ئے پانی پلا رہے ہونگے وہ ایک پیسہ لیتے ہیں اور ایک کٹورا پانی کا دیتے ہیں؟ انہوں نے جاکر ایک پیسہ پیش کیا اور پانی لے لیا پھر یہ کہہ کر سیڑھیوں پر پانی پھینک دیا کہ اس میں تنکاپڑا ہوا تھا؟ لہذا دوسرا دیجئے! انہوں نے کہا پیسہ نکالو تب پانی ملے گا؟ یہ اکڑ گئے ، جواب میں وہ بھی گرم ہوگئے کہ نکال پیسہ ورنہ یہ ہی کٹورا سر پر ماروں گا ، “ اب خربوزے والازمانہ نہیں ہے“ وہ جب یہ فرق دیکھ چکے تو پیاسے ہی واپس چلے آئے اور اپنے پیر صاحب کو جو کچھ دیکھا تھا اس کی رپورٹ پیش کی؟
اب نہ تو وہ پیر ہیں جو قطبوں کو پہچانتے ہوں اور نہ ہی وہ مرید ہیں کہ دیکھنے پر ضد کرتے ہوں، آج کے پیر تو اپنے سالانہ نذرانے سے غرض رکھتے ہیں مرید کے اعمالوں سے نہیں ، جبکہ مرید حفظ ماتقدم  یعنی انشورنس کے طور پر مریدی اختیار کرتا ہے کہ اگر کہیں پھنس جا ئے؟ تو حاضری دے ،سائیں کی زیارت کرے اور پیر چھوئے، آنے کا مدعا بیان کرکے چٹھی لے لے یا بہت مسئلہ بڑھ گیا ہو توفون کال سے مسئلہ حل کروالے؟  جبکہ پہلے لوگ عاقبت بنانے کے لیے مرید بنتے تھے اور اب دنیا کمانے کے لیے ؟
لہذا یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ کراچی کا قطب کون ہے کیا وہ پردہ فرما گئے یا اللہ تعالیٰ کو کراچی والو ں کی بلکہ پاکستان والوں کی کوئی نیکی پسند آگئی؟ بہر حال لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ اچھے افسروں کی ایک تثلیث آگئی ہے ۔ جس کی وجہ سے وہاں کے حالات بتدریج بہتر ہورہے ہیں ؟جس شہر کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ یہاں اب کبھی امن قائم نہیں ہو گا؟ وہ شہر امن کی طرف جا رہا ہے؟ پہلے والوں نے جب بھی یہ کوشش کی ،تو پہلے جڑ پر ہاتھ ڈالا؟ نتیجہ میں شاخیں اور پتے تک سائیں کی حمایت میں نکل آئے اور بڑھتے ہوئے  اور اہلِ اقتدار کےقدم ڈگمگا گئے ۔مگر اس مرتبہ آفیسر تجربہ کار تھے، انہو ں نے جڑوں کے بجا ئے شاخوں کو ٹٹولنا شروع کیا ؟ جڑوں نے شروع میں تو کچھ اس کو اہمیت نہیں دی کہ شطرنج کے کھیل میں اگر بادشاہ کو شہ پڑ رہی ہو تو پیادوں کا پٹنا تو عام بات ہے، بڑے سے بڑا مہرہ بھی پٹوا کر شاطر بادشاہ کو بچا لیتے ہیں؟ لیکن سائیں نے انہیں جب اپنی شاخیں ماننے سے ہی انکار کردیا ۔ تو نتیجہ الٹ نکلا، وہی پتے اپنی اس بے حرمتی پر ہوا دینے لگے؟ اب افسروں کے ہاتھ ان معلومات کی بنا پر جو قربانی کے بکروں یعنی شاخوں سے حاصل ہو ئیں وہ آگے بڑھے، پھر ان کے ہاتھ شاخوں، تنوں اور پھر ڈالو ں سے ہوتے ہوئے “ سائیوں “ کی گر دن تک پہونچ گئے ،تو سائیں چیخ اٹھے ؟جس طرح ڈوبتا ہوا، تنکے کا سہارا لیتا ہے؟ پہلے ایک برسا جب اسکی باری تھی، اب دوسرا بھی افسروں پر برس پڑا؟ اس پرتالیا ں بہت بجیں جس طرح شاعر مشاعرہ لوٹ لیتا ہے؟ انہوں نے بھی جلسہ نما پریس کانفرنس لوٹ لی؟ نشہ جب اترا جب اس کی کے نتائج سخت تنقید کی شکل میں سامنے آئے ، کیونکہ نہوں نے کہنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ اب وہ دور نہیں رہا جبکہ فوجی شہر میں وردی اتار کر چلتے تھے؟ اب اچھے جنرل کا دور ہے اور پوری قوم ان کی طرف دیکھ رہی اور اس تھوڑے عرصے میں فوج نے بے انتہا قربانیاں دیکر وردی کا وقار دوبارہ بہال کردیاہے،جبکہ جمہوریت اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اپنا وقار بری طرح کھو بیٹھی ہے ۔لہذا اچھے کو اچھانہ کہنا بھی ظلم ہے جس طرح کسی ظالم کو اچھا کہنا ؟ بہت پرانا شعر ہے کہ “ بشر رازِ دلی کہہ کر ذلیل و خوار ہوتا ہے  نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بے کار ہوتا ہے “ بات زور ِ خطابت کی بھی نہیں کہی جا سکتی کہ کہنے والا ساتھ میں ہنستا بھی جارہا تھا۔ اب سائیں کے حواری اس کی تفہیم تلاش کر رہے ہیں؟ جس طرح پہلے دوسرے کے کہے کی تفہیم آئے دن ہوتی رہتی تھی؟ یہاں بھی اس پر بحث ہورہی ہے کہ کہنے والے کا یہ مطلب نہیں تھا، وہ تھا؟ سائیں! نے سنا ہے ان بھائی سے فون پر رابطہ بھی کیا ہے کہ وہ مزید گر ِتفہیم کے سکھادیں؟ کیونکہ دونوں کے درمیان انگلیڈ کے دستور کی طرح کچھ حصہ بغیر لکھا ہوا بھی ہے؟ جبکہ اراکینِ جماعت میں سے کچھ نے تو جب پارٹی نے سائیں کے بیان کی تو ثیق چاہی تو اسی موقع پر اپنے عہدوں سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیدیا ۔ کہ چھوٹے سائیں کے لیے راستہ صاف ہو جائے اور وہ جس کو چاہیں ان کی جگہ چن لیں؟ حالانکہ کے وہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے، بڑے کے بجائے چھوٹے بنا دیے گئے تھے کہ ابھی کم سن ہو رہنے دو ہم سے گر سیکھو سیاست کے ؟
جبکہ پارٹی میں سے ایک صاحب جو بہت ہی معقول سمجھے جاتے تھے انہوں نے غالبا ً خالی سیٹ پر جمپ کر نے کے لیے ۔ بیان کی تفہیم تبدیل کی اور دور کی کوڑی لا نے کی ناکام کوشش کی ہے کہ اس سے یہ مطلب کب نکلتا ہے جو نکالا جا رہا ہے ؟کیوںکہ انہوں نے تو اسی تقریر میں اس ادارے کی تعریف بھی کی ہے؟ شاید ان کے خیال میں اگر تعریف اور توہین ساتھ ساتھ کی جائے توصرف بھلائی لکھی جانا چاہیے تھی۔ جس طرح، برائی کے بعد نیکی کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں؟
جب کہ یہ انسان کی  پر ہوس کھوپڑی عجیب چیز ہے کہ کبھی بھر تی ہی نہیں ہے؟ اللہ کہاں سے کہا پہونچا دیتا ہے “ مگر حل من مزید “ کا نعرہ پھر بھی ختم نہیں ہو تا، جو وہاں دوزخ کے بارے میں ہے کہ قیامت کے دن وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے یہ ہی کہتی رہے گی “ حل من مزید “ یعنی کچھ اور گناہ گار بچے ہیں میرے مالک! میرا پیٹ ابھی تک خالی ہے؟ اپنی زندگی میں ہم نے ایسی صرف ایک ہی مثال اور دیکھی ہے جو یہاں تک گیا ہو، مگر وہ بیچارہ ڈپٹی کمشنر تھا وہ بھی ایک ضلع کا، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق رشوت لیتا؟ اس نے ہر ٹیبل کو ٹھیکے پر دیدیا تھا ، ٹیبل تو ہم نے برائے محاورہ استعمال کی ہے؟ اس نے، پگڑی اور بیلٹ تک ٹھیکے پر دے رکھی تھی کہ وہ اپنے نائک سے بھی پیٹی کے عیوض جس کی بنا پر وہ پٹے والا کہلاتا تھا؟ دس روپیہ یومیہ وصول کرتا تھا؟ ہم پھر پرانی یا دوں میں کھوگئے یہ وہ دور تھا جب ایسی حرکتیں معیوب سمجھی جاتی تھیں اب تو کثرت استعمال کی وجہ سے کوئی حرکت، حرکت ِمعیوب  نہیں رہی؟
کہتے ہیں کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ رحم کھاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہر یا ملک جہاں امن ناپید ہو، وہاں وہ خود بخود واپس آجاتا ہے؟ ہمارے دیکھتے دیکھتے حال کی دو تازہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں ایک ملک میں تبدیلی جس کانام “کولمبیا “ جو برائیوں کے لیے دنیا میں مشہور تھا ۔دوسرے ایک شہرمیں امن کی واپسی کہ 88 ءمیں نیویارک اپنی بد امنی کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا ، لیکن اس کی سرشت ایک مئیر نے آکر بدل دی اور اب وہی شہر جہاں لوگ سڑک پر چل پھر نہیں سکتے تھے ،وہ پر امن شہروں میں شمار ہونے لگا ہے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تثلیث کو سب کی گوشمالی کے لیے مبعوث فرمایا ہو ،خدا کرے کہ ہمارا گمان صحیح ہو اور ہم پر امن پاکستان دیکھ سکیں ؟  کاش اسے ہم اپنے سامنے بدلتا ہوا دیکھیں۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ جلد ہی ہماری یہ آخری خواہش بھی پوری کردے؟ (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.