کہتے ہیں کہ بلّی شیر کی خالہ ہے اس نے شیر کو سب کچھ سکھا دیا مگر درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا، تاکہ وہ اسکی گرفت سے بچ سکے کیونکہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور تمام بادشاہ بڑے تنک مزاج بھی ہو تے ہیں دینے پر آئیں تو تاج و تخت بخش دیں اور لینے پر آئیںتو جان کی خیر نہیں، کب موڈ خراب ہو جائے اور بلی کی شامت آجائے اس نے یہ گر ہی اسے نہیں سکھایا ؟ مگر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے شیر کو ٥٣فیٹ تک اونچی چھلانگ لگانے کی صلا حیت عطا فرما کر اسے چھینکے تک تو رسائی اس لیے عطا فرمادی کہ شیر بلّی کی طرح دوسروں کا پکایا ، کھانا نہیں کھاتا ہے۔ بلکہ اپنا مارا ہوا شکار کھاتا ہے اور بقیہ چھوڑدیتا ہے تا کہ گیدڑ وغیرہ اس سے فیض یاب ہوسکیں کیونکہ اسے جانور اور وہ بھی درندہ ہوتے ہوئے اس بات کایقین ہوتا ہے کہ اسکا روزی رساں اسے بھوکا نہیں مارے گے؟ لہذا اگلے وقت کے لیے بچاکر نہیں رکھتا، جبکہ سمندری جانوروں میں مگر مچھ جس کے آنسو ضرب المثل ہیں، وہ شکار مار کر چھپادیتاہے اور سڑا بھی کسی کو نہیں دیتا لہذا اسکے مسکن سے تعفن اٹھتا رہتا ہے ۔ جبکہ چھینکے کو بلّی کی پہونچ سے باہر رکھا کہ وہ درخت پر اپنے بچاو¿ چڑھ سکتی ہے مگر چھینکے تک نہیں پہونچ سکتی ؟ ورنہ وہ انسانوں کی زندگی حرام کر دیتی ہے اور گھر کا بھیدی ہونے کی وجہ سے اس سے کہیں پناہ بھی نہیں ملتی۔ اس کو صرف چانس اسی وقت ملتا ہے جب چھینکا کسی وجہ سے ٹوٹ جا ئے ؟ لیکن نئی نسل نہ چھینکے سے واقف ہے نہ بلّی کی تباہکاریوں سے کہ وہ پروان اس دور میں چڑھی ہے کہ چھینکا ناپید ہوچکا تھا۔ اور بلیوں کو اتنا مال مل رہا ہے کہ انہیں کھانے کی فرصت بھی نہیں ہے ۔البتہ آپس میں پھر بھی لڑتی رہتی ہیںاگر کوئی ایک دوسرے کے ڈھیر میںمنہ ڈالدے۔
بچو ں ! آپ پوچھیں گے کہ انکل یہ چھینکا ہے کیا چیز؟ تو جواب یہ ہے کہ ایک صدی پہلے تک سب غریبوں اور امیروں کے گھروں میں یہ فرج کاکام دیتا تھا جوکہ رسیوں سے بنایا جاتا تھااور چھت میں لگے کنڈے کے ساتھ لٹکا ہوتا تھا اس میں ہانڈیاں رکھدی جاتی تھیں تاکہ وہ ہوا سے ٹھنڈی ہوتی رہےں، دوسرے بلّی کی پہونچ سے بھی باہر رہیں ۔اگر کہیں رسی پرانی ہوکر گل گئی یا اس پر نادانی سے بوجھ زیادہ ڈ ا لدیا تو توچھینکاٹوٹ کر فرش پر آرہتا تھا اور بلّیوںں کی چاندی ہو جاتی تھی، وہیں سے یہ محاورہ ایجاد ہوا جو آج کا عنوان ہے؟
اب آپ پوچھیں گے کہ آج اسکے ذکر کا محل کیا ہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ آجکل کے بزرگ بچوں کو منہ نہیں لگا تے کیونکہ پہلے اگر بزرگوں کو کچھ بھی نہ آتا ہو تو بھی انکا بھرم قائم رہتا تھا اور بچے چپ چاپ جو سنتے تھے وہ اپنی گرہ میں باندھ لیتے تھے ، اگر کسی نے کچھ پوچھنا چاہا اورانہوں نے ذرا ترچھی نگاہ کی اور بچے خاموش ہو جاتے تھے۔ اب وہ بغیر دلیل کہ کوئی بات نہیں مانتے اور سوال پر سوال کیے جاتے ہیں ؟
تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بجلی کے سلسلہ میں جھوٹے دعوو¿ں کے پول کھولنے کے لیے ایک ایسے وقت پر جو کہ قوم کے لیے بہت کٹھن ہے، ملک میں گرمی بڑھادی اور اس میں سے سب سے زیادہ حصہ کراچی کو ملا جو سندھ کی نمائشی حکومت کا دار الحکومت ہے؟ تم پھر پوچھو گے کہ انکل یہ نمائشی کیسے ہے ،جبکہ اسکی اسمبلی بھی ہے منتخب وزیر اعلیٰ بھی ہے اور ً چیف منسٹر ہاوس ً بھی یعنی حکومت کو اس نام کا ایک ٹھکانہ بھی میسر ہے؟ بچوں !بات یہ ہے کہ ہم نے اسے نمائشی اس لیے کہا کہ ہے تو سب کچھ مگر ان سب کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہے تمام معاملات اکثر ایک ہی آدمی طے کرتا ہے ۔کبھی کبھی دو ہو جاتے ہیں تو زیادہ دن اس لیے نہیں چلتے کہ ایک دوسرے کے مفادات ٹکرا جاتے ہیں؟ کیونکہ کچھ ایک کے کارندے ہوتے ہیں تو کچھ دوسرے کے، سب بیچارے بال بچے دار ہیں مال بانٹنے پر جھگڑا ہوجاتا ہے ۔کارکن آپس میں لڑمرتے ہیں ہاتھ کسی پر کوئی اس لیے نہیںڈالتا کہ انکی پہونچ دورتک ہوتی ہے، اور محاورہ ہے کہ جو کہ ویسے تو ہندو دیتاو¿ں کہ بارے میں ہے کہ ً جیسے اودھے ویسے بھان نہ اس کی آنکھیں نہ ان کے کان؟ جبکہ انسان کہیں دیوتا کی شکل دھار لیتا ہے اسکے بھی اس صورت حال میں اگر کان ہوں بھی تو بند کرنے پڑتے ہیں اور یہ ہی معاملہ آنکھوں کے ساتھ ہے کہ ان سے کھلی ہونے کے باوجود مفاہمتی پالیسی اپنانے کے بعد کام نہیں لیا جاسکتا؟
پھر حکومت چلے تو کیسے چلے؟ اور انصاف ملے تو کہاں سے ملے ،گوکہ ادارے موجود ہیں، کچھ اہلکار اچھے بھی ہیں جو اپنی اسی بری عادت کی بنا پر شہید ہوتے رہتے ہیں، ان کی تعداد کم ہے اور چھینکے کی رکھوالی بلّیوں کے سپرد ہے؟ اس مرتبہ کچھ اچھوں نے زور لگایاتھا کہ دودھ پینے والی بلّیوںں کو پکڑلیں؟ مگر بیچ میں یہ موت کا بازار گرم ہو گیا اور بلّیاں قائد بن کر احتجاج پر نکل آئیں ؟
تاکہ روٹھے عوام کو خوش کرکے ان کی قیادت اور ہمدردیاں پھر حاصل کر لیں؟ اور وہ جو پکڑ دھکڑ شروع ہونے والی تھی وہ ٹل جا ئے ۔ کیوں اس میں سے ایک ادارہ جو کہ بہت زیادہ سرگرمِ ِ عمل ہے اسکی عمر٨ا جولائی کو ختم ہورہی ہے، جس میں تھوڑے ہی دن رہ گئے۔ سائیں! اس پر معاملہ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر سنا ہے کہ اختیار ایف آئی اے کو منتقل ہوگئے۔ ورنہ سول عدالتیں موجود تھیں، فوجی عدالتیں فعال نہیں تھے ؟نام کو ملک میں جموریت ہے لہذا قانون کے نام پر یا انسانی ہمدردیوں کے نام پر وہ انصاف حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہمیشہ رہتے ہیں۔ جبکہ عام آدمی کے انصاف کی راہ میں بہت سے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ نوٹ حائل ہے جن پر قائد اعظم کی تصویر بنی ہوئی ہے ،جو وکلا ءکی بھاری فیس کی شکل میں بہت سے چاہیئے ہوتے ہیں،پھر وکلاءہی کی معرفت ہر قدم پر ضرورت پڑتی ہے وہی حاجت روا ثابت ہوتے ہیں ؟ اب ہر ایک ایسا تو خوش نصیب نہیں ہوسکتا جو قوم کی ہر مصیبت پراربوں روپیہ دینے کا اعلان کرتا رہے اور اس کے خزانے میں کبھی کمی نہ آئے؟
بچوں !جس طرح تم نے کہانیوں میں پڑھا ہو گا کہ ایک دیو تھا اس نے بہت سے بچوں کوقید کر رکھا تھا جو اسکے روزانہ ناشتے میں کام آتے تھے! اس کی جان طوطے میں تھی اور طوطا پنجرے بند تھا اور یہ راز کسی معلوم نہ تھا ایک بچہ اپنی باری آنے سے پہلے اس راز سے واقف ہوگیا اور اس نے طوطے کا گلا گھونٹ دیا؟ یہاں کسی کو معلوم نہیںہے کہ اسکی جان کائے میںہے ۔ہاں اسکاایک پرانا ساتھی کہتے ہوئے سن گیا ہے کہ ً پیسے میں ہے ً اور پیسے کو وہ دانت سے پکڑے رہتاہے اس لیے اس سے نجات ملے تو کیسے ملے،اسی دیو کے ہاتھ میں یہ معاملہ بھی تھاکہ وہ اس محکمہ کو مزید توسیع دے یا نہ دے جو اسکے دروازے دستک دے رہا تھا ؟ اگر یہ ترپ کارڈ نہ کھیلا جاتا تو اس کی شرائط ماننا پڑتیں، ورنہ طوطے کی گردن کی طرح اس کے منہ تک پہونچنا پڑتا جس کی راہ میں مسکراتے ہوئے ہونٹ اور چمکیلے بتیس دانت حائل ہیں؟ ورنہ وہ ً ً نہ ً کہدے تا اور اگر اس نے نہ کہدیا، تو ہاں کرانے والا کوئی نہیں ملتا۔ ہمارے یہاں کیونکہ انسانیت کا دفاع کرتے ہوئے یہ کوئی نہیں سوچتا ہے کہ انسانی ہمدردی اور قوانیں انسانوں کے لیے بنا ئے گئے تھے، انسان نما درندوں کے لیے نہیں جوانسانوں کے بجا ئے ان کے بھیس میں درندے ہیں اور وہ اسکا بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں؟ ہے کوئی جو ان سے وہ لباس چھین لے جو بھیڑیے پہن کر انسان بنے ہوئے ہیں؟ جبکہ بیچارے انسان انکے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ صرف میڈیا ان کی کرتوتوں کو اجا گر کرتی ہے؟ مگر اسکو اپنا کاروبار چلانے کے لیے سنسنی خیزی چاہیئے ہوتی ہے اور ہر ایک اس دوڑ میںایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے۔ ان کی توجہ ہٹانے کا ایک مجرب نسخہ یہ ہے کہ دوسری خبر کی بھنک اسی دوران ان میں سے کسی کے کان تک پہونچا دو ! باقی سب اس میں لگ جائیں گے۔اور جن کو ملک سے نکلنا ہوگا وہ نکل جائیں گے، پھر عدالتیں اگر پیچھے ہی پڑگئیں اوروہ بقید حیات بھی رہے تو ان کی مزید خبریںآتی رہیں گے پھر وہ گرفتار ہو کر پہونچ بھی گئے۔ تو بھی ایک معجزہ ہوگا اور وہ معاملہ پردہ گم نامی میں چلا جائے گا پھر عوام اس کا کبھی ذکر بھی نہیںسن سکیں گے ۔ایسا کیوں ہوتا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا اللہ ہی جانتا ہے۔ کیونکہ علم غیب صرف اس نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے