اب تک یہ تو ہوتا رہا ہے کہ لاشیں سڑکوں پرپڑی رہیں، کیونکہ یہ واضح نہ تھا کہ یہ مقام کس تھانے کے حدود میں ہے لہذا یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لاش کو اٹھانا کس کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ایک تھانے یا ضلع کی پولس ایک دوسرے کے حدود پھلانگ نہیں سکتی اور اس طرح چوروں کی چاندی رہتی تھی کہ ان کا طریقہ واردات بقول علامہ اقبال (ع) یہ ہے کہ ع ادھر ڈوبے ا دھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ اگر کسی کواسکی و جہ معلوم نہ ہو تو یہ بڑا عجیب سا لگے گا؟ کہ آج کے دور میں جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہونچ گئی یعنی سیٹلائٹ کے ذریعہ لوگ ہزاروں میل دور بیٹھ کر یہ تک دیکھ سکتے ہیں کہ کس کا گھر کہاں ہے؟ انہیں کیا پتا کہ وہاں تھانے بکتے ہیں اگر پولس بغیر اجازت کے ایک دوسرے کی سرحدیں پھلانگنے لگیں تو ان کی آمدنی میں رخنہ پڑتا ہے ۔ مگر اس مرتبہ جو یہ انتہائی مکروہ صورت ِ حال پیدا ہوئی وہ بڑی اندوہناک ہے کہ دوہزار کے قریب لوگ اپنی جان سے گئے اور کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے ۔ چند روز پہلے ہم نے اجتماعی قبریں دیکھیں ،اجتمائی نمازِ جنازہ بھی ٹی وی پرہو تے دیکھی۔ یہ خبریں پڑھیں اورسنیں کہ کفن نہیں مل رہے ہیں،قبریں نہیں مل رہی ہیں ۔ اور سب جگہ اپنی باری کا انتطار فرمائیے کہ نہ نظر آنے والے بورڈ لگے ہوئے ہیں جو کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔مگر ہیں؟ اور یہ بھی کہ جتنا گڑڈالو اتنا ہی میٹھاہوگا؟ وجہ یہ ہے کہ قبرستان پہلے ہی لوگوں نے بیچ کھائے ہیں یا ان پر قبضہ کرلیا ہے؟ پیشہ ور گورکنوں کی اجارہ داری ہے۔ لہذا جس طرح اور شعبوں میں مافیہ ہے اسی طرح یہاں بھی “ قبر ستان مافیہ “گرم عمل ہے۔ اور یہ تو کہنے کی بات ہی نہیں ہے کہ مال جبھی بنتا ہے جب کہیں پر کسی کی اجارہ داری قائم ہو؟ اور ایسے موقعے روز، روز تو آتے نہیں ہیں؟ اس افتاد سے پہلے قبروں کا حصول اٹھارہ بیس ہزار روپیہ میں ممکن تھا اب خبر ہے کہ ایک لاکھ سے بھی اوپر چلا گیا ہے؟ لیڈروں کو شکایت ہے کہ مرنے والوں نے ان کا انتظار نہیں کیااور اب مریض نہیں ہیں جن کی وہ عیادت کر سکیں، ہمارا مشورہ یہ ہے وہ سرد خانوں میں چلے جائیں ممکن ہے ابھی ابھی کچھ مردوں کانمبر نہ آیا ہو اور وہی مل جائیں ۔فوٹو سیشن تو ہو ئی جائے گا؟
جبکہ ارباب ِاقتدار یہ طے نہیں کر پارہے ہیں کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیشہ ایک کمیشن بنا دیاجاتا ہے جوکہ اس مرتبہ بھی بنادیا گیاہے ، اس نے کسی آسمانی آفت کو نہیں بلکہ زمینی بجلی کو ذمہ دار قرار دیا یعنی K E کی انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے کیونکہ بقول کمیشن کے کوئی پیسہ اس نے الیکٹرک سپلائی (بجلی کی ترسیل) میں بہتری پیدا کرنے میں نہیں لگایا جیسا کہ اس نے خرید تے وقت وعدہ کیا تھا؟ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ وہاں کسی وعدے کو نبھانے کا سوال ہی کسی کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہے کہ وعدہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے ؟جبکہ بدعہدی کی قر آن نے بار ،بار شدید مذمت کی ہے اور بدعہدی کو منافقت کی تین نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے ۔ آخر میں کمیشن نے ذمہ داری مرکزی حکومت پر ڈالدی کہ وہ ذمہ دار اس لیے ہے کہ اس کا 26 فیصد اس میں حصہ ہے۔ اس نے بھی اس پر پردہ ہی ڈالے رکھا کہ باقی74 فیصد حصہ جات کس کے ہیں اور وہ پردہ دار کون ہے۔ جبکہ یہ کارنامہ ہے مشرف اور شوکت عزیز کے مشترکہ دورِ حکومت کا جس میں صرف وعدوں پر ادارے سپرد کردیے گئے۔ وعدے بھی کس کے جس ملک میں سب کا مفاد ہے اس لیے کہ وہ سب کا وطن ثانی بھی ہے؟ لہذا بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟
جبکہ کچھ دن پہلے تک صوبائی حکومت مرکزی حکومت کو ذمہ دار قرار دے رہی تھی اور اسکے خلاف پوری صوبائی کابینہ بمع وزیر اعلیٰ دھرنا دیئے بیٹھی تھی ۔ میڈیا اس پر تبصرہ کر رہی تھی کہ اب ان کو اٹھا ئے گا کون ؟ مگر جب اٹھانے کوئی نہیں آیا تو وہ خود ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم خود ہی اٹھے جاتے ہیں۔ اچھا کیا ورنہ کسی کو ڈولی ڈنڈا کرنا پڑتا۔ پھر وزیر اعظم آگئے تو کایا ہی پلٹ گئی کہ سب گلے شکوے جاتے رہے۔ اور ایک دوسرے کی تعریف کرنے لگے۔ مہذب ملکو ں میں تو یہ بات عام ہے مگر اسلامی ملکوں میں آپس میں ایسا سلوک ذرا کم ہی دکھائی دیتا ہے اس لیے اچنبھے کی بات ہے۔ جبکہ ہمارے علماءان کی نقل کو کرنے کو منع کرتے، کرتے اب ان کی تعریف کرنے کو بھی منع کرنے لگے؟
جبکہ وہ روایات ہماری ہیں اوربرے لوگ ہماری اچھی باتیں سیکھ کر اسکا فائیدہ ٹھا رہے ہیں “ جیسے کہ عدل اور احسان “ کاش کہ ہم اب واپس برے لوگوں کی اچھی باتیں سیکھ لیں ؟ جیسے کہ ان کے یہاں ہر ایک شہری حکومت ،صوبائی حکومت سے اور صوبائی حکومت مرکزی حکومت کی مداخلت سے بے نیاز ہے اور کبھی ایسا اتفاق ہو بھی جائے کہ ہم خیال یا ایک ہی جماعت صوبے اور مرکز میں دونوں میں منتخب ہو کر آجائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ مرکزی جماعت باکل علیٰحدہ ہوتی جس کا مرکزی جماعت کے ساتھ الحاق تک بھی نہیں ہوتا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ نواز شریف صاحب کی حکومت نے صوبوں میں دوسری پارٹیوں کو برداشت کیا ہے، ورنہ مرکز مخالف صوبائی حکومتوں کی برطرفی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جس کی ابتدا صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی کانگریسی حکومت (خدائی خدمت گار) کی برطرفی سے شروع ہوئی تھی۔
موجودہ مرکزی حکومت اتنا اور کردے کہ مقامی حکومتیں جو عنقریب بننے جارہی ہیں ۔انہیں اپنے علاقوں میں خود مختار بنادے۔اور شہری حکومتیں بھی اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیں ،کیونکہ اٹھارویں تر میم کے بعد صوبوں کو بہت کچھ مل گیا ہے مگر وہ اسے مقامی حکومتوں کو دینے کو تیار نہیں ہیں جیسے کہ پہلے مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کو کچھ دینے تیار نہیں تھی ۔ یہ عدلیہ ہے جس نے انہیں الیکشن کرانے پر مجبور کردیا ہے،ورنہ پچھلی حکومت ٹال مٹول میں جیسے پانچ سال پورے کر گئی یہ حکومتیں بھی پورے کر جاتیں؟ دوسرے ان برے لوگوں سے یہ بھی سیکھ لیں کہ یہاں کلرک تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ آفیسر ہوتا ہے۔اس کے صوابدیدی اختیا رات اتنے ہیں کہ وہ ہر سائل کو جو بھی اس کے پاس آئے جائے تمام کام کر کے اور فارغ کر کے بھیجتا ہے۔ جبکہ سارا کام قانون کے مطابق ہوتا ہے اور وہ جوفیصلہ کردے، وزیر اعظم بھی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا؟ احتساب اتنا سخت ہے کہ ہائیر (ملازم رکھنا) اور فائر (برطرف کرنا) دونوں میں دیر نہیں لگتی، ذرا سی کسی نے بد عنوانی کی ایک منٹ میں چھٹی؟ کیونکہ ملازمت رشوت یا سفارش کی بنا پر نہیں بلکہ ذاتی صلاحیت کی بنا پر ملتی ہے، دینے والے کے پاس برطرف کرنے کے بھی پورے اختیارات ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ یہ اختیارات سے تجاوز کرتا ہے نہ وہ اختیارات سے تجاوز کرتا ہے۔
اس مرتبہ بھی حکومت اور کمیشن میں اختلافِ رائے پایاجاتا ہے جیسا کہ ماڈل ٹاؤن والے کمیشن اور حکومت میں پہلے پایا گیا تھا۔ جو کہ اس سے ثابت ہے کہ ایک مرکزی وزیر نے یہ فرمایا کہ یہ “آفتِ آسمانی “ ہے۔ ہمارے خیال میں میں یہ تو سب ہی جانتے ہونگے کہ آفت ِ آسمانی عذاب ِ الہیٰ کانام ہے اور وہ کیوں آتا ہے اور اس نے پاکستان کو ہی کیوں تاک رکھا ہے۔ اگر اس کی وجوہات پرغور کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ “ مرنے والے خود ہی اپنی موت کے ذمہ دار ہیں اور قصور وار بھی“ کیونکہ وہ ووٹ استعمال کر تے ہوئے امیدوار کے ان اوصاف کو پرکھنے اور مد ِ نظر رکھنے کے بجائے جو اسلام نے مقرر کیے ہیں؟ وطنیت ، صوبائیت اور ذات برادری کو مدِ نظر رکھتے ہیں ۔ جس طرح کہ ببول کے درخت سے کھجوریں حاصل نہیں کی جا سکتیں اسی طرح غیر عادلوں کو ووٹ دیکر، رحمتِ پروردگار یعنی امن ، سکون اور چین حاصل نہیں کیا جاسکتا؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے