حضور (ص)کی پیش گوئی اوراسکے تقاضے ۔۔۔از۔۔۔شمس جیلانی

سورہ کہف کی آیت نمبر 46 کی تفسیر میں ابن ِ کثیر(رح )نے ایک حدیث وارد کی ہے۔ کہ مسند احمد میں حضرت نعمان (رض) بن بشیر سے روایت ہے کہ “ ایک رات عشاءکی نماز کے بعد حضور (ص) ہمارے پاس تشریف لائے اور آسمان کی طرف دیکھ کر نگاہیں نیچی فرمالیں ،ہم نے خیال کیا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہو ئی ہے۔ پھر حضور (ص) نے فرمایا کہ “ میرے بعد جھوٹے اور ظالم حکمراں ہونگے جو ان کے جھوٹ کو سچائے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری کرے وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اسکا ہوں اور جو ان کے جھوٹ کو نہ سچائے اور ان کے ظلم پر طرفداری نہ کرے وہ میرا اور میں اس کا ہوں وہ میرے ساتھ ہوگا “ ۔
دوسری آنکھیں کھولنے والی اسی سورہ کہف کی آیت نمبر 104 ہے؟ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ “ لوگ اسی غلط فہمی میں رہیں گے وہ بڑے نیک کام کر رہے ہیں لیکن ان کے تمام اعمال اکارت جا ئیں گے ۔ اس لیے کہ وہ سب کچھ دکھاوے کے لیے کر رہے ہونگے “ یہ وہی سورہ کہف ہے جس کی رات کو سونے سے پہلے پڑھنے کی حضور (ص) نے تاکید فرمائی تھی تاکہ لوگ ہاتھوں ہاتھ اپنا احتساب خود کرلیں ؟
ہم سے ہمیشہ نہ جانے کیوں سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے اور اس کامطلب الٹا سمجھتے ہیں کہ یہ صرف پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے دوسرے یہ آیات ہمارے بارے میں نہیں کافروں کے بارے میں ہیں،یا اہلِ کتاب کے بارے میں ہیں ۔حالانکہ ان کا عمل دیکھیں تو اپنے پیر کتنے پانی میں ہے صاف نظر آجائیں گے کیونکہ ہم بھی انہیں کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ خطاب عام ہے ،ہر اس شخص کے لیے ہے جو برے کاموں میں لوگوں کی مدد کر ے چاہیں وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور وہ پانچ وقتہ نمازی ، تہجد گزار بھی کیوں نہ ہو، اور چاہیں یہ فعل امام کعبہ ہی سے سرزد کیوں نہ ہو اہو ۔ کیونکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کریں برائی میں نہیں؟ لوگوں کا عالم یہ ہے کہ سیاست دانوں سے ڈرتے ہیں اور ان کی وکالت میں ٹی وی پر گھنٹوں صرف کرتے ہیں حالانکہ اس میں دور، دورتک حق کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ تاکہ وہ محفوظ رہیں ان کا پارٹی سے آئندہ الیکشن کے لیے ٹکٹ پکا رہے ، اور ان کے کمائی کے چور دروازے کھلے رہیں پھر اسی لوٹ کے مال میں سے وہ مسجد بناتے ہیں دستر خوان جاری کرتے ہیں ہر جگہ مدد کو پہونتے ہیں اور اس طرح مخیر حضرات میں شمار ہوتے ہیں ۔ انہیں پیسوں سے بنائی ہوئی مسجدوں میں امام کعبہ کو امامت کے لیے بلا تے ہیں۔
ایک گروہ وہ بھی ہے جو ہرسال ستائسویں شب حرم شریف میں گزارتا ہے۔ دوسرے وہ بھی ہیں کہ یہ جانتے ہیں کہ پیر صاحب کو روزہ نماز سے کیاواسطہ مگر پھر بھی ان کی مریدی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے پھر تے ہیں کہ وقت ضرورت پیر صاحب کی سفارش کام آئے۔ کیا یہ پہلی آیت کے دائرے میں نہیں آتے؟ کیونکہ کوئی ہمار ے ےہاں سچ بولتا ہی نہیں ہے اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اولاد آدم میں سے ننیانوے فیصد لوگ جہنم میں جا ئیں گے۔ اس تنبیہ کے باوجود ہم میں سے زیادہ تر کا تکیہ جھوٹ پر ہے۔ کسی پارٹی کے رہنماؤں کو لے لیجئے ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ نظر آئے گا وہ خود ہی اپنی باتوں کی تردید کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔اس پہ شرمائیں گے بھی نہیں ۔ ڈنکے  کی چوٹ کہدیں گے کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا یعنی سیاست میں جھوٹ بولنا جائز ہے؟ جبکہ حضور (ص) سے زیادہ مفسرِ قرآن کون ہوسکتا ہے؟ انہوں (ص) نے فرمایا کہ مسلمان میں تمام برائیاں ہو سکتی ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا“ اس ارشاد کی روشنی میں کوئی بے وقوف ہی جھوٹ بولتے ہوئے خود کو مسلمان کہہ سکتا ہے ۔ جبکہ جھوٹے کی تعریف یہ فرمائی گئی ہو کہ کوئی بغیر تصدیق کے سنی سنائی بات کوآگے بڑھادے وہ اس کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے۔ یعنی نہ مسلمان خود جھوٹ بولتا ہے نہ کسی جھوٹے کی حمایت کر تا ہے نہ کسی کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں شریک ہوتاہے؟ اس میں ہمارے سیاستداں ہی نہیں وہ لوگ جو اسلام کے داعی ہیں اور اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتے وہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ چند دن پہلے کی خبر دیکھ لیجئے کہ امیر المونین ملا عمر 2013 ءمیں انتقال فرما چکے تھے ۔ لیکن ان کے ایک نائب ان کی جگہ کام کرتے رہے اور خود کو ملا عمر باور کراتے رہے کیا یہ ہی اسلام ہے جو یہ گروہ لانا چاہتا ہے؟ جبکہ امیر المونین کی صفت ایک صحابی(رض) نے یہ بیان فرمائی جو حضرت عمر (رض) کے بارے میں ہے کہ “ ہمارا امیر نہ دھوکا دیتا ہے اور نہ کسی سے دھوکا کھاتا ہے“ یہ ہے تو بہت چھوٹا سا جملہ مگر اس کے اندر معنوں کا ایک سمند چھپا ہوا ہے؟
انسان دھوکا دیتا ہی جب ہے جب کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتا ہے اور روز ِ قیامت اس سے ملاقات پر یقین نہیں رکھتا ۔ ورنہ وہ یہ سب کچھ کرنے کی جرا ءت نہیں کر سکتا اورایسی جراءت کرنے والا اپنے مقام پر نہیں رہ سکتا؟ کیونکہ قرب الٰہی کے لیے دو شرطین ضروری ہیں“ ایک صدقِ مقال اور دوسری اکل ِ حلال “یعنی سچ بولنا اور حلال کھانا۔ جہاں لالچ ہوگا وہاں تقویٰ نہیں ہوسکتا اور تقوے کے بغیر کسی کو قربِ خداوندی حاصل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ جس کو قرب حاصل ہوکسی کو دھوکا نہیں دے سکتا ؟ کیونکہ ہر وہ فعل جو کسی غیر کے لیے یا خواہش نفسانی کے لیے ہو وہ شرک ہے جسے ظلم بھی کہتے ہیں ۔اس لیئے کہ ظلم یہ ہے کسی کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کی جائے اس میں روڑے اٹکائے جائیں ۔جیسے کہ اللہ کا حق کہ اسے حاکم اعلیٰ، خبیر اور بصیر مانا جائے؟
جو اسے حاکم اعلیٰ مانے گا اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کی حکم عدولی کرے اور اس کے بجا ئے کسی غیر کا حکم مانے ؟ کیایہ ممکن ہے کہ کوئی خبیر بصیر بھی مانتا ہو اور پھر گناہوں میں اور شرک میں مبتلا ہو؟ یا کسی پہ جھوٹی تہمت لگائے اور پھر معافی مانگ لے،اور پھر اول پٹانگ بکے اور پھر معافی مانگ لے ۔ اور پھر دھڑلے سے کہے کہ میں نے اگر کسی کی بے عزتی کی تھی تو میں معافی بھی تو مانگتا ہوں؟ پھر بھی اسکے ماننے والے اسے پوجتے رہیں؟ کیونکہ ان کے ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہیں جیسے پارٹی ٹکٹ وغیرہ۔
انہیں دونوں آیتوں کی تفسیر میں تفسیر ابن ِ کثیر (رح) میں چلے جائیے تو آپ بے انتہا احادیثیں پائیں گے جن سب کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ شرک کو نا ہی پسند کرتا ہے اور نہ ہی معاف فرماتا ہے جبکہ بندہ صرف اپنی پوشیدہ خواہشات کے لیے یا کسی خوف کی وجہ سے اسکا مرتکب ہوتا ہے اور ہر دو صورت میں وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔ جس کے بارے میں ایک حدیث ہے کہ جب ایسے اعمال روز محشر اس کے روبرو پیش کیے جائیں گے تو وہ اٹھا کر پھینکدے گا۔ فرشتے پوچھیں گے اے باری تعالیٰ ہم نے یہ اسکے نیک اعمال سمجھ کر لکھے تھے ، ہمیں اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی مگر تونے رد فرما دیئے ؟ تو جواب عطا ہوگا کہ پلڑے میں رکھ کر دیکھ لو ان میں کوئی وزن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ خالص میرے لیے نہیں تھے۔میں اپنے ساتھ کسی کی شرکت قبول نہیں کرتا ہوں ،ایسے عمل کو اسی شریک کو دے دیتا ہوں؟ اس میں کچھ لینا میری غیرت کے خلاف ہے۔ اسی سلسلہ ایک حدیث قدسی بہت مشہور ہے جس میں روز محشر ایک عالم پیش کیا جائے گا وہ کہے گاکہ میں نے باری تعالیٰ یہ علم تیرے لیے حاصل کیا تھا؟ تو وہ فرما ئے گاتو جھوٹا ہے تونے میرے لیے علم نہیں حاصل کیا تھا بلکہ اس لیے کیا تھا کہ تو عالم کہلائے اور لوگ تیری عزت کریں یاتو مال کمائے ۔ چونکہ یہ خالص میرے لیے نہیں تھا تو وہ سب کچھ حاصل کر چکا جس کے لیے کیا تھا ۔میرے پاس تیرے لیے کچھ نہیں ہے؟ اسلام میں سب سے بڑا مقام شہید کا ہے؟ جس کے خون کے زمین پر پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ اس کو اپنے خاندان میں سے ایک روایت مطابق چالیس لوگوں کی شفاعت کا حق بھی مل جاتا ہے۔ جو فرشتہ اس کی حفاظت پر اب تک مقررتھا؟ وہ اسے جنت کی سیر کراتا ہے اور اس کو وہاں چھوڑ کر واپس آجاتا ہے جبکہ ہر جنتی طرح شہید بھی اپنے گھر سے واقف ہوتاہے اورا س میں داخل ہو جاتا ہے جہاں ستر حوریں اس کے انتظار میں ہوتی ہیں وغیرہ ، وغیرہ ۔ یہ ہی شہید جب خواہش نفسانی کو اس میں شامل کرلیتا ہے تو باری تعالیٰ اس کو یہ فرماکر دھتکار دیتا ہے میرے پاس تمہارے کچھ نہیں ہے ۔اس لیے کہ تم نے یہ عمل خالص میرے لیے نہیں کیا، بلکہ تمہاری خواہش یہ تھی کہ لوگ تمہیں بہادر کہیں ۔ وہ تم نے حاصل کرلی۔ اسی طرح مخیر حضرات پیش ہونگے ۔وہ جنکا مسجدوں سے اعلان ہو تا ہے کہ فلاں بھائی نے اتنے لاکھ چندہ دیا اللہ ان کو جزا ئے خیر دے اور مغفرت فرما ئے؟ جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہو گا تو وہ فرمائے گا کہ یہ تم نے خالص میرے نہیں دیا تھا بلکہ دل میں خواہش تھی کہ لوگ تمہیں مخیر کہیں ۔ یہ ہی حال حاجی صاحب کا بھی ہوگا جنہیں جواب ملے گا کہ تم نے حج میرے لیے نہیں کیا بلکہ حاجی کہلانے کے لیے کیا تھا وہ تم وہاں کہلا آئے؟ روزہ جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، اس پر یہ کہہ کر فرشتے بھی گواہی نہیں دے سکتے کہ ہم نے اسے روزے کی حالت میں دیکھا ؟ اس کا صرف اللہ ہی کو علم ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں ، پاؤں ، زبان کو برے کام، بری باتوں سے روکا یا سب کچھ کرتے ہوئے بھوکا پیاسا رہا یا سرے سے روزہ ہی نہیں رکھا صرف شکل روزے داروں جیسی بنائے پھرا؟ لہذا ایسا روزہ بھی اس کے منہ پر ماردیا جائے گا اور اس کا دن بھر بھوکا پیاسا رہنا اکارت جائے گا۔ کون بد بخت چاہے گا کہ مشقت میں بھی پڑے اور حاصل بھی کچھ نہ ہو؟ جبکہ تھوڑی سی احتیاط سے وہ ان مدارج تک پہونچ سکتا ہے جن کا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ نوازنے والا کوئی نہیں ہے جو اپنے دشمنوں کوبھی برداشت فرماتا ہے اور انہیں دنیا کی حد تک اپنے پر خلوص بندوں سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے۔

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.