اللہ سبحانہ تعا لیٰ اپنے بندوں کو کیسا دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ اور قوموں کی طرح مذہب کو سیاست سے علیٰحدہ کردیا جائے تا کہ سب کو کھل کھیلنے کا موقعہ ملے؟ اور دلیل کی طور پر دوسرے آسمانی مذاہب کو پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے جب ایسا کیاتو ان کی ترقی شروع ہوئی ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ان کی تباہی کی ابتدا مذہب کو زندگی سے خارج کرنے کی بنا پر ہوئی کیونکہ مذہب تو حضرت آدم (ع) سے دین کا لازمی حصہ چلا آرہا ہے کیونکہ وہ ہمارے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے اس کو اپنی عبادت کرانے کوئی ضرورت نہیں ہے بندہ جو کچھ کرتا ہے اپنے لیے کرتا ہے ۔ کہ وہ تو ہر خواہش سے پاک ہے۔اور سورہ ابراہیم میں اس نے تمام بنی نوع انسانی کو یہ بات بنی اسرائیل پر رکھ کر حضرت موسیٰ (ع) کی زبانی کہلوادی ہے کہ “اگر تم سب ملک کر کفر کرو تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچے گا بلکہ نقصان تمہارا ہی اپنا ہوگاکہ میں اس کی پاداش میں تمہیں سخت سزا دونگا ، البتہ شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دونگا “ اب یہ بندے کی اپنی مرضی پر منحصرہے کہ وہ زیادہ سے نعمتیں سمیٹنا چاہتا ہے یاخود کو سزا کے لیے تیار کرتا ہے۔اس کی تازہ مثال قصور کا واقعہ ہے ؟دیکھ لیجئے کہ ہم من حیثیت القوم ہر قسم کے گناہوں میں مبتلا ہیں، اسی لیے تو ہم ہر طرح کے آئے دن عذاب دیکھ رہے ہیں کہ پہلے ہمارے ہاں خشک سالی آتی ہے، جب اسے دور کرنے کی دعا مانگتے ہیں تو وہ سیلا ب اور بارش کی شکل میں تباہی بھیج دیتا ہے۔ اگر ہم قر آن میں جائیں تو آپ کو بہت سی مثالیں مل جا ئیں گی۔ کہ کس قوم نے کیا کیااور اس کو کیا سزا ملی؟ سب سے مشہور قصہ قوم عاد کا ہے جو عرب میں ضرب المثل ہے دیکھئے کہ وہ قوم بھی اللہ سے واقف تھی اس کو مانتی بھی تھی اور نا فرمانیوں میں بھی مبتلا تھی۔ ہماری طر ح اس نے بھی خشک سالی پر اپنا ایک وفد حرم شریف بھیجا جیسے کہ ہمارے بہت سے لوگ اور حکمراں معتکف ہونے اور چلا کھینچنے جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے ؟ جو ان کے ساتھ ہوا؟کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ مہر بان نہ تھا، پہلے تو وہ وہا ں کی ایک مضافاتی بستی میں ایک رئیس کے پاس ٹھہرگیا اور وہا ں شراب پیتا رہا اور گانا سنتا رہا جب میزبان تنگ آگئے ور انہوں نے انہیں ان کا مشن یاد دلایا تو وہ جاگااور دعا مانگی ؟ تو اللہ نے اسی کے ہاتھوں خود ہلاکت ان ہی سے چنوادی ، انہیں کئی بادل دکھا ئے کہ ان میں سے کونسا تم اپنی قوم کے لیے چاہتے ہو؟ انہوں نے اپنے خیال میں بہتریں بادل چنا جو انتہائی سیاہ ہو نے کی وجہ سے پانی سے بھرا ہوا نظر آرہا تھا۔ اسے انہوں نے پسند کیا اللہ تعالیٰ نے اسی کو ان کی بستی کی طرف بھیج دیا جس میں بجائے بارش کہ انگارے بھرے ہوئے تھے پھر یہ ہوا کہ قوم عاد اسے دیکھ کر خوش ہو گئی اور ناچتی ہو ئی باہرنکل آئی کہ اب بارش ہوگی، مگر برسے اس سے انگارے اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی ۔اس میں بڑا واضح سبق ہے کہ ا گر وہ راضی ہو تو وہ قدم پر رہنمائی کر تا ہے اور خودہی صحیح فیصلہ کر نے کی تو فیق عطا فرماتا ہے اگر ناراض ہو تو وہ مت ہی ماردیتا ہے اور بندے نادانی میں اپنے لیے وہ چن لیتے ہیں جو ان کے لیے باعث ہلاکت ہو ۔
اگر ہم اس سے ڈرتے رہیں با الکل اسی طرح جس طرح کہ ہم اپنے بزرگوں سے ڈرتے ہیں کہ ان کے علم میں ہماری کو ئی ایسی بات نہ آجائے جو انہیں دکھ پہونچے ؟ تو وہ جو ماں سے ستر گناہ زیادہ چاہنے والی ہستی ہے اور ان کی طرح بے بس اور محدود علم رکھنے والی نہیں ،بلکہ عالم غیب ،عزیز ، ہوتے ہوئے رحیم و دانا اور بینا بھی ہے؟ اس کا ان سے کہیں زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بندہ صرف اتنی ہی احتیاط برت لے، جتنی ان کے لیے برت تا ہے تو اس کے لیے یہاں بھی جنت ہے اور وہاں تو دائمی جنت ہے ہی ہے جہاں اس کو ہمیشہ رہنا ہے جہاں کوئی مشقت ہی نہیں حتی ٰ کہ عبادت بھی نہیں ہے ۔ لیکن ہم وہاں کا کوئی خیال نہیں کرتے جب(کہ اس کے مقابلہ میں یہاں کی زندگی جو ایک لمحہ جتنی بھی نہیں ہے ،اس پر پوراوقت بر باد کرکے یہاں سے خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں یا لوگوں کامال مار کر ورثا کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ۔ اور وہاں کی کوئی تیاری نہیں کرتے؟ ایسی صورت میں وہاں کیا ہو گا وہ بھی قرآن میں ہی لکھا ہوا؟
جب کہ ہم سب کہتے ہیں کہ ہمارا قر آن پر ایمان ہے، جو کہ اصل میں نہیں ہے ؟اگر ہو تا تو پھر ہم اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کر تے، جبکہ ہم ہر کام جس سے اس نے منع کیا تھا اس کے باوجود انجام دیتے ہیں تو خود ہی نتیجہ بھی لکھ لیجئے یا پھر مان لیجئے کہ ہمارا اس پر ایمان نہیں ہے؟ اگر ہو تا تو جس طرح کسی کثیرالمنزلہ عمارت سے کسی کے کہنے پر کوئی چھلا نگہ نہیں لگا سکتااسی طرح یہاں بھی رویہ ہو تا؟ جیسے ہم ایسا کہنے والے کو ٹکا سا جواب دیدیتے ہیں کہ تیرے مشورے پر عمل کر کے مجھے کیا مرنا ہے؟ یہاں ہم اس طرح اگر سوچتے ہو تے کہ کسی کہ کہنے پر کیوں چلیں سوائے ان (ص) کے اسوہ حسنہ پر چلنے کہ جن کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ تمہا رے لیے تمہا رے نبی (ص) کا اسوہ حسنہ کا فی ہے۔ جبکہ اسوہ حسنہ مجموعہ ہے ان کے عمل کا جس میں وہ تمام احکامات خداوندی شامل ہیں جو کہ اس کی طرف سے ان کے پاس کسی بھی صورت میں بھی پہونچے ؟ ، شاید قارئین میری اس بات پر الجھ جا ئیں ؟ کیونکہ زیادہ تر لو گ وحی کا صرف ایک ہی ذریعہ جانتے ہیں جو کہ قرآن ہے ؟ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے پاس اللہ سے احکامات پہونچنے کے دوسرے ذرائع بھی تھے جن کو وہ قر آن کی طرح کاتبان وحی کواملا نہیں کرایا کرتے تھے۔ ، جیسے کی حضرت جبرا ئیل (ع)  کے ذریعہ زبانی احکامات ۔ یا پھر کبھی اللہ تعالیٰ خواب میں کچھ دکھا دیتا تھا جیسے کہ وہ عمرہ اور حج، جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہو ئی اورجس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں فتح مبین فرمایا؟ اسی طرح نماز کا حکم تو معراج میں براہ راست ملا، لیکن اس کی عملی تربیت حضرت جبرئیل (ع) نے آکر دی ، حج کو دیکھئے کہ حکم قرآن میں ہے مگر اس کی تفصیل حج الودا میں ان (ص) پر نازل ہو ئی جو کہ مدینہ منورہ سے احرام باندھنے سے شروع ہو کر حرم شریف میں سعی کے خاتمے اور پھر رجم پر جاکر ختم ہوئی،جب ان (ص) کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن کی ایک آیت میں فرما تا ہے کہ “ یہ اپنی خواہش سے کوئی کام نہیں کر تے وہی کچھ کرتے ہیں یا فرماتے ہیں جو میری طرف سے ان کو وحی کیا جاتا ہے “ کہیں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہوجائے ان (ص) کے کئی افعال کو دوسری کئی آیات  میں اپنایا ہے  “ مثلا ً کنکریاں انہوں نے میں نے پھینکیں“
اب سوال یہ ہے جوکہ آج کا عنوان بھی ہے کہ وہ ہمیں کیسا دیکھنا چاہتاہے؟ اس کا جواب حضور (ص) کے ارشاد ِ عالیہ سے مل جاتا ہے کہ “ مسلمان وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے “ اس کے لیے اس نے ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا ہوا ہے جیسا کہ کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا جو اسلام میں ملتا ہے۔ حضور (ص) نے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا کہ “ میں مکرم الالخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں “ اور سب سے اچھا وہ جو اپنے اہلِ خاندان کےساتھ اچھا ہے اور مین اپنی بیوی کے ساتھ سب سے اچھا ہوں  “تو مختصر الفاظ میں مسلمان کو بھی اخلاق میں کامل ہو نا چاہیئے جب کہ کامل بننے کے لیے کا نسخہ یہ ہے کہ بندہ اسوہ حسنہ کو اپنا کر اس کا عملی مظہر بن جا ئے ؟ اس کے لیے اسے جو چیز سب سے پہلے اختیار کرنا پڑیگی وہ ہے۔ “ انکساری برا ئے اللہ “ یعنی اللہ کی خوشنودی کے لیے انکساری ؟ یہاں پہلا سبق ہمار ے لیے یہ ہے کہ حضور (ص) سلام میں ہمیشہ پہل فرمایا کرتے تھے وہ بھی کرے؟ یعنی ہماری طرح وہ (ص) اس کے منتظر نہیں رہتے تھے جیسا کہ ہم کرتے ہیں کہ کوئی ہمیں سلام کرے اور ہماری انا کی تسکین کا باعث بنے ؟ پھر مسکراہٹوں کے تبادلے ، دونوں طرف سے ہوں ؟ پھر بات خیر خیریت تک پہونچے کیونکہ اپنے بھائی کی طرف مسکرا کر دیکھنا بھی حضور (ص) نے صدقہ قرار دیا ہے؟ اگر کسی کے گھر آپ جارہے ہیں تو دروازے سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہوں، وہیں سے اس کو تین مرتبہ سلام کر یں، اگر جواب نہ ملے تو دروازہ پیٹنے نہ لگیں اور نہ صاحب خانہ بچہ سے کہلا ئیں کہ اابا گھر پر نہیں ہیں ۔ اس طرح بچے کو بچپن سے جھوٹ بولنے کی تربیت نہ دیں۔اب تو یہ مسئلہ باقی نہیں رہا پہلے بہت تھا۔ اب  آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے سے وقت مقرر کر کے جائیں۔ اور وقت کی پابندی کریں یہ نہیں کہ ابھی آرہا ہوں  اور میذبان وقت دیکر بچھتائے؟ اس سلسلہ میں حضور (ص) کا واقعہ بیان کر تا ہوں کے وہ جو سب سے زیادہ معزز ترین تھے۔ اس سلسلہ میں انکا (ص) رویہ کیا تھا۔ وہ ایک صحابی کے یہاں تشریف لے گئے تین آوازیں دی اندر سے جواب نہیں آیا، تو واپس چلدیئے وہ صحابی دوڑے ہوئے آئے اور معذرت کرنے لگے کہ میں چاہتا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ سے دعائیں لوں اس لیے میں خاموش رہا۔ چلیے غریب خانہ میں  تشریف لے چلیے ۔ حضور (ص) نے کوئی تعرض نہیں فرمایا اور انکو شرف ِ میزبانی بخشا؟ (باقی آئندہ)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.