کل جب ہماری کارگھر جانے کے لیے آخری موڑ مڑی تو اچٹی ہوئی نگاہ ایک چرچ کے باہر لگے ہو ئے بورڈ پر جس پر ہمیشہ اس کے روزمرہ کے پروگرام لگے ہوتے ہیں پڑی، بہت ہی جلی عبارت میں لکھا ہوا تھا، کہ “جن سوالات کے جوابات ہم دے سکتے ہیں وہ فلاں سرچ انجن نہیں دے سکتا “یہ پڑھ کر ہم ٹھٹک گئے؟ کیونکہ ہم نے یہ ہی بات اپنے علماءکو کئی سال سے طنزیہ طور پر کہتے ہوئی سنی جو ابھی تک ہماری یاد داشت میں محفوظ تھی۔ جو کہ بارہا کئی مذہبی چینلز میں علماءکی زبانی بھی سنی تھی ۔ پھر یہ ہی شکایت ہم نے ایک مزاحیہ پروگرام میں بنے ہو ئے سو سالہ بابا سے بھی سنی کہ پہلے لوگ تمام غیب کا حال جاننے کے لیئے ہمارے پاس آتے تھے ،بیویاں شوہروں کے بارے میں پوچھتی رہتی تھیں کہ بابا جی یہ تو بتائیے کہ میر اشوہر کسی اور کے چکر میں تو نہیں پڑ گیا کافی عرصہ سے اس کا خط نہیں آیا ہے ۔اور ہم اس کا جواب اثبات میں دیتے کہ وہ ایک تم سے بھی خوبصورت عورت کے چکر میں پڑگیا ہے اور اس کے توڑ کے نام پر کچھ مال بٹورلیتے تھے؟ اب دونوں کے پاس وائر لیس فون ہیں ہر ایک کی دن میں بار بار بات ہو جاتی ہے نہ بد گمانیاں جنم لیتی ہیں نہ ہمارا دھندا چلتا ہے۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اس میں سب سے زیادہ مسلم خواتین پھنسی ہوئی تھیں حالانکہ مسلمانوں کو چودہ سو سال پہلے ہی بڑی سختی سے بدگمانیوں اور فال نکلوانے سے منع کیا جاچکا ہے ۔ لیکن ہم اورکونسی ہدایت کب مانتے ہیں جو اسے مانیں گے؟ بابا جی نے اس سلسلہ میں مزید اضافہ کیا کہ اسی طرح خواتین پر آسیب آجایا کرتا تھا ہم اس کاتوڑ کرکے کچھ کمالیتے تھے مگر اب ان کے متعلقین انٹر نیٹ پر کسی سرچ انجن پرجاکر مریضہ کی کیفیت ڈالد دیتے ہیں اور وہاں سے انہیں جواب مل جاتا ہے کہ یہ صورت ِ حال فلاں مرض کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کبھی کبھی دوا بھی وہی بتادیتے ہیں اور لوگ ہمارے پاس آنے کے بجائے فارمیسیوں یا ڈاکٹروں کارخ کرتے ہیں ؟ سب سے پہلے انٹر نیٹ دشمنی بلا امتیاز خواہ قدامت پسند ہوں یامارڈرن والدین، ان میں بچوں کی وجہ سے پیدا ہوئی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ماڈرن والدین زیادہ شاکی ہیں بمقابلہ قدامت پسندوں کے، کیونکہ ان کے بچے انہیں یہ کہہ کر چپ کرادیتے ہیں کہ ہم تو اسکول کاکام کررہے ہیں ۔ مگر ماڈرن والدین کیونکہ خود بھی یہ ہی کام کرتے ہیں جو کہ بچے کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا وہ ان سے زیادہ پریشان ہیں۔ ان کی وجہ سے بہت سے سافٹ ویر فروخت کرنے والی کمپنیوں کی چاندی ہو رہی ہے کہ ہم تمام غلط چینل بلاک کر سکتے ہیں ،یہ کر سکتے ہیں وہ کرسکتے ہیں، جب کہ وہ کر کچھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ کیونکہ بچے جن سے شیطان بھی پناہ مامگتا ہے؟ اسکا توڑ اپنے ساتھیوں سے فوراً دریافت کر لیتے ہیں اور والدین منہ تکتے رہ جاتے ہیں؟ اب تو وہ اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں لڑکے اپنے لیئے بیوی اور لڑکیاں اپنے لیے شوہربھی اب اسی پر تلاش کر نے لگے ہیں، اس میں کبھی فراڈ بھی ہو جاتا ہے اور انکی زندگی تباہ ہوجاتی ہے، کبھی اتفاق سے اچھے رشتے بھی مل جاتے ہیں ان کی وجہ سے میرج بیرو والے سخت پریشان ہیں ۔ مختصر یہ کہ ساری دنیا اس بلا سے خائف ہے ؟ چپراسی سے لیکر افسر تک سب اپنے مستقبل کی طرف سے پریشان ہیں کہ سب کام جب کمپوٹر کریں گے تو انسان کیا کرے گا؟ جہاں کبھی لاکھوں افراد کام کر تے تھے اور دن بھر آپ اپنے مختلف کاموں کے لیے بھاگے بھاگے پھر تے تھے اب اس نئی ایجاد کے ہاتھوں سب کام گھر بیٹھے ہو جاتا ہے۔ اگر اس سمت میں ترقی کی رفتار یہ ہی رہی تو نوبت انشا اللہ جلد یہاں تک پہونچ جائیگی کہ چھ ارب آبادی رکھنے والیٰ دنیا کو چلانے کے لیے صرف چھ آدمی کافی ہونگے؟ پھر باقی کا کیا بنے گا؟
ہم اپنے علماءسے تو ایک سرچ انجن کی شکایت کافی عرصہ سے ٹی وی پر سنتے آرہے تھے؟ انہیں شکایت یہ تھی کہ لوگ مذہب سے متعلق ہر سوال اب بجائے مولانا سے پوچھنے کے مولانا۔۔۔ سرچ انجن سے پوچھ لیتے ہیں؟ اس سے ہماری مذہبی اجارہ داری تو باکل ختم ہوجا ئیے گی وہ مسلمان جو پہلے قرآن تک پہونچنے کے روا دار نہ تھے اور انہیں علم القرآن سے ہم نے اس لیے دور رکھا کہیں وہ اس سلسلہ میں خود کفیل نہ ہو جائیں اور ہماری افادیت کم ہو جائے؟ مگر انٹرنیٹ آجانے کہ بعد اب ہر سوال کا جواب مولانا کے بجائے سرچ دینے دینے لگے ہیں؟ مولانا۔۔۔ سرچ انجن سے آپ یہ مت سمجھ لیجئے گاکہ انہوں نے کوئی ذہین علماءکا بورڈ بنا دیا ہے یہ تو وہ کر ہی نہیں سکتے اس لیے کہ اتحاد بین المسلمین سے وہ سب الرجک ہیں حالانکہ یہ کام انہیں کو سب سے پہلے کرنا چاہیئے تھا تاکہ ایک مستندعالمی ادارہ عالم وجود آجاتا جس میں ہر مکتبہ فکر کے علماءہوتے اور وہ امت کی رہنمائی کرتے مگر انہوں نے ہمیشہ کی طرح اسے بدعت کہنا شروع کردیا، جس کی وہ ہمیشہ منبر سے مذمت کرکے صدیوں سے اس پر عمل کرنے والوں کو واصل جہنم کرتے رہے ہیں جب کہ وہ بدعت کی وضاحت نہیں کرتے ۔اوراسوقت تمام مسلمان حیرت زدہ رہ کر ان کی تقلید کرنے لگتے ہیں جبکہ وہی چیزجب رائج ہوجائے تو اسے بدعتِ حسنہ کہہ کر خود وہی سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ لاؤ ڈ اسپیکر جسے کہ وہ ایک مدت تک بدعت اور شیطان کی آواز کہتے رہے اب سب سے زیادہ وقت بے وقت وہ ان کے ہی استعمال میں رہتا ہے۔ جبکہ ان کی مخالف مختلف انٹر نٹ کمپنیوں نے دنیا کو بلاگ لکھنے کی مفت سہولت فراہم کردی ہے۔ لہذا ہربوالہوس نے علم پھیلانے کی ٹھان لی ہے ؟ ان میں علماءکم ہیں اور خود ساختہ زیادہ ہیں ۔لہذا وہ ایسی ایسی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ جو عموماً ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، اس پر بغیر تحقیق کے عمل کرنا خطرناک ہے ۔ اسلیے کہ ہمارے یہاں تو اختلافات جہاں نہیں ہونا چاہیئے تھے وہ تو ہیں ہی اس پر ظلم یہ کہ جو ویب پر اب علمی پیاس بجھانے کے لیےلوگ دیکھ رہے ہیں؟ ان کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ واقعی ان کے عقیدے کے مطابق ہیں یا نہیں ہیں؟ دوسری طرف مذہب بہت ہی اہم شعبہ ہے، ویب پر بہت سے ظریف بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ضرورت مند صرف تفریح کا ایک ذریعہ ہیں اور اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے کسی کو نقصان پہونچ سکتا ہے، کیونکہ جب انسان اللہ سے نہیں ڈرتا تو پھر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا؟ اپنی بات سمجھانے کے لیئے میں آپ کو ایک مثال دیدوں تاکہ میری بات آپ کی سمجھ میں آسکے؟ ایک بچے نے کسی سرچ انجن میں سوال ڈالا کہ میرا کی (key )بورڈ گندہ ہوگیا ہے اسکی صفائی کیسے کروں ؟تو اسے جواب ملا کہ اسے واشنگ مشین میں ڈالدیں اور پھر ڈرائیر میں سکھا لیں۔ اس کے بعد کیاہوا وہ خود جان لیجئے؟
بس اسی پر ہی اور مسائل کو قیاس کرلیجئے ۔ یہ کیوں ہوا اسلیے کے ہم سب مال کمانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ بقول ایسا کرنے والوں کے ہم یہ سب کچھ اپنی اولاد کے لیے کر رہیں ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اولاد کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔انہیں پتہ جب چلتا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے ؟ کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی اصل وجہ نسلوں میں تضاد ِفکر کی خلیج کا بڑھنا ہے ؟ اسلام نے ہر چیز کھول کر قرآن اور احادیث میں بیان کردی ہے ؟ مگر نہ ہم ان کو خود کچھ بتانا چاہتے ہیں ، اورنہ ہی اسکے روادار ہیں کہ اسکولوں میں اساتذہ بطور مضموں انہیں پڑھائیں جس کا ثبوت آئے دن چلنی والی ان کے خلاف تحاریک ہیں ۔
تو پھر نئی نسل گمراہی سے کیسے بچ سکتی ہے؟ آجکل حوالہ دینے والے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور اسی کا حوالہ دینے لگے ہیں اس پرجو کہ انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ویب بنائی ہوئی ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کا حل کیا ہے َ؟ جواب یہ ہے کہ پہلے تو ہوس زر کم کریں اور کچھ وقت ان بچوں کے لیے نکالیں جن کی ناتجربے کاری کی بنا پر گمراہ ہونے خطرہ ہے انہیں دوستانہ ماحول دیں تاکہ وہ آپ سے خوف کھانے کے بجائے اپنے مسائل آپ کے گوش گزار کرسکیں اور آپکی رائے لے سکیں ، ورنہ وہ پیر پریشر کا شکار ہو جائیں گے یا ان کی رائے پر چلنے لگیں جن کے مقاصد مذموم ہیں۔ جب ان سے مسئلہ کے بارے میں پوچھئے کہ یہ آپ نے کہاں سے لیا ہے ؟تو وہ بطور حوالہ کسی ویب کا نام بتا دیتے ہیں اور بچے کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہاں یہ جواب تفریحاً دیاگیا ہے یا دینے والے نے اپنے عقیدے کے مطابق دیا ہے۔ جبکہ گراہک بڑھانا کسی ایک کمپنی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر ایک کمپنی کا مسئلہ ہے ۔ ایک ویب کپنی جو کہ لوگوں کو اپنے کوائف (بائیو ڈیٹا) کے لیے مفت جگہ فراہم کرتی ہے ۔اس کے یہاں ہرایک کواجازت ہے کہ وہ جو چاہے اپنی معلومات کے مطابق اسکی تصحیح کردے اور دوسرا اس کی تصیح کی تصحیح کردے اور یہ لامنتاہی سلسلہ کسی مقام پر جاکر بند نہیں ہوتا؟ اگر کوئی وہاں جاکرکسی کی سیرت پڑھے گا تو گمراہ ہونے کا خدشہ ہے؟ دوسری بات جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے کاروبار پٹتے جارہے ہیں آئے دن بند ہو رہے ہیں ؟ بڑے بڑھتے جارہے ہیں ؟ کیونکہ وہ ہر چیز ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں لہذا انہیں ہر چیز سستی ملتی ہے چھٹ بھیے انکا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے وہ کاروبار کے میدان میں جی ہی نہیں سکتے ؟ یہ بات سرمایہ پرست دنیا کے سوچنے کی ہے کہ جب آپ چھوٹے کارو بار بھی تباہ کر رہے ہیں اور اپنا نفع بڑھانے کے لیے انسانو ں کو روز گار فراہم کرنے کے بجائے گھر بھیج رہے ہیں تو قوت خرید کس طرح باقی رہ سکے گی اور مال آپ سے کون خریدے گا؟ ان سوالات کا جواب پوری دنیا کی سوچ کے لیے چھوڑتا ہوں ؟ کہ کہیں ہم اپنے ہی ہاتھوں خود کشی تو نہیں کر رہے ہیں ۔اس کا نتیجہ کتنا بھیانک ہو گا اور آگے چل کر کیا ہوگا وہ اللہ ہی جانتا ہے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے