ہم نے گزشتہ ہفتہ اپنے کالم میں اسی سو شیل میڈیا کی بات کی تھی کہ وہاں جس کی جو مرضی چاہے وہ لکھدیتا ہے اور لوگ اپنی معصومیت کی وجہ سے اسے سچ مان لیتے ہیں ۔اس کی دو وجوہات ہیں پہلی تو یہ ہے کہ نئی نسل نہ اپنے دین سے واقف ہے اور نہ ہی تاریخ سے ۔ کیونکہ اب وہ زیادہ تر انگریزی اسکولوں میں پڑھتی ہے دین اور تاریخ کا بہت بڑا ذخیرہ جو اردو رسم خط میں موجود ہے، وہ اس کی پہونچ سے دن بہ دن باہر ہوتا چلاجارہا ہے۔ وجہ اردو میں اس کی شد بد واجبی سی ہے جس میں وہ صرف روز مرہ کے کام بمشکل چلاسکتی ہے نہ کہ وہ قدیم اردو سے جو عربی اور فارسی کا آمیزہ ہے، کچھ سمجھ کر کوئی معنی نکال سکے ۔ جبکہ اس میں بھی تاریخ وہ ہے جوکہ پاکستان میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ جبکہ تاریخ میں ہمیشہ سے ہیر پھیر ہوتی رہی ہے اور بہت سے بونوں نے اپنے اپنے دورمیں اپنا قد بڑھانے کے لیے پیتل کو سونا اور سونے کو پیتل لکھوایا ہوا ہے اور لکھنے والوں نے لکھا اور بدلے میں اشرفیاں ، جاگیریں وغیرہ بھی حاصل کیں ۔ پھر بھی کچھ ایسے باضمیر لوگ ہر دور میں موجود رہے کہ جنہوں نے سچ لکھا، جیل گئے،کوڑے کھائے زہر پیا، مگر اپنی روش نہیں بدلی ان کے نام آج تک تاریخ میں زندہ ہیں؟ جبکہ جنہوں نے اشرفیاں لیکر تاریخ لکھی ان کے نام کہیں ڈھوندے نہیں ملتے حتیٰ کہ ان کی اولا دبھی ان کا نام اپنے ساتھ لیتے ہوئے شرماتی ہے؟ اگر میں اس سلسلہ میں، میں بات کرنے جاؤں تو بات بہت دور تک پہونچ جا ئے گی۔
لہذا میں سوشیل میڈیا میں اسی تازہ بحث کی نشاندہی سے بات شروع کرتا ہوں جس کے نتیجہ میں ریڈیو لاہور سے پاکستان کے قیام کا اعلان کرنے والے ہیرو جناب مصطفی علی ھمدانی مرحوم(رح)آجکل نشانہ بنے ہوئے ہیں اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کے صاحبزادے جناب صفدر ھمدانی جوکہ اتحاد بین المسلمین کے اس دور میں سب سے بڑے محرک اور انسان ہیں ۔ شاید وہ کسی صاحب کو اچھے نہیں لگے ، تو سوشیل میڈیا پر ان کا بدلا ان کے والد سے لینا چاہااور جنگ آزادی کا طے شدہ باب جوکہ بمشکل67 سال میں طے ہوا تھا پھر سے کھول دیا؟ وجوہات مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ اور تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش کیوں کی جبکہ خود انہیں جھٹلانے کے لیے وہ تختی ہی کافی تھی جو انہیں کے محکمہ کے مرکزی دفتر میں بطور اعتراف لگی ہوئی ۔ وہ وہاں بھی گزشتہ سال 13اگست 2014ءکو لگائی گئی ہے ۔ وہ صرف اسے پڑھ لیتے تو وہ یہ رویہ نہ اختیار کرتے؟ میں ان میں سے ہوں جنہوں نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا ہے ٹوٹتے ہوئے اور تاریخ میں پہلی دفعہ اکثریت کو اقلیت سے ہاتھ چھڑاکر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کاایک ایک لفظ اور ایک، ایک واقعہ زبانی یاد ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان حادثاتی طور پر بنا جس کا ثبوت وہ افرا تفری اور اس کے نتیجہ میں وہ عظیم قتل عام ہے جس میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے؟ چونکہ اس وقت پاکستان کے حصہ میں آنےوالے ریڈیو اسٹیشنوں میں لاہور وہ واحد ریڈیو اسٹیش تھا جوکہ پورے ہندوستان میں سنا جاتا تھا؟ اور اس کے نیوز کاسٹر جناب علی ھمدانی مرحوم (رح) تھے؟ انہیں کی زبانی اعلانِ آزادی 14 ١گست 1947ءکو پورے ہندوستان میں سنا گیا؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لاہور اسٹیشن کی پالیسی مسلمان اکثریتی علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے کسی حد تک تحریک پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی ۔ اسکی وجہ بھی و ہی تھی کہ وہاں پر چند مسلمان اس سے وابستہ تھے۔ یہ تو رہی اس کی بات اور ثبوت، کہ ریڈیو لاہور ہی سے کیوں یہ براڈ کاسٹ ہوا کسی اور ریڈیو اسٹیشن سے کیوں نہیں ہوا؟ اگر دوسرے کہیں تھے بھی تو یا تو پاکستان میں نہیں تھے اور تھے تو بہت ہی کم پاور کے ہونے کی وجہ سے ان کی فریکوینسی محدود تھی وہ پورے ہندوستان میں نہیں سنے جاسکتے تھے۔ اس لیے تمام اہم اعلانات کے لیے پاکستان بننے کے بعد بھی ریڈیو لاہور ہی مدت تک استعمال ہوتا رہا؟ اور یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان کو پاکستان کا نام بھی سب سے پہلے ۔ اسی ریڈیو اسٹیشن نے دیا کیونکہ یہ نام سب سے پہلے ہندو میڈیا نے طنزیہ طور پر دیا تھا۔جس کوعطا کرنے والے لالہ لاجپت رائے تھے جو کہ کانگریس میں رائٹ ونگ کے لیڈر تھے اور بعد میں ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے پولس کے لاٹھی چارج سے ہلاک ہوئے۔
ہوایہ کہ پاکستان بڑی عجلت میں بنا کہ کوئی چیز بھی پہلے سے تیا ر نہ تھی ، اسے سرکاری طور پرنام بھی 1946 ءکی قرارداد سے ملا جوکہ دہلی کے جلاس میں منتخب مسلم نمائندوں نے منظور کی جس کے محرک وزیر اعظم بنگال جناب حسین شہید سہروردی مرحوم (رح) تھے جن کا نام اب تاریخ ِ پاکستان سے ان کے بعد حکمراں بننے والوں نے نکالدیا ہے۔ جبکہ قرارداد پاکستان وہ قرار داد کہلاتی ہے جوکہ 1940ءمیں ایک بنگالی راہنمامولوی فضل الحق مرحوم (رح) نے مسلم لیگ کے لاہور میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں پیش کرکے پاس کرائی تھی جبکہ تائید کنندہ دونوں میں یوپی کے مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزماں مرحوم (رح) ہی تھے۔ کہیں “ چودھری “ لگا دیکھ کر ان کو بھی کوئی آئندہ چل کر متنازع نہ بنا لے ، اس لیے میں وضاحت کرتا چلو ں کہ وہ چودھری اس لیے کہلاتے تھے کہ اس خاندان سے تعلق تھاجوکہ انگریزوں نے کچھ جاگیریں ہندؤں سے ضبط کی تھیں ان میں سے ایک کے راجہ کا ٹائیٹل چودھری تھا وہ ان کے خاندان کوملی اور وہ اسی وجہ سے چودھری کہلائے ابھی تک لکھنئو میں وہ خاندان آباد ہے اور چودھری کہلاتا ہے؟ ان میں کچھ پاکستان میں بھی بشمول چودھری خلیق الزماں مرحوم (رح) بڑے عہدوں پر فائز رہے ۔ یہ اسی طرح ہے جیسے پنڈت نہرو کی رد میں میں رپورٹ لکھنے والے راجہ مہدی علی خان آف پیر پور (مرحوم ) اور مسلم لیگ کے مرکزی راہنما راجہ صاحب آف محمود آباد۔
یہ عجلت کا ہی کرشمہ تھا کہ بہت سے معاملات آج تک متنازع ہیں، مثلا ً ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ قائد اعظم (رح) کس قسم کا نظام چاہتے تھے، وہ جوکہ انہوں نے مولانا شبیراحمد (رح) عثمانی سے ان کی اس تجویز کے جواب میں فرمایا تھا کہ “مولانا! ہمارا دستور تو قرآن ہے ہمیں کانگریس کی طرح دستور ساز کمیٹی بنا نے کی کیا ضرورت ہے “یا سن 1945 کا وہ بیان جو کانگریس اور مسلم لیگ کے اس معاہدے کے بعد دہلی ریڈیو سے نشر فرمایا تھا اور “ کیبنیٹ مشن “ کی مصالحتی کوششوں سے ممکن ہوا تھا اور اس میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “ میں قوم کو جو زیادہ سے زیادہ لیکر دے سکتا تھا وہ لے کر دیدیا “ (اس میں چند مراعات کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں رہنا تھا جوکہ نہرو نے کانگریس کا صدر بنتے ہی رد کردیا) یا وہ جو انہوں نے پاکستان بننے کے بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح پر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا۔
یہ ہی نہیں وہ خاتون بھی بہت دنوں تک متنازع رہیں جنہوں نے یوم ِ احتجاج پرپنجاب اسمبلی پر مسلم لیگ کا پرچم لہرایا تھا، اس پر بھی اختلاف ہے کہ پاکستان کا پہلاترانا وہ تھا جو کہ ایک ہندو شاعرکا لکھا ہوا تھااور 1955ءتک قومی ترانے کی جگہ چلتا رہا؟جناب حفیظ جالندھری مرحوم (رح) کا1956 ءمیں ترانا آنے سے پہلے تک وہ کس حیثیت سے استعمال ہوتا رہا۔ اس پر بھی اختلاف تھا کہ پاکستان کا پرچم کس درزی نے تیار کیا؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد جو حکمراں بنے انہیں تجربہِ حکمرانی نہیں تھااور یکایک ان پر حکمرانی جب آپڑی اور بے انتہا مسائل سامنے آئے تو وہ پریشان ہو گئے کہ کسے ترجیح دیں اور کسی ترجیح نہ دیں ۔ پھر اپنا قد بھی بلند رکھنا تھا۔اس لیے وہ تاریخ کے ساتھ انصاف نہ کر سکے ؟
دنیا کا قاعدہ ہے کہ پہلے سیاسی پارٹی منشور بنا تی ہے۔ پھر دستور اور عکسی کابینہ ۔ مگر مسلم لیگ نے منشور تو بنایا، مگر نہ تو بننے والے ملک کا حدود اربعہ اور نہ ہی اس کا نام دیا؟ جب ملک بننے کا اعلان ہو گیا تو سرکاری طور پر 1946ءمیں دہلی کے اجلاس میں نام رکھا گیا۔ دستور ساز اسمبلی بھی بعد کو بنانا پڑی جس کے پہلے صدر قائد اعظم (رح)بنے۔
حتی کہ اس مضمون کو جو میں نے عنوان دیاہے یہ مصرع اس قطعہ کا مصرع ثانی ہے جو ایک عرصہ تک متنازع رہاکہ؛
ً جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے ،
اس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے ،
کیونکہ کسی نے یہ تنازع کھڑا کردیا تھا کہ سردار نشتر مرحوم (رح) کا ہے وہ انتقال کرچکے تھے اوراس سلسلہ میں کچھ کہنے کے لیے ہمارے درمیان موجود نہیں تھے لہذا اس کے خالق محسن بھوپالی کو ( جو اس وقت حیات تھے اب مرحوم ہوچکے ہیں) یہ ثابت کرنے میں ایک عرصہ لگ گیا کہ یہ ان ہی کا ہے ۔ تب کہیں جاکر قبضہ گروپ اس سے دستبردار ہوا؟ اس قبضہ گروپ کی تاریخ بھی طویل ہے جانے دیجئے۔ جو ہوا سو ہوا ؟ سوال یہ ہے کہ اب اس کا حل کیا ہے، کیونکہ ہمارا یہ قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم اوروں کا لکھا اور کیا کارنامہ اپنے نام لکھتے آئے ہیں ۔ لہذا یہ ہماری عادت ِ ثانیہ بن گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کون ہمیں کیا بنا نا چاہتا تھا، اگر واقعی اللہ سبحانہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں تو یہ سوچیں کہ ہمارا رب ہمیں کیسا دیکھنا چاہتا ہے؟ اور اس کی پسند کے مطابق خود کو ڈھال لیں تو تمام دلدر دور ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ سب جھگڑے پیدا ہوتے ہیں ، جھوٹ سے ،حسد سے دشمنی سے ، اس کے نتیجہ میں غیبت سے؟ اگر صرف جھوٹ ہی چھوڑ دیں ،تو بولتے ہوئے ، یاقلم اٹھاتے ہوئے ہر ایک اللہ سے ڈرے گا۔ پھر دشمنیاں دم توڑدیں گی اور مہاجر اور انصار میں وہی اخوت پیدا ہو جا ئیگی جو اس امت کے لیے ناقابلِ مثال مدنی تحفہ تھا؟ جس کی تعریف خود خالق نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ “ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں کفا ر کے لیے سخت اور آپس میں رحم دل ہیں (اے دیکھنےوالے) تو ان کو دیکھتا ہےکہ(اللہ کے آگے)سربسجود ہیں اوراللہ کا فضل اور اسکی خوشنودی طلب کر رہے ہیں(کثرت) سجود کےاثر سے انکی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہ ہی اوصاف تورات میں(مرقوم ) ہیں اور یہ ہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔(48-29 )جز
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے