پہلے سنا کرتے تھے کہ عوام کا حافظہ نہیں ہوتا، مگر اب معلوم ہوا کہ لیڈروں کا بھی حافظہ نہیں ہوتا ہے اسی لیے تو وہ بیچارے وعدے کر کے بھول جاتے ہیں؟اس کے لیے فارسی کا مقولہ ہے جو کہ یقین کریں کہ ہمارا نہیں ہے “ بسیار گو را حافظہ نہ باشد “ جس کے ہمارے علم کے مطابق معنی یہ ہونگے کہ زیادہ باتیں کر نے والے کا حافظہ نہیں ہوتا مگر آجکل وہ جھوٹوں کے لیے استعمال کیوں یہ ہمیں معلوم نہیں؟ چونکہ اب ہماری شد بد فارسی میں تھوڑی سی ہے جو قادر نامہ اور آمدن نامہ پڑھ کرآج سے تقریباً کچھ کم اسی سال پہلے حاصل کی تھی وہ بھی اب استعمال نہ ہونے کی وجہ سے زنگ کھائی گئی ہے اور ڈر ہے کہ یہ ہی حال ہماری نئی نسل کا اردو کے سلسلہ میں ہوگا؟ جو اسے نہیں پڑھ رہے ہیں وہ تو خیر ٹھیک ہیں کہ انہوں نے دور اندیشی اختیار کی اوراس پر سرے سے وقت برباد ہی نہیں کیا؟ مگر جنہوں نے پڑھی ہے وہ بعد میں ہماری طرح پچھتائیں گے کہ ہم نے پڑھی کیوں تھی ؟ جیسے اب ہم پچھتا رہے ہیں۔ زندگی میں ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پچھتانا ضرور پڑتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہاں! یہ اور بات ہے کوئی اپنے کیے پر جلد یا با دیر پچھتا ئے اور پشیمان ہو تو پھر وہ توبہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔اور چونکہ اس نے عفواور درگزر اپنے اوپر لازم کرلیا ہے لہذا وہ اپنی کریمی سے معاف فرمادیتا ہے۔
چند دن پہلے ہم نے سابق صدر پاکستان کا بیان پڑھا کہ نواز شریف صاحب نے میثاق جمہوریت کو دفن کردیا ہے؟ تو نہ جانے کیوں ہمیں انہیں کے کہے ہوئے وہ ارشادات عالیہ یاد آگئے جوکہ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے فرما ئے تھے۔ کہ “ عہد “ قر آن اور حدیث نہیں ہو تا جو اس کی پابندی کی جائے؟ اس میثاق پراتنا بڑا ہتھوڑا پڑنے کے بعد بھی کیا کیاکچھ باقی رہ گیا تھا؟ جو سابق صدر صاحب،موجودہ وزیر اعظم کو اب یاد دلا رہے ہیں؟ مگر وزیر اعظم کی حرم شریف میں آمد رفت شاید ان کو ویسا ہی تابڑ توڑ جواب دینے سے مانع رہی، ورنہ اس کا جواب یہ ہی ہونا چاہیئے جو انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں دیا تھا ۔مگر مشکل یہ ہے کہ ویسا جواب کوئی مسلمان دے ہی نہیں سکتا شاید اسی لیے اس کا جواب انہوں نے نہیں دیا، البتہ ان کے اس الزام کے جواب میں کہ انہوں نے 1999 ءسے کوئی سبق نہیں سیکھا ؟ یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں بہت کچھ سیکھ چکا ہوں ؟ یہ جو کچھ بھی ہو رہا اس کا الزام مجھے مت دو اس لیے کہ عوام نے مجھے بہت بڑی اکثریت دیکر یہاں بھیجا ہے۔ ان کا احترام کر نا مجھے آگیاہے؟ میں مجبور ہو ں کے عوام جو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں جینے دو ؟ جو راستے دہشت گردی کی طرف جاتے ہوں انہیں مسمار کردو ؟ ان کی ہاں میں ہاں ملاؤن۔ جو پہلے کبھی حکمرانوں نے ہی کسی کی خوشنودی کے لیے قائم کیے تھے۔ کیونکہ انہیں کی گود میں بد عنوانی پیدا ہوکر پروان چڑھ رہی تھے جو کبھی کبھی کچھ حکومتوں کی بیساکھی بھی بن جا تے تھے اس لیے اکثر سیاسی جماعتیں اپنا ہاتھ ان پر رکھتی تھیں کہ وہ ا س میدان میں بھی خود کفیل رہیں ؟ چونکہ اب عوام کے ساتھ فوج بھی مل گئی ہے؟ لہذ ان کے اس مطالبے کو نہ چاہتے ہوئے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟ لہذا مجھے اب پریشاں نہ کرو؟ اور اس میثاق جمہوریت کو اپنے ہی فتوے کے تحت بھول جاؤ ؟ جس میثاق پر لیبل تو جمہور کا لگا ہوا تھا مگر کام وہ اشرافیہ کے آتا تھا۔
جبکہ سابق صدر کی پریشانی یہ ہے کہ بقول ِ شاعر ع: باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ کہ جو شریک کار تھے وہی ان کے خلاف معلومات فراہم کر رہے ہیں ؟ رینجر کے پاس نہ جانے وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ جس کو بھی کورٹ ان کی تحویل میں دےدے وہ فر فر بولنے لگتا ہے؟ جب کہ اسے وہ کوئی تکلیف بھی نہیں دیتے ،جو اس سے ثابت ہے کہ آج ایک انتہائی قدیم روزنامہ میں وہ مینو شائع ہوا ہے جو ان کے ایک ایسے دوست کو کھانا اور ناشتہ دیا گیا جو آجکل رینجرز کی تحویل میں ہے؟ اس سے وہاں کے بے روز گار رمضانی نہ سمجھ لیں کہ چلو یہ ہی ہمیں بھی ملے گا جو انہیں مل رہا ہم بھی وہیں چلیں؟ ورنہ ان کے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ ہم یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کہیں اخبار میں یہاں کا نہ پڑھ لیاہو،کیونکہ امریکہ میں تو یہ بات عام ہے کہ جو بیچارے غریب ہیں اور گھر بار نہیں رکھتے تو وہ سردیوں میں ایک آدھ واردات کرکے اور اقبال ِ جرم کرکے جیل چلے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کھانا مرضی کا ملتا ہے جو ڈاکٹر لکھ دے اور رہائش بھی اعلیٰ جو مفت ملتی ہے؟ لیکن پاکستان میں وہ بات نہیں ہے۔ وہاں کر کری روٹی اور بالٹی میں مسورکی دال کھانے میں استراحت کے لیے اللہ تعالیٰ سبحانہ تعالی ٰ کاعطا کردہ فرش ِ گِل ،جوئیں بھرا کمبل اوڑھنے کے لیے، جس میں دسیوں روشن دان کھلے ہوتے ہیں ملتے ہیں؟ جبکہ سامنے جالی لگی ہوتی ہے کہ قیدی دم گھٹنے سے مر نہ جائے؟ البتہ پیسے اگر آپکی جیب میں ہیں تو آپ ہر چیز جو چاہیں توگھر سے یا بازار سے منگوا کر کھا سکتے ہیں اور کبھی دل چاہے تو باہر بھی جا سکتے ہیں۔ بلکہ اپنی سالگرہ بھی باقاعدہ کیک کاٹ کر جیل میں یا گھر پر منا سکتے ہیں ۔اب پوچھیں گے کہ آپ کو یہ راز کیسے معلوم ہوئے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم وہاں بھی ایک جیل کمیٹی کے ممبر تھے اور یہاں بھی کریکشن سینٹرز (جیل خانہ جات ) کی مشاورتی کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں۔ لہذا وہاں بھی اپنی اس حیثیت میں جیل میں آتے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ غیر سر کاری سے حیثیت میں تجربہ کار ہونے کی بنا پر وہاں جاتے ہوئے ہمیں بہت ڈرلگتا تھا۔ اسی بات پرہمارے ایک دوست کے صاحبزادے جو کہ کبھی ہمارے سیا سی شاگرد بھی ہوا کرتے تھے پھر وزیر بھی بنے، مگر بعد میں ہم سے ناراض ہو گئے کہ ہم ان سے ملنے جب احتجاج کرتے ہوئے جیل تشریف لے گئےتو ہم وہاں مل نے کیوں نہیں آئے جبکہ وہ اس سے پہلا ہمارا چچا جتنا احترام کرتے تھے؟ ان میں سےکچھ تو ہمارے ذاتی علم میں تھیںہی؟ باقی جو ان میں ترقی ہوئی وہ ہم نے پچھلے دنوں ایک پھانسی کے ملزم کے بیانات سے اخذ کی ہیں جوکہ اس نے پھانسی پانے سے پہلے دیئے تھے۔
اس کے علاوہ بھی آجکل عجیب باتیں پڑھ نے میں آرہی ہیں۔ ایک صاحب جو کہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتے ان کی پارٹی کے ایک لیڈر جو بمشکل اس حملے سے جانبر ہوسکے ،جس میں آدھ درجن سے زیادہ گولیاں لگی تھیں اور ان میں سے ایک ابھی تک پھیپڑے کے اندر پیوست ہے ، اب بفضلہ تعالیٰ صحت مند بھی ہوگئے ہیں، اورڈاکٹروں کے بورڈ نے کہہ بھی دیا ہے کہ آپ گھر تشریف لے جا سکتے ہیں ،مگر وہ جانے کو تیار نہیں ہیں؟ کہ گھر ان کے خیال میں اتنا محفوظ نہیں ہے اور نہ اتنی سکیوریٹی وہاں ملے گی جتنی اسپتال میں میسر ہے؟ یعنی گھر سے اسپتال میں عافیت زیادہ ہے۔ دیکھئے پھر وہی بات آگئی جو ہم نے جیل کے سلسلہ میں مشورہ دیا تھا کہ آپ یہ سمجھ کر مت اسپتال جانے کی غلطی کر بیٹھئے گا کہ سوچیں کہ آپ کے لیے بھی بوڑد بنے گا اور آپ کوبھی گھر سے زیادہ وہاں آرام ملے گا ؟ گوکہ ملک اسلامی جمہوریہ تو ہے لیکن وی آئی پیز کلچر ہونے کی وجہ سے جو مراعات وی آئی پیز کو حاصل ہیں وہ رمضانیوں کو نہیں ہیں۔ اس لیے آپ اسلامی مساوات کا خواب نہ دیکھیں تو بہتر ہے ورنہ خواب بکھر جائیں گے؟ جبکہ غیر اسلامی ملکوں میں سب کو ایک جیسی سہولتیں حاصل ہیں؟ اس سلسلہ میں آنے والی آخری خبر یہ گرم تھی کہ وزیر اعظم نے جب فون پر ان کی خیریت دریافت فرمائی تھی تو ان کے کان میں کچھ کہہ دیا تھا ۔ وہ اس سلسلہ میں کسی پیش رفت کے منتظر ہیں؟ ان کے اوپر حملہ کے سلسلہ میں چہ میگوئیاں تو بہت ہورہی ہیں ۔ اب پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ؟
ہم نے اخباروں میں ایک خبر اور دیکھی جس میں شاید آپ کو دلچسپی ہوکہ “پاکستان میں گدھوں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے؟ بھائی وہاں گدھوں کی قیمت کب نہیں تھی ، البتہ خبر یہ ہونا چاہیئے تھی کہ گھوڑوں کی قیمت مزید گھٹ گئی ہے۔ کیونکہ ان کا استعمال روز بروز گھٹتا جارہا گھوڑاور خاص طور عربی النسل گھوڑا جس پر سواری رؤسا کی شان تھی ۔ا ب ان کا استعمال ختم ہو گیا ہے، نہ وہ بگھیاں ہیں جن میں چار گھوڑے جتا کرتے تھےنہ تانگے ہیں ۔ اور نہ ہی گدھوں جیسی ان کی کھال خوبصورت ہے کہ کھالیں اور ہڈیاں بیروں ، ملک جاکر زیادہ قیمت پر فروخت ہو سکیں اور پھر وہاں حسیناؤں کے میک اپ میں کام آئیں؟ ۔کچھ تھوڑی بہت کھپت ریس کے گھوڑوں کی رہ گئی وہ بھی جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کو گولی ماردی جاتی ہے؟ لہذا ہمیں امید ہے کہ اپنے بزرگوں کے یاد کو زندہ رکھنے کے لیےایسا کچھ کریں گے جیسا کہ ہم اپنے قومی پرندے تلور کو بچانے کے لیے کر رہے ہیںِ۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے